عذاب سراب اور خواب

وہ سراب، جنھیں دیکھ دیکھ کر اب اپنی آنکھوں سے اعتبار اُٹھتا چلا جا رہا ہے۔

Amjadislam@gmail.com

وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کی وزارت عظمیٰ کے تیسرے دور کے پہلے باضابطہ قومی خطاب کو اگر سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی جائے تو اس کے تین حصے بنتے ہیں (۱)وہ عذاب، جن سے ہم بوجوہ گزر رہے ہیں (۲) وہ سراب، جنھیں دیکھ دیکھ کر اب اپنی آنکھوں سے اعتبار اُٹھتا چلا جا رہا ہے اور (۳)وہ خواب، جو ہر قومی درد رکھنے والے دل اور روشن مستقبل کی قوسِ قزح کے رنگوں میں ڈوبی ہوئی آنکھ میں موجزن اور چہرہ نما ہیں کہ یہ ہمارا اجتماعی ورثہ بھی ہیں اور عصرِ رواں کی زندہ حقیقت بھی۔

میں نے کچھ عرصہ قبل ''ہوم ورک'' کے عنوان سے انھی صفحات میں ایک کالم لکھا تھا جس میں یہ اندیشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ مسلم لیگ(ن) نے اپنے انتخابی وعدوں اور منشور میں کیے گئے اعلانات کے باوجود شائد اپنا وہ ''ہوم ورک''ٹھیک سے نہیں کیا جس کی اس وطن عزیز کو اور خود ان کی حکومت کو اَشد ضرورت ہے اور تھی۔ اب جو وزیر اعظم صاحب نے یہ اعتراف کیا ہے کہ صورتِ حال کی خرابی ان کے اندازوں سے بھی زیادہ ہے تو اس سے بالواسطہ ا س بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ اگر Facts & Figures درست نہ ہوںتو دنیا اور ریاضی کا کوئی کلیہ اُن سے صحیح جواب برآمد نہیں کرسکتا۔ گزشتہ 25 برس میں کئی بار حکومت اور اپوزیشن میں رہنے اور گزشتہ پانچ برس میں( فرینڈلی اپوزیشن کے رول سمیت) قومی اسمبلی میں ہونے کے باوجود یہ ''اندازہ'' کیوں غلط نکلا؟ یہ اپنی جگہ پر ایک سوال ہے لیکن فی الوقت ہم اس سے اس لیے صرفِ نظر کر لیتے ہیں کہ بصورتِ دیگر سارا کالم اسی کی تفصیلات کی نذر ہو جائے گا اور بات آگے نہیں بڑھ سکے گی تو آئیے اس عذاب ، سراب اور خواب کے منظر نامے کو میاں صاحب کی نظروں سے دیکھتے اور ان کے لفظوں میں سنتے ہیں تاکہ اس سے ''خیر '' کی وہ خوشبو اور روشنی کشید کی جاسکے جس سے اس کے چاروں طرف پھیلے ہوئے حبس اور اندھیرے میں کچھ کمی واقع ہوسکے۔

پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں اس تقریر کے بارے میں جو عمومی تاثر سامنے آیا ہے اس میں سے اگر حکومت مخالف جماعتوں اور سیاستدانوں کے بیانات کو ایک طرف بھی رکھ دیا جائے تب بھی اس کو زیادہ سے زیادہ اُن اعلانات اوربیانات کی ایک مرتبّ صورت کہا جاسکتا ہے جن کا اظہاروزیر اعظم اور ان کے رفقاء کی طرف سے گزشتہ تقریباََ تین ماہ میں بار بار کیا جاتا رہا ہے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو نہ تو یہ تقریر خوش آیند ہے اور نہ ہی حکومت کی ناکامی کا اعتراف ، یعنی یہ ایک طرح سے اُس صورتِ حال کا منظر نامہ ہے جو اِس وقت حکومت کے پیشِ نظر ہے ۔ میاں صاحب نے اس کے بیان میں دراصل یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ ان عذابوں کو (جو انھیں اور قوم کو ورثے میں ملے ہیں) گزشتہ حکومتوں کی طرح ''سراب'' کے بجائے ''خواب'' کے ذریعے حل اور دُور کرنا چاہتے ہیں کہ ''سراب'' کا لفظ منفی اور خواب ایک مثبت تاثر کا حامل ہے ۔سراب میں دھوکا اور فریب نظر ہے اورخواب میں امنگ ، جذبہ اور حوصلہ ۔ منظر اور مرض ایک ہی ہے لیکن اُسے دیکھنے کا انداز اور طریقہ علاج مختلف ہیں ۔ اس وقت حکومت کے سامنے بڑے بڑے مسائل کی جو فہرست ہے وہ کچھ اس طرح سے ہیں

۱) دہشت گردی ۲) انرجی کے مسائل ۳) معاشی صورتِ حال ۴) بلوچستان ۵) مہنگائی


ان مسائل کی مختصر تشریح اور وضاحت کی جائے تو دہشت گردی میں افغان جنگ کے اثرات ، طالبان کی سر گرمیاں ، خود کش حملے، سرکار کی رٹ کو چیلنج کرنا اور امن و امان کی عمومی صورت حال (جس میں حال ہی میں اسلام آباد میں سکندر نامی ایک شخص کی پیدا کردہ سنسنی خیزی بھی شامل ہے جس کے ذریعے سے میڈیا کی ذمے داریوں اور ایمرجنسی کی صورت میں موقعے پر موجود عوام کا طرزِ عمل بھی دو بہت اہم سوالیہ نشانات کی طرح ایک بار پھر سامنے آئے ہیں) جب کہ انرجی کے مسائل میں بجلی کی فراہمی ، لوڈشیڈنگ ، آئی ایم ایف کی ہدایات کے مطابق بجلی کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ اور گیس کی روزافزوں کمی بھی شامل ہیں۔

یہاں پھر سوال مسلم لیگ (ن) کے ہوم ورک کا ہے کہ اس کے اہم اور ذمے دار لوگ گزشتہ حکومت کے دور میں بار بار یہ اعلان کرتے پائے گئے ہیں کہ وہ چند دنوں میں اس مسئلے کو حل کرکے دکھا دیں گے اب میاں صاحب نے اس کے حل کو اپنے پورے مجوزّہ دورِ حکومت یعنی پانچ سال پر پھیلا دیا ہے اور اس پر ستم یہ کہ بجلی کی قیمتوں میں بھی سو فی صد سے زیادہ اضافہ کر دیا ہے اور یوں انگریزی محاورے کے مطابق To Add insult to injury کی سی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ کم و بیش یہی صورتِ حال معیشت کے باب میں بھی ہے کہ انرجی کے مسائل اور قیمت میں اضافہ کے باعث نہ صرف اندرونِ ملک اشیا کی قیمتوں میں ناقابلِ برداشت اضافہ ہوگا بلکہ بیرون ملک ہماری برآمدات بھی شدید متاثر ہوں گی کہ پیداواری لاگت بڑھنے سے بین الاقوامی منڈیوں میں ہماری مصنوعات (اپنے اعلیٰ معیار کے باوجود) مقابلہ نہیں کر سکیں گی اور ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی اپنے بزنس کو پھیلانے کے بجائے سکیڑنا شروع کر دیں گی جب کہ امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورت حال کے نتیجے میں غیر ملکی تاجر اور سیاح پہلے سے ہی ہمارے ائیر پورٹوں پر اترنے سے گریزاں ہیں۔

اندرونی معاملات میں بلوچستان کی صورتِ حال کسی طرح سے قابو میں نہیں آرہی جب کہ غیر ملکی قرضوں ، روپے کی گرتی ہوئی قدر اور آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد سے مہنگائی اور بے روزگاری کا سیلاب بھی چاروں طرف سے بڑھتا چلا جا رہا ہے ایسے میں میاں صاحب کا یہ بیان کہ ''صرف خواب دیکھنے سے پھول نہیں کِھلا کرتے اپنی تمام تر خوب صورتی اور خوش آہنگی کے باوجود ایک Paradoxسا بن کے رہ جاتا ہے کہ ان کی تمام تر گفتگو کا لُبِ لباب تو وہ خواب ہی ہے جسے وہ تعبیر دینے کی کوشش اور وعدہ کر رہے ہیں۔

ہمارے میڈیا میں منفی تنقید کا رجحان ،غیر معمولی اور غیر ضروری طور پر بڑھتا چلا جا رہا ہے جس کی ذمے داری میرے خیال میں حالات اور سیاستدانوں کے بیانات کی عمومی سطحیت کے ساتھ ساتھ خود میڈیا پر بھی عائد ہوتی ہے کہ ہمارے رپورٹنگ کا شعبہ ہو یا ٹاک شوز دونوں میں ان حدود و قیود کا خیال پابندی اور ذمے داری سے نہیں رکھا جاتا جو عالمی سطح پر متفقہ اور زیرِ عمل ہیں۔ چاہیے تو یہ کہ میڈیا کسی صورتِ حال کی کوریج اور اُس پر تبصرہ اس انداز میں کرے کہ جس سے سنسنی خیزی اور ہنگامی مقبولیت کے بجائے ذمے داری اور حقیقت پسندی نمایاں ہو کہ ان کے ناظرین اور قارئین تھیٹر کے ان تماشائیوں کی طرح ہوتے ہیں جو ذرا سی بے احتیاطی سے ''تماش بین'' کے رُوپ میں ڈھل سکتے ہیں۔

کم و بیش اسی طرح کی احتیاط اہلِ سیاست اور ارباب حکومت پر بھی واجب ہے کہ اُن کی اصل طاقت تماشہ نمایاں ہو اور تماشہ گر نہیں بلکہ وہ عوام یا تماشائی ہیں جو سچ دیکھنے اور سننے کے ساتھ ساتھ ایسے خواب بھی دیکھنا چاہتے ہیں جن کی جڑیں سچائی اور قومی درد کی مٹی اور آب و ہوا میں سانس لیں کہ تعبیر کے بغیر خواب اور خوشبو کے بغیر پھول کسی سراب سے کم نہیں ہوتے اور پھر یہی سراب آگے چل کر عذاب بن جاتے ہیں۔
Load Next Story