طوطا کہانیاں

ملک کے عوام بلکہ خواص بھی اس وقت دو سال سے ہر روز ایک جیسی کہانیاں سن سن کر پڑھ پڑھ کر تنگ آ چکے ہیں۔

h.sethi@hotmail.com

پہلے کبھی کبھار ملک کی قانون ساز اسمبلی میں کسی قومی اہمیت کے ایشو پر اختلاف رائے شدت اختیار کر جاتا تو محترم ممبران اسمبلی سیٹوں کو چھوڑ کر بہ آواز بلند اپنا اپنا نقطہ نظر بیان کرنے لگتے جس پر اسپیکر اسمبلی ممبروں کے مائیک بند کر کے ہائوس کو اِن آرڈر لاتے اور کچھ دیر بعد ہائوس کی کارروائی شروع ہو جاتی یا پھر بہ امر مجبوری اسپیکر ہائوس کو اس روز Adjourn کر دیتے۔

قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اجلاس ٹی وی اسکرینز پر اب بھی دیکھنے کو ملتے ہیں لیکن ماضی کے برعکس حاضری کا یہ عالم ہوتا ہے کہ کبھی پانچ اور کبھی پندرہ فیصد سیٹوں پر معزز ممبر دیکھنے کو ملتے ہیں، ہائوس کو چلائے رکھنے کے لیے اب کوئی ممبر کورم نہ ہونے کی نشاندہی نہیں کرتا، ممبرز کی معقول تعداد حاضری لگا کر کبھی کیفے ٹیریا میں جا بیٹھتی ہے یا ذاتی کام سے چلی جاتی ہے۔ شاید کئی ممبران کو معلوم ہی نہیں کہ قانون سازی کی اہم ترین ذمے داری انھی کے کاندھوں پر ہوتی ہے۔

قومی اسمبلی میں وزیر ِ اعظم اور وزراء اور اسی طرح صوبائی اسمبلیوں میں وزراء اعلیٰ کی موجودگی کے دن ممبران اسمبلی کی تعداد Houses میں معقول تعداد میں دیکھنے کو ملتی ہے ان دنوں کے علاوہ اکثر اوقات کسی ممبر کے کورم پوائنٹ آئوٹ کرنے پر گنتی کے بعد اسپیکر صاحب کچھ وقت کے لیے وقفے کا اعلان کرتے ہیں اور ادھر اُدھر گئے ممبروں کو ہائوس میں بلانے کے کیے گھنٹیاں بجنے لگتی ہیں، اگر اس وقفے کے بعد بھی کورم پورا نہ ہو تو یا ہائوس کا کام بغیر کورم چلتا رہتا ہے یا اسپیکر صاحب ہائوس Adjourn کر دیتے ہیں کیونکہ

کار ِ جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر


پارلیمنٹ ہائوس کا جو منظر اکثر ہماری ٹیلیویژن اسکرینز پر عوام کو دیکھنے کو ملتا ہے ظاہر ہے لوگ اسے مثال بنا کر خود پر لا گو کرنے میں برائی یا گھٹیا پن نہیں سمجھیں گے کیونکہ بڑے گھر کی نقل تو قابل ِ فخر و تقلید ہوتی ہے یہ ایسے ہی ہے جیسے چھوٹے بچوں کا والدین کی عادات اپنانا، ابھی کچھ روز قبل اپوزیشن ارکان اسپیکر کا گھیرائو کر کے حکومت کو وزیر ِ اعظم کے بیرون ملک دورے پر کی گئی تقریر میں الفاظ کے نا مناسب چنائو پر ہدف ِ تنقید بنا رہے تھے، یہ تنقید بلاشبہ جائز تھی لیکن معزز اسمبلی ممبران نے احتجاج و اختلاف کا جو طریقہ اور انداز اپنایا ان کے مرتبے اور مقام سے گرا ہوا تھا اور وہ تمام لوگ جنہوں نے وہ مناظر دیکھے وہ نہ تو انھیں قابل تقلید پائیں گے نہ قابل ِ تعریف۔ اختلاف و نا پسندیدگی کے اظہار کا شائستہ طریقہ بھی ہوتا ہے اس کے لیے ہمارے چینلز کو برٹش پارلیمنٹ کے مناظر سے استفادہ کرتے رہنا چاہیے اور ہمارے قابل قدر ممبران پارلیمنٹ کو اختلاف و احتجاج کو رجسٹر کرانے کا مثالی طریقہ اپنانا چاہیے۔

ہمارے ایک دوست جو کچھ عرصہ قبل آسٹریلیا اور امریکا گئے انھوں نے انسانی ترقی کے مدارج سمجھنے کے لیے بطور خاص کچھ وقت آسٹریلیا کے اصل باسیوں یعنی Aboriginese اور امریکا کے Red Indians کے ساتھ گزارا، ان کا رہن سہن، کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا، ملنا ملانا، سیکھنا سکھانا وغیرہ دیکھا۔ ان دو ممالک میں جا کر انھیں فتح کرنے اور زیر ِ نگیں کرنے کی تاریخ کا مطالعہ کر کے انسانوں کی ترقی و کامیابی کے مدارج پر غور و فکر کرنے کے بعد دنیا کے پس ماندہ اور ترقی یافتہ ممالک و اقوام پر جو تجزیہ تحریر کیا اس کا ذکر آیندہ ہو گا جو ہمارے بزعم خود افلاطونوں کے لیے چشم کشا ہو گا۔ تعلیم، تہذیب، اخلاق وغیرہ ہر کسی کو خود پر لاگو کرنے سے قابل قدر اور دوسروں کے لیے نمونہ اور باعث تقلید ٹھہرتا ہے لیکن ہمارے اکثر مہذب اور تعلیمیافتہ شہری بھی دوسروں کو لیکچر دے کر یا ڈانٹ ڈپٹ کر کے انھیں دائرہ اخلاق و تہذیب میں رہ کر عمل کرنے کا سبق دینا پسند کرتے ہیں حالانکہ خود کو عملی نمونہ کے طور پر پیش کرنے سے دوسروں پر فوری حقیقی اور مثبت اثر ہوتا ہے۔

اتفاق سے یا بدقسمتی سے رہڑی، چھابڑی، تانگے، رکشے والا عام دکان دار، مزدور، کلرک، اسکول ماسٹر یعنی عام شہری کو ان دنوں تفریح طبع کے لیے شام کے بعد دوستوں کے ساتھ گپ شپ کرتا یا ٹیلیوژن کا ریموٹ پکڑے چینل گھماتے دیکھا جاتا ہے اور بصد افسوس کہ وہ حکومت وقت اور حزب ِ اختلاف کی بیس تیس شخصیات کی ایک دوسرے کے خلاف جُوتم پیزار والے بیانات سے لطف اندوز ہوتا رہتا ہے۔ اور ان ایک دوسرے کے خلاف بیانات و الزامات نے ہر شخص کے مزاج اور تفریح کے ذرایع میں خوشی اور مثبت سوچ کی جگہ ذہنی پراگندگی نے لینی شروع کر دی ہے۔

عرصہ دو سال سے دو سابق حکمران گھرانوں کے بارے میں National Accountability Bureau نے سچے یا جھوٹے گواہوں، دستاویزی ثبوتوں یا طوطا کہانیوں کے دفتر کھول رکھے ہیں، ان سابق حکمرانوں کے خزانوں کی تفصیلات اگر سچی ہوں تو حیران کن ہیں اور اگر جھوٹی ہوں تو افسوسناک کیونکہ تفتیشی ایجنسیاں ان کرپشن الزامات کی چھان بین کو منطقی انجام تک لانے میں ابھی تک ناکام ہیں اور اگر پاپڑ والے گول گپے والے اور فالودے والے کے نام پر بینک اکائونٹ کھلوا کر کسی وڈیرے کا فرنٹ مین کروڑوں روپوں اور ڈالروں کی Transactions کر رہا ہے تو بینک منیجر کوئی خدائی مخلوق ہے؟ لوگ اب بھی بھٹو کے ذکر پر اس کی شخصیت کے سحر میں مبتلا ہو جاتے ہیں لیکن فوراً مایوسی میں آ جاتے ہیں جب انھیں یاد آتا ہے کہ بلاول تو زرداری ہے یعنی جس نے ایک پبلک آفس کا وصیت نامہ پارٹی ممبروں کو دکھا کر کہا تھا کہ بینظیر نے اسے پارٹی صدارت وصیت میں دی تھی یعنی اب فالودے والا بھی فالودے کے استعمال کی وصیت اپنی اولاد کے نام کر سکتا ہے۔

اس وقت گزشتہ دس سال حکمرانی کرنے والے دو گھرانے ٹارگٹ ہو رہے ہیں۔ ملک کے عوام بلکہ خواص بھی اس وقت دو سال سے ہر روز ایک جیسی کہانیاں سن سن کر پڑھ پڑھ کر تنگ آ چکے ہیں۔ موجودہ حکمران جماعت اگرچہ ان طوطا کہانیوں کی Author نہیں ہے لیکن ان کہانیوں کا جلد منطقی انجام ہمارے ملک اور عوام کے سامنے آنے کے لیے بے چین ہے۔
Load Next Story