معاشی ترقی اورخوشحالی

دیگر ترقی پذیر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی چونکہ لوگوں کی آمدنیاں کم ہیں اس لیے بچتیں بھی کم ہوتی ہیں۔

ikhalil2012@hotmail.com

دیگر ترقی پذیر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی چونکہ لوگوں کی آمدنیاں کم ہیں اس لیے بچتیں بھی کم ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ نئے ہزاریے کے آغاز کے کچھ عرصے بعد پاکستان کو دہشت گردی کی جنگ میں لپیٹ دیا گیا ہے۔ بتدریج ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ جس کے باعث ایک طرف ملکی معاشی ترقی کی بساط لپیٹی جارہی تھی۔ سرمایہ کار راہ فرار اختیار کر رہے تھے۔

کارخانوں کی چمنیوں نے دھواں اگلنا بند کر دیا تھا۔ ضرورت ملازمین اور ضرورت کاریگر و مزدور کے بورڈز مٹائے جا رہے تھے۔ دوسری طرف مزدور نکالے جا رہے تھے اور بے روزگاروں کی فوج بڑھتی چلی جا رہی تھی۔ روزانہ بم دھماکوں کی آواز سنائی دیتی تھی جس سے معاشی ترقی کی بنیادیں لرز کر رہ جاتی تھیں۔ 6 سال قبل معاشی ترقی کا خواب چکنا چور ہو کر رہ گیا جب معلوم ہوا کہ معاشی ترقی کی شرح میں 2 فی صد اضافہ بھی نہیں ہوا۔ اس دوران توانائی کے بحران نے معیشت کو خاک میں ملا دیا تھا۔ دوسری طرف دہشت گردی کی باد صر صر نے معیشت کی صورت بگاڑ کر رکھ دی تھی۔

نئی حکومت نے اپنے قیام کے فوراً بعد لوڈشیڈنگ کو جن سے تعبیر دیتے ہوئے اسے قابو کرنے کے لیے جان لڑا دینے کا عزم ظاہر کیا۔ قوم کچھ مطمئن تھی کہ معاملہ جلد حل ہو جائے گا پھر دو سے تین سال کی بات منظر عام پر آنے لگی کہ توانائی کا بحران حل ہو جائے گا۔ لیکن اب یہ واضح ہو گیا ہے کہ 5 سال کا عرصہ درکار ہے اس مسئلے کو حل کرنے میں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر موجودہ حکومت نے اپنی آئینی مدت پوری کر بھی لی تو آیندہ الیکشن میں توانائی کا بحران ہی سر فہرست ہو گا اور اسی مسئلے پر دوبارہ الیکشن لڑے جائیں گے۔ اس کے ساتھ ہی کئی سال سے ملک میں جاری دہشت گردی کے خاتمے کے لیے حکومت کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کا حل اگر مذاکرات سے نکلتا ہے تو بہتر ورنہ ریاستی طاقت کو استعمال کیا جائے گا۔

وزیر اعظم نواز شریف نے اپنی تقریر میں ملک کی معاشی و صنعتی ترقی، توانائی بحران کے حل، اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اپنا پروگرام پیش کرتے ہوئے کہا کہ 5 سال میں لوڈشیڈنگ پر قابو پالیں گے۔ گڈانی میں چھ ہزار چھ سو میگاواٹ بجلی کا پروجیکٹ شروع کیا جا رہا ہے۔ کراچی میں زیر زمین ٹرین سروس پروگرام کی خوشخبری دوں گا۔ وزیر اعظم نے 14 سال بعد تیسری بار وزیر اعظم بننے کے ڈھائی ماہ کے بعد قوم سے اپنا پہلا خطاب کیا۔

لیکن جب تک دو اہم ترین مسائل حل نہیں ہوتے ملک کی معاشی ترقی ناممکن ہے۔ ماہرین نے مختلف معاشی مسائل کے حل کے لیے جتنی بھی تجاویز دی ہیں، تھیوریز پیش کی ہیں، مختلف نظریات دیے ہیں، سب ناکام ہوجاتے ہیں۔ اس لیے کہ یہاں کی معیشت کو ایک طرف کرپشن کی دیمک چاٹ چکی ہے۔ دوسری طرف بھتہ خوری اور دہشت گردی اور دیگر کئی مسائل نے خاک میں ملا دیا ہے۔ ایسے میں اگر یہ کہا جائے کہ صنعتی ترقی معاشی ترقی کا پیش خیمہ ہوتی ہے، صنعتی ترقی سے ملک میں روزگار میں اضافہ ہو گا۔ لوگوں کی آمدنیوں میں اضافہ ہوگا۔ ہم ایڈ نہیں ٹریڈ کی راہ پر گامزن ہو سکیں گے۔ لیکن اس کے باوجود ایک اور اہم رکاوٹ جو کہ عالمی سیاسی معیشت میں چھپی ہوئی ہے وہ عالمی استعماری قوتوں کے پس پردہ عزائم کہ پاکستان کی معیشت کو لاغر اور نڈھال رکھا جائے۔ کیونکہ مضبوط معیشت مضبوط پاکستان کا پیش خیمہ ہے اور مضبوط معیشت کی راہ میں توانائی کا بحران سرمایہ کاری میں کمی اور دہشت گردی وغیرہ اہم رکاوٹیں ہیں۔

مضبوط معیشت کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان کی برآمدات میں تیزی سے اضافہ ہوتا تا کہ پاکستان بر وقت ایڈ لینے کے لیے کشکول پھیلانے سے احتراز کرتا۔ یہ بات بھی درست ہے کہ سابقہ حکومت نے یورپی ممالک امریکا اور دیگر صنعتی اور امیر ممالک کو یہ بات بار بار باورکرائی کہ پاکستان کو ایڈوانس ٹریڈ کی ضرورت ہے۔

تا کہ معیشت اپنے پیروں پر کھڑی ہو سکے۔ بار بار قرض لے کر چلنے والی معیشت میں اتنی استعداد نہیں ہوتی کہ وہ اپنی برآمدات میں اضافہ کر سکے۔ اپنے قرضے ان کی قسطیں بمع سود لوٹا سکے۔ ملک سے بڑھتی ہوئی غربت کا خاتمہ کرسکے اور معاشی و صنعتی ترقی کے اہداف حاصل کر سکے۔


سابقہ حکومت کی انھی کوششوں کے نتیجے میں یورپی ممالک نے پاکستان کے لیے بعض تجارتی مراعات کا بھی اعلان کیا۔ جن پر عملدرآمد بھی ہو رہا ہے۔ لیکن صنعتی ترقی کو فروغ دینے کے لیے پاکستان کو نئے سرے سے کام کرنا ہو گا۔

پاکستان میں گزشتہ ایک دہائی سے صنعتی ترقی میں خاطر خواہ اضافہ نہ ہونے کے سبب پاکستان میں بیروزگاروں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ملک کے تعلیم یافتہ ہنرمند افراد کا رجحان زیادہ تر بیرون ملک جانے پر ہی ہے۔ یا پھر روزگار کے دیگر ذرایع نہ ہونے کے سبب ہنر مند تعلیم یافتہ افراد چوکیداری کرنے پر بھی مجبور ہیں۔

اگر دو عشرے قبل پر ایک نظر ڈالی جائے تو پاکستان میں خال خال سیکیورٹی ایجنسیز نظر آتی تھیں۔ لیکن اب یہ شعبہ ایک صنعت کی حیثیت اختیارکر چکا ہے اور معمولی معاوضے کی خاطر پڑھے لکھے افراد بھی سیکیورٹی گارڈز کے فرائض انجام دینے پر مامور ہیں کیونکہ وہ مجبور ہیں۔ کارخانوں اور فیکٹریوں میں جا کر اپنے ہنرکو آزما نہیں سکتے۔ دفتروں میں نوکری حاصل کر کے اپنی تعلیم کا فائدہ قوم کو پہنچا نہیں سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں غربت میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ وہ ممالک جو کہ پہلے ترقی کی دوڑ میں پاکستان سے بہت پیچھے تھے وہاں اب خال خال غربت پائی جاتی ہے۔ اور پاکستان میں غربت کی شرح 50 فیصد سے بھی زیادہ بتائی جاتی ہے۔

جنوب ایشیا کی مثال لے لیں تو انڈونیشیا، ملائیشیا، تھائی لینڈ جہاں دولت کی تقسیم میں ناہمواری میں کمی ہوئی اور غربت کی شرح میں تیزی سے کمی ہوئی۔ مثلاً انڈونیشیا میں 1972ء میں غربت کی شرح 58 فیصد تھی 1982ء میں گر کر 17 فیصد اب اس میں مزید کمی واقع ہو چکی ہے۔ اسی طرح ملائیشیا میں 73ء میں غربت کا تناسب 37 فیصد تھا 87ء میں گر کر 15 فیصد اور آج کل ملائیشیا کا تعلق اہم صنعتی ممالک میں سے ہے۔ یہی حال تھائی لینڈ کا ہے جو کہ معاشی و صنعتی ترقی کی منزلیں تیزی سے طے کر رہا ہے۔ دنیا کے اہم برآمدی ممالک میں تھائی لینڈ کا شمار ہوتا ہے۔

وزیر اعظم پاکستان نے اپنی نشری تقریر میں قوم کی توجہ قرض کی جانب مبذول کراتے ہوئے کہا کہ 1999ء تک پاکستان کے مجموعی قرضے صرف 3 ہزار ارب روپے تھے جو گزشتہ 14 برسوں میں بڑھ کر 14 ہزار 5 سو ارب روپے ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ نندی پور بجلی گھر جسے 2007ء میں شروع کرنا تھا اس کی تعمیر سے 425 میگاواٹ بجلی حاصل ہوتی۔

تاخیری حربوں کے باعث پہلے منصوبے کی لاگت تئیس ارب روپے تھی جو اب بڑھ کر انسٹھ ارب روپے ہو گئی ہے۔ نیلم جہلم منصوبہ جس سے 9 سو سترہ میگاواٹ بجلی حاصل ہوتی جس پر پچاسی ارب روپے صرف ہونا تھا اب اس کی لاگت بڑھ کر دو سو چوہتر ارب روپے تک جا پہنچی ہے۔ وزیر اعظم نے قوم کو ایک دفعہ پھر یقین دلایا ہے کہ کاشغر ۔۔۔۔گوادر اقتصادی راہداری کا منصوبہ صرف پاکستان ہی نہیں اس پورے خطے کی عوام کی تقدیر بدل دے گا۔ انھوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ترقی اور خوشحالی کی کوششیں کرنا ہوں گی۔

یقینی طور پر ترقی اور عوام کی خوشحالی کی کوششیں اسی وقت بارآور ثابت ہوں گی جب پاکستان ایک بار پھر معاشی ترقی اور صنعتی ترقی کی راہ پر تیزی سے گامزن ہو جائے۔ اس راہ میں جو رکاوٹیں موجود ہیں ان کو کم سے کم عرصے میں دور کیا جائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ترقی اور خوشحالی کی کوششوں کی عملی صورت نظر آئے۔ اس کے لیے مختلف عملی اقدامات کا آغاز ہو تا کہ عوام کو یہ یقین ہو سکے کہ معاشی و صنعتی ترقی اور خوشحالی کے لیے پہلا قدم اٹھایا جا چکا ہے۔
Load Next Story