قائد اعظم ریزیڈنسی پر حملہ
ماہ رمضان آیا اور ہر سال کی طرح گزر گیا۔
ماہ رمضان آیا اور ہر سال کی طرح گزر گیا، عید اور 14 اگست بھی دنیائے آب و گل پر جلوہ نما ہوئے اور پھر غروب آفتاب کے ساتھ الوداع کہتے ہوئے جدا ہوئے، یہ ماہ و سال اسی طرح آتے رہیں گے وقت گزرتا رہے گا پرانی نسلیں سفر آخرت پر روانہ ہوں گی اور نئی نسلیں کچھ کرنے کے لیے جدوجہد کرتی رہیں گی، ہر سال اسی طرح ہوتا ہے اور ہوتا رہے گا لیکن حالات و واقعات میں ضرور تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ پاکستان پر جب سے دہشت گردوں کا راج ہے، اس ملک کا اس قوم اور اس وطن کے اداروں کا برا ہی ہو رہا ہے۔ اچھا کچھ نہیں ہوتا۔ سوائے اچھی امیدیں اور تمنائیں جنم لیتی ہیں، خواہشات پیدا ہوتی ہیں کہ شاید اس بار کچھ اچھا ہو جائے لیکن اس وقت ارمانوں و خوابوں کی نگری آگ میں جل کر راکھ ہو جاتی ہے جب مزید برا ہو جاتا ہے۔
اس سال بھی ہمیشہ کی طرح زیادہ ہی برا ہوا۔ سب سے زیادہ برا تو پوری دنیا کے مسلمانوں خصوصاً مصر کے مسلمانوں پر ظلم کا ایک نیا باب کھول دیا گیا، مصری شہریوں کے زندہ جسموں پر ٹینک چلا دیے گئے، انھیں آگ میں جھونک دیا گیا۔ نیٹ پر ان سیکڑوں معصوم و بے خطا مصری بچوں، نوجوانوں، خواتین کی تصاویر موجود ہیں جو آگ میں جھلسے ہوئے ہیں بے گور و کفن لاشے انسانیت کے علمبرداروں سے انصاف مانگ رہے ہیں اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کے طالب ہیں، مصر میں جو لوگ خوف و ہراس میں جی رہے ہیں وہ منتظر ہیں کہ امت مسلمہ اٹھے اور ان کی امداد کرے انھیں اس ماحول سے نکال دے جہاں بار بار جینا اور مرنا پڑتا ہے۔ برطانوی میڈیا کا یہ دعویٰ ہے کہ مصری فوج نے ہلاکتوں کو چھپانے کے لیے لاشوں کو جلا دیا۔ تین سو سے زائد خواتین اور بچے خیموں میں زندہ جل گئے ہیں۔ ہلاکتوں کی تعداد 2600 سے زیادہ ہے اور دس ہزار نہتے مصری زخمی ہیں۔
مصر میں یہ خون ریزی ماہ رمضان میں ہوئی اور رمضان کی آمد سے قبل سے آج تک مصریوں کو تہ تیغ کیا جا رہا ہے چند ماہ قبل برما کے مسلمانوں پر بدھسٹوں نے قتل و غارت گری کا طوفان برپا کیا تھا اور اب بھی حالات اچھے نہیں ہیں۔ دمشق و مقبوضہ کشمیر کی حالت زار بھی مختلف نہیں ہے، پاکستان بھی خطرات میں گھرا ہوا ہے۔ بھارت کی چھیڑ خانی اور ہرزہ سرائی عروج پر ہے۔ سابقہ اور موجودہ حالات کا اگر موازنہ کریں تو اس بات کا اندازہ اچھی طرح ہو جاتا ہے کہ مسلمانوں کا کوئی لائحہ عمل نہیں ہے اور نہ ہی کوئی ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں مسلمانوں کے آپس کے اتحاد و اتفاق اور امت مسلمہ کے تحفظ کے لیے خصوصی اقدامات کیے جائیں، تجاویز پیش کی جائیں اور پھر ان پر عمل کیا جائے ہر مسلم ملک کا اپنا اپنا قبلہ ہے، اسلامی اخوت و بھائی چارا، یگانگت کا سبق سب نے بھلا دیا ہے۔ اسی وجہ سے آج مسلمانوں کو اس قسم کے واقعات و حادثات سے نبرد آزما ہونا پڑ رہا ہے۔ مغربی ممالک سے دوستی اپنی جگہ لیکن اپنے وطن کی سالمیت اور تحفظ کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔
ہمارے اپنے ملک میں ہر شخص اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتا ہے اور اسے سمجھنا بھی چاہیے کہ وہ لاوارثوں کی طرح بڑی ہی اذیت اور مشکلات کے ساتھ زندگی بسر کر رہا ہے۔ اسے معاشی مسائل بھی درکار ہیں اور معاشرتی دکھوں میں بھی مبتلا ہے، بیرونی خطرات اپنی جگہ موجود ہیں۔ پاک بھارت جنگ کے امکانات کو بھی مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ ڈرون حملے بھی وقتاً فوقتاً جاری رہتے ہیں ہمارا ملک پاکستان کمزور سے کمزور تر ہوتا جا رہا ہے اتنا کمزور اور بے وقعت سا کہ جب جس کا جی چاہے وہ کچھ بھی کر بیٹھے۔
اسلام آباد کے ریڈ زون ایریا میں دہشت گردی کا ناٹک رچا کر پورے شہر کو یرغمال بنا لیا گیا اور فورسز بحالت مجبوری کہ ناحق کسی کی جان نہ چلی جائے تماشائی کا کردار ادا کرتی رہی مسلح شخص کی بیوی نے مذاکرات اس طرح کیے جس طرح کسی فیملی پارک میں جا کر کسی ڈرامے کی ریہرسل کر رہی ہو۔ کان پر موبائل لگا ہے، گفت و شنید کا سلسلہ جاری ہے ادھر آتی ہیں ادھر جاتی ہیں ایک طرف سرتاج ہیں تو دوسری طرف پاک فورسز اور پاکستان کی اہم ترین شخصیات۔ ان کے چہرے پر کسی قسم کا خوف و ہراس نہیں ہے، جذبات سے عاری چہرہ اپنے کام میں منہمک، فرائض کی ادائیگی میں چاق و چوبند، عجیب و غریب خاتون تھیں۔ ورنہ ان حالات میں کوئی اور دوسری خاتون ہوتی تو اس کی جان ہی نکل جاتی اس کا ایک قدم چلنا مشکل ہو جاتا۔ چاروں طرف اسلحہ بردار فورس ہو۔ لیکن ادھر حالات بڑے ہی مختلف تھے خیر ڈرامہ اپنے انجام کو پہنچا۔ نیٹ پر سب پتہ چل گیا کہ وہ مسلح شخص کس کا آلہ کار تھا؟
بے شک اگست کا مہینہ ہر لحاظ سے بے حد اہمیت کا حامل تھا اسی ماہ کی ابتداء میں رمضان المبارک کا آخری عشرہ اور پھر عیدالفطر اس کے بعد یوم آزادی، ہمارے حکمرانوں نے قوم کو آزادی کی مبارکباد پیش کی۔ لیکن کس منہ سے؟ بس یہی چھوٹا سا ایک سوال ہے۔ اس سال زیارت میں قائد اعظم کی ریزیڈنسی کو تباہ کر دیا گیا لیکن ذمے داران غفلت میں رہے۔ سیاح ہر سال اس مقام کی زیارت کو آتے تھے تصاویر اتاری جاتی تھیں اہل وطن تقدس و احترام کے ساتھ انھیں دیکھتے کہ یہ اس لیڈر اور ان کے استعمال کی چیزوں کی تصاویر ہیں جن سے قائد نے استفادہ کیا تھا۔
عظیم قائد کے ہاتھوں نے ان اشیاء کو چھوا تھا، ان کا قلمدان، بستر، پلنگ، فاطمہ جناح کی یادگار چیزیں۔ افسوس صد افسوس ہمارے لیڈر قائد کی ان چیزوں کی حفاظت نہ کر سکے۔
قائد اعظم محمد علی جناح کا تعلق متمول خاندان سے تھا ان کی پیدائش 25 دسمبر 1876ء کو کراچی میں ہوئی۔ قائد اعظم کے والد کا کاروبار خوب ترقی پر تھا روپے پیسے کی کمی نہیں تھی قائد اعظم نے سندھ مدرسہ ہائی اسکول اور پھر کرسچن سوسائٹی مشنری اسکول کراچی میں داخلہ لیا اور سولہ سال کی عمر میں اسی اسکول سے میٹرک کیا۔ قائد نے سیاست میں اس وقت حصہ لیا جب وہ لندن میں زیر تعلیم تھے لندن سے ہی انھوں نے بیرسٹری کا امتحان پاس کیا وہ مشہور پارسی لیڈر دادا بھائی نوروجی کے خیالات سے بے حد متاثر تھے۔ 1894ء میں انھوں نے بیرسٹری کا امتحان پاس کیا اور کراچی لوٹ آئے۔ 1904ء میں جب آپ نے کانگریس میں تقریر کی تو مسلمانوں کو اندازہ ہو گیا کہ برصغیر کے آسمان سیاست پر ایک نیا ستارہ طلوع ہوا ہے چنانچہ اسی سال سیاسی بیداری کا ثبوت دیتے ہوئے مسلم لیگ کی بنیاد رکھی۔ اور پھر پاکستان کی بنیاد رکھنے کا سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا۔
قائد اعظم بہت سی خوبیوں کے مالک تھے انھیں خوشامد بالکل پسند نہیں تھی ایک مرتبہ حکومت برطانیہ نے ''سر'' کے خطاب سے نواز کر انھیں خریدنے کی کوشش کی تا کہ اپنے من پسند کام کرائے لیکن قائد اعظم نے فوراً انکار کر دیا اور کہا کہ میں مسٹر جناح کہلوانے کو ترجیح دوں گا لیکن ''قائد اعظم'' کے خطاب پر انھوں نے اعتراض نہیں کیا کیوں کہ یہ قوم نے خطاب انھیں دیا تھا۔ 7 اگست 1947ء کو کانگریس نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو ہندوستان کا گورنر جنرل مقرر کر دیا۔ لارڈ ماؤنٹ کی دلی خواہش تھی کہ وہی پاکستان کا گورنر جنرل ہو لیکن قائد اعظم کی بصیرت نے اس بات کو پسند نہ کیا اور اپنے گورنر جنرل ہونے کا اعلان کر دیا۔ 14 اگست 1947ء کو آپ نے پہلے پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کا عہدہ سنبھال لیا۔ پاکستان کا قیام وجود میں آ گیا۔ لیکن پاکستان کے دشمنوں نے اسے دولخت کیا اور اب بقیہ پاکستان کی حفاظت اور بھی ضروری ہے۔