ریاست اور فکری تضادات

ریاست کے اندرجنم لینے والے تضادات تیزی کے ساتھ گہرے ہورہے ہیں۔


Muqtida Mansoor August 21, 2013
[email protected]

ریاست کے اندرجنم لینے والے تضادات تیزی کے ساتھ گہرے ہورہے ہیں،جس سے حکمران نہیں بلکہ عوام براہ راست متاثرہورہے ہیں ۔ان تضادات کا سبب وہ فکری ابہام ہیں، جنہوں نے پورے معاشرے کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مفلوج کرکے رکھ دی ہے۔ دانائوں کا کہنا ہے کہ جس طرح املی کا درخت تیس برس میں تناور درخت بن کر پھل دینے کے قابل ہوتا ہے، اسی طرح سیاست میں کیے گئے فیصلوں کے نتائج بھی کم وبیش تیس برس بعد ہی ظاہرہونا شروع ہوتے ہیں۔ جذباتیت اورفکری نرگسیت کے جو بیج روزِاول سے وقتاًفوقتاً بوئے جاتے رہے ہیں، اب ان کی فصلیں پک کر تیار ہوچکی ہیں،بلکہ کچھ کی کٹائی بھی شروع ہوگئی ہے۔ یہ طے ہے کہ فکری ابہام قوموں کو کہیں کا نہیں چھوڑتے،بلکہ تباہی کے آخری دہانے تک پہنچادیتے ہیں۔

نظم حکمرانی کی ناکامی اور انتظامی ڈھانچے کی فرسودگی کا یہ عالم ہے کہ ایک شخص 6گھنٹے تک آتشیںاسلحے کے زور پر وفاقی دارالحکومت کو یرغمال بنائے رکھتا ہے اور پولیس اس پر قابو پانے میں ناکام رہتی ہے۔یہ اعصاب شکن لمحات اس وقت ختم ہوتے ہیں،جب ایک سیاسی کارکن زمرد خان اچانک منظرعام پر نمودار ہوکر خطرناک ایڈونچر کرگذرتا ہے، جس کے نتیجے میں اس کھیل کا ڈراپ سین ہوجاتا ہے۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ انتظامیہ اور پولیسنگ کے نظام میں پائی جانے والی خامیوں،کمزوریوں اورکوتاہیوںکا جائزہ لیاجاتا، مگرزمرد خان کے اقدام پر بحث شروع کرکے وقت ضایع کیا جارہاہے۔اس کھیل کے طوالت پکڑنے اور غیر محتاط ایڈونچر کے دو بنیادی اسباب ہیں۔اول،اگر انتظامیہ فعال اور پولیس متحرک ہوتی تو یہ کھیل بہت پہلے ختم ہوجاتا اور زمرد خان کو ایڈونچرکرنے کا موقع نہیں مل پاتا۔دوئم، حکومتی عہدیدار ملزم کے خلاف ہونے والی کارروائی کی نگرانی ضرور کرتے ،مگر پولیس کے پیشہ ورانہ کام میں مداخلت سے گریز کرتے تو بھی معاملات اس نہج تک نہ پہنچتے۔

اس نئی صورتحال نے اس خدشے کو تقویت دی ہے کہ گزشتہ جمعرات کوہونے والاتماشہ اس اصل کھیل کا ٹریلرتھا، جو کسی بھی وقت شروع ہوسکتا ہے۔ ممکن ہے پانچ سے چھ سو کے درمیان مسلح دہشت گرد اسلام آباد میں گھس کر پورے سیکیورٹی نظام کو مفلوج کرکے جوہری اثاثوں تک پہنچنے کی کوشش کریں۔کیونکہ جب ایک فرد واحد دو خود کار ہتھیاروں کی مدد سے پولیس فورس کو 6گھنٹے تک بے بس کر سکتا ہے، تو چند سو افراد کے لیے وفاقی دارالحکومت پر قبضہ کرنا مشکل نظر نہیں آتا۔اس کے علاوہ پاکستان کے بارے میں عالمی سطح پر جو تاثر پیدا ہوا ہے، اس کے مضر اثرات کو سمجھنے کی بھی کوشش نہیں کی جارہی۔اس وقت ملک بھر میں دہشتگردی کی جو وباء پھیلی ہوئی ہے اور پولیس سمیت قانون نافذ کرنے والے ادارے جس پر قابو پانے میں ناکام ہیں،اس سے نمٹنے کے لیے پولیسنگ کے نظام میںبڑے پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت ہے۔اس کے علاوہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے فوری قانون سازی اور الگ بجٹ کا تعین بھی ضروری ہے۔ مگر قانون سازی میں تاخیری حربے استعمال کرنے والی قیادتوں سے یہ توقع عبث ہے کہ وہ پولیس میں اصلاحات لائیں گے،کیونکہ ان کے مخصوص مفادات اس عمل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔

اصل مسئلہ دہشت گردی کے بارے میں حکمرانوں کی دہری پالیسی ہے،جس کی وجہ سے پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے اس مظہر سے نمٹنے میں پس وپیش سے کام لیتے ہیں۔ لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ جب کبھی پولیس کو فری ہینڈ ملاہے،اس نے دہشتگردی اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف بھر پور انداز میں کارروائی کی ہے۔خاص طور پر بلوچستان اور پختونخواہ میں پولیس نے دہشت گردی سے نبردآزماء ہوکر بہت زیادہ قربانیاں دی ہیں۔اس لیے صرف پولیس ہی کو موردِ الزام ٹہرانا درست نہیں ہے، بلکہ اصل معاملہ پالیسی سازی میں موجود اسقام کا ہے،جو نظم ونسق کو بہترطریقہ سے چلانے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔

اس رویے کی واضح مثال وزیر اعظم میاں نواز شریف کا قوم سے خطاب ہے۔ جس میں انھوں نے بھی سابقہ حکمرانوں کی طرح گومگوکی پالیسی کو جاری رکھا۔انھوں نے دہشت گردی کے خلاف بھرپور ریاستی طاقت کے استعمال کی دھمکی تو دی ہے، مگر ساتھ ہی شدت پسندعناصرکے ساتھ مذاکرات کی بات کرکے اس فکری ابہام کو جاری رکھنے کی دانستہ یانادانستہ کوشش کی بھی ہے، جو 66برس سے اس ملک کا مقدر بنا ہوا ہے۔یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ جو عناصر پاکستان کے جغرافیہ، اس کے آئین اور نظم حکمرانی کو تسلیم نہیں کرتے۔جواپنی طاقت کے اظہار کے لیے بے گناہ عوام کو بلا کسی جواز آگ وخون میں دھکیل رہے ہیں۔جو فوجی تنصیبات پر بھی بلاجھجھک حملہ آور ہوتے ہیں اور فوجیوں کے گلے کاٹتے ہیں۔ان سے کس بنیاد پر مذاکرات کا دعویٰ کیا جارہاہے؟ایسے عناصر جن کے بیشتر مطالبات آئین پاکستان سے ماوراء اورمتصادم ہیں، کیا حکومت پاکستان ایسے مطالبات تسلیم کرنے پر آمادہ ہے؟ اگر نہیں تو پھر مذاکرات کا ڈھونگ کس لیے اور کس بنیاد پر؟

اسٹبلشمنٹ نے قیام پاکستان کے فوراً بعد ان مذہبی جماعتوں سے رابطہ کیا،جو 13 اگست 1947ء تک قیام پاکستان کی مخالف تھیں ۔ان کی مدد سے آئین سازی کے عمل میں رخنے ڈالنے کی کوشش کی۔ 1953ء میں وزیراعلیٰ پنجاب میاں ممتاز دولتانہ نے وزیر اعظم پاکستان خواجہ ناظم الدین سے اپنے اختلافات کا انتقام پنجاب کے بعض اضلاع میں متشدد فرقہ وارانہ فسادات کرا کے لیا۔ جس کے نتیجے میں ان شہروں میں ملک کی تاریخ کا پہلامارشل لاء لگا، جس نے اگلے مارشل لاء کی راہ ہموار کی اور ملک میں بنیاد پرست گروہوں کو پنپنے کا موقع دیا۔

اسی طرح1969ء میں قائم ہونے والی جنرل یحییٰ کی حکومت کے وزیر اطلاعات شیرعلی خان مرحوم نے ایک طرف نظریہ پاکستان تخلیق کیا،دوسری طرف 1970ء کے عام انتخابات سے قبل شوکت الاسلام کا اہتمام کیا اور مذہبی جماعتوں کو سرکاری خزانے سے خطیررقم اس مد میں دی۔ انھوں نے ملک کے مذہبی رہنمائوں کو سوشلزم کے خلاف فتویٰ دینے پر اکسایا اور عوامی سیاست کا راستہ روکنے کی ہر ممکن کوشش کی۔انھی کے ایماء پر ایک مذہبی جماعت نے مسلح تنظیمیں بناکر بنگالی عوام کو خون میں نہلایا۔مگر کسی نے تاریخ سے سبق نہیں سیکھا۔ 1975ء میں جس وقت سردار دائود نے اپنے کزن ظاہر شاہ کی حکومت کا خاتمہ کرکے اقتدار پر قبضہ کیا تواس وقت پاکستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ ہمارے دوست معروف ٹریڈیونین لیڈر عثمان بلوچ کے مطابق بھٹو مرحوم نے ایک طرف سردار دائود کے بارے میں ایک تقریب میںانتہائی تضحیک آمیز زبان استعمال کی اور دوسری طرف افغانستان کے رجعت پسند رہنمائوںکواسلام آباد میں مجتمع کرکے انھیں دائود کے خلاف منظم جدوجہد کے لیے ذہنی طورپر آمادہ کیا۔ ان عناصر کو بعد میں جنرل ضیاء نے سوویت یونین کے خلاف مسلح جدوجہد کے لیے استعمال کیا۔اس سلسلے میں اسلحہ اور تربیت امریکا اور سرمایہ ایک مسلم ملک نے فراہم کیا۔

یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ پیپلز پارٹی کے تیسرے دور حکومت کے وزیر داخلہ میجرجنرل(ر)نصیر اللہ بابرمرحوم آخری سانس تک ببانگ دہل یہ دعویٰ کیا کرتے تھے کہ طالبان ان کے بچے ہیں، جنھیں افغانستان میںوہ اقتدار میںلائے تھے۔جنرل ضیاء کے بعد پاکستان میں قائم ہونے والی ہر حکومت نے افغانستان میں تزویراتی گہرائی کے حصول کی خاطر شدت پسند عناصر کی ہر ممکن امداد کی۔9/11کے بعد جب پاکستان عالمی طور پر دبائو میں آیا،تو ملک کے وسیع تر مفادمیں راست بنیادوںپرکوئی ٹھوس اور دیرپا پالیسی تیار کرنے کے بجائے منافقانہ روش اختیارکرنے کو ترجیح دی گئی۔ جس کی وجہ سے ایک طرف پورا ملک شدت پسندعناصر کے غیض وغضب کا نشانہ بنا،جب کہ دوسری طرف عالمی برادری کی نظر میں پاکستان کی حیثیت مشکوک ہوگئی۔اس لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ مذہبی شدت پسندی کے حالیہ ابھارکی جڑیں ماضی کے غلط فیصلوں میں پیوست ہیں،جنھیں اکھاڑنے کی کسی میں جرأت نہیں ہے۔

پاکستان کو اس صورتحال سے نکالنے کے لیے انتہائی تلخ فیصلے کرنا ہوں گے۔اول، افغانستان کے معاملات سے خود کو الگ کرنا ہوگا۔دوئم، بھارت سمیت پڑوسی ممالک کے ساتھ متنازع مسائل کو تحمل اورسنجیدگی کے ساتھ حل کرنا ہوگا۔ سوئم،شدت پسند عناصرکے لیے کسی قسم کی ہمدردی کے بجائے ریاست کی اتھارٹی اور رٹ قائم کرنے کے لیے ان سے سختی سے نمٹنا ہوگا۔چہارم، ریاست کے انتظامی اداروں میں تطہیر اور اصلاحات کرنا ہوں گی۔ اس کے بغیربہتری کی امید نہیں ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں