آمریتیں گئیں مگر وہ سوچ نہ گئی …
یوم آزادی گزر گیا، ہم نے نہ صرف انگریز سے آزادی پائی تھی بلکہ اس بنیے کی سوچ سے بھی۔
یوم آزادی گزر گیا، ہم نے نہ صرف انگریز سے آزادی پائی تھی بلکہ اس بنیے کی سوچ سے بھی جس کی نمایندگی ولبھ بھائی پٹیل جیسے لوگ کر رہے تھے۔ کوئی اور نہیں خود گاندھی اس کا شکار ہوئے۔ ہندوستان کی مجموعی سوچ میں اب بھی وہی نفرت موجود ہے۔ ہندوستان خواہ کتنا ہی سیکولر کھلائے۔ میں آج کی آزادی کے دن پر اس زاویے سے حقیقت کو نہیں دیکھنا چاہتا۔ بلکہ جس زاویے سے جو میں دیکھنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ جو ہم نے اپنے ساتھ کیا اس میں اتنا کسی اور کا عمل دخل نہیں جتنا ہمارا ہے۔
ہمیں اب جو مسئلہ درپیش ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں یہ معلوم نہیں کہ مسئلہ کیا ہے؟ جب مسئلہ ہی سمجھ نہ آئے تو حل کیسے ملے۔ ''وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے'' کی طرح سب ٹھیک ہے۔ اور یوں کرتے کرتے ہم بہت آگے نکل آئے ہیں۔ ایک ایسے مسافر کی مانند جو اپنے راستے سے بھٹک جاتا ہے۔ کوئی شارٹ کٹ بھی نہیں۔ وہیں واپس جانا ہو گا جہاں سے قائداعظم نے اس ملک کو پانے کے بعد، ایک روڈ میپ دیا تھا۔ آج کے دن سے بھلا اور موزوں دن کون سا ہو گا۔ میں نے پہلی مرتبہ اس حکومت کو کہتے ہوئے سنا کے یہ ہماری جنگ ہے۔ اب یہ وقت تو شاید دیر آید درست آید سے بھی آگے نکل گیا ہے۔
ذرا غور سے دیکھیے اور بتایے کے آغا وقار اور عامر لیاقت میں کیا فرق ہے؟ اس نے بھی ایک چونکا دینے والی خبر گھڑی تھی اور اس نے بھی۔ فرق یہ ہے کہ اس نے پانی کی گاڑی چلا کر سب کو حیران کر دیا اور اس نے بچوں کی نیلامی سجا کر۔ مگر وہ مجرم ٹھہرا اور یہ منصف۔ اس کے ہاتھ میں ترازو ہے ، جو کہے وہ حرف آخر ہے۔ ہمیں عام اور سادگی سے کہی خبریں اب اچھی نہیں لگتیں۔ ہم فوراً ریموٹ کے بٹن کو دباتے ہیں اور کہیں اور نکل جاتے ہیں۔ یوں کہیے کے ا ب یہ آغا وقار یا عامر لیاقت کہیں اور نہیں بلکہ ہم میں ہی رہتے ہیں۔ ہم خود اپنی ذات میں چھوٹے چھوٹے آغا و عامر بن گئے ہیں۔ نہ کوئی صحیح خبر دینے والا رہا اور نہ کوئی اسے سننے والا۔ ہم نے اس قوم کو موالی بنا نے میں کیا کسر چھوڑی؟ اور تو اور، ان کو بھی سمجھ نہ آئی کے یہ فریڈم آف انفارمیشن کے آئینی حق کی بھی پامالی ہے کہ لوگوں کو گمراہ کن خبریں دی جا رہی ہیں۔
کوئی ایسی بات کہو جس سے لوگ ششدر ہو جائیں۔ چونک جائیں۔ اور ہم اپنی ریٹنگ بڑھائیں۔ تو پھر مارشل لا کیا تھا؟ یہی تو تھا اپنے زمان و مکان میں۔ کون بیٹھتا تھا آمروں کے ساتھ؟ یہ ہم ہی تو تھے۔ تالی ہمیشہ دو ہاتھ سے بجتی ہے۔ ہندوستان کو انگریز نے کیسے فتح کیا؟ دراصل اورنگزیب نے ریاست پر اپنی غیر قانونی بادشاہت کو بچانے کے لیے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کیے، ریاست کمزور ہوئی، اسے اور کمزور نادر شاہ نے کیا اور یوں فرنگی بیٹھ گیا۔ آمروں کا بھی ٹاکرا لوگوں کی حق حاکمیت سے براہ راست تھا۔ انھوں نے بھی اوچھے ہتھکنڈے استعمال کیے۔ چالیس سالوں کا یہ طویل سفر اور اس کے اثرات ایک دن میں تو نہیں جائیں گے بلکہ ہم اب بھی وہیں ہیں۔ مارشل لائی دور کے آدمی۔
ذرا یہ تو مان لیجیے، آمریتیں جناح کے دیے ہوئے روڈ میپ کی نفی تھیں۔ تو پھر اگر تھیں تو آغا و عامر ہتھوڑا گروپ کے سوا کچھ بھی نہیں اور ایسے کئی حرکات و سکنات کوئی اور نہیں بلکہ ملک کے ادارے اور ان کے سربراہ بھی کرتے ہیں، اور لوگوں کی کم فہمی کا فائدہ اٹھاتے ہیں تو پھر لیجیے ہم ایک بھٹکے ہوئے مسافر کی طرح بیچ بھنور میں کھڑے ہیں۔ کسی کو کچھ بھی خبر نہیں ہمیں جانا کہاں ہے۔ اور تو اور ہمیں اس بھنور سے نکلنے کا کوئی سراغ نہیں۔
دراصل قائداعظم محمد علی جناح کے انتقال کے بعد ہم اس کے دیے ہوئے روڈ میپ کو چھوڑ بیٹھے۔ ہم نے تو سماج ہونے کی بنیادی شکل گنوا دی اور اب یہ اپنے انداز کی زبردستی ہے، تشریح ہے، ہر کوئی یہاں آگے بڑھنے کے لیے کوئی دو نمبر کام کرنا چاہتا ہے۔ سیدھا راستہ سب نے چھوڑ دیا۔ لوگوں کو ہم صحیح خبر نہیں دیتے، جو صحیح سوچتے ہیں ان کو غلط سوچ رکھنے والے سمجھتے ہیں۔
آج محمد علی جناح خود اپنے ہاتھ سے بنے ہوئے ملک میں بے معنی ہو گئے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کے ہم حقیقت سے ملنا نہیں چاہتے ہیں۔ ہم خوش فہمی کا شکار ہیں کہ سب ٹھیک ہے اور سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اس بھنور سے نکلنے کا حل یہ ہے کہ ہمیں جناح کے دیے ہوئے روڈ میپ پر چلنا ہو گا۔ آج کے دن سے بہتر دن کون سا ہو گا، اس بات کی روح تک پہنچنے کا۔
ہمیں اب جو مسئلہ درپیش ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں یہ معلوم نہیں کہ مسئلہ کیا ہے؟ جب مسئلہ ہی سمجھ نہ آئے تو حل کیسے ملے۔ ''وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے'' کی طرح سب ٹھیک ہے۔ اور یوں کرتے کرتے ہم بہت آگے نکل آئے ہیں۔ ایک ایسے مسافر کی مانند جو اپنے راستے سے بھٹک جاتا ہے۔ کوئی شارٹ کٹ بھی نہیں۔ وہیں واپس جانا ہو گا جہاں سے قائداعظم نے اس ملک کو پانے کے بعد، ایک روڈ میپ دیا تھا۔ آج کے دن سے بھلا اور موزوں دن کون سا ہو گا۔ میں نے پہلی مرتبہ اس حکومت کو کہتے ہوئے سنا کے یہ ہماری جنگ ہے۔ اب یہ وقت تو شاید دیر آید درست آید سے بھی آگے نکل گیا ہے۔
ذرا غور سے دیکھیے اور بتایے کے آغا وقار اور عامر لیاقت میں کیا فرق ہے؟ اس نے بھی ایک چونکا دینے والی خبر گھڑی تھی اور اس نے بھی۔ فرق یہ ہے کہ اس نے پانی کی گاڑی چلا کر سب کو حیران کر دیا اور اس نے بچوں کی نیلامی سجا کر۔ مگر وہ مجرم ٹھہرا اور یہ منصف۔ اس کے ہاتھ میں ترازو ہے ، جو کہے وہ حرف آخر ہے۔ ہمیں عام اور سادگی سے کہی خبریں اب اچھی نہیں لگتیں۔ ہم فوراً ریموٹ کے بٹن کو دباتے ہیں اور کہیں اور نکل جاتے ہیں۔ یوں کہیے کے ا ب یہ آغا وقار یا عامر لیاقت کہیں اور نہیں بلکہ ہم میں ہی رہتے ہیں۔ ہم خود اپنی ذات میں چھوٹے چھوٹے آغا و عامر بن گئے ہیں۔ نہ کوئی صحیح خبر دینے والا رہا اور نہ کوئی اسے سننے والا۔ ہم نے اس قوم کو موالی بنا نے میں کیا کسر چھوڑی؟ اور تو اور، ان کو بھی سمجھ نہ آئی کے یہ فریڈم آف انفارمیشن کے آئینی حق کی بھی پامالی ہے کہ لوگوں کو گمراہ کن خبریں دی جا رہی ہیں۔
کوئی ایسی بات کہو جس سے لوگ ششدر ہو جائیں۔ چونک جائیں۔ اور ہم اپنی ریٹنگ بڑھائیں۔ تو پھر مارشل لا کیا تھا؟ یہی تو تھا اپنے زمان و مکان میں۔ کون بیٹھتا تھا آمروں کے ساتھ؟ یہ ہم ہی تو تھے۔ تالی ہمیشہ دو ہاتھ سے بجتی ہے۔ ہندوستان کو انگریز نے کیسے فتح کیا؟ دراصل اورنگزیب نے ریاست پر اپنی غیر قانونی بادشاہت کو بچانے کے لیے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کیے، ریاست کمزور ہوئی، اسے اور کمزور نادر شاہ نے کیا اور یوں فرنگی بیٹھ گیا۔ آمروں کا بھی ٹاکرا لوگوں کی حق حاکمیت سے براہ راست تھا۔ انھوں نے بھی اوچھے ہتھکنڈے استعمال کیے۔ چالیس سالوں کا یہ طویل سفر اور اس کے اثرات ایک دن میں تو نہیں جائیں گے بلکہ ہم اب بھی وہیں ہیں۔ مارشل لائی دور کے آدمی۔
ذرا یہ تو مان لیجیے، آمریتیں جناح کے دیے ہوئے روڈ میپ کی نفی تھیں۔ تو پھر اگر تھیں تو آغا و عامر ہتھوڑا گروپ کے سوا کچھ بھی نہیں اور ایسے کئی حرکات و سکنات کوئی اور نہیں بلکہ ملک کے ادارے اور ان کے سربراہ بھی کرتے ہیں، اور لوگوں کی کم فہمی کا فائدہ اٹھاتے ہیں تو پھر لیجیے ہم ایک بھٹکے ہوئے مسافر کی طرح بیچ بھنور میں کھڑے ہیں۔ کسی کو کچھ بھی خبر نہیں ہمیں جانا کہاں ہے۔ اور تو اور ہمیں اس بھنور سے نکلنے کا کوئی سراغ نہیں۔
دراصل قائداعظم محمد علی جناح کے انتقال کے بعد ہم اس کے دیے ہوئے روڈ میپ کو چھوڑ بیٹھے۔ ہم نے تو سماج ہونے کی بنیادی شکل گنوا دی اور اب یہ اپنے انداز کی زبردستی ہے، تشریح ہے، ہر کوئی یہاں آگے بڑھنے کے لیے کوئی دو نمبر کام کرنا چاہتا ہے۔ سیدھا راستہ سب نے چھوڑ دیا۔ لوگوں کو ہم صحیح خبر نہیں دیتے، جو صحیح سوچتے ہیں ان کو غلط سوچ رکھنے والے سمجھتے ہیں۔
آج محمد علی جناح خود اپنے ہاتھ سے بنے ہوئے ملک میں بے معنی ہو گئے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کے ہم حقیقت سے ملنا نہیں چاہتے ہیں۔ ہم خوش فہمی کا شکار ہیں کہ سب ٹھیک ہے اور سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اس بھنور سے نکلنے کا حل یہ ہے کہ ہمیں جناح کے دیے ہوئے روڈ میپ پر چلنا ہو گا۔ آج کے دن سے بہتر دن کون سا ہو گا، اس بات کی روح تک پہنچنے کا۔