عمران کو خطرناک اوور
عمران نے ایک خطرناک اوور کھیلا ہے، الیکشن سے اب تک چھ خطرناک گیندیں عمران کی جانب پھینکی گئی ہیں۔
KARACHI:
عمران نے ایک خطرناک اوور کھیلا ہے۔ الیکشن سے اب تک چھ خطرناک گیندیں عمران کی جانب پھینکی گئی ہیں۔ ہم دیکھیں گے کہ وہ بالر کون تھے، بالنگ اسپن تھی یا فاسٹ اور کپتان نے ان گیندوں کو کس طرح کھیلا۔ کرکٹ کی دنیا میں بلے باز کو ایک اوور ایک ہی بالر کرواتا ہے۔ سیاست کی دنیا میں چھ گیند باز عمران کی جانب پچھلے تین ماہ میں مختلف انداز کی بالنگ کر چکے ہیں۔ آئیے! کرکٹ کی زبان میں سیاست کا جائزہ لیتے ہیں۔
پہلا خطرناک بالر نامعلوم تھا۔ الیکشن سے چار روز قبل لاہور کے جلسے میں جاتے ہوئے عمران لفٹ سے گر کر زخمی ہو گئے۔ بالر راولپنڈی میں تھا۔ عمران کو ایک روز بعد شیخ رشید کے جلسے میں نشانہ بنانے والا گیند باز ناکام ہو گیا۔ اسے کس نے نامراد بنایا؟ قدرت نے۔ اسی نے ایک روز قبل عمران کو چھوٹی مصیبت دے کر بڑی مصیبت سے بچا لیا۔ زخمی عمران سے اس وقت کے وزیر داخلہ رحمٰن ملک ملے اور انھیں ایک اطلاع دی۔ ایجنسیوں کی رپورٹ کے مطابق راولپنڈی میں شیخ رشید کے جلسے میں عمران کو نقصان پہنچانے کے ارادے تھے۔ یہ نامعلوم بالر بڑا خطرناک تھا۔ اس کا حملہ قدرت کی رضا سے عمران نے یوں ناکام بنایا جیسے بیٹسمین نے گیند کو چھوڑ دیا ہو۔ باہر جاتی ہوئی گیند کو نہ کھیل کر۔ عمران تبدیلی کا نشان ہے اور ''جوں کا توں'' چاہنے والے کبھی نہیں چاہیں گے کہ عمران کا انقلاب ان کے رنگ میں بھنگ ڈال دے، ان کے مزے کو خراب کر دے۔ یہ تقریباً تمام گیند بازوں میں مشترک چیز ہے۔ وہ کپتان کو کریز سے ہٹا کر آؤٹ اس لیے کرنا چاہتے ہیں کہ وہ سب کچھ آنے والے کل کو بھی اسی طرح انجوائے کرنا چاہتے ہیں جس طرح آج کر رہے ہیں۔
نواز شریف واضح طور پر دوسرے گیند باز ہیں جنھیں عمران سے خطرہ ہے۔ 30 نومبر 2011ء سے شروع ہونے والے خطرے کو انھوں نے الیکشن والے دن تو جھیل لیا لیکن آج بھی وہ مسلم لیگ کی سیاست کے لیے بڑا خطرہ ہیں۔ لاہور، پنڈی، اسلام آباد اور میانوالی سے سیٹیں جیتنے اور گوجرانوالہ، فیصل آباد سے اچھے ووٹ لے جانے والے کپتان کو 'ن والے' اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں، طاقتور اداروں، امریکا اور پیپلز پارٹی سے بھی بڑا خطرہ۔ پنجاب ہی سے زیادہ ووٹ لے جانے والے شریف برادران دوسرے صوبوں میں کمزور ہیں۔ وہ کراچی اور خیبر پختونخوا کے انتخابی نتیجے دیکھ رہے ہیں۔ ایک شہر سے لاکھوں ووٹ اور ایک صوبے میں حکومت بنانے پر رائے ونڈ کی گہری نظر ہے۔ وہ یہاں سے عمران کے مخالفین سے دوستی کو ترجیح دیں گے۔ الیکشن میں دھاندلی کا الزام سہنے والے ''انتخابی چکمہ'' دے چکے ہیں۔ اب ان کا ارادہ ہے اگلے معرکے میں کپتان کے تمام مخالفین کو اکٹھے کر کے انھیں اکیلا کیا جائے۔ ''اگر سب مل جائیں تب بھی مجھے نہیں ہرا سکتے'' یہ بات عمران نے گزرے انتخابات کے لیے کہی تھی کہ آیندہ کے لیے؟ نہیں معلوم لیکن بہرحال یہ طے ہے کہ عمران کو دوسری گیند چکمہ گیند تھی یعنی انتخابی چکمہ۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ کپتان اس گیند پر آؤٹ ہوتے ہوتے بچ گئے۔
فضل الرحمٰن تیسرے گیند باز ہیں جو خطرناک انداز میں عمران کی جانب گیند پھینک چکے ہیں۔ ''یہودی ایجنٹ'' کا الزام لگا کر تیز گیند۔ عمران کی پچھلے چار برسوں میں پختون خواہ میں مقبولیت کو مولانا نے اپنے لیے خطرے کا سمبل سمجھا۔ ان کا اندازہ درست ثابت ہوا۔ ڈرون حملوں پر امریکا کی مذمت نے تحریک انصاف کو صوبے میں مقبولیت بخشی۔ جلد چاند دیکھ لینے والے پٹھانوں نے عمران کے چاند کو بھی جلد ہی دیکھ لیا۔ ڈرون کے خلاف مظاہرے میں حصہ لینے والے یورپین اور امریکیوں کو خیبر کی سرزمین پر دیکھ کر مولانا پریشان ہوئے۔ پھر انھیں یہودی قرار دے کر عمران کو انتخابی نقصان پہنچانا چاہا۔ انتخابی جلسوں میں عمران و فضل ٹاکرا بھرپور انداز سے دیکھا گیا۔ مولانا پر کوئی تنقید نہیں کرتا۔ نہ جماعت اسلامی، نہ اے این پی۔ نہ یہ ضرورت آصف زرداری، نواز شریف اور الطاف حسین کو ہے کہ ان کے میدان سندھ، پنجاب اور کراچی ہیں۔ پہلی مرتبہ مولانا کو عمران کی بھرپور تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ مولانا نے بھی بھرپور جواب دیا لیکن وہ انتخابی میدان میں نشستوں کے اعتبار سے تحریک انصاف سے پیچھے رہ گئے۔ انھوں نے نواز شریف کے ساتھ مل کر خیبر پختونخوا میں حکومت بنانا چاہی لیکن بات نہ بن سکی۔ مولانا تیسرے بالر تھے جنہوں نے عمران کی جانب تیز گیند پھینکی جو باؤنڈری لائن پار کر گئی۔
اے این پی حکومتی پارٹی تھی جو اپوزیشن میں بھی ننھی منی سی رہ گئی ہے۔ ہر موقعے پر ان کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ نہ صرف صوبے میں بلکہ ریلوے کے حوالے سے بھی۔ انتخابی شکست تسلیم کرنے والے غلام احمد بلور اب انتخابی سیاست کے لیے میدان میں ہیں۔ ان کی سلو گیند پر عمران چھکا لگا چکے ہیں۔ اے این پی پاکستان کی سیاست میں سب سے قدیم تاریخ رکھتی ہے۔ پچھلے سو برسوں میں اس سے بھی شدید تر حالات کا مقابلہ کر چکے ہیں۔ وہ ضرور چاہیں گے کہ عمران صوبے میں وہ تبدیلیاں نہ لاسکیں جو کپتان کے ذہن میں ہیں۔ اس لیے خیبر پختونخوا کے افسروں سے پارٹی لیڈر کی ملاقات پر تنقید کر رہے ہیں۔ صوبے کے عوام نے عمران کے نام پر ووٹ دیے ہیں۔ کپتان ضرور چاہیں گے کہ اپنے آئیڈیاز کو صوبے کی اعلیٰ بیوروکریسی کے گوش گزار کروائیں۔ یہ مقام سونیا گاندھی کا بھی ہے اور نواز شریف کا بھی تھا جب شہباز شریف پچھلے دور میں وزیر اعلیٰ تھے۔ اسفند یار ولی کی جانب سے ہلکی پھلکی گیندیں آئیں گی جنھیں عمران کو آسان نہیں سمجھنا چاہیے۔
تحریک انصاف کے اندر سے عمران کی جانب پانچویں گیند پھینکی گئی ہے۔ مسرور خان اور عائلہ ملک کی ڈگریوں کا جعلی ہونا پارٹی کے صاف کردار سے مناسبت نہیں رکھتا۔ ایسے لوگوں کو پارٹی میں مقبول نہ کرنا یا ٹکٹ دینا اور اگر جعل سازی کا شک ہے تو معطل کر کے نتیجے تک انتظار کرنا۔ اگر عمران کی سربراہی میں چلنے والی انصاف کی تحریک کچھ نہ کرے تو کارکنان کی مایوسی یقینی ہے۔ چوروں، اچکوں اور جعل سازوں کو تصور بھی نہیں کرنا چاہیے کہ انھیں عمران کی پارٹی میں شامل ہونا چاہیے۔ کردار کی بلندی، پارٹی کا ڈسپلن اور کارکنان کا اعلیٰ معیار ٹارگٹ ہونا چاہیے۔ پارٹی کے اندر سے ایسی خبریں آنا پانچویں گیند تھی جو مئی سے جولائی تک کے تین ماہ میں عمران کی جانب پھینکی گئی ہے۔ یہ ڈاٹ بال تھی جس پر کوئی رن نہیں بنا اور نہ وکٹ گری۔
چھٹی اور آخری گیند؟ ان کو ''توہین عدالت'' کا ملنے والا نوٹس ہے۔ عدلیہ کی خاطر لڑنے والا اور ان کی خاطر 2008ء کے الیکشن کا بائیکاٹ کرنے والا عدالت کی توہین کے شک پر عدالت میں بلایا جا رہا ہے۔ عمران کی رائے تھی کہ عمدہ شخصیت چیف الیکشن کمشنر ہو اور عدلیہ آزاد ہو تو انتخابات شفاف ہوں گے۔ یہ نہ ہوا تو تلافی کے لیے عمران دو شخصیات کی جانب دیکھ رہے تھے۔ جب وقت گزرتا گیا اور کچھ نہ ہوا تو مایوس عمران کے منہ سے لفظ ''شرمناک'' نکلا۔ اگر اس لفظ سے درگزر کیا جائے اور چھٹی گیند نہ پھینکی جائے تو پاکستان کو بہتری کی امید ہو گی۔ بہتری کی امید عمران کی شکل میں۔ اگر یہ نہ ہوا تو خدانخواستہ پاکستان ''شرمناک'' انجام سے دوچار ہو جائے گا۔ انقلاب سے عوام کو دور رکھنے کے لیے عمران کی جانب خطرناک اوور کروایا گیا ہے۔ نامعلوم گیند، چکمہ گیند، فاسٹ بال، اسپین گیند اور اندر آتی گیند۔ پانچ گیندیں عمران نے جھیل لی ہیں۔ چھٹی گیند 28، اگست کو کروائی جائے گی۔ دیکھنا ہے کہ عمران اس گیند کو کیسے کھیلتے ہیں۔ اسی دن اسلام آباد کی عدالت عظمیٰ کے کمرہ نمبر ایک میں یہ گیند کپتان کو کھیلنی ہے۔ اس گیند کو کامیابی سے کھیلنے پر فیصلہ ہو گا کہ کیسے کھیلا عمران نے خطرناک اوور۔