کوٹہ سسٹم … آخری حصہ
پورے ملک میں جب بند اسکولوں کی تعداد بتائی جاتی ہے تو سب سے زیادہ بند اسکول سندھ میں پائے جاتے ہیں۔
پورے ملک میں جب بند اسکولوں کی تعداد بتائی جاتی ہے تو سب سے زیادہ بند اسکول سندھ میں پائے جاتے ہیں جہاں ان کی تعداد ساڑھے 7 ہزار بتائی گئی تھی۔ سابق وزیر تعلیم نے اپنے پانچ سالہ دور حکومت ہیں صرف 14 سو اسکولوں کھولنے کا اعلان کیا لیکن وہ یہ بتانے سے قاصر رہے کہ 5 سال کے طویل عرصے سے تمام اسکولوں کیوں نہیں کھولے گئے؟ یا تو اوطاق کلچر کو برقرار رکھنے کے لیے ایسا کیا گیا یا اس کے پیچھے کچھ اور مقا صد تھے اس سے سندھ کا ہر باشعور شہری واقف ہے۔
گزشتہ 40 سالوں میں ہر دس سال بعد کوٹہ سسٹم میں اضافہ کے باوجود دیہی علاقوں کا انفرا اسٹرکچر کیوں نہیں بنایا گیا صاف ظاہر ہے کہ اندرون سندھ کے وڈیرے نہیں چاہتے کہ غریب عوام کے بچے تعلیم یافتہ و باشعور ہوں اور اپنے حقوق کو پہنچاننے لگیں اس صورت میں ان کی وڈیر ہ شاہی کو شدید خطرات لاحق ہو جائیں گے۔ جب غریب کا تعلیم یافتہ بچہ ان کے برابر بیٹھے گا جس کا وہ کبھی تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ظلم یہ کہ ان وڈیروں کے بچے کراچی شہر کے بڑے بڑے اسکولوں میں پڑھتے ہیں لیکن اندورن سندھ کے ڈومیسائل کی بناء پر وسائل پر قبضہ کر لیتے ہیں سوال یہ ہے کہ جب یہ لوگ کراچی میں پڑھتے ہیں تو ان پر کوٹہ کا اطلاق کیو نکر ہوتا ہے۔ کوٹہ یہ کہہ کر نافذ کیا گیا تھا کہ اندرون سندھ سہولیات کا فقدان ہے اسی وجہ سے اب شہری علاقوں خصوصاً کراچی میں یہ آواز بڑی شدت سے سنائی دے رہی ہے کہ جس نے ابتدائی تعلیم، میٹرک اور انٹر جس علاقے سے کیا ہے اسے اسی شہر سے سہولیات حاصل ہونی چاہییں کیونکہ ڈومیسائل پیسوں کی بنیاد پر باآسانی بن جاتے ہیں اور اس کا سب کو علم ہے۔
کوٹہ سسٹم نافذ تو کر دیا گیا لیکن اس پر عمل درآمد میں جہاں مختلف بے ایمانیاں کی گئیں وہاں شہری علاقے کے افراد کو 40 فیصد کوٹہ بھی نہیں دیا گیا حکومت سندھ کے مختلف محکموں میں کہیں 20 فیصد اور کہیں اس سے بھی کم اور کہیں تو کوٹہ ہی نہیں دیا جا رہا ہے اس کی سب سے بڑی مثال سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ ہے جہاں کو ٹے کی شدید خلاف ورزی کرتے ہوئے سو فیصد دیہی افراد کو ملازمتوں پر رکھ لیا گیا حتیٰ کہ کراچی کیمپ آفس میں بھی تمام افراد کا تعلق اندرون سندھ سے ہے یہی نہیں بلکہ بورڈ آف گورنر کے 8 ممبران میں تمام کا تعلق دیہی سندھ سے ہے جب کہ 2 کروڑ سے زیادہ کی آبادی والے اور کراچی کو 90% سے زیادہ ریونیو دینے والے شہر میں ایک بھی شخص کو اس قابل نہیں سمجھا گیا کہ اسے بورڈ آف گورنر کا ممبر بنایا جاتا اسے ملازمت دی جاتی۔ نادرا کے اعداد و شمار کے مطابق سندھ کی کل آبادی 5 کروڑ52 لاکھ ہے جب کہ اس میں صرف کراچی کی آبادی2 کروڑ 12 لاکھ بھی شامل ہے۔
اس طرح سندھ میں موٹروے وہیکل، روڈ ٹیکس اوکٹرائے اور اسی طرح کے مد میں جمع ہونے والے ریونیو ایک ارب 80 کروڑ ہے جس میں صرف کراچی سے 1 ارب 44 کروڑ روپے جمع ہوتے ہیں جب کہ پورے سندھ سے 36 کروڑ جمع ہوتے ہیں۔ ان اعداد و شمار کے باوجود جب تعصب کی یہ حالت ہے کہ پہلے خود ہی کوٹہ سسٹم نافذ کیا 40 سال سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود اسے ختم نہیں کیا جا رہا، اب ا س پر عمل درآمد میں بھی شدید بے ضابطگیاں کی جا رہی ہیں۔ اس موقعے پر اُس وقت کے اسپیشل سیکریٹری کا خاص طور پر ذکر کیا جا رہا ہے کیونکہ وہ سندھ ٹیکسٹ بک بور ڈ میں سیکریٹری تعلیم کی نمایندگی کرتے تھے۔ وہ بورڈ آف گورنرز کی میٹنگ میں کہتے تھے کہ جب تک میں موجود ہوں دیہی علاقوں کے سوا کسی کو ملازمتوں پر لیا جائیگا نہ ہی بورڈ آف گورنر کا ممبر بنایا جائیگا۔ اور ان کے پورے دور میں ایسا ہی ہوا۔ ان حالات میں سندھ کی حکومت کراچی کو ساتھ رکھنے کی توقع کیونکر کرتی ہے۔
آج سے چند ہفتے قبل ہماری ملاقات سیکریٹری محکمہ تعلیم سے ہوئی تھی ہم نے جہاں محکمہ تعلیم میں ہونے والی دھاندلیوں، بے ایمانیوں، جعلی اپائنٹمنٹ، کراچی کے جعلی ڈومیسائل بنوا کر چپڑاسی سے لے کر اساتذہ تک کی نوکری حاصل کرنے کی نشاندہی کی وہاں سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی ملازمتوں اور بورڈ آف گورنرز کے ڈائریکٹروں میں کوٹے کی شدید خلاف ورزی کی نشاندہی بھی کی گئی۔ سیکریٹری صاحب فرمانے لگے کہ یہ واقعی شدید زیادتی ہے لیکن یہ ہم نے نہیں کی بلکہ ماضی کے وزراء نے کی اب ہم اس کا ازالہ کرنے کی کوشش کریں گے لیکن دس سالوں سے کراچی کا مینڈیٹ جن کے پاس ہے انھوں نے کیوں خاموش اختیار کی اسے تو شدید مجرمانہ غفلت ہی کہا جا سکتا ہے!۔ سیکریٹری محکمہ تعلیم کے ریمارکس لمحۂ فکریہ ہیں خاص طور پر ان سیاسی عناصر کے لیے جو کراچی کے90 فیصد نمایندگی کرتی ہیں انھیں کراچی کے عوام کے جذبات و احساسات کا یقیناً احساس ہو گا لیکن اس کا اظہار بھی کھلے عام ہونا چاہیے تا کہ یہاں کے عوام کے اند ر کوٹہ سسٹم کے خلاف جو طوفان اٹھ رہا ہے اس کو ٹھنڈا کیا جا سکے۔ کراچی کی ایک بڑی سیاسی جماعت کا وجود کوٹہ سسٹم کے خلاف ہی عمل میں آیا تھا لیکن شاید اب مصلحتوں کی وجہ سے خاموش ہیں۔
سپریم کورٹ کراچی بدامنی کے کیس کا جائز ہ لے رہی ہے لیکن کراچی کے عوام کے دلوں میں بھڑکنے والی آگ کی طرف توجہ نہیں دی جا رہی ہے جو کوٹہ سسٹم کی وجہ سے ان کے اندر سلگ رہی ہے۔ کراچی میں اگر امن قائم کرنا ہے تو کوٹہ سسٹم جیسا انتہائی معتصب سسٹم ختم کرنا ہو گا ورنہ یہ سسٹم اندرون سندھ و کراچی میں خلیج کو اتنا وسیع کر دے گا کہ اسے پاٹنا ممکن ہی نہ رہے۔