حکومتی بے حسی قدیمی عمارت مولوی مسافر خانہ شکست و ریخت سے دوچار

وکٹورین طرز تعمیرکے127سال پرانے مولوی مسافر خانہ کی عمارت کے درودیوار،چوبارے،جھروکے اپنا اصل روپ کھو چکے

قدیمی عمارت کے قریب تجاوزات کی بھرمار اور بے ہنگم تعمیرات کو نہ روکا گیا تو مسافرخانے کا تذکرہ کتابوں میں ہی رہ جائے گا

ایم اے جناح روڈ پر قدیم عمارت مولوی مسافر خانہ (مولوی مولا ڈینا دھرم شالہ) گزرتے ماہ و سال کے دوران شکست و ریخت کا شکار ہوگیا ہے، قیام پاکستان سے لگ بھگ 54 سال قبل تعمیر ہونے والی عمارت اپنے دامن میں ان گنت سنہری یادیںسمیٹے ہوئے ہے،127سالہ مولوی مسافر خانہ کی تاریخی عمارت بتدریج تباہی کا نوحہ پڑھ رہی ہے۔

وکٹورین طرز تعمیر کی اس عمارت کے درودیوار، چوبارے، جھروکے تباہ حالی کی وجہ سے اپنا اصل روپ کھوچکے ہیں، قدیمی عمارت کے قریب تجاوزات کی بھرمار اور بے ہنگم تعمیرات کو نہ روکا گیا تو مولوی مسافر خانے کا تذکرہ صرف ماضی کے اوراق ہی میں رہ جائے گا، اس مسافرخانیکی تعمیر کا مقصد حجاز مقدس کا رخت سفر باندھنے والے حجاج اور دورافتادہ علاقوں سے آنیوالے غریب مسافروں کو مفت میں قیام کی سہولت مہیا کرنا تھا۔

مسافرخانے کے قریب 60سال سے دروازے کھڑکیوں کی تنکوں سے بنی چق اور چٹائیاں بننے والے منظور چاچا نے بتایاکہ قیام پاکستان کے وقت جہاں اور عمارتوں میں لوگ آکر آباد ہوئے وہیں اس دھرم شالے میں بھی شہریوں نے اپنی جھونپڑیاں بنا لی تھیں، وقت کے ساتھ ساتھ یہاں کے مکینوں نے ان جھونپڑیوں کو پکے مکانوں میں تبدیل کردیا، مولوی مسافرخانے کی بوسیدہ اور خستہ حال عمارت کے صدر دروازے کے عین اوپر نصب مولوی مولا ڈینا دھرم شالہ کا نام اور اس کا سالخوردہ دروازہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہاں کسی زمانے میں مسافرخانہ ہوا کرتا تھا، مگر اب اس کے نام کا دھندلا سا عکس ماربل کے کتبے پر رہ گیا ہے۔

ماضی میں ٹھیلے اور تانگے والے مسافر خانے کی گلیوں میں آزادانہ آتے تھے،منور علی
مولوی مسافرخانے کے قریب رہائشی مکانات میں پیدا ہونے والے عمررسیدہ منورعلی کا کہنا تھا کہ ان کے ذہن میں بچپن کی بہت ساری یادیں محفوظ ہیں جب مولوی مسافرخانہ اپنے پورے آب وتاب کے ساتھ موجود تھا ان کا کہنا تھا کہ اس دور میں شہر میں آج کی طرح پٹرول و ڈیزل سے چلنے والی گاڑیوں کی بھرمار نہیں تھی لوگ سفر کیلیے گھوڑوں اوراونٹوں پر سفر کرتے تھے، منور علی نے بتایا انھیں یہ اچھی طرح یاد ہے کہ پھل اور دیگر چیزیں فروخت کرنیوالے ٹھیلے اور چھابڑی فروش مولوی مسافر خانے کے اندر تک چلے جاتے تھے آج کی یہ تنگ و تاریک گلیاں اس دور میں بہت کشادہ ہواکرتی تھیں اونٹ گاڑی اور تانگے والے مولوی مسافر خانے کے اطراف کی گلیوں میں آزادانہ چلے جاتے تھے مگراب تو یہاں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہے، مولوی مسافر خانے کے بالکل سامنے ایک گورا قبرستان ہواکرتا تھا جبکہ اس ملحقہ مقام پر گھوڑوں کے پانی اور چارے کے پیائو بھی ہوا کرتے تھے مگراب یہ تمام باتیں ماضی کا قصہ بن چکی ہیں۔

1955 تک مولوی مسافر خانہ اپنی اصل حالت میں موجود تھا
چیئرمین مینجمنٹ کمیٹی فارسندھ سینٹرل ریکارڈ اور ماہر آثارقدیمہ ڈاکٹر کلیم اللہ لاشاری کے مطابق سندھ میں تاریخی عمارتوں کو تحفظ دینے کا قانون 1994میں بنا جس کے بعد تمام تاریخی نوعیت کی عمارتوں کو ثقافتی ورثہ قراردے کر ان کو محفوظ قراردیا گیا مگر اس سے قبل بلدیاتی اداروں کی لاپروائی سے ان عمارتوں کے اندورن وبیرونی حصوں میں رہائشی وتجارتی تجاوزات کی بھرمار نے ان کی اصل شکل بگاڑ دی جس میں ایک عمارت مولوی مسافرخانہ بھی ہے۔


جس میں نہ صرف اندر بلکہ لب سڑک چاروں اطراف سے کارخانوں اور دکانوں کی بھرمار ہے، کلیم اللہ لاشاری کے مطابق سن 1955 تک مولوی مسافر خانہ اپنی اصل حالت میں موجود تھا اور یہاں لوگ ماضی کی طرز پر قیام کرتے تھے تاہم بعد کے برسوں میں یہاں تجارتی سرگرمیاں شروع ہو گئیں، تاریخ کے اوراق سے یہ پتہ چلتا ہے کہ مولوی مسافر خانے کا قیام دوردراز کا سفر طے کرکے آنے والے ان کم آمدنی والے اور سفید پوش افراد کے قیام کے لیے عمل میں لایاگیا تھا جو مہنگے ترین ہوٹلوں میں نہیں ٹھہر سکتے تھے۔

ان کا کہناتھا کہ قیام پاکستان سے قبل شہر میں پیلس، سینٹرل اور پرنس نامی تین ہوٹل ہوا کرتے تھے جن میں قیام ہرفرد کے لیے ممکن نہیں تھا جیمز اسٹریچن نے مولوی مسافرخانے کا نقشہ بنایا جبکہ حاجی محمد مولاڈینا نے مولوی مسافرخانے کی تعمیر پر آنے والی آدھی لاگت اپنے ذمے لے لی جبکہ باقی کا تخمینہ اس وقت کی میونسپلٹی نے اداکیا ایک قابل ذکر بات یہ ہے کہ حاجی محمد مولاڈینا ٹھیکدار بھی تھے انھوں نے مولوی مسافر خانے کی تعمیراتی کام کے دوران مزدوری اور دیگرکاموں کا کوئی معاوضہ نہیں لیا، ڈاکٹر کلیم لاشاری کے مطابق ان تاریخی عمارتوں کی بحالی ناممکن نہیں، برطانوی راج کی وکٹورین طرز تعمیر اور ان عمارتوں میں استعمال ہونے والے پتھر کے ماہر اب بھی موجود ہیں۔

پانی کے جہازوں سے حج پرجانیوالے حجاج مسافر خانے میں ٹھہرتے تھے، کاتب مبشر
مولوی مسافرخانے کی نچلی جانب تجاوزات کی وجہ سے تنگ سی گلی میں خوش نویسی کا کام کرنے والے کاتب مبشر کے مطابق ان کی دکان سن 70سے قائم ہے انھوں نے اپنی دکان کی بیرونی دیوار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ یہ مولوی مسافرخانے کی زرد پتھروں سے بنی اصل دیوار ہے جس میں ڈیڑھ صدی کے دوران ہونے والے چونے و رنگ نے اصل شکل ماند کر دی، مبشر کے مطابق وہ اپنے اجداد سے یہ سنتے آرہے ہیں کہ جن دنوں لوگ پانی کے جہازوں کے ذریعے حج پر روانہ ہوتے تھے تو بڑی تعداد میں حجاج مولوی مسافر خانے میں قیام کرتے تھے اور اس کے علاوہ دیگر کاموںکے لیے کراچی آنے والے مسافر بھی بڑی تعداد میں مولوی مسافرخانہ میں قیام کرتے تھے۔

مسافرخانے میں دکانیں، مکان اورکارخانے بن گئے
برصغیر کی تقسیم کے بعد یوں تو سمندر کے کنارے آباد کراچی کے حصے میں برطانوی راج کی زردپتھروں اور وکٹورین طرز تعمیر کی ان گنت عمارتیں آئیں جو قیام پاکستان سے قبل انگریزوں، ہندوئوں اور پارسی برادری کی میراث ہوا کرتی تھیں ان ہی عمارتوں میں پیلے پہاڑی پتھروں سے مہارت اور ہنرمندی سے تراشی گئی بندر روڈ پر لب سڑک بنے مولوی مسافر خانہ کے نام سے دھرم شالہ بھی تھا اس سرائے نما مولوی مسافرخانے کو حاجی محمد مولاڈینا نامی شخص نے قیام پاکستان سے لگ بھگ 54 سال قبل سن 1893 میں اس دور کی شہری انتظامیہ کے ساتھ مل کر تعمیر کرایا تھا۔

اس دھرم شالہ یا سرائے کا اولین مقصد غریب مسافروں کو رہائش کی سہولت فراہم کرنا تھا شہر کی قدیم تاریخ بتانے والوں کے مطابق یہ عمارت ان مسافروں کا جائے مسکن ہوا کرتی تھی جو تجارت، ملازمت یا پھر کسی دوسرے ضروری کام کی غرض سے غیرمنقسم ہندوستان سے کراچی کا رخ کرتے تھے اور یہاں قیام پذیر ہوتے تھے۔

ان مسافروں یا پردیسیوں کا عمارت میں قیام بالکل مفت ہوا کرتا تھا، 127 برس سے قائم اس مسافرخانے کے اندرونی حصے میں اب درجنوں کے قریب مکانات اور کارخانے ہیں جبکہ اس کے بیرونی حصے میں جوتوں کے تلوے، چمڑے کے کارخانے، سلائی مشینیں مرمت کرنے کی دکانیں، ریگزین، وال پیپر، عطر اور قبروں کے کتبے بنانے والوں کی دکانیں ہیں، بے ہنگم تعمیرات کی وجہ سے اس عمارت کی اصل شکل ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی، مولوی مسافرخانے کی حدود میں موجود دکانداروں نے بتایا کہ جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو یہ کھلی جگہ تھی جہاں ہجرت کرنے والے افراد نے ڈیرے ڈالے اور اس کے بعد اس مسافرخانے کی شکل بدل گئی، حکومتوں نے اس تاریخی ورثے کو نظرانداز کیا جس کی وجہ سے گزرتے ماہ وسال کے دوران یہ ورثہ مسلسل تباہ ہو رہا ہے۔
Load Next Story