ایک سفر باب الاسلام کے تاریخی مقامات کا آٹھویں قسط
آگے بڑھنے سے پہلے یہ بلاگز بھی ضرور پڑھیے:
ایک سفر باب الاسلام کے تاریخی مقامات کا (پہلی قسط)
ایک سفر باب اسلام کے تاریخی مقامات کا (دوسری قسط)
ایک سفر باب الاسلام کے تاریخی مقامات کا (تیسرا حصہ)
ایک سفر باب اسلام کے تاریخی مقامات کا (چوتھی قسط)
ایک سفر باب الاسلام کے تاریخی مقامات کا (پانچویں قسط)
ایک سفر باب الاسلام کے تاریخی مقامات کا (چھٹی قسط)
ایک سفر باب الاسلام کے تاریخی مقامات کا (ساتویں قسط)
میں جب اسٹیشن کے قریب پہنچا تو میرے سامنے چند چھوٹے چھوٹے کھانے کے ہوٹل تھے۔ یہ ہوٹل ریلوے اسٹیشن کی بھی پہچان ہیں۔ کھانے کے یہ ہوٹل گرماگرم کھانے مسافروں کو فراہم کررہے تھے، جن میں پراٹھے اور ٹھنڈی لسی کے لمبے لمبے گلاس گاہکوں کو پیش کیے جارہے تھے۔ ان چھوٹی چھوٹی دکانوں پر رش حد سے زیادہ تھا۔ ان ہوٹل مالکان نے فٹ پاتھ پر بھی قبضہ جمایا ہوا تھا۔ چھوٹی میز، کرسیاں مسافروں سے بھری ہوئی تھیں۔ گرمی اپنے جوبن پر تھی۔ کچھ دکاندار تیز تیز آواز میں بول رہے تھے 'گرمی بھگائو، لسی پیو'۔ مجھے یہ اندازہ تک نہ تھا اتنے بڑے شہر میں گائوں جیسا ناشتہ ملے گا۔
میں کینٹ اسٹیشن میں داخل ہوا تو لوگ لائن میں کھڑے ہوکر ٹکٹ لینے کا انتظار کررہے تھے، جبکہ کچھ لوگ تین چار دن ایڈوانس ٹکٹ لینے کے لیے کھڑے تھے۔ بقول ان کے، بعد میں ٹکٹ نہیں ملتا۔ سچ تو یہ ہے ریلوے نظام شیخ رشید کے دور میں بھی اچھا نہیں ہوسکا ہے۔ اس لیے ایڈوانس ٹکٹ لے کر مسافر سفر آرام سے کرنا چاہ رہے تھے۔
میں ریلوے اسٹیشن سے نکل کر ایک پرانی کھٹارا بس پر سوار ہوا۔ میری اگلی منزل جہانگیر کوٹھاری پریڈ تھی۔ یہ مقام کراچی کے خوبصورت ترین مقامات میں سے ایک ہے۔ کراچی میں سب سے خوبصورت اور قدرتی منظر ساحل سمندر ہے اور پھر ساحل کی موجوں سے لطف اندوز ہونے کا اپنا ہی مزہ ہے۔ ملک کے خوبصورت مقامات میں سے ایک سی ویو کراچی بھی ہے، جن میں ایک نام جہانگیر کوٹھاری پریڈ بھی شامل ہے۔ جہانگیر کوٹھاری پریڈ کے سامنے ایک خوبصورت گنبد ہے۔ یہ گنبد ہوابندر گنبد کہلاتا ہے اور جہانگیر کوٹھاری پریڈ کے چبوترے کے دائیں جانب موجود ہے۔ یہاں سے سمندر کی جانب ایک خوبصورت پارک کے خوبصورت مناظر دل میں اتر جاتے ہیں۔ یہ جگہ نہایت پرسکون ہے۔
جہانگیر کوٹھاری پریڈ کی طرز تعمیر سیاحوں کو اپنی طرف کھنچ لاتی ہے۔ اس کے سامنے بنی ہوئی خوبصورت سڑک دل میں اترتی ہے۔ گرمیوں کی شاموں میں یہاں میلے کا سماں بندھ جاتا ہے۔ اس شہر میں زندگی کی رفتار بہت تیز ہے۔ یہ جگہ باغ ابن قاسم کلفٹن کراچی کی تزئین وآرائش کے بعد رات کو دلکش مناظر پیش کرتی ہے۔
چند منٹ آگے سفر کیا تو سمندر کی لہریں انسانوں سے کھیل رہی تھیں، کبھی آگے تو کبھی پیچھے ہورہی تھی۔ صبح سے شام ہوتی گئی، لوگوں کا رش بڑھتا گیا، اونٹ اور گھوڑے کی سواری میں اضافہ ہوتا گیا۔ لوگ سمندر پر سمندر کی لہروں کی طرح آتے گئے۔ کوئی کسی کو نہیں جانتا تھا، سب سمندر کی لہروں سے کھیلنے میں مصروف تھے۔ زندگی کے دن کو رات اور رات کو دن بننے کی طرح لہریں آگے سے پیچھے ہوتی جاتی تھیں۔ ساحل پر پروفیشنل فوٹو گرافر بھی موجود تھے، جو فی الفور تصویر نکال کر دیتے تھے۔ گاہک بھی خوش، فوٹو گرافر بھی خوش۔ ہم نے بھی ایک ایسے فوٹوگرافر نے تصویر کھنچوائی، جس کا ایک بٹن دبانے سے ہماری رنگین تصویر باہر نکل آئی تھی۔ ہم اس ترقی کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔
کراچی میں گھومنے پھرنے کے لیے آمدورفت کے مختلف ذائع ہیں، جن میں رکشہ، کار، لوکل بسیں شامل ہیں۔ لوگوں کا ہجوم ان سواریوں پر ساحل سمندر کے قریب اتر رہا تھا۔ پورے کراچی میں پبلک بیت الخلا کی بہت کمی ہے۔ کراچی کی دو چیزیں ہمیشہ بہت مشہور رہی ہیں، ایک کھارے پانی کا سمندر اور دوسرا انسانوں کا سمندر۔ جو بھی ان دونوں سمندروں میں داخل ہوتا ہے، ڈوب جاتا ہے۔ کراچی کسی بھی حال میں ہو، تجارتی کاروباری اور معمولات زندگی دن رات جاری و ساری رہتے ہیں۔ کراچی کے حالات کتنے ہی کشیدہ ہوں لیکن سمندر اپنی موج مستی میں گنگناتا اور گاتا رہتا ہے اور اپنے پاس آنے والوں کو لبھاتا رہتا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔