غیر علانیہ جنگ اور قوم …
سکھر کی بیراج کالو نی میں آئی ایس آئی کے دفتر پر 24 جولائی کو خود کش مسلح گروہ ایک شہ زور ٹرک میں حملہ آور ہوا تھا۔
سکھر کی بیراج کالو نی میں آئی ایس آئی کے علاقائی دفتر پر 24 جولائی کی شام 4 افرد پر مشتمل خود کش مسلح گروہ ایک شہ زور ٹرک میں حملہ آور ہوا یہ حملہ عین اس وقت کیا گیا جب قوم کے محافظ اپنا دینی فریضہ انجام دے رہے تھے، دہشت گرد دراصل افسران اور ان کے اہل خانہ کو یرغمال بنا کر اپنے اگلے ناپاک منصوبے پر عمل کرنا چاہتے تھے۔ حملے میں ادارے کے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد ذیشان، 2 اہلکاروں سمیت ایک سویلین بھی شہید ہوئے۔ ایس ایس پی سکھر کے مطابق چاروں حملہ آوروں کو موقعے پر ہی دو بدو مقابلے کے بعد ہلاک کر دیا گیا ۔ وطن عزیز کے محا فظ ادارے پر دہشت گرد حملے نے نہ صرف حکومت اور سیاسی جماعتوں بلکہ عوام کو بھی بہت کچھ سوچنے سمجھنے پر مجبور کر دیا ہے کہ وہ کونسی طاقتیں ہیں جو اپنی راہ میں اس ادارے کو رکاوٹ سمجھتی ہیں، یہ بات عیاں ہے کہ گزشتہ تین عشروں کے دوران اس ادارے نے بے مثل کردار ادا کرتے ہوئے ملک دشمن متعدد کارروائیوں کو نہ صرف بے نقاب کیا بلکہ بے شمار ایسے افراد کو بھی گرفتار کیا جو پاکستان اور اس کی سالمیت کو قابل تلافی نقصان پہنچانا چاہتے تھے، اس ادارے کا ہر کارکن جذبہ حب الوطنی سے سرشار قابل فخر کمٹمنٹ کے ساتھ اپنے امور کی انجام دہی میں مصروف عمل ہے۔
آج پوری دُنیا آئی ایس آئی کی کارکردگی کو ورطۂ حیرت سے دیکھتی ہے جس نے انتہائی محدود وسائل میں رہ کر بے پنا ہ مالی وسائل سے مالا مال خفیہ ایجنسیوں پر بھی اپنی دھا ک بٹھا رکھی ہے ملک دشمن طاقتیں اب یہ سمجھتی ہیں کہ آئی ایس آئی کو زیر کیے بغیر انہیں اپنے مذموم مقاصد میں کامیابی کا حصول ممکن نظر نہیں آتا ۔ اس سے قبل ان طاقتوں نے وطن عزیز کو کمزور کرنے کے لیے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے علیحدگی کی تحریکیں چلائیں جنہیں اس ادارے نے نہ صرف بے نقاب کیا بلکہ ان کا قلع قمع کر کے رکھ دیا ، جس کے بعد عالمی سازشی کرداروں نے اسلام کے نام پر قتل و غارت گری کا بازار گرم کر نے کے لیے اسلامی تعلیمات سے بے بہرہ اور انسانیت سے عاری لوگوں کو متعارف کرایا لیکن اس بار بھی عالمی دہشتگردوں کے سامنے آئی ایس آئی ڈھال ثابت ہوئی جس کے بعد اپنے مقاصد میں مسلسل ناکامی کے بعد ان طاقتوں نے اس ادارے کو اپنا ہدف بنا رکھا ہے سکھر میں اسی قسم کے خطرے کے پیش نظر حفاظتی اقدامات کے طور پر راستوں کی بندش کر دی گئی تھی مگر چند عناصر کی مداخلت کے بعدٰ عدلیہ نے ان راستوں کو کھولنے کا حکم صادر کیا جس کی وجہ سے دہشتگردوں کو یہ موقع ملا کہ وہ اپنے مذموم اور نا پاک مقاصد کو عملی جامہ پہنا سکیں اسی وجہ سے ایک افیسر دو اہلکار وں اور ایک سویلین کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔
کیا یہ جنگ صرف آئی ایس آئی کی ہے ۔ نہیں بالکل نہیں۔ تما م قوم حالت جنگ میں ہے اور جنگیں اکیلے نہیں جیتی جا سکتیں۔ بلوچستان، خیبر پختونخوا او ر کراچی میں حساس اداروں، فوج اور قانون نافذ کر نے والے ادارے اور اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز اس خطرے کی حساسیت کو مد نظر ر کھتے ہوئے وہ تمام ایکشن لیں جس سے ان قوم کے محافظ اور عام لوگوں کو جتنا ممکن ہو تحفظ فراہم کیا جا سکے اس کے لیے ہم سب کو مل کر ایک دوسرے کا احساس کرنا ہو گا تا کہ ہم کسی قسم کے پروپیگنڈہ کا شکار ہو کر کسی بھی قسم کا ایکشن لینے سے پہلے ہر پہلو کا باریکی سے جا ئزہ لیں۔ یہی دہشت گرد ی کی لہر کراچی اور حیدرآباد کے بعد سندھ کے باقی حصوں میں بھی پھیل چکی ہے اسی طرح کا ایک واقعہ 24 جولائی کو سکھر کی بیراج کالونی میں آئی ایس آئی کے علاقائی دفتر پر ہو ا۔ اس علاقے میں تمام بڑے سرکاری افسران، ملازمین اور حساس اداروں کے دفاتر اور رہائش گاہیں اور اس کے علاوہ عدلیہ کے قابل احترام جج صاحبان کی رہائش گاہیں بھی موجود ہیں۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ اس علاقے کو فول پروف سیکیورٹی مہیا کی جاتی لیکن افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ اگر اس طرح کے ایریاز بھی محفوظ نہیں ہیں تو عوام کو کس قسم کے تحفظ کی توقع کی جا سکتی ہے۔
کچھ عر صہ پہلے انھی خطرات کو مد نظر رکھتے ہوئے بیراج کالونی کی غیر محفوظ داخلی راستوں کو بند کیا گیا تھا جس کا مقصد ڈی آئی جی ہائوس، کمشنر ہائوس، حساس اداروں کے دفاتر اور ججز کالونی کو اس طرح کے حادثات سے محفوظ کرنا تھا۔ یہ راستہ قریب 3 ماہ تک بلاک رہا لیکن کچھ عناصر نے اس کے خلاف پروپیگنڈہ شروع کیا اور اس پروپیگنڈہ کا شکار ہوتے ہوتے ہائی کورٹ سکھر بینچ میں اس روڈ کی بندش کے خلاف ایک پٹیشن دائر کی جس پر بینچ کے اعلیٰ عدلیہ کے معزز جج صاحبان نے Appeal کو منظور کر لیا اور روڈ کھولنے کی ہدایات جاری کیں جس کی وجہ سے دہشت گردوں کو موقع ملا کہ وہ اسی راستے کو استعمال کر کے بغیر کسی رکاوٹ کے اپنے ہدف تک بہ آسانی پہنچ گئے اور بارود سے بھری گاڑی کو حساس عمارات کے درمیان اڑا دیا جس کی وجہ سے نہ صرف4 قیمتی جانیں ضایع ہوئیں بلکہ سرکاری اور غیر سرکاری افراد زخمی بھی ہوئے جو ان زخموں کا کرب شاید زندگی بھر نہ بھلا سیکں گے۔
ان پے در پے حملوں کی شدت نے واضح کر دیاہے کہ پوری قوم اس وقت ایک حالت جنگ میں ہے اور جنگیں کبھی بھی اکیلے نہیں جیتی جا سکتیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام ادارے اور معاشرتی اکائیاں اس حقیقت کا ادراک کر تے ہوئے مل جل کر ایک دوسرے کی ڈھال بنیں بجائے اس رویے کے کہ شاید جنگ زبردستی ان پر مسلط کی جا رہی ہے۔ دہشت گردوں کی کارروائیاں اور ان کی تیاریاں اور ساز و سامان اس حقیقت کا غماز ہے کہ ان کی پشت پناہی چند بڑی طاقتیںاپنے مذموم مقاصد کے لیے کر رہی ہیں اور ہمارے قومی سلامتی کے ادارے انتہائی محدود وسائل اور افرادی قوت کے ساتھ اگر ان بڑھتے ہو ئے خطرات کا مقابلہ کر رہے ہیں تو ہم سب کو بھی چاہیے کہ ان اداروں اور افراد کا نہ صرف ساتھ دیں بلکہ جس قدر ممکن ہو سکے ان کی مد د بھی کی جائے۔ ان حالات میں ان عملی سیکیورٹی اقدامات سے اگر معمولی Inconvenience بھی ہو تو ہمیں خندہ پیشانی سے انہیں قبول کر نا چاہیے تا کہ اس کے عوض قیمتی جا نوں کو بچایا جا سکے۔ دہشتگردی کے اس عفریت کا ہم کو بحیثیت قوم مقابلہ کرنا ہے نہ کہ ہم اپنے ڈرائنگ روموں میں سکون سے بیٹھ کر یہ اعلان کر دیں کہ جیسے یہ چند مخصوص اداروں کی جنگ ہے۔ ان مشکل حالات میں ہم نے من حیث القوم اگر کمزوری دکھائی تو شاید پھر ہم آنے والی مشکلات کا سامنا نہ کر پا ئیں گے۔