ٹیکس نظام یا ’لگان‘۔۔

موجود تاریخی مواد کے حساب سے ٹیکسیشن کا نظام 3000سال قبل ِ مسیح میں ہمیں مصر اور موہن جو دڑو میں نظر آتا ہے۔

ٹیکس یعنی محصول بنیادی طور پر لاطینی زبان کے لفظ Taxoسے نکلا ہے ، جس سے مراد ہے وہ لازمی مالی وصولی یا فنڈ ہوتا ہے جو حکومت یا ریاست کے اُمور چلانے اور عوام کو سہولیات فراہم کرنے پر آنے والے اخراجات کی مد میں لیا جاتا ہے ۔جب کہ اس لفظ کا باقاعدہ استعمال پہلی مرتبہ 14ویں صدی میں انگریزی زبان میں "Taxare"یعنی 'تخمینہ لگانے' کی صورت میں ہوا ۔

ماضی میں انسانی ضروریات ِ زندگی اور شہری انفرااسٹرکچر کی سہولیات محدود ہوتی تھیں ، اس لیے محصولات کی وصولی بھی محدود ہوتی تھی ، باقی جنگ کی صورتحال یا قدرتی آفات کی صورت میں ہنگامی طور پر جنگی یا ہنگامی ٹیکس بھی لیا جاتا تھا ۔ ان وصولیوں کا مقصد معاشرے کے صاحب ِ استطاعت افراد یا زیادہ آمدن والے افراد و اداروں کی آمدنی پر موزوں شرح لاگو کرکے اُن سے ہونے والی وصولیوں کو ملک کے انفرا اسٹرکچر ، تعلیم ، صحت ، دفاع و بنیادی سہولیات کی فراہمی جیسے اُمور پر خرچ کرنا ہوتا ہے۔

پہلے بادشاہت کا نظام ہونے کی وجہ سے محصولات کا زیادہ تر حصہ راج محل یا راج گھرانوں اور سلطنت کے عملداروں کی شان و شوکت اور فوجی استعداد بڑھانے اور اُمور پر خرچ کیا جاتا تھا۔ زرعی نظام ہونے کی وجہ سے اُس کے تحت ہر قسم کی اجناس کی فصل اُترنے پر فصل کا کچھ حصہ حکومت کو دینا لازمی تھا جسے لگان یعنی خراج کہتے تھے ، جس کی کوئی شرح Fixنہیں تھی ، سلطنت یا راج گھرانے کے اخراجات بڑھ جانے کی صورت میں لگان بھی بڑھا دی جاتی تھی ۔پھر سترہویں صدی کا فرانس سے اُٹھنے والا صنعتی انقلاب دنیا کے معاشی و ریاستی اُمور پر اثر انداز ہوا اور معاشرتی ترجیحات تبدیل ہوگئیں ۔

ریاستی و حکومتی اُمور اب بادشاہ کی خواہش و تخت کی استعداد سے نکل کرعوام کی جانب سے منتخب کردہ ارکان کے شوریٰ یا مجالس کے ہاتھوں میں آگئے ، جن کے فیصلے جمہوری طریقہ سے مشاورتی بحث مباحثے کے بعد اکثریت ِ رائے کی بنیاد پر ہونے لگے ۔ اور یکم مئی کے مزدور انقلاب نے تو دنیا کا نقشہ ہی تبدیل کرکے رکھ دیا ۔ اب ''لگان'' نہیں بلکہ محصولات کی وصولی کی اصطلاح مقرر کردہ شرح کے ساتھ استعمال ہونے لگی ، جب کہ اُن وصولیوں کے استعمال کی ترجیحات بھی تبدیل ہوگئیں۔ اُنہیں عوامی سہولیات و فلاح پر خرچ کرنے کی مد میں اولیت حاصل ہوئی ۔

موجود تحریری مواد کے مطابق زمانہ قدیم میں یہ صرف انڈس سولائیزیشن یعنی موہن جو دڑو میں ملتا ہے جہاں حکومت کے جمہوری نظام کے ساتھ ساتھ ٹیکس و دیگر معاشی و انفرااسٹرکچر کا نظام بھی موجود تھا ۔ وقت کے ساتھ ساتھ ٹیکس کی کئی اقسام بھی دریافت ہوتی گئیں ۔ اس وقت ہم جس دور میں رہ رہے ہیںاُس میں چلنے والانظام سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ جس کا سب سے اہم عنصر معاشی پالیسی یا بینکنگ کا نظام ہے ۔

بینکنگ کے نظام سے دنیا میں افراط ِ زر کی اصطلاح کا بھی آغاز ہوا ۔ جس کے تحت ہر چیز کا سالانہ تخمینہ لگا کر اُسے بجٹ کے دائرہ کار میں لاکر اسمبلی میں بحث و مشاورت کے بعد منظور کیا جاتا ہے تاکہ آیندہ سال بھر اس کے تحت ریاستی و حکومتی اُمور سرانجام دیے جائیں ۔ پھر ادارے سے ادارے کو اور ملک سے ملک کو قرضہ جات اور امداد کا تصور گہرا ہوتا گیا ۔ اب ریاستی ، حکومتی یا ہنگامی اخراجات کی بنیاد پر اضافی محصول کا کوئی تصور نہیں، بجٹ کو پلان کرتے ہوئے موجود یا آیندہ درپیش آنیوالے حالات سے نبرد آزما ہونے کے لیے بجٹ کو کئی حصوں میں تقسیم کرکے اُس کے استعمال کو بھی شعبوں کے حساب سے مختص کیا گیا ۔

اس وقت دنیا میں ٹیکس کی 04بڑی اقسام رائج ہیں : (۱) انکم ٹیکس (۲) اشیاء و سروسز پر سیلز ٹیکس (۳) وفاقی ایکسائیز ڈیوٹی اور (۴) کسٹم ڈیوٹی ۔اس کے علاوہ بینک ٹیکس ، ٹرانزیکشن ٹیکس ، کمیونی کیشن ٹیکس ، ویلتھ ٹیکس ، انفرااسٹرکچر ٹیکس کے ساتھ ساتھ لائسنس ، اسٹامپ ڈیوٹی اور سوشل سیکیورٹی ڈیوٹیز و دیگر کئی اقسام کے چھوٹے بڑے ٹیکس و فیسوں کی مد میں محصولات کی وصولی کی جارہی ہے ۔

دیگر ممالک میں کوشش کی جاتی ہے کہ فوڈ یا دیگر اشیائے خور و نوش اور ادویات کو ٹیکس سے بری رکھا جائے یا پھر کم سے کم شرح لاگو کی جائے ۔دیگر ممالک میں ٹیکس دہندگان بھی واضح ہوتے ہیں کہ کس کس پر ٹیکس لاگو ہوتا ہے اور کس کس کی آمدنی قابل ِ ٹیکس نہیں ہے ۔لیکن ایک ہمارے ملک میں غریب ترین لوگوں سے بھی ٹیکس وصولی کا نظام ہے ، جو غریب گھر میں ایک بلب بھی جلاتا ہے تو اُسے بجلی بل اور بجلی ٹیکس کے ساتھ ساتھ ٹی وی ٹیکس بھی دینا پڑتا ہے ، پھر چاہے اُس کے پاس ٹی وی ہو یا نہ ہو۔ پھر غریب قابل ٹیکس آمدن نہ رکھنے کے باوجود آٹے ، دال ، گھی سے لے کر موبائیل لوڈ پر ٹیکس دینے پر مجبور ہے ۔

گزشتہ سال جب سپریم کورٹ نے سوموٹو ایکشن لیتے ہوئے موبائل ٹیکس کو اپنے ریمارکس میں ظلم قرار دیتے ہوئے وصولی پر اسٹے دیا تھا کہ شرح طے کرنے کا فیصلہ ہونے تک وصولی روک دی جائے ۔ لوگوں کو اُس وقت بڑی خوشی ہوئی لیکن رواں ہفتے شرح مقرر کیے بغیر اسٹے ختم کرکے تمام ٹیکس بحال کر دیے گئے ، اور یوں عوام کی خوشی عارضی ثابت ہوئی ۔

ٹیکسز دو طریقوں سے وصول کیے جاتے ہیں ۔ ایک Directٹیکس جو کہ براہ راست ٹیکس دہندگان سے وصول کیا جاتا ہے ، جسے انکم ٹیکس کہا جاتا ہے جب کہ دوسرا Indirectٹیکس ہے جوکہ منتقلی کی بنیاد پر خرید و فروخت کنندہ کے ماحول پر محیط ہوتا ہے ، جسے سیلز ٹیکس کہا جاتا ہے ۔ سیلز ٹیکس کا بھی ایسا چکر ویو ہے کہ یہ مینوفیکچرر یعنی کارخانہ تا ڈیلر سے ہوتا ہوا ریٹیلرزکے ذریعے کنزیومر تک جاتا ہے اور اصل میں یہی ٹیکس دہندہ کہلاتا ہے ، کیونکہ تاجر ، دکاندار تو سیلز ٹیکس دہندہ نہیں ہے وہ تو صرف وصول کرتا ہے ، جو اُسے ادارے کے پاس جمع کرانا ہوتا ہے لیکن وہ جمع کرانے میں بھی تاخیر یا کوتاہی برتتا ہے۔

تو اس بات کو دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ٹیکس ریفارمز کا مقصد یہ نہیں کہ پہلے سے بوجھ تلے دبے عوام پر مزید بوجھ ڈالا جائے بلکہ ٹیکس ریفارمز کا مقصد ٹیکس وصولیوں میں مستعدی دکھاتے ہوئے سروس دہندگان یا ٹیکس وصول کنندگان کو بروقت ادائیگی کا پابند کرنے کے لیے سخت و مؤثر پالیسی اور عملی اقدامات کرنا ہونا چاہیے ۔دیگر ممالک میں ریفارمز کا مقصد امیر سے لے کر غریب کی مالی معاونت یا سہولت کی فراہمی کی بنیاد پر ہوتا ہے لیکن ہمارے یہاں صدیوں پرانے جاگیردارانہ نظام کی طرح نچلے طبقے کی محنت کی کمائی سے امیر و بالا طبقے کی سہولیات کا انتظام کرنے کی پالیسیاں رائج ہیں ۔


موجود تاریخی مواد کے حساب سے ٹیکسیشن کا نظام 3000سال قبل ِ مسیح میں ہمیں مصر اور موہن جو دڑو میں نظر آتا ہے۔ موہن جو دڑو میں جمہوری نظام کے باعث عوام راج اور عوامی سہولیات و قوانین آسان اور رضاکارانہ عمل و باہمی ہم آہنگی کے خطوط پر استوار نظر آتے ہیں؛ لیکن مصر میں بادشاہی نظام کے تابع ٹیکس کا جو وسیع نظام موجود تھا وہ دو طریقوں پر محیط تھا ۔ ایک ''کووئی '' اور دوسرا ''ٹتھی ''تھا ۔ 'کووئی' ریاست کی جانب سے انتہائی غریب طبقے سے جبری مشقت کرواکر آمدنی سرکار کو فراہم کیے جانے والا ٹیکسیشن کا طریقہ تھا۔ جب کہ 'ٹتھی ' وہ طریقہ تھاجو زراعت پر لاگو تھا ، جس کے تحت فصل کا پانچواں حصہ 'پھڑاؤ' کی معرفت سرکار کو جاتا تھا ۔ اس طریقہ ٹیکس کا ذکر بائبل (جینیس ؛ باب 47) میں بھی ہے ۔ اسی طریقہ ٹیکس کو آگے چل کر برصغیر میں 'لگان ' کے نام سے جانا گیا ۔

پاکستان کی موجودہ حکومت کے ٹیکس ریفارمزکے اقدامات بھی قدیم مصری حکمرانوں کے 'کووئی ' ٹیکس نظام کی طرح لگ رہے ہیں ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہ علانیہ انتہائی غریب طبقے سے جبری مشقت کرواکر اُجرت کو ٹیکس کے نام پر ضبط کرلیتے تھے ، جب کہ موجودہ عمرانی سرکار ایک طرف انتہائی غریب طبقے کو ملنے والی اُجرت مختلف بہانوں جیسے اشیائے خور و نوش ، موبائیل ، ادویات وغیرہ جیسی بنیادی ضروریات کی اشیا پر ٹیکس لگا کرزبردستی وصول کررہی ہے تو دوسری طرف قابلِ ٹیکس آمدن کی شرح کم کرکے زبردستی اُنہیں انکم ٹیکس نظام میں شامل کررہی ہے ۔

دنیا میں نقصانات کو کم کرنے اورمعاشی ترقی کی رفتار بڑھانے کا اچھا نظام اُسے کہتے ہیں جس میں انفرادی املاک اور مالیاتی اداروں میں معاونت اور تعمیل کا نظام بہتر ہو، اور اس کے تحت ہی حکومت زیادہ ٹیکس جمع کرنے کی اہل ہوتی ہے ۔ کویت کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں ٹیکس کی کم ترین شرح رکھنے کے باوجود کویت دنیا کی سب سے مستحکم معیشت اور کرنسی رکھنے والا ملک ہے ، جس کی وجہ وسائل کا درست استعمال ہے۔ جب کہ جن ممالک میںبڑے ٹیکس دہندگان کو چُھوٹ ہو ، ملک میں زیادہ اقسام کے محصولات ہوںاور اُن کی شرح زیادہ ہو اُن کی ترقی کی رفتار سست ہوتی ہے اور وہ اچھی اور مستحکم معیشت نہیں بن سکتے۔

ایسی ایک مثال بھارت کی ہے، جس نے بڑے ٹیکس دہندگان کو چُھوٹ دیکر ٹیکس کی شرح اور ٹیکس کی اقسام میں اضافہ کیا تو نتیجتاً اُس کی GDPمیں انکم ٹیکس ریکوری کی شرح 0.5پر 1979سے جمود کا شکار ہے ۔ اس کی ایک مثال ملک میں داخلی طور پر بھی موجود ہے ۔ دیکھا جائے تو ملک میں سیلز ٹیکس آن سروسز کی شرح وفاق میں 17%، پنجاب ، کے پی کے اور بلوچستان میں 15%ہے لیکن سندھ میں وہ 13% ہے۔ پاکستان میںٹیکس نظام پہلے انکم ٹیکس ایکٹ 1929 کے ماتحت تھا ، جسے بعد میں تبدیل کرکے انکم ٹیکس آرڈیننس 1979 میں پہلا ملکی قانون بنایا گیا ، جسے مشرف دور میں اپ ڈیٹ کرکے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001کے تحت کیا گیا جب کہ 2002میں اس میں ITرولز کی ترمیم کی گئی ۔ لیکن یہ تمام اصلاحات محض وصولی بڑھانے کے ایک نقطے پر ہی ہوتی رہی ہیں ، ٹیکس وصولی کے اصل سبب کی طرف یہاں کبھی توجہ نہیں دی گئی ۔

معاشی ماہرین ِو محققین کے مطابق ٹیکسیشن کا بنیادی سبب محصولات کی ادائیگی کے لیے رائے عامہ سے آمادگی حاصل کرکے وصولیوں کی بناء پر قومی بجٹ کی تیاری کے لیے وسائل فراہم کرنا اور میکرو اکنامک مینجمنٹ کا اہم ترین حصہ بنانا ہے ۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اکنامک کی تھیوری یہ ہے کہ قابلیت اور حق میں مسابقت ، مصرف یا تقسیم یا تخصیص اور فلاح سے پیداوار پر اثرات کی سمجھ کے ذریعے طلب پر فوکس کرنے کا بہتر نظام قائم کرنا ہے ۔

اس لحاظ سے تو لگتا ہے کہ پاکستان کی موجودہ حکومت شاید ٹیکسیشن کے نظام کی اس تعریف سے ہی نابلد ہے ۔ کیونکہ وہ ملک و مارکیٹ کی طلب کو سمجھ ہی نہیں پارہی ، مثلاً ملک کی ضرورت بڑے ٹیکس دہندگان سرمایہ کاروں کو بے جا چُھوٹ نہ دینے ، محصولات کی ریکوری کے نظام کو بالائی سطور میں دی گئی تعریف کے مطابق بہتر کرنے ، وسائل کا منصفانہ اور درست استعمال، قومی افرادی قوت کے تصرف کے فروغ اور سرمایہ کاری کی طلب ہے لیکن حکومت تو دوسری طرف عالمی بینک سمیت مختلف ممالک سے بھاری شرح ِ سود پر نئے قرضہ جات لیتی جارہی ہے تو دوسری طرف ان قرضہ جات کے حصول کے لیے نئے کمر توڑ ٹیکس متعارف کروا رہی ہے، اورملک میں نت نئے ٹیکسز متعارف کروا رہی ہے، جس کے تحت بڑے ٹیکس دہندگان افراد اور اداروں کو چُھوٹ پے چُھوٹ دی جارہی ہے جب کہ چھوٹے کاروباری حضرات و زیریں متوسط اور نچلے طبقے کے سکت نہ رکھنے والوں پر ٹیکس ادائیگی کا بوجھ بڑھا رہی ہے ۔

حالانکہ دھرنوں کے دوران پی ٹی آئی کے 'معاشی ماہر' اسد عمر اور خود عمران خان بھی یہی باتیں کرتے رہے ہیں لیکن اقتدار میں آتے ہی فوری طور پر ان کے برعکس پالیسیاں اختیار کی گئی ہیں ۔جانے یہ اقتدار کا نشہ ہے جو اچھے بھلے انسان کو 'حواس باختہ' کردیتا ہے یا پھر یہ کامیاب لیڈر بننے کے لیے کیے گئے ''یوٹرن'' والی حکمت عملی ہے!مگر جوبھی ہے یہ اپنے ایک ارادے میں تو کامیاب ہوگئے ہیں کہ لوگوں کی چیخیں نکال دیں گے ۔

ٹیکس امیروں سے لے کر غریبوں پر خرچ کرنے کی سب سے اعلیٰ مثال اسلام میں زکوٰۃ کی صورت میں موجود ہے ، جو صاحب استطاعت لوگوں پر 2.5%کے حساب سے عائد ہوتی ہے اور وہ براہ ِ راست غریبوں کی فلاح و بہبود پر خرچ ہوتی ہے ۔ جب کہ ''خراج '' کے نام سے لینڈ ٹیکس کا بھی اسلامی ریاست میں تصور موجود رہا ہے ۔ لیکن پاکستان کو ''ریاست ِ مدینہ '' جیسا بنانے کے دعوے کرنیوالے ٹیکسوں کا استعمال غریبوں پر خرچ کرنے کے بجائے اُلٹا غریبوں سے ٹیکس وصول کرنے کے منصوبے بنارہے ہیں ۔ حالانکہ ملک کی موجودہ معاشی ابتری کی بناء پر حکومت کے اہم ترین وزیر اسد عمر مستعفی ہوچکے ہیں لیکن اُن کی جگہ آنیوالے حفیظ شیخ بھی اسی راہ پر چل رہے ہیں ۔

انھوں نے چارج لیتے ہی آئی ایم ایف کی ویلیو ایڈیڈ ٹیکس (حالانکہ یہ VATجنرل سیلز ٹیکس کا ہی دوسرا نام ہے ، لیکن اُسے علیحدہ سے نافذ کرنے کا ظلم کیا جارہا ہے ) سمیت 600ارب کے یعنی ٹیکس آمدن میں 1.7%تک اضافے کے حامل نئے ٹیکس نافذ کرنے کے ساتھ ساتھ تمام کڑی شرائط کو تسلیم کرنے کا عندیہ دیا۔ جس سے آیندہ دنوں میں مہنگائی کا ایک مزید ہولناک طوفان برپا ہونے والا ہے ۔ جب کہ ملک کے سب سے بڑے ادارے FBRکی موجودہ حالت یہ ہے کہ وہ ابھی تک اپنے اعداد و شمار ہی سمجھ نہیں پایا ہے ۔ جس کی مثال حال ہی میں سامنے آئی کہ FBRنے مجموعی پول میں سے سندھ حکومت کے 7ارب روپے کی کٹوتی کی ، جسے سندھ حکومت کی معاشی ٹیم نے غلط ثابت کیا ہے ، جب کہ لاہور ہائی کورٹ نے بھی FBRکے براہ راست سیلز ٹیکس وصولی کو غیر قانونی قرار دیا ہے ۔ تو ایسے ادارے سے کیا بہتری کی اُمید کی جاسکتی ہے ۔

ان تمام باتوں کے برعکس دنیا میں ایک بہت بڑا حلقہ موجودہ دور میں ٹیکسیشن کے سراسر خلاف ہے ۔ اُن کا کہنا ہے کہ جب جدید دور میں ٹیکنالوجی کی بدولت قدرتی و معدنی وسائل کاآسان حصول ہورہا ہے اور بڑے پیمانے پر اُنہیں بروئے کار بھی لایا جارہا ہے تو پھر حکومت یا ریاست کے پاس کیا وجہ رہ جاتی ہے کہ وہ اُن وسائل کی بہتر مینجمنٹ سے ریاستی اُمور کے اخراجات کی تکمیل کے بجائے عوام کو سہولیات فراہم کرنے کے نام پر مختلف حیلوں بہانوں اور ناموں سے بھاری محصولات وصول کرتے ہیں ۔ وہ اس عمل کو حکومت یا ریاست کی جارحیت تصور کرتے ہیں ۔

اور ہمارے ملک میں موجودہ ٹیکس نظام کو دیکھ کر تو یہ بات ''سولہ آنے سچ '' محسوس ہورہی ہے ۔ یہاں مہنگائی نے عوام کی زندگی کو زہر بنادیا ہے ۔ کہتے ہیں کہ فرد معاشرے کا معمار ہوتا ہے اور معاشی اصطلاح میں کہا جاتا ہے کہ خوشحال فرد بہتر معاشرے کی ضمانت ہوتا ہے ۔ اس لحاظ سے جب فرد ہی خوشحال نہیں ہوتا تو معاشرہ کہاں سے بہتر ہوگا اور کہاں سے ملک مستحکم ہوگا؟
Load Next Story