بھارت کے ساتھ تنازعات کے حل کے لئے فراست کا مظاہرہ کرنا ہوگا

پاک بھارت کشیدگی اور امن کے امکانات کے عنوان سے منعقدہ ایکسپریس فورم میں ماہرین کا اظہار خیال


قیام پاکستان کے بعد سے ہی پاک بھارت تعلقات تنازعات کا شکار رہے۔فوٹو : فائل

قیام پاکستان کے بعد سے ہی پاک بھارت تعلقات تنازعات کا شکار رہے اس کی سب سے بڑی وجہ کشمیر کا تنازعہ ہے، قیام پاکستان کے فوری بعد دونوں ممالک میں کشمیر کے مسئلے پر پہلی جنگ شروع ہوگئی۔

جس میں کشمیر کا کچھ حصہ پاکستان کے پاس آیا جبکہ زیادہ تر حصے پر ابھی تک بھارت کا قبضہ ہے اسی مسئلے کی وجہ سے 1965ء اور 1971ء میں دو جنگیں اور کارگل کے مقام پر محدود جنگ ہوچکی ہے مگر یہ مسئلہ آج تک جوں کا توں ہے۔ پچھلے چند سالوں سے دونوں ممالک میں مذاکرات کے ذریعے تنازعات کو حل کرنے کی طرف پیش رفت کی، تاہم اس دوران بھی دونوں ممالک میں معاملات سردو گرم چلتے رہے، مسلم لیگ(ن) کی حکومت آنے کے بعد ایک دفعہ پھر سے مذاکرات کا عمل شروع کرنے کی کوششیں کی جارہی تھیں کہ لائن آف کنٹرول پر کشیدگی شروع ہوگئی۔

حالیہ پاک بھارت کشیدگی دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات پر کس حد تک اثر انداز ہوگی اس حوالے سے ''روزنامہ ایکسپریس'' نے پاک بھارت کشیدگی اور امن کے امکانات کے موضوع پر '' ایکسپریس فورم'' کا اہتمام کیاجس میں سابق وفاقی وزیر وامریکہ میں سابق پاکستانی سفیر سیدہ عابدہ حسین ، ورکرز پارٹی پاکستان کے صدر عابد حسن منٹو، عوامی نیشنل پارٹی کے سیکرٹری جنرل احسان وائیں، جماعت اسلامی پاکستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل ڈاکٹر فرید احمد پراچہ اور سابق کور کمانڈر منگلا لیفٹیننٹ جنرل(ر) غلام مصطفی نے اظہار خیال کیا۔ شرکاء کی گفتگو نذر قارئین ہے۔

سیدہ عابدہ حسین
(سابق وفاقی وزیر و امریکہ میں سابق پاکستانی سفیر)
بھارت اس خطے کی بڑی طاقت بن چکا ہے اور وہ دنیا کی چوتھی طاقت ہونے کا دعویٰ بھی کرتا ہے۔ طاقت کوئی بھی ہو اس کیلئے ہمسائیگی کا مسئلہ ہی ہوتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بھارت کا اپنی ہمسایہ ریاستوں پاکستان، نیپال، سری لنکا، بھوٹان اور بنگلہ دیش سب کے ساتھ ہمسائے کے طور پر سلوک تسلی بخش نہیں رہا۔ یہ بڑی پاورزکی نیچر ہے۔ ہمیں بھارت سے مذاکرات ضرور کرنے چاہئیں لیکن اس بڑی پاور کے ساتھ برابری کی سطح پر مذاکرات کرنے کی باتیں کرنا فکشن ہی ہے کیونکہ ہم خود کو اس کے برابر سمجھتے ہیں۔

میں کہتی ہوں کیا کبھی بھارت نے بھی ہمیں اپنے برابر سمجھا ہے۔ پاکستان کے حالات کی وجہ سے اسے دہشت گردی کا سنٹر سمجھا جا رہا ہے اور بدقسمتی سے ہندوستان سے بڑی پاورز بھی پاکستان کے ساتھ ہمدردی نہیں کررہیں۔ افغانستان میں تعینات ایک امریکی افسر نے اعتراف کیا کہ بھارتی رویہ پاکستان کے حوالے سے ہیلپ فل نہیں ہے۔ واجپائی کی لاہور آمد پر وزیراعظم پاکستان کے اصرار پر جب انہیں یادگار پاکستان پر لایاگیا تو وہاں انہوں نے بڑی دلچسپ بات کی کہ مجھ سے پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کو تسلیم کرتے ہو تو میں کہتا ہوں کہ میرے تسلیم کرنے کی بات نہیں بلکہ پاکستان ہے۔ پھر شاہی قلعے میں واجپائی کے ظہرانے میں جانیوالوں پر پتھراؤ کرایا گیا۔ نوازشریف تیسری بار وزیراعظم بنے ہیں تو نئی حقیقتیں ہمارے سامنے آچکی ہیں۔

انتہاپسندی اور دہشت گردی کے مسئلے پر پاکستان کو انٹرنل کلین اپ کرنا ہوگا۔ بھارت ہم پر الزام لگاتا ہے کہ کشمیر میں پاکستان نے انتہا پسند داخل کررکھے ہیں میں کہتی ہوں کہ گزشتہ آٹھ دس سالوں میں 50ہزار پاکستانیوں کو پاکستانیوں نے ہی مذہب کے نام پر قتل کیا۔ جنرل پرویزمشرف کی جانب سے اس کے دور میں لائن آف کنٹرول کو نظروں سے اوجھل کرنے (کنسیل) اور 1948ء کی قرارداد سے پیچھے ہٹنے کے فیصلے پر پاکستان میں کتنا احتجاج ہوا تھا اورکتنے لوگوں نے قربانیاں دی تھیں۔ پاکستان کو اس وقت اقتصادی اور خارجی بے پناہ مسائل درپیش ہیں ، ہمارے اپنے تینوں ہمسائیوں بھارت، ایران اور افغانستان کے ساتھ تعلقات معمول کے مطابق نہیں ہیں۔دنیا میں ہمیں نفرت کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ لاہور میں امریکہ نے اپنا قونصلیٹ بندکردیا ہے۔

دیگر اسلامی ممالک میں بھی امریکہ نے اکثر میں اپنے سفاتخانے اس لیے بند کردیئے ہیں کہ وہاں مذہب کے نام پر لوگوں کو مارا جارہا ہے۔ بھارت کو بھی یہ بات معلوم ہے کہ بین الاقوامی محاذ پر پاکستان کی پوزیشن کمزور ہے اس لیے وہ ہمیں دہشت گرد ثابت کرنے کی پوری کوشش کرتا ہے اور ہماری کسی بھی خامی کا وہ فائدہ اٹھاتا ہے۔ اس وقت بارڈر پر جو کشیدگی چل رہی ہے اس حوالے سے دو رائے نہیں کہ ہم سب امن چاہتے ہیں اور ہمارا پڑوسی ایک بڑی ریاست ہے جو ہم سے اقتصادی ، جمہوری اور آبادی کے لحاظ سے بھی بڑا آگے ہے۔ ہمارا اقتصادی گروتھ ریٹ 4فیصد سے بھی کم جبکہ اس کا 7فیصد سے زائد ہے۔ ہم معاشی لحاظ سے مفلوج ہیں، اقتصادی خسارہ ہمارا بڑا ہے تو میں معذرت کے ساتھ کہتی ہوں کہ ہم کیسے اس کے ساتھ برابری کی سطح پر مذاکرات کرسکتے ہیں۔

برابری کی بات کرکے ہم نہ جانے کس فکشن کی دنیا میں رہ رہے ہیں۔ میں نے بھارتی سفیر سے ایک ملاقات میں کہاکہ ہم سے اچھے تعلقات آپ کے اپنے مفاد میں ہیں۔ ہمارے ہاں بدقسمتی سے حکومتوں کی دلچسپی نہیں ہوتی اور نہ ہی ان میں جرات و صداقت پائی جاتی ہے کہ قوم کے سامنے حقیقت پسندی سے بات کرسکیں۔ آج ہم کہتے ہیں کہ بھارت نے پاکستانی دریاؤں پر ڈیم بنادیئے اور ہمارے پانی پر قبضہ کرلیا ، اس وقت ہمارے ارسا کے نمائندے جماعت علی شاہ سالہا سال تک بھارت جاکر اور بات کرتے اور یہاں آکر اور بیان دیا کرتے تھے اور بھارت کے ساتھ معاہدے کو انٹرنیشنل ٹریٹی میں ہم لے کر ہی نہیں گئے۔کیا جماعت علی شاہ کو کسی نے پوچھا اور وہ کہاں غائب ہوگئے۔

عابد حسن منٹو
(صدر عوامی ورکرز پارٹی)
آج سے چند سال پہلے تک جماعت اسلامی بھارت سے جنگ کیلئے ہر وقت تیار رہتی تھی مگر اب وہ جنگ سے احتراز کرتی ہے اور جنگ نہیں چاہتی ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بات اب ہماری سمجھ میںآگئی ہے کہ جنگ سے معاملات حل نہیں ہوسکتے بلکہ تباہی آسکتی ہے۔ امن کی بنیاد پر ہر چیزکو آگے بڑھانے کی بات کرنا مثبت پہلو ہے جو ہمارے لوگوں نے تجربے سے سیکھی۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ایٹم بم چلانے کیلئے نہیں بنائے جاتے صرف رکھنے اور ڈرانے کیلئے ہوتے ہیں، بھارت کے ساتھ ہمارے تنازعات ہیں یہ بھی سب جانتے ہیں لیکن وہ ہم سے بہت بڑا ملک ہے، ہم سے کافی زیادہ مستحکم ریاست ہے ، ان کے ہاں طویل جمہوریت اور معاملات کے حل کیلئے پارلیمنٹ ہے ۔ 18 ریاستوں کو 28ریاستوں میں انہوں نے جمہوری اور سیاسی طریقے سے تبدیل کرلیا۔



کہتے ہیں کہ ہمارے حکمرانوں نے بھارت کو دریا بیچ دیئے تو میں کہتا ہوں کہ بھارت کے اندر بھی جو دریا کئی ریاستوں سے گزرکر آتے ہیں ان کے اپنے مابین بھی پانی پر تنازعات ہیں۔ یورپ میں بھی پانی پر کشمکش ہوتی ہے لیکن دنیا نے اس معاملے پر قوانین بنالئے اور ہم بھارت کے ساتھ معاملات کو طے نہیں کرسکے۔ پاکستان کی سیاست کا تو دارومدار ہی اس بات پر رہا ہے اس میں فوج بھی شامل ہے جو یہاں سیاسی اورکاروباری ادارہ ہے، بینکنگ بھی کرتا ہے۔ سارے ملک کی باربرداری کا کام بھی فوجی ادارے این ایل سی کے قبضے میں ہے۔ جب یہاں سیاست کا ذکر آئے گا تو اس میں فوج کا ذکر بھی آئے گا کیونکہ اس کے اپنے مفادات ہیں۔ مجھے اس سے غرض نہیں کہ بھارت میں کیا ہورہا ہے۔ میرا سردرد یہ ہے کہ میرے ملکی حالات اس بات کا تقاضا ہی نہیں کرتے کہ ہم کوئی سٹینڈ لے سکیں۔ امریکہ دنیا بھر کے ممالک پر بھاری ہے۔ اس نے گلوبلائزیشن کے ذریعے ساری دنیا کی سیاست اور معیشت کو اپنی گرفت میں کررکھا ہے۔

ہماری سرشت میں ہے کہ قرضے لو اور کام چلاؤ، بدقسمتی سے ہمیں اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کا سلیقہ ہی نہیں آیا، ہم صرف نعرے بازی اچھی کرلیتے ہیں۔ میں اسی سرمایہ دارانہ نظام کی بات کرتا ہوں جس میں بھارت نے رہ کر ترقی کی لیکن ہم نے نہیں کی۔ ہمارے لوگوں کے اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی صلاحیت نہیں، ہمارے پاس غربت میں کمی کیلئے کوئی حل نہیں ۔ نوازشریف کی مسلم لیگ اقتدار میں آئی ہے ۔ نوازشریف تاجراور انڈسٹریل طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جس کی دو بنیادی ضروریات ہوتی ہیں کہ تجارت چلے، انڈسٹری بڑھے اور تجارتی رشتہ جوڑا جائے، خود اپنے ملک میں امن وامان کی ایسی کیفیت پیدا کی جائے کہ بیرونی سرمایہ کاری آئے اس لیے ان سے یہ توقع کی جاسکتی ہے اور بھارت سے صلح کی ان کی بنیادی وجہ یہی ہے۔ بھارت کے ساتھ ہمارے زمینی رشتے ہیں اس کے ساتھ اگر تجارتی رشتے ہمارے نہیں ہوں گے تو اس کے دروازے ہم پر بند ہوجائیں گے۔ یہ کہنا کہ تجارتی تعلقات سے بھارت ہم پر غالب ہوجائے گا ، یہ کوئی بات نہیں کیونکہ ہمارے تاجر بھی بڑے سیانے ہیں ۔

کوئی سیاسی جماعت کسی ملک میں بڑا سٹینڈ اس وقت تک نہیں لے سکتی جب تک کہ اس کے ادارے یعنی بیوروکریسی اور فوج ساتھ نہ ہو۔ ملک کو مضبوط کرنے کیلئے ہمارے ہاں طاقتور تحریک چاہیے تاکہ پارلیمنٹ طاقتور ہو جہاں موثر قانون سازی کی جاسکے اور ان سب باتوں کیلئے ذہنی نقطۂ نظر واضح اور شفاف ہونا چاہیے۔ بات یہ ہے کہ کیا مذہبی نفرتوں کے اس ملک میں ایک صحت مند جمہوری معاشرہ بنانے کیلئے ہم تیار ہیں۔ آج دنیا کے کئی ممالک میں ہماری طرح کے شدت پسند موجود ہیں جو صرف اپنے نقطۂ نظر کو ٹھیک مانتے ہیں ۔

کیا کبھی ہم نے یہ غور کیا کہ امت مسلمہ میں ہم کہاں کھڑے ہیں ، ہمارے حالات کیا ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ بھارت نے مشرقی پاکستان کو ہم سے جدا کیا یا نہیں ان سے پہلے ہم خود مشرقی پاکستان کو اس کے حقوق نہ دے کر الگ کرچکے تھے۔ یہی حال آج ہم بلوچستان میں کررہے ہیں ، ان کو ان کا سیاسی حق دیں ، یہاں کوئی طالبان والا معاملہ نہیں ۔ آج پاکستان اپنی اندرونی خرابیوں کی وجہ سے ٹوٹنے کے درپے ہے، اس وقت بھارت کو جواب دینا اور اپنے عوام کو بھڑکانا نہیں چاہیے بلکہ انہیں ترقی کے متعلق بتانا ضروری ہے۔

لیفٹیننٹ جنرل(ر) غلام مصطفی
(سابق کورکمانڈر منگلا)
کسی بھی مسئلے کو سمجھنے کیلئے پہلے اس کے تاریخی پس منظر کو دیکھنا ضروری ہوتا، تاریخی پس منظر کو سامنے رکھے بغیر کوئی مسئلہ صحیح طور پر سمجھنا ممکن نہیں ہوتا۔ پاک افغان خطہ بدقسمتی سے پچھلی کئی صدیوں سے مشکلات کا شکار رہا ہے اس میں مختلف حملہ آوروں نے نے یہاں مہم جوئی کرنے کی کوشش کی پہلے برطانیہ نے یہاں حملہ کیا، اس کے بعد روس یہاں حملہ آور ہوا اور اب امریکہ جنگ میںمصروف ہے ، یہ سب ایک گریٹ گیم کا حصہ ہے۔ اگر جغرافیائی طور پر دیکھیں تو پاکستان کا قیام ایک جغرافیائی حادثہ تھا جس کے تحت پاکستان معرض وجود میں آیا، اس کی جغرافیائی اہمیت بہت زیادہ ہے۔

اگر پاکستان، ہندوستان اور جنوبی ایشیائی ممالک کا نقشہ سامنے رکھیں اور اس میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان والی سرحدی لائن کو ہٹا کر دیکھیں تو چند چیزیں بہت واضح ہوجاتی ہیں اور نقشے میں اس لائن کو ہٹا کر دیکھیں تو انڈیا کا افغانستان، روس سے علیٰحدہ ہونے والی وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ ساتھ بحر ہند تک انڈیا کی براہ راست پہنچ ہوجاتی ہے، اس کے بعد کیسپیئن سی بھی اس کی پہنچ میں آجاتا ہے۔ عالمی تناظر میں اس وقت کیسپیئن سی کی بہت اہمیت ہے اور پوری دنیا کی نظریں اس کے قدرتی وسائل پر لگی ہوئی ہیں ، افغان جنگ کی وجہ بھی یہی ہے۔ تمام بڑی طاقتیں اس کے وسائل پر کنٹرول کرنا چاہتی ہیں۔ بھارت کے لئے افغانستان اور وسط ایشیائی ریاستوں کے بعد انڈونیشیا تک رستہ صاف ہوجاتا ہے اورانڈونیشیا پر انڈیا اپنا کنٹرول چاہتا ہے جس کا وہ کئی وفعہ دعویٰ بھی کرچکا ہے۔

کچھ عرصہ پہلے تک بھارت کی خواہش اور کوشش تھی کہ پاکستان کے بارڈر کو ختم کردیا جائے مگر اس میں وہ کامیاب نہیں ہوسکا اور اب اس کی کوشش ہے کہ اس بارڈر کو اتنا کمزور کردیا جائے کہ پاکستان اس کے خلاف مزاحمت نہ کرسکے اور وہ مسلسل اسی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے تاہم جنگ کیلئے خود کو تیار نہ کرنا بھی کسی طور پر ٹھیک نہیں ہے۔ امن کی خواہش بری نہیں مگر امن کیلئے جھکنا نہیں چاہیے۔ ہندوستان سے لڑ کر ہم شاید فائدہ حاصل نہ کرسکیں مگر ہندوستان کو اس حد تک بھی آنے نہیں دینا چاہیے کہ وہ ہمیں دبا کر اپنی من مرضی کرنا شروع کردے۔ اگر ہم امن چاہتے ہیں اور یہ ہماری خواہش ہے تو یہ فطری اور قدرتی نہیں بلکہ یہ اپنے آپ کو تباہ کرنے کے مترادف ہے کیونکہ بھارت نے کبھی بھی پاکستان کے خلاف کوئی بھی کارروائی کرنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ رہی بات کہ دہشت گردی کو چوتھی گریٹ گیم کے تناظر میں دیکھیں تو یہ جنگ 14پندرہ سال سے جاری ہے اور ہم خود کو جب تک اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں کرسکتے تب تک ہمیں ان مسائل سے دوچار ہوتے رہنا ہو گا ۔

ہمارے مسائل کا حل یہ ہے کہ مختلف بیرونی طاقتیں جو اس خطے میں مداخلت کررہی ہیں ہمیں خود کو اس سے علیٰحدہ کرلینا چاہیے، افغان عوام کو اپنی مرضی کرنے کی اجازت دینی چاہیے۔ افغسانستان میں مداخلت کرنے والی طاقتوں کو بھی مداخلت ختم کردینی چاہیے۔ یہ سب اسی وقت ممکن ہوگا جب ہماری سیاسی و فوجی قیادت ، معاشی قیادت اور ہر قسم کی قیادت ذاتی اور پارٹی ایجنڈے کو چھوڑکر قومی ایجنڈے پر کام کرنا شروع کردے۔ اس وقت ہم بکھرے ہوئے ہیں اگر ہم اکٹھے ہوجائیں تو ہم میں اتنی طاقت ہے کہ امریکہ اور ہندوستان سمیت پوری دنیا ہماری بات سنے گی بھی اور مانے گی بھی۔

ڈاکٹرفرید احمد پراچہ
(ڈپٹی سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی پاکستان)
بھارت کی پاکستان کے خلاف جارحیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 12دنوں میں بھارت نے 84دفعہ سرحدی خلاف ورزیاں کی ہیںاور کتنے ہی شہریوں کو شہیدکیا ہے اور ایک دن میں ہی 8سو گولے پھینکے ہیں۔ یہ سب اچانک نہیں ہو رہا ہے بلکہ اس کے پیچھے سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ اگلے سال بھارت کے انتخابات ہو رہے ہیں اور بھارتی سیاستدانوں کی سیاست میں پاکستان مخالفت پر رہی ہے۔ تمام بھارتی سیاسی جماعتیں جن میں وشوا ہندو پریشد، جنتا دل، بی جے پی اور شیو سینا سمیت دیگر جماعتوں کی بنیاد ہی پاکستان دشمنی پر ہے۔ دوسری طرف نواز شریف نے منتخب ہونے کے فوراً بعد بھارت کے ساتھ دوستی کی مہم شروع کردی ان کی یہی کوشش ہے کہ جتنا جلد ہو بھارت کے ساتھ دوستی ہوجائے ملک کے دیگر بڑے اور اہم مسائل دہشت گردی اور لوڈ شیڈنگ سمیت سب دیگر مسائل سب کو پس پشت ڈال دیا اور نواز شریف یہاں تک چلے گئے کہ انہوں نے اپنی حلف برداری کی تقریب میں منموہن سنگھ کو آنے کی دعوت دے دی جو اس نے قبول نہیں کی۔

دیکھنا یہ چاہیے کہ قوموں کا ایک وقار ہوتا ہے اور بھارت کی ایک تاریخ ہے کہ وہ ہمیشہ پاکستان کے خلاف رہا ہے اس کے سامنے ملک و قوم کا وقار مجروح کیا گیا۔ بھارت کی یہ عادت ہے کہ اس کے سامنے کمزوری دکھائی جائے تو وہ اوپر چڑھ جاتا ہے۔ منموہن جیسے سنجیدہ سیاستدان نے یہ بیان دیا ہے کہ پاکستان کو سبق سکھائیں گے حالانکہ ان سے اس طرح کے بیان کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی۔ اب تک پاکستان کے بھارت کے ساتھ مذاکرات کے 132دور ہوچکے ہیں بھارت نے ان میں آج تک مذاکرات میں مقبوضہ کشمیر کے مسئلے کو شامل نہیں کیا مگر ہمارے حکمران یہی کہتے ہیں کہ ہم نے مسئلہ کشمیر کو مذاکرات میں شامل کرا لیا ہے۔ اگر انڈیا نے کبھی بات کی بھی ہے تو صرف آزاد کشمیر پر بات کرتا ہے جو کہ متنازعہ علاقہ نہیں ہے۔

ہم نے ہمیشہ کشمیریوں کے ساتھ بے وفائی کی۔ بھارتیوں نے کشمیری یوم آزادی کو یوم سیاہ کے طور پر منایا مگر ہمارے حکمرانوں نے تو اب کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار بھی چھوڑ دیا ہے، بھارت کے یوم آزادی کو یوم سیاہ کے طور پر منا رہے تھے مگر میڈیا میں سارا دن اسلام آباد میں ایک شخص کی طرف سے کیا جانے والا ڈرامہ چلتا رہا کسی نے کشمیریوں کو نہیں دکھایا۔ اس کے علاوہ بھارت پاکستان کو بنجربنانے کیلئے ہمارے پانیوں پر قبضہ جماکر بیٹھا ہے اور ڈیم پر ڈیم بنائے جا رہا ہے، جب اس کا دل کرتا ہے بغیر اطلاع سیلابی ریلا چھوڑ دیتا ہے یا پھر ہمارا پانی روک لیتا ہے یہ وہ چیزیں ہیں جن کا ذکر اس وقت کے حکمران جب اپوزیشن میں تھے تو بڑھ چڑھ کر کیا کرتے تھے مگر اب حکومت میں آنے کے بعد کہیں ان کا ذکر بھی نہیں ہے۔

بھارت کا سب سے بڑا جرم یہ ہے اس نے ہمارے ملک کو دو ٹکڑے کردیا اتنی بڑی جارحیت کا کوئی ذکر نہیں کرتا ،آج بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے لوگ پاکستان کا ساتھ دینے پر سزائیں بھگت رہے ہیںاور یہاں ان کی تائید میں حکومتی سطح پر ایک لفظ نہیں کہا گیا۔ اب مختلف کتابوں میں یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ مکتی باہنی بھارت نے بنائی تھی اور اس وقت مشرقی پاکستان میں ہونے والی تخریب کاری کے پیچھے بھی وہی تھا مگر ہم نے کسی عالمی فورم پر اس معاملے کو نہیں اٹھایا۔ موجودہ حالات کے مطابق پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ پاکستان میں ہونے والی تخریب کاری ہے۔ اس وقت 29طالبان گروپ ہیں مگر ان کے پیچھے کون ہے اس میں کوئی شک و شبہے کی بات نہیں کہ ان کے پیچھے بھارت ہے مگر ہم اس پر بات نہیں کرتے، اگر بھارت کا بنایا ہوا دہشت گردی کا نیٹ ورک نہیں توڑتے تو دہشت گردی نہیں رک سکتی۔

اسلام آباد میں ایک شخص بندوق لے کر کھڑا ہوگیا اور کئی گھنٹے تک ہر طرف وہی موضوع بحث رہا اسی دن کشمیری بھارت کا یوم سیاہ منا رہے تھے، کنٹرول لائن پر بھارتی جارحیت جاری تھی اور مصر میں فوج نہتے مسلمانوں کا قتل عام کررہی تھی مگر ان سب کا مکمل بلیک آؤٹ ہوکر رہ گیا۔ ممبئی اٹیک اور بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کے بارے میں خود بھارتی افسران یہ اعتراف کرچکے ہیں کہ حملہ بھارتی اداروں نے خود کرایا تھا مگر اس کا کہیں ذکر نہیں اور ہمارے حکمرانوں نے اسے کسی عالمی فورم پر نہیں اٹھایا، سمجھوتہ ایکسپریس پر حملہ بھی ثابت ہوچکا کہ بھارت نے کرایا تھا اور اب بھارتی وزیر داخلہ یہ اعتراف کرچکے ہیں کہ بھارت میں دہشت گردی کی تربیت دینے والے کیمپ موجود ہیں جہاں سے پاکستان میں مداخلت کی جاتی ہے مگر اس پر کوئی بات نہیں ہوتی۔

حکومتوں کے فرائض مذمت کرنے سے حل نہیں ہو جاتے دہشت گردی کے خلاف جنگ ہماری اپنی ہو یا کسی کی اسے ختم ہونا چاہیئے۔ بھارت میں پاکستان کے خلاف ایک جنگی جنون پایا جاتا ہے جسے ہوا دی جاتی ہے، ان کے جنگی جنون کا اندازہ اس چیز سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہاں اگر پاکستان کا کرکٹ میچ ہو تو نعرے لگتے ہیں ڈھاکہ لیا ہے لاہور بھی لیںگے اور جتنے چھکے ماروگے اتنی گولیاں ماریں گے اس طرح کے ماحول میں ان سے مذاکرات کس بنیاد پر ہوسکتے ہیں۔ جنگ مسائل کا حل نہیں مگر مذاکرات سے آج تک کسی مسئلے کا حل نہیں نکلا۔ اس وقت بلوچستان میں مشرقی پاکستان کا کھیل کھیلنے کی کوشش کی جا رہی ہے ان سب چیزوں کو نظر انداز کرکے اگر ہم یہ کہیں کہ ہمارا کلچر ملتا ہے اس لیے مذاکرات کرنے چاہیئں تو یہ کسی طور پر درست نہیں سیاستدانوں کو سمجھ بوجھ کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

احسان وائیں
(مرکزی سیکرٹری جنرل عوامی نیشنل پارٹی)
پاکستان کے بارے میں یہ بات طے شدہ ہے کہ یہ مذہب کی بنیاد پر بنا تھا اور اس کے بانی چاہتے تھے کہ بھارت کے ساتھ تعلقات امریکہ اورکینیڈا کے باہمی تعلقات جیسے ہوں جہاں دونوں ملکوں کے مابین ویزا کی ضرورت نہ ہو مگر پاکستان بنانے والی لیڈر شپ رہی نہیں اور ان کے بعد کی لیڈر شپ اس اہل نہیں تھی کہ انڈیا کے ساتھ تعلقات کو بہترکرلیتی کہ دونوں میں جنگ نہ ہو مگر بدقسمتی سے یہ نہ ہو سکا اور انڈیا اور پاکستان دونوں نے اتنی بڑی بڑی فوج بنالی کہ ہم نے ایک دوسرے کے ساتھ لڑنا ہے اور یہ فوج سیاستدانوں نے ہی بنائی۔ دونوں ملک غریب تھے، عوام بھوک سے مر رہے تھے مگر اسلحہ سازی شروع کردی گئی، اگر بھارت نے ایک میزائل بنایا تو ہم نے دو بنا ڈالے، بھارت نے ایٹم بم بنایا تو جواب میں ہم نے بھی بناڈالا۔

ہمیں یہ دیکھنا چاہیے تھا کہ دو جنگوں سے ہم نے کچھ حاصل نہیں کیا بلکہ ملک دو لخت کرالیا ہمیں برابری کی سطح پربیٹھ کر مذاکرات کرنے چاہئیں۔ جب ہم جنگ کرنے کے بعد بھی میز پر بیٹھتے ہیں تو اس وقت تک بہت کچھ گنوا چکے ہوتے ہیں۔ 1971ء میں ہمیں روس جاکر صلح کرنی پڑی، آج ہم دہشت گردی کا شکار ہیں، چند دہشت گرد گروہوں نے 50ہزار لوگ شہید کردیئے ہیں، انہوں نے مسجدوں، امام بارگاہوںاور بچیوں کے سکولوں کو بھی تباہ کردیا۔ جب کوئی حکومت بھارت کے ساتھ برابری کی سطح پر بات چیت کرنا شروع کرے تو وہ حکومت نہیں کرسکتی۔ نواز شریف نے اپنے سابق دور حکومت میں بھارت کے ساتھ مذاکرات کرنے کی کوشش کی اور واجپائی پاکستان آئے تو مشرف نے ان سے ہاتھ ملانے سے انکار کردیا اور مشرف کا نواز حکومت کا تختہ الٹنا بھی اسی سلسلے کی کڑی تھاکہ دونوں ملکوں میں معاملات بہتر نہ ہوں۔

پھر 9سال مارشل لاء میں گزرگئے اب دوبارہ سے نواز شریف مذاکرات شروع کرنا چاہتے ہیں تو پاکستان میںبھی مذہبی جماعتیں اور بھارت میں بھی مذہب کی بنیاد پر بننے والی جماعتیں مثلاً بی جے پی، شیو سینا، جنتادل و دیگر پارٹیاں شور ڈال رہی ہیں۔ نواز شریف نے انتخابات میں جو منشور دیا اس میں بھارت سے معاملات طے کرنے کا ایجنڈا شامل تھااور الیکشن میں وہ عوام کو بتاتے رہے کہ وہ یہ کریں گے۔ عوام نے انہیں ووٹ دیا اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ صلح چاہتے ہیں۔ ملک میں غربت عام ہے، غریب بچے بچیاں مارے جا رہے ہیں، مائیں خود کشیاں کررہی ہیں تعلیم نہیں ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 1970کا الیکشن یہ نعرہ لگا کر جیتا تھا کہ اگر کشمیرکیلئے بھارت سے ایک ہزار سال بھی لڑنا پڑا تو لڑیں گے اس وقت عوام لڑائی چاہتے تھے اس لئے انہوں نے بھٹو کو ووٹ دیا اور اب لڑائی نہیں چاہتے اس لئے صلح کی بات کرنے والے نواز شریف کو ووٹ دیا۔ جب بھی بھارت کے ساتھ صلح کی بات چیت ہوتی ہے تو معاملات خراب کردیئے جاتے ہیں۔

کشمیری اپنے حق کے لئے لڑ رہے تھے اگر یہاں سے مجاہدین وہاں نہ جاتے تو وہ اب تک آزاد ہوچکے ہوتے مگر اب ایک لاکھ لوگ شہید ہوچکے ہیں مگر آزادی کہیں نظر نہیں آرہی۔ بھارت کے ساتھ برابری کی سطح پر مذاکرات ہونے چاہئیںکشمیر پر بھی اورپانی کے مسئلے پر بھی اور اس میں اپنے قومی مفاد کو مدنظر رکھنا چاہیئے۔ نواز شریف کے پاس اب وقت ہے اب فوج حکومت ختم نہیں کرسکتی جس طرح مشرف نے کردی تھی اس لئے وہ بھارت کے ساتھ معاملات کو طے کریں اور اور مذاکرات کے ذریعے امن قائم کریں۔ اگر بھارت کے ساتھ معاملات طے ہوجاتے ہیں تو افغانستان کے ساتھ بھی معاملات طے ہوجائیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔