لیاری کندن بن گیا ہے
ایک وقت ایسا آئے گا کہ لیاری کے بے روزگار نوجوانوں کو سیاسی لارا رمپہ دینے والے منہ چھپائے پھرتے ہونگے۔
سات سال پہلے کی بات ہے لیکن لگتا ہے کل کی بات ہو، آج بھی گولیوں کی تڑتڑآوازیں اور راکٹ لانچرز اور دستی بموں کے زور دار دھماکے اور بکتر بند گاڑیوں سے نکلتی خوف ناک دھماکوں کی آوازیں آج بھی لیاری کے باسیوں کومانوس سی لگتی ہیں، آج بھی ان کے لبوں پر ان دل خراش واقعات کے قصے ہیں جب سیاسی ترانہ( دلاں تیر بجا ایں دشمناں تئی) پر رقصاں اہل لیاری پر موت کے سائے منڈلانے لگے جو حقیقت کا روپ دھار گیا ۔
27اپریل 2012ء کی صبح صادق سے شروع ہونے والا لیاری آپریشن مسلسل 7دن تک چلتا رہا اور 4مئی کی شام کو جاکے رکا ۔ اس دوران اہل لیاری پر کیا کچھ گزری یہ سب کچھ تاریخ کا حصہ بن چکی ہے لیکن یادیں اب بھی تازہ ہیں ۔ جمہوری حکومت میں ان معصوم بچوں پر بکتر بند ٹینک چڑھا دیا جاتا ہے جو اپنے علاقے لیاری پر آپریشن کے خلاف پر امن ریلی میں اپنے والدین کے شانہ بشانہ ہوتے ہیں ۔
لیاری میں پوری ڈھٹائی کے ساتھ آٹھ دنوں تک 17لاکھ کی آبادی کو ان کے گھروں میں محصور کرکے دیواریں پھاڑتی ہوئی گولیوں سے بھون دیتے اور پھر لاش اٹھانے کی اجازت بھی نہیں تھی گھروں میں محصور لوگ ، پانی و بجلی سے محروم لیاری کے لوگ بھوک و پیاس سے بلکتے ہوئے معصوم بچے کس کرب میں آٹھ دنوںتک رہے اس کا احساس درد دل رکھنے والے جانتے تھے ، جب انسان دوست شخصیات اور سماجی تنظیموں نے ان کی مدد کرنی چاہی توخفیہ ہاتھوں نے انھیں ایسا کرنے سے روک دیا تھا ۔
حتیٰ کہ ایدھی ایمبو لینس کو لیاری میں داخل ہونے پر پابندی لگا دی گئی تھی ، الخدمت کو بھی خدمت کرنے سے روک دیا گیا تھا ۔ مریض دوا داروکے لیے تڑپتے رہے ، بچے دودھ کے لیے بلکتے رہے ،اور کسی کو بے گناہ معصوم محصورین کے دکھ درد اور پریشانی کا احساس تک نہیں تھا ۔ میڈیا والے بھی چیل چوک پر کھڑے جھوٹی خبریں اور رپورٹیں نشر کرتے رہے کہ اتنے دستی بم اور اتنے راکٹ لانچرزفائر کیے گئے لیکن کوئی ٹی وی چینل اس مقام کی تصویر کشائی نہیں کرسکا تھاجہاں بقول ان کے دستی بم اور راکٹ لانچرز چلائے گئے تھے ۔
لوگوں کے گھروں کے در و دیواریں ، مساجد اور اسکول کی عمارتیں جو آزادانہ فائرنگ سے چھلنی ہیں چیخ چیخ کر آج بھی کہہ رہی ہیں کہ ان کے مکینوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش تھی جس کے نتیجے میں 52بے گناہ انسان ماردیئے گئے تھے ۔ جن میں جوان بھی تھے ، بوڑھے بھی تھے ، مرد بھی تھے ، خواتین بھی تھیں اور بچے بھی شامل تھے ۔ اسی طرح 107افراد زخمی بھی ہوئے تھے ۔ان میں سے میرے پڑوسی اور جاننے والے بھی تھے ،جو بے گناہ تھے ، جہنیں میڈیا میں جرائم پیشہ عناصر کے طور پر پیش کیا گیا تھا ۔
مجھ سمیت میرے گھر والے میری ماں ، میری بیوی اور میرے معصوم بچے بھی دیگر لوگوں کی طرح آٹھ روز تک گھر میں محصور تھے ۔ بچنے کی کوئی امید نہ تھی ، اسٹیل کی گولیوں نے گھر کا رخ کرلیا تھا ، کس کرب کا سامنا تھا ، کہنے کو الفاظ نہیں ہے ، اس روز زندگی میں پہلی بار میں نے کسی ظالم کو بد دعا دی تھی ،سب اپنے انجام کو پہنچے ۔ اگرچہ اس لیاری آپریشن کو ختم ہوئے سات سال گزر گئے ہیں تاہم اہل لیاری کے زخم اب بھی تازہ ہیں ۔آج بھی گولیوں کا نشانہ بن کر جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین کی آنکھیںنم ہیں ،ان کے سینوں میں آج بھی یادں کا تیر سا لگتا ہے ۔
اہل لیاری کا آج بھی یہی کہنا ہے کہ جو ظلم اہل لیاری پرکیا گیا ہے اس کا حساب کون دیگا ؟ لیاری کے مرد ، عورتیں ، بچے ، نوجوان اور بوڑھے کس کی گولیوں کا نشانہ بنے تھے۔ ؟ روٹی کپڑا اور مکان کے بدلے اہل لیاری کو گولی ،کفن اور قبر دیئے گئے لیاری آپریشن کے دوران کئی دل خراش واقعات رونما ہوئے جو میڈیا کی نظروں سے اوجھل رہے ۔ ذرا تصور کریں ! وہ کیسا درد ناک منظر ہوگا جب گیارہ سالہ لڑکے حماد گاڑی کے نیچے کچل کر ہلاک ہوجاتا ہے ۔اسی طرح 159 مظلوم گھرانے ایسے تھے جہاں دن رات فریاد کی آوازیں گونجتی رہی ہیں ۔
لیاری والوں کا کہنا ہے کہ انھیں ہمیشہ بے وقوف بنایا گیا ان کی زندگی تنگ کردی گئی اور ظالم عیش کرتے رہے ۔ 2018ء کے انتخابات کے نتیجے میں لیاری میں جو سیاسی تبدیلی آئی اس کے ثمرات سے اہل لیاری اب تک محروم ہیں۔ لیاری میں اکلوتا ایم این اے کاتعلق پی ٹی آئی سے ہے ،لیاری والوں کو گلہ ہے کہ شکور شاد نے اپنے مدمقابل امید وار بلاول بھٹو زرداری کو شکست دی جس کی حوصلہ افزائی کرنا لازم تھا ، اسے وفاقی کابینہ میں شامل کیا جاتا تاکہ لیاری کا احساس محرومی کسی حد تک کم ہوجاتا ، مگر افسوس ! اب تک ایسا کچھ نہیں کیا گیا ہے جس سے اہل لیاری کو ریلیف ملتا ۔
لیاری کی دو صوبائی نشستوں میں سے ایک نشست تحریک لبیک اور ایک نشست مجلس عمل کے پاس ہے یہ دونوں کوششوں میں مصروف ہیں تاکہ اہل لیاری کے مسائل حل ہوسکیں لیکن چونکہ سندھ حکومت پی پی پی پی کی ہے اور یہ اپوزیشن میں ہیں اس لیے ان کی دال نہیں گل رہی ۔ لیاری میں جو ترقیاتی کام ہورہے ہیں وہ سندھ حکومت کے تعاون سے ہورہے ہیں جہاں پی پی پی پی کی حکومت ہے خاص طور پر بلدیہ عالیہ ضلع جنوبی کے چیئر مین ملک محمد فیاض اعوان جس کا تعلق پی پی پی پی سے ہے کی ہدایت میں پانی ، نکاسی آب ، صفائی ، سڑکوں کی استر کاری اور گلیوں کی سی سی فلورنگ کے کام ہورہے ہیں اس طرح پی پی پی پی از سر نو لیاری میں اپنی پوزیشن مضبوط کرتی دکھائی دے رہی ہے ۔
لیاری میں امن و امان کی صورتحال حوصلہ افزا ہے ہر طرف امن ہی امن ہے جس کے لیے ہمارے فورسسزنے قربانیاں دی ہیںان قربانیوں میں لیاری کے بے گناہ افراد کا بھی حصہ ہے ۔ لیاری کے نوجوان سماجی ، ادبی ، تعلیمی ، فن و ثقافتی اور اسپورٹس کی سرگرمیوں میں مصروف ہیں اور علاقا ئی و بین الاقوامی سطح پر ملک و قوم کا نام روشن کررہے ہیں ، آنیوالے وقتوں میں لیاری سماجی حوالے سے ایک مضبوط قلعہ ثابت ہوگا جہاں سیاسی برساتی مینڈکوں کو اچھلنے کودنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑیگا کیوں کہ لیاری جل جل کر کندن بن گیا ہے ۔
لیاری میں تعلیم یافتہ بے روزگاروں کی بڑی تعداد ہے اسی طرح ہنر مندوں کی تعداد ہے جو روزگار کے متلاشی ہیں یہی محروم طبقہ آنیوالے انتخابات میں سیاسی طور پر بحیثیت ووٹر ز کے فیصلہ کن کردار ادا کرنیوالے ہیں ۔ لیاری میں بیروزگاروں کا ایسا سیلاب ہے جس کے آگے اگر روزگار کا پل نہیں باندھا گیا تو عین ممکن ہے کہ یہ سیلاب اپنے ساتھ سب کو بہہ لے جائے گا ۔ آخر کب تک لیاری کے لیے روزگار کے دروازے بند رکھے جائیں گے ؟
ایک وقت ایسا آئے گا کہ لیاری کے بے روزگار نوجوانوں کو سیاسی لارا رمپہ دینے والے منہ چھپائے پھرتے ہونگے کیوں کہ لیاری کی نئی نسل تعلیم یافتہ اور باشعور ہے جو سب کچھ دیکھ رہی ہے اور سمجھ رہی ہے کہ انھیں اب دھوکہ نہیں دیا جاسکتا ۔
27اپریل 2012ء کی صبح صادق سے شروع ہونے والا لیاری آپریشن مسلسل 7دن تک چلتا رہا اور 4مئی کی شام کو جاکے رکا ۔ اس دوران اہل لیاری پر کیا کچھ گزری یہ سب کچھ تاریخ کا حصہ بن چکی ہے لیکن یادیں اب بھی تازہ ہیں ۔ جمہوری حکومت میں ان معصوم بچوں پر بکتر بند ٹینک چڑھا دیا جاتا ہے جو اپنے علاقے لیاری پر آپریشن کے خلاف پر امن ریلی میں اپنے والدین کے شانہ بشانہ ہوتے ہیں ۔
لیاری میں پوری ڈھٹائی کے ساتھ آٹھ دنوں تک 17لاکھ کی آبادی کو ان کے گھروں میں محصور کرکے دیواریں پھاڑتی ہوئی گولیوں سے بھون دیتے اور پھر لاش اٹھانے کی اجازت بھی نہیں تھی گھروں میں محصور لوگ ، پانی و بجلی سے محروم لیاری کے لوگ بھوک و پیاس سے بلکتے ہوئے معصوم بچے کس کرب میں آٹھ دنوںتک رہے اس کا احساس درد دل رکھنے والے جانتے تھے ، جب انسان دوست شخصیات اور سماجی تنظیموں نے ان کی مدد کرنی چاہی توخفیہ ہاتھوں نے انھیں ایسا کرنے سے روک دیا تھا ۔
حتیٰ کہ ایدھی ایمبو لینس کو لیاری میں داخل ہونے پر پابندی لگا دی گئی تھی ، الخدمت کو بھی خدمت کرنے سے روک دیا گیا تھا ۔ مریض دوا داروکے لیے تڑپتے رہے ، بچے دودھ کے لیے بلکتے رہے ،اور کسی کو بے گناہ معصوم محصورین کے دکھ درد اور پریشانی کا احساس تک نہیں تھا ۔ میڈیا والے بھی چیل چوک پر کھڑے جھوٹی خبریں اور رپورٹیں نشر کرتے رہے کہ اتنے دستی بم اور اتنے راکٹ لانچرزفائر کیے گئے لیکن کوئی ٹی وی چینل اس مقام کی تصویر کشائی نہیں کرسکا تھاجہاں بقول ان کے دستی بم اور راکٹ لانچرز چلائے گئے تھے ۔
لوگوں کے گھروں کے در و دیواریں ، مساجد اور اسکول کی عمارتیں جو آزادانہ فائرنگ سے چھلنی ہیں چیخ چیخ کر آج بھی کہہ رہی ہیں کہ ان کے مکینوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش تھی جس کے نتیجے میں 52بے گناہ انسان ماردیئے گئے تھے ۔ جن میں جوان بھی تھے ، بوڑھے بھی تھے ، مرد بھی تھے ، خواتین بھی تھیں اور بچے بھی شامل تھے ۔ اسی طرح 107افراد زخمی بھی ہوئے تھے ۔ان میں سے میرے پڑوسی اور جاننے والے بھی تھے ،جو بے گناہ تھے ، جہنیں میڈیا میں جرائم پیشہ عناصر کے طور پر پیش کیا گیا تھا ۔
مجھ سمیت میرے گھر والے میری ماں ، میری بیوی اور میرے معصوم بچے بھی دیگر لوگوں کی طرح آٹھ روز تک گھر میں محصور تھے ۔ بچنے کی کوئی امید نہ تھی ، اسٹیل کی گولیوں نے گھر کا رخ کرلیا تھا ، کس کرب کا سامنا تھا ، کہنے کو الفاظ نہیں ہے ، اس روز زندگی میں پہلی بار میں نے کسی ظالم کو بد دعا دی تھی ،سب اپنے انجام کو پہنچے ۔ اگرچہ اس لیاری آپریشن کو ختم ہوئے سات سال گزر گئے ہیں تاہم اہل لیاری کے زخم اب بھی تازہ ہیں ۔آج بھی گولیوں کا نشانہ بن کر جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین کی آنکھیںنم ہیں ،ان کے سینوں میں آج بھی یادں کا تیر سا لگتا ہے ۔
اہل لیاری کا آج بھی یہی کہنا ہے کہ جو ظلم اہل لیاری پرکیا گیا ہے اس کا حساب کون دیگا ؟ لیاری کے مرد ، عورتیں ، بچے ، نوجوان اور بوڑھے کس کی گولیوں کا نشانہ بنے تھے۔ ؟ روٹی کپڑا اور مکان کے بدلے اہل لیاری کو گولی ،کفن اور قبر دیئے گئے لیاری آپریشن کے دوران کئی دل خراش واقعات رونما ہوئے جو میڈیا کی نظروں سے اوجھل رہے ۔ ذرا تصور کریں ! وہ کیسا درد ناک منظر ہوگا جب گیارہ سالہ لڑکے حماد گاڑی کے نیچے کچل کر ہلاک ہوجاتا ہے ۔اسی طرح 159 مظلوم گھرانے ایسے تھے جہاں دن رات فریاد کی آوازیں گونجتی رہی ہیں ۔
لیاری والوں کا کہنا ہے کہ انھیں ہمیشہ بے وقوف بنایا گیا ان کی زندگی تنگ کردی گئی اور ظالم عیش کرتے رہے ۔ 2018ء کے انتخابات کے نتیجے میں لیاری میں جو سیاسی تبدیلی آئی اس کے ثمرات سے اہل لیاری اب تک محروم ہیں۔ لیاری میں اکلوتا ایم این اے کاتعلق پی ٹی آئی سے ہے ،لیاری والوں کو گلہ ہے کہ شکور شاد نے اپنے مدمقابل امید وار بلاول بھٹو زرداری کو شکست دی جس کی حوصلہ افزائی کرنا لازم تھا ، اسے وفاقی کابینہ میں شامل کیا جاتا تاکہ لیاری کا احساس محرومی کسی حد تک کم ہوجاتا ، مگر افسوس ! اب تک ایسا کچھ نہیں کیا گیا ہے جس سے اہل لیاری کو ریلیف ملتا ۔
لیاری کی دو صوبائی نشستوں میں سے ایک نشست تحریک لبیک اور ایک نشست مجلس عمل کے پاس ہے یہ دونوں کوششوں میں مصروف ہیں تاکہ اہل لیاری کے مسائل حل ہوسکیں لیکن چونکہ سندھ حکومت پی پی پی پی کی ہے اور یہ اپوزیشن میں ہیں اس لیے ان کی دال نہیں گل رہی ۔ لیاری میں جو ترقیاتی کام ہورہے ہیں وہ سندھ حکومت کے تعاون سے ہورہے ہیں جہاں پی پی پی پی کی حکومت ہے خاص طور پر بلدیہ عالیہ ضلع جنوبی کے چیئر مین ملک محمد فیاض اعوان جس کا تعلق پی پی پی پی سے ہے کی ہدایت میں پانی ، نکاسی آب ، صفائی ، سڑکوں کی استر کاری اور گلیوں کی سی سی فلورنگ کے کام ہورہے ہیں اس طرح پی پی پی پی از سر نو لیاری میں اپنی پوزیشن مضبوط کرتی دکھائی دے رہی ہے ۔
لیاری میں امن و امان کی صورتحال حوصلہ افزا ہے ہر طرف امن ہی امن ہے جس کے لیے ہمارے فورسسزنے قربانیاں دی ہیںان قربانیوں میں لیاری کے بے گناہ افراد کا بھی حصہ ہے ۔ لیاری کے نوجوان سماجی ، ادبی ، تعلیمی ، فن و ثقافتی اور اسپورٹس کی سرگرمیوں میں مصروف ہیں اور علاقا ئی و بین الاقوامی سطح پر ملک و قوم کا نام روشن کررہے ہیں ، آنیوالے وقتوں میں لیاری سماجی حوالے سے ایک مضبوط قلعہ ثابت ہوگا جہاں سیاسی برساتی مینڈکوں کو اچھلنے کودنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑیگا کیوں کہ لیاری جل جل کر کندن بن گیا ہے ۔
لیاری میں تعلیم یافتہ بے روزگاروں کی بڑی تعداد ہے اسی طرح ہنر مندوں کی تعداد ہے جو روزگار کے متلاشی ہیں یہی محروم طبقہ آنیوالے انتخابات میں سیاسی طور پر بحیثیت ووٹر ز کے فیصلہ کن کردار ادا کرنیوالے ہیں ۔ لیاری میں بیروزگاروں کا ایسا سیلاب ہے جس کے آگے اگر روزگار کا پل نہیں باندھا گیا تو عین ممکن ہے کہ یہ سیلاب اپنے ساتھ سب کو بہہ لے جائے گا ۔ آخر کب تک لیاری کے لیے روزگار کے دروازے بند رکھے جائیں گے ؟
ایک وقت ایسا آئے گا کہ لیاری کے بے روزگار نوجوانوں کو سیاسی لارا رمپہ دینے والے منہ چھپائے پھرتے ہونگے کیوں کہ لیاری کی نئی نسل تعلیم یافتہ اور باشعور ہے جو سب کچھ دیکھ رہی ہے اور سمجھ رہی ہے کہ انھیں اب دھوکہ نہیں دیا جاسکتا ۔