پاکستانی فلم انڈسٹری کی بحالی

پاکستانی فلم انڈسٹری کی تباہی خود ان لوگوں کے ہاتھوں ہوئی ہے جو خودساختہ طور پر فلمی صنعت کے گاڈ فادر بنے ہوئے تھے۔

وزیر اعلیٰ پنجاب نے پاکستانی فلم انڈسٹری کی بحالی کے حوالے سے ایک نو رکنی کمیٹی بنائی ہے جو جلد ہی اپنی رپورٹ پیش کرے گی کہ فلم انڈسٹری کے تن مردہ میں کس طرح نئی روح پھونکی جائے۔۔۔؟۔۔۔بڑی اچھی بات ہے۔کمیٹی میں بہت معروف اور بڑے بڑے نام شامل ہیں۔ یہ ایسے نام ہیں جو لگی لپٹی رکھے بغیر ''دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی'' الگ کرکے ایک سچی لیکن تلخ رپورٹ ضرور پیش کریں گے۔۔۔ لیکن فلمی دنیا کو زندہ کرنے کے لیے جس دم ِعیسی کی ضرورت ہے وہ کہاں سے لائیں گے۔۔۔؟۔۔۔ پاکستانی فلم انڈسٹری کی تباہی خود ان لوگوں کے ہاتھوں ہوئی ہے جو خودساختہ طور پر فلمی صنعت کے ''گاڈ فادر'' بنے ہوئے تھے۔ ایک وقت وہ بھی تھا جب انڈیا اور پاکستان کی فلمیں آمنے سامنے کے سینما گھروں میں بیک وقت ریلیز ہوئی تھیں۔ اور دونوں رش لیتی تھیں۔

''قسمت'' تو انڈیا میں سلور جوبلی کرکے آئی تھی۔ جس میں اپنے زمانے کی نام ور اداکارہ مسرت نذیر نے کام کیا تھا۔ قسمت کے علاوہ سات لاکھ نوکر، قاتل اور گمنام بھی ایسی فلمیں تھیں جو آج تک لوگوں کو یاد ہیں۔ اور ان فلموں کے گیت باذوق لوگ آج بھی سنتے ہیں،پھر 65ء کی جنگ کے بعد انڈین فلموں کی نمائش روک دی گئی۔ یہی سب سے بڑی غلطی تھی،اب مقابلہ تو کسی سے تھا ہی نہیں۔ خود ہی کھلاڑی، خود ہی ریفری۔۔۔۔بھارتی فلموں پہ بندش کے بعد چوری کا ایک نیا باب کھل گیا۔ اب ڈائریکٹر، پروڈیوسر اپنے منشی کو لے کر کابل جاتے۔ وہاں بھارتی فلمیں دیکھتے، منشی ایسا کمال کہ پوری کہانی کے علاوہ پورے پورے مکالمے تک نوٹ کرلیتا تھا۔ اس صورت حال نے چربہ سازی کو خوب فروغ دیا۔۔۔۔پھر خوش قسمتی سے انڈین فلموں کے کیسٹ عام ہوگئے اور یوں ان کی چوری کھل گئی۔۔۔!!۔۔۔تب انھوں نے بدمعاشوں پہ فلمیں بنا کے اپنی ''انفرادیت'' قائم کرنی چاہی۔ لیکن یہ فلمیں انھی ''نام ور'' لوگوں کے خاندان والوں نے دیکھیں، جنہوں نے پیسہ لگایا تھا۔

ماضی کو یاد کیجیے تو بہت سی ایسی فلموں کے نام یاد آتے ہیں جو اپنی کہانی، اداکاری، موسیقی، گلوکاری اور ہدایت کاری کے حوالے سے ناقابل فراموش ہیں جیسے کوئل، نیند، فرنگی، انتظار، زہر عشق، جھومر، زرقا، ہیر رانجھا، پتن، صاعقہ، نائلہ، انسان اورآدمی، انصاف اور قانون، ناگ منی، لاکھوں میں ایک، موسیقار، انجمن، تہذیب، امراؤ جان ادا، سالگرہ اور خاموش رہو۔ یہ محمد علی صاحب کی پہلی فلم تھی اور ناقابل فراموش تھی ہر لحاظ سے ۔ ان میں سے دو تین کو چھوڑ کر تمام فلمیں ہم نے خیام سینما (جو اب شاپنگ سینٹر بن گیا ہے) ریوالی، ناز اور نشاط میں دیکھی تھیں۔ والد صاحب کو محمد علی زیبا اور مسرت نذیر بطور خاص پسند تھے۔ جب کوئی اچھی فلم آتی تو وہ ہفتہ کی رات آخری شو کی ایڈوانس بکنگ کروا کے ہم سب کو لے جاتے تھے۔ پی۔ای۔سی۔ایچ ایس والا خیام سینما ہمارے گھر سے خاصا قریب تھا۔ اس لیے ٹہلتے ہوئے جاتے اور ٹہلتے ہوئے واپس آجاتے تھے۔ اس وقت کا کراچی آج کے کراچی سے بہت مختلف تھا، گھروں کی چہار دیواریاں پانچ فٹ سے زیادہ بلند نہیں ہوتی تھیں، ہم لوگ بڑے آرام سے لان میں موتیا اور چنبیلی کے پہلو میں نواڑی پلنگوں پہ سوتے تھے۔ چاندنی راتوں میں کیسٹ پلیئر پہ نیم کلاسیکی موسیقی بھی سنی جاتی تھی۔ چوکیدار اپنے کمرے میں آرام کرتا تھا۔ صرف ایشین کتے کو کھلا چھوڑ دیا جاتا تھا۔ کوئی خوف اور ڈر نہیں تھا۔ اور نہ ہی گھروں کو آہنی گرل نے قید کیا ہوا تھا۔

جن کامیاب اور مشہور فلموں کا اوپر میں نے ذکر کیا ہے ان کی موسیقی ترتیب دینے والے اپنے شعبے کے مایہ ناز موسیقار تھے جیسے نثار بزمی، رشید عطرے، خواجہ خورشید انور وغیرہ۔ انجمن، تہذیب، امراؤ جان ادا تینوں فلمیں حسن طارق نے بنائی تھیں اور تینوں میں انھوں نے رانی کو ہیروئن لیا تھا جو اس سے پہلے ''منحوس'' سمجھی جاتی تھیں۔ لیکن حسن طارق نے اپنی مضبوط ڈائریکشن سے ثابت کردیا کہ رانی ایک باصلاحیت اداکارہ تھی۔ اس کی نحوست یہ تھی کہ اسے مضبوط کردار اور عمدہ ڈائریکٹر نہیں ملے تھے۔ان تینوں فلموں نے کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے تھے۔ سیف الدین سیف کے نغمات، رونا لیلیٰ کی مدھر اور پاٹ دار آواز اور نثار بزمی کی موسیقی نے ان فلموں کے نغموں کو لازوال بنادیا۔ حسن طارق نے ان فلموں سے پہلے ایک اور لازوال فلم ''نیند'' کے نام سے بھی بنائی تھی، جس میں نور جہاں اور اسلم پرویز نے مرکزی کردار ادا کیے تھے ۔ اور موسیقی ترتیب دی تھی رشید عطرے نے۔ جنہوں نے فلم ''موسیقار'' کی موسیقی بھی دی تھی۔ہیر رانجھا بھی اپنے زمانے کی نہایت مقبول فلم تھی، جس کی موسیقی خواجہ خورشید انور نے دی تھی۔اس فلم کی تعریف خواجہ احمد عباس نے بھی کی تھی اور اسے خراج عقیدت بھی پیش کیا تھا۔ یہ تینوں موسیقارتعداد کے بجائے معیار کو ترجیح دیتے تھے۔ انھوں نے کم فلموں میں میوزک دیا، لیکن تمام کی تمام ناقابل فراموش۔


سابقہ مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) میں بھی بہت معیاری اردو فلمیں بنیں، اس کی بنیادی وجہ ان کا اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونا، موسیقی کا عمل دخل عام زندگی میں اور ہیروئنوں کا اچھے ماحول سے آنا تھا۔ ان کی تمام اردو فلمیں، معیاری کہانی، اعلیٰ ہدایت کاری اور جاندار اداکاری کے باعث فلم بینوں میں بہت پسند کی گئیں۔ چکوری وہ پہلی اردو فلم تھی جس میں ندیم نے پہلی بار اداکاری کی اور ہیرو آئے۔ اسی طرح وہاں ایک ذہین اداکار و ڈائریکٹر تھے رحمن جنہوں نے ''ملن ''، ''کنگن'' اور ''درشن'' بنائی تھی۔ گلوکارہ رونا لیلیٰ اور اداکارہ شبنم کو اردو فلموں ہی سے شہرت ملی جو آج تک برقرار ہے۔ ''سنگم'' سابقہ مشرقی پاکستان کی پہلی رنگین فلم تھی۔ بنگلہ دیش بننے کے بعد وہاں کی فلمیں بھی آنا بند ہوگئیں۔ہدایتکاری میں نذرالسلام مشرقی پاکستان کا ایک بڑا نام تھا۔

ذاتی طور پر مجھے پاکستان کی تین فلمیں غیر معمولی طور پر پسند آئیں۔ خاموش رہو، انصاف اور قانون اور ''انسان اور آدمی''۔۔۔۔اول الذکر بلاشبہ ایک آرٹ مووی ہے، فلم ساز نے بڑی ہمت کرکے سماج کا وہ غلیظ چہرہ اس میں دکھایا ہے جو آج کل وجہ امتیاز ہے، باقی کی دونوں فلموں میں ایک پیغام ہے''دوسروں کے واسطے زندہ رہو۔''زیبا اور محمد علی نے یادگار کردار ادا کیے ہیں۔ تینوں فلمیں بامقصد ہیں لیکن مقصدیت کہیں بھی حاوی نہیں۔ بس خود بخود انسان اس سے اثر قبول کرتا ہے۔ یہی ان کی کامیابی کی دلیل ہے۔ پاکستانی فلم انڈسٹری میں فردوس، نورجہاں، نیر سلطانہ، صبیحہ، بہار، نغمہ، نیلو، رانی ، مسرت نذیر، زیبا اور تبسم آرا نے بطور ہیروئن راج کیا، جب کہ ہیروکے طور پر سنتوش، درپن، اکمل، اعجاز، شاہد، وحید مراد، ندیم اور محمد علی نے بھرپور راج کیا، مزاح میں کوئی بھی لہری سے آگے نہ نکل سکا، کیونکہ ان کا مزاح پھکڑپن سے عاری ہوتا تھا۔

اسی طرح گلوکاراؤں میں نورجہاں، ناہید نیازی،کوثر پروین،آئرین پروین، مالا، نسیم، رونا لیلیٰ، ناہید اختر اور مہناز نے اپنی آوازوں کا جادو جگایا۔ ایک بہت اہم اور معیاری فلم کا ذکر کرنا میں بھول گئی، یہ تھی ''چراغ جلتا رہا'' جسے فضل احمد کریم فضلی نے بنایا تھا، جو ایک ناول نگار بھی تھے ''خون جگر ہونے تک'' ان کا نمایندہ ناول ہے۔

اتنا روشن ماضی رکھنے کے بعد آج جو حال فلمی صنعت کا ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔ بنیادی نقص ان پڑھ لوگوں کا تسلط ہے۔ ادھر بھارتی فلم انڈسٹری کو دیکھیے تو پڑھی لکھی مہذب لڑکیوں کا جم غفیر ہے۔ ہمارا حال سب پر عیاں ہے۔ پہلے بھی ایک مخصوص علاقے سے ہیروئنیں پاکستانی فلموں آئی میں ہیں۔ لیکن انھوں نے کامیابی کے بعد خود کو سنبھال کر رکھا اور ایسی حرکتیں نہ کیں جو فلم انڈسٹری کی رسوائی کا باعث بنتی ہیں۔ لیکن آج کا منظرنامہ بالکل الگ ہے۔ نام نہاد ہیروئنیں اس مقولے پہ عمل پیرا ہیں۔۔۔کہ۔۔۔بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا۔۔۔بدنامی ہی آج شہرت کا زینہ ہے۔

دراصل لوگ معیاری اور سستی تفریح چاہتے ہیں۔ غیر معیاری اور عامیانہ فلموں نے لوگوں کو سینما گھروں سے دور کردیا۔ رہی سہی کسر کیبل نے پوری کردی۔ لیکن کیبل تو بھارت میں بھی ہے۔ لیکن میں نے وہاں مختلف شہروں میں سینما ہال بھرے دیکھے ہیں۔ ہم کتنی بھی کوشش کرلیں ہماری فلمی صنعت اب دوبارہ زندہ نہیں ہوسکتی، کیونکہ اس شعبے میں مخلص لوگوں کا قال ہے۔ پوری انڈسٹری پر ایک مخصوص گروہ راج کر رہا ہے جس کا بنیادی مقصد صرف پیسہ کمانا ہے خواہ طریقہ کوئی بھی ہو، فحاشی سے لبریز بدمعاشوں پر مبنی فلمیں ہوں یا عورتوں کی دلالی کرنا۔ ہر شعبہ زوال پذیر ہے۔ اب نہ کہانی کار ہے، نہ گلوکار، نہ موسیقار، ٹھیکے کی بنیادوںپہ کام ہورہا ہے۔ خواہ ٹی وی ڈرامہ ہو یا فلم۔۔۔فلموں کا جنازہ انڈین فلموں نے نکالا۔ اور ڈراموں کا بھی غیر ملکی ڈراموں نے۔ ناظرین احمق نہیں ہیں وہ فرق کرنا جانتے ہیں۔ آپ کسی کو مجبور نہیں کرسکتے کہ یہ دیکھو اور یہ نہ دیکھو۔ مہذب لوگ معیاری فلمیں اور معیاری ڈرامے دیکھنا چاہتے ہیں۔ کیا ہم کبھی تصور کرسکتے ہیں کہ کبھی یہاں بھی ''تھری ایڈیٹس'' اور ''تارے زمیں پر'' جیسی فلمیں بن سکتی ہیں؟ نہیں، بالکل نہیں۔۔۔۔تو پھر ایسے میں فلمی صنعت کی بحالی دیوانے کا خواب لگتی ہے۔!!
Load Next Story