وزیر اعظم عمران خان کا دورہ ایران
وزیر اعظم نے کہا کہ میرے دورے سے پاک ایران تعلقات میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے
KAMPALA:
وزیر اعظم عمران خان نے پچھلے ہفتے ایران کا دورہ کیا، مشترکہ پریس کانفرنس میں انھوں نے کہا کہ جس طرح میری اور میرے وفد کی مہمان نوازی کی گئی اس پر ایرانی صدر کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ برصغیر کی ماضی کی تاریخ میں جاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اگر برطانیہ ہندوستان نہ آتا تو ایرانی صدر کو مترجم کی ضرورت نہ پڑتی کیونکہ اُس وقت ہم سب فارسی بولتے تھے۔ ہندوستان میں600 سال تک عدالتی زبان فارسی تھی۔ مغل دور میں سرکاری اور تہذیبی زبان فارسی تھی۔ نہ صرف مسلمان بلکہ ہندو بھی گھروں میں فارسی بولتے تھے۔ آج فارسی زبان جاننے والے نہ ہونے کے برابر ہیں۔
انگریزوں نے برصغیر پر قبضے کے بعد پہلا کام یہ کیا کہ فارسی کی جگہ انگریزی زبان کو رائج کیا ۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج امریکا، یورپ، برطانیہ ہمارے دل میں بستے ہیں باوجود اس کے انھوں نے ہمیں تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ مغرب سے جو ہم نے حاصل کیا اس سے کہیں زیادہ گنوایا۔
چند سو سال میں دنیا کیا سے کیا ہو گئی، تحریک احیائے علوم سے آج تک امریکا یورپ کی علمی برتری نے دنیا کو اپنے قبضے میں لے کر مکمل فتح حاصل کر لی، مسلمان ہر شعبہ زندگی میں مغرب کے ہاتھوں یرغمال بن کر رہ گئے۔ آج ترکی، ایران ہو یا پاکستان وہ سامراجی نگاہوں میں اس لیے کھٹکتے ہیں کہ ان میں بدترین حالات کے باوجود اتنی صلاحیت ہے کہ وہ آج بھی مسلمانوں کو علمی پس ماندگی سے باہر نکال سکتے ہیں۔
تو بات ہو رہی تھی وزیر اعظم عمران خان کے دورہ ایران کی جس میں انھوں نے بتایا کہ میں جب پہلی بار تہران آیا تو اس وقت طالب علم تھا ۔1972 میں ایران میں امیروں، غریبوں کے درمیان بہت فرق دیکھا، آج تفریق بہت حد تک کم ہو چکی ہے۔ یہ انقلاب کا نتیجہ ہے۔ ایرانی معاشرے میں مساوات ہے اور یہ سب انقلاب کی بدولت ممکن ہوا ہے، ہم ایران کے اسلامی انقلاب کی حمایت کرتے ہیں اور نئے پاکستان کو بھی ایسے ہی انقلاب کی تلاش ہے۔ انھوں نے کہا کہ دونوں ممالک اپنی سرزمین پر دہشتگرد سرگرمیوں کی اجازت نہیں دیں گے۔ دہشتگردی نے دونوں ممالک کے درمیان دوریاں پیدا کی ہیں، ان فاصلوں کو ختم کرنے کے لیے ایران آیا ہوں۔
پاکستان طویل مدت سے توانائی کے شدید بحران سے دوچار ہے۔ ایران سے متصل پاکستانی بلوچستان کے سرحدی علاقوں کو ایران پہلے ہی سے بجلی مہیا کر رہا ہے۔ حالیہ دورے میں ایران نے اعلان کیا ہے کہ وہ دس گنا زیادہ بجلی فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔ نہ صرف بجلی بلکہ ایرانی صدر نے اعلان کیا ہے کہ وہ پاکستان کی تیل اور گیس کی ضروریات بھی پوری کریں گے۔ گزشتہ سردیوں میں یہ حال تھا کہ پاکستانی عوام کو چند گھنٹوں کے لیے بھی بمشکل گیس میسر ہوتی تھی۔ اگر ایران پاکستان گیس منصوبہ امریکی پابندیوں کا شکار نہ ہوتا تو نہ صرف پاکستانی عوام کو وافر سستی گیس میسر ہوتی بلکہ ہمارے بے شمار بند کارخانے بھی چل پڑتے۔ پاکستانی عوام کا طویل مدت سے بڑا مسئلہ بجلی، تیل اور گیس ہے۔ جب تک ہمیں وافر مقدار میں یہ تینوں چیزیں سستی میسر نہ ہوں ہماری معیشت کا پہیہ نہیں چل سکتا نہ ہی ہم بدترین معاشی بحران سے نکل سکتے ہیں۔ ایران یہ تینوں چیزیں سستے داموں ہمیں مہیا کر سکتا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے اس دورے میں ایرانی سپریم لیڈر سید علی خامنہ ای سے بھی ملاقات کی، سپریم لیڈر نے کہا کہ برطانوی سامراج نے اسلامی تہذیب و تمدن کو نابود کر کے اس علاقے کو بہت نقصان پہنچایا۔ انھوں نے کہا دونوں ملکوں کے درمیان اچھے تعلقات ان کے مفاد میں ہیں لیکن ان تعلقات کے دشمن بھی ہیں۔ دشمنوں کی خواہشات کے برخلاف تہران، اسلام آبادکے روابط فروغ پانے چاہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے بھی تہران مذاکرات کو تعمیر ی اور اطمینان بخش بتایا اور کہا کہ ان مذاکرات میں بہت سے مسائل حل ہو گئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ بعض قوتیں نہیں چاہتی کہ ایران پاکستان ایک دوسرے کے قریب ہوں لیکن ہم مشکلات پر غلبہ پاسکتے ہیں۔ کوشش کریں گے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات پہلے سے بھی زیادہ مستحکم ہوں۔
وزیر اعظم نے کہا کہ میرے دورے سے پاک ایران تعلقات میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے۔ وزیر اعظم کا موجودہ دورہ اس تین روزہ دورہ ایران کا تسلسل ہے جو موجودہ آرمی چیف نے2017 کے آخر میں کیا تھا۔ اُس دورے میں بھی پاکستان نے یہ یقین دہانی کروائی تھی کہ پاکستان ایران کے خلاف کسی اتحاد کا حصہ نہیں بنے گا۔ موجودہ دورے میں بھی وزیر اعظم عمران خان نے اس یقین دہانی کا پھر اعادہ کیا۔
امریکا، اسرائیل ہر صورت ایران کو تباہ کرنا چاہتے ہیں جب کہ امریکا پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا خاتمہ چاہتا ہے۔ اگر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو نقصان پہنچتا ہے تو پاکستان بھوٹان، نیپال کی طرح بھارت کی ذیلی ریاست بن کر رہ جائے گا۔ اس سامراجی سازش سے صرف اُسی وقت بچا جاسکتا ہے جب پاکستانی عوام اس سازش کو سمجھ جائیں لیکن اس عالمی سازش سے بچنا آسان نہیں کیونکہ پاک ایران دوستی کے دشمن بھی بہت طاقتور ہیں۔
حالات کس قدر خطرناک ہیں اس کا اندازہ اس سے لگا ئیں کہ جیسے ہی وزیر اعظم عمران خان کا دورہ ایران مکمل ہوا۔ امریکا نے اقتصادی پابندیوں کی دھمکی دیتے ہوئے ایران سے تیل خریدنے والے ممالک کا استثنیٰ ختم کر دیا جس میں جاپان، جنوبی کوریا ، چین، بھارت، ترکی سمیت 8ممالک شامل ہیں۔ جب کہ ایران نے امریکی پابندیوں کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم اگر تیل نہیں بیچ سکیں گے تو کوئی بھی نہیں بیچ سکے گا۔ ہم آبنائے ہرمز کو بند کر کے دنیا کی تیل کی40 فیصد سپلائی بند کر دیں گے۔
پلوامہ حملے کے بعد بھارتی حکومت کا ایران پر شدید دباؤ تھا کہ ایران بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف اقدامات کرے لیکن ایران نے انکار کر دیا۔ دوسری طرف ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے پاکستان کے خلاف بیان دینے پر پاسداران انقلاب کے سربراہ میجر جنرل محمد علی جعفری کو عہدے سے ہٹا دیا کیونکہ انھوں نے پاسداران انقلاب پر حملے کے بعد پاکستان کے اندر کاروائی کی دھمکی دی تھی۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایرانی قیادت پاکستان ایران دوستی کی حفاظت کے لیے کس حد تک جا سکتی ہے۔
سیل فون:0346-4527997
وزیر اعظم عمران خان نے پچھلے ہفتے ایران کا دورہ کیا، مشترکہ پریس کانفرنس میں انھوں نے کہا کہ جس طرح میری اور میرے وفد کی مہمان نوازی کی گئی اس پر ایرانی صدر کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ برصغیر کی ماضی کی تاریخ میں جاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اگر برطانیہ ہندوستان نہ آتا تو ایرانی صدر کو مترجم کی ضرورت نہ پڑتی کیونکہ اُس وقت ہم سب فارسی بولتے تھے۔ ہندوستان میں600 سال تک عدالتی زبان فارسی تھی۔ مغل دور میں سرکاری اور تہذیبی زبان فارسی تھی۔ نہ صرف مسلمان بلکہ ہندو بھی گھروں میں فارسی بولتے تھے۔ آج فارسی زبان جاننے والے نہ ہونے کے برابر ہیں۔
انگریزوں نے برصغیر پر قبضے کے بعد پہلا کام یہ کیا کہ فارسی کی جگہ انگریزی زبان کو رائج کیا ۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج امریکا، یورپ، برطانیہ ہمارے دل میں بستے ہیں باوجود اس کے انھوں نے ہمیں تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ مغرب سے جو ہم نے حاصل کیا اس سے کہیں زیادہ گنوایا۔
چند سو سال میں دنیا کیا سے کیا ہو گئی، تحریک احیائے علوم سے آج تک امریکا یورپ کی علمی برتری نے دنیا کو اپنے قبضے میں لے کر مکمل فتح حاصل کر لی، مسلمان ہر شعبہ زندگی میں مغرب کے ہاتھوں یرغمال بن کر رہ گئے۔ آج ترکی، ایران ہو یا پاکستان وہ سامراجی نگاہوں میں اس لیے کھٹکتے ہیں کہ ان میں بدترین حالات کے باوجود اتنی صلاحیت ہے کہ وہ آج بھی مسلمانوں کو علمی پس ماندگی سے باہر نکال سکتے ہیں۔
تو بات ہو رہی تھی وزیر اعظم عمران خان کے دورہ ایران کی جس میں انھوں نے بتایا کہ میں جب پہلی بار تہران آیا تو اس وقت طالب علم تھا ۔1972 میں ایران میں امیروں، غریبوں کے درمیان بہت فرق دیکھا، آج تفریق بہت حد تک کم ہو چکی ہے۔ یہ انقلاب کا نتیجہ ہے۔ ایرانی معاشرے میں مساوات ہے اور یہ سب انقلاب کی بدولت ممکن ہوا ہے، ہم ایران کے اسلامی انقلاب کی حمایت کرتے ہیں اور نئے پاکستان کو بھی ایسے ہی انقلاب کی تلاش ہے۔ انھوں نے کہا کہ دونوں ممالک اپنی سرزمین پر دہشتگرد سرگرمیوں کی اجازت نہیں دیں گے۔ دہشتگردی نے دونوں ممالک کے درمیان دوریاں پیدا کی ہیں، ان فاصلوں کو ختم کرنے کے لیے ایران آیا ہوں۔
پاکستان طویل مدت سے توانائی کے شدید بحران سے دوچار ہے۔ ایران سے متصل پاکستانی بلوچستان کے سرحدی علاقوں کو ایران پہلے ہی سے بجلی مہیا کر رہا ہے۔ حالیہ دورے میں ایران نے اعلان کیا ہے کہ وہ دس گنا زیادہ بجلی فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔ نہ صرف بجلی بلکہ ایرانی صدر نے اعلان کیا ہے کہ وہ پاکستان کی تیل اور گیس کی ضروریات بھی پوری کریں گے۔ گزشتہ سردیوں میں یہ حال تھا کہ پاکستانی عوام کو چند گھنٹوں کے لیے بھی بمشکل گیس میسر ہوتی تھی۔ اگر ایران پاکستان گیس منصوبہ امریکی پابندیوں کا شکار نہ ہوتا تو نہ صرف پاکستانی عوام کو وافر سستی گیس میسر ہوتی بلکہ ہمارے بے شمار بند کارخانے بھی چل پڑتے۔ پاکستانی عوام کا طویل مدت سے بڑا مسئلہ بجلی، تیل اور گیس ہے۔ جب تک ہمیں وافر مقدار میں یہ تینوں چیزیں سستی میسر نہ ہوں ہماری معیشت کا پہیہ نہیں چل سکتا نہ ہی ہم بدترین معاشی بحران سے نکل سکتے ہیں۔ ایران یہ تینوں چیزیں سستے داموں ہمیں مہیا کر سکتا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے اس دورے میں ایرانی سپریم لیڈر سید علی خامنہ ای سے بھی ملاقات کی، سپریم لیڈر نے کہا کہ برطانوی سامراج نے اسلامی تہذیب و تمدن کو نابود کر کے اس علاقے کو بہت نقصان پہنچایا۔ انھوں نے کہا دونوں ملکوں کے درمیان اچھے تعلقات ان کے مفاد میں ہیں لیکن ان تعلقات کے دشمن بھی ہیں۔ دشمنوں کی خواہشات کے برخلاف تہران، اسلام آبادکے روابط فروغ پانے چاہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے بھی تہران مذاکرات کو تعمیر ی اور اطمینان بخش بتایا اور کہا کہ ان مذاکرات میں بہت سے مسائل حل ہو گئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ بعض قوتیں نہیں چاہتی کہ ایران پاکستان ایک دوسرے کے قریب ہوں لیکن ہم مشکلات پر غلبہ پاسکتے ہیں۔ کوشش کریں گے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات پہلے سے بھی زیادہ مستحکم ہوں۔
وزیر اعظم نے کہا کہ میرے دورے سے پاک ایران تعلقات میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے۔ وزیر اعظم کا موجودہ دورہ اس تین روزہ دورہ ایران کا تسلسل ہے جو موجودہ آرمی چیف نے2017 کے آخر میں کیا تھا۔ اُس دورے میں بھی پاکستان نے یہ یقین دہانی کروائی تھی کہ پاکستان ایران کے خلاف کسی اتحاد کا حصہ نہیں بنے گا۔ موجودہ دورے میں بھی وزیر اعظم عمران خان نے اس یقین دہانی کا پھر اعادہ کیا۔
امریکا، اسرائیل ہر صورت ایران کو تباہ کرنا چاہتے ہیں جب کہ امریکا پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا خاتمہ چاہتا ہے۔ اگر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو نقصان پہنچتا ہے تو پاکستان بھوٹان، نیپال کی طرح بھارت کی ذیلی ریاست بن کر رہ جائے گا۔ اس سامراجی سازش سے صرف اُسی وقت بچا جاسکتا ہے جب پاکستانی عوام اس سازش کو سمجھ جائیں لیکن اس عالمی سازش سے بچنا آسان نہیں کیونکہ پاک ایران دوستی کے دشمن بھی بہت طاقتور ہیں۔
حالات کس قدر خطرناک ہیں اس کا اندازہ اس سے لگا ئیں کہ جیسے ہی وزیر اعظم عمران خان کا دورہ ایران مکمل ہوا۔ امریکا نے اقتصادی پابندیوں کی دھمکی دیتے ہوئے ایران سے تیل خریدنے والے ممالک کا استثنیٰ ختم کر دیا جس میں جاپان، جنوبی کوریا ، چین، بھارت، ترکی سمیت 8ممالک شامل ہیں۔ جب کہ ایران نے امریکی پابندیوں کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم اگر تیل نہیں بیچ سکیں گے تو کوئی بھی نہیں بیچ سکے گا۔ ہم آبنائے ہرمز کو بند کر کے دنیا کی تیل کی40 فیصد سپلائی بند کر دیں گے۔
پلوامہ حملے کے بعد بھارتی حکومت کا ایران پر شدید دباؤ تھا کہ ایران بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف اقدامات کرے لیکن ایران نے انکار کر دیا۔ دوسری طرف ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے پاکستان کے خلاف بیان دینے پر پاسداران انقلاب کے سربراہ میجر جنرل محمد علی جعفری کو عہدے سے ہٹا دیا کیونکہ انھوں نے پاسداران انقلاب پر حملے کے بعد پاکستان کے اندر کاروائی کی دھمکی دی تھی۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایرانی قیادت پاکستان ایران دوستی کی حفاظت کے لیے کس حد تک جا سکتی ہے۔
سیل فون:0346-4527997