اہلِ لنکا نے ہی لنکا ڈھا دی
سری لنکا کے پاس وہ پیشہ ورانہ تجربہ نہیں جو خفیہ طور پر متحرک گروہوں تک رسائی اور سرکوبی کے لیے ضروری ہوتا ہے۔
LOS ANGELES,:
انگریزی محاورہ ہے کہ لڑائی کے بعد جو مکا یاد آئے اسے اپنے منہ پر مار لیں۔
تین برس پہلے آل سیلون جمیعت العلما نے متعلقہ سرکاری محکموں کو خبردار کیا کہ کچھ انتہا پسند مسلمان نوجوانوں کو شدت پسندی کی جانب راغب کر رہے ہیں۔بالخصوص ظہران ہاشم نامی ایک شخص سوشل میڈیااور بطورِ خاص یوٹیوب چینل کے ذریعے زہریلا پروپیگنڈہ کر رہا ہے۔مگر متعلقہ سرکاری محکموں نے جمعیت کی اس وارننگ کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔
گزشتہ برس مارچ میں گوتم بدھ کے ایک مجسمے کو نامعلوم افراد کی جانب سے مسخ کرنے کی ایک مقامی واردات کے بہانے سنہالہ انتہا پسند راہبوں کے اکسانے پر مقامی بودھوں نے وسطی اور مشرقی سری لنکا میں مسلمانوں کی املاک پر ہلہ بول دیا۔ایک شخص ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔بارہ دن کی ایمرجنسی لگی اور حالات پر قابو پا لیا گیا۔چھان بین سے معلوم ہوا کہ کشیدگی کو ہوا دینے میں بودھ انتہا پسندوں کے ساتھ ساتھ ایک چھوٹے سے انتہا پسند مسلمان گروہ نیشنل توحید جماعت کا بھی کردار تھا کہ جس کا سرغنہ ظہران ہاشم ہے۔تاہم متعلقہ اداروں نے اس معاملے کو بھی مزید چھان بین کے قابل نہیں جانا۔
اس غفلت کی لاشعوری وجہ شاید یہ ہو کہ تاریخی اعتبار سے سری لنکا کی دس فیصد مسلمان اقلیت کو ایک پرامن برادری سمجھا جاتا ہے۔ان میں سے اکثر سیکڑوں برس پہلے جزیرہ نما عرب اور مشرقی افریقہ سے آنے والے تاجروں سے اپنے نسلی ڈانڈے ملاتے ہیں۔سیاست میں کبھی اتنے متحرک نہیں رہے کہ کوئی نسلی گروہ انھیں اپنے مفادات کے لیے خطرہ سمجھے۔زیادہ تر نوکری پیشہ یا کاروبار سے منسلک اور نسبتاً خوشحال اور پڑھے لکھے ہیں۔
( اس کا اندازہ آپ کو خود کش بمباروں کے پروفائل سے بھی ہو سکتا ہے۔مثلاً محمد یوسف ابراہیم مصالحوں کے سب سے بڑے تاجر ہونے کے ناتے سری لنکا کے مصالحہ کنگ کہلاتے ہیں۔ان کے دو بیٹے اکیس اپریل کے خود کش حملوں میں شامل تھے۔ایک خود کش بمبار عبدالطیف جمیل محمد لندن کی کنگسٹن یونیورسٹی سے ایرو اسپیس انجینئرنگ میں گریجویٹ تھا۔خود کش بمباروں کے سرغنہ ظہران ہاشم کا تعلق بھی ایک کروڑ پتی کاروباری گھرانے سے تھا۔بعد از واردات جب سیکیورٹی دستوں نے اس کے گھر پر چھاپہ مارا تو ظہران کے دو بھائیوں نے خود کو والد ، والدہ، اہلیہ اور تین بچوں سمیت اڑا لیا اور آٹھ سرکاری سپاہی بھی ہلاک ہوئے )
اب سوال اٹھتا ہے کہ کیا اتوار اکیس اپریل کی اس المناک واردات سے بچا جا سکتا تھا جس کے نتیجے میں چالیس غیر ملکیوں سمیت ڈھائی سو سے زائد باشندے ہلاک ، پانچ سو سے زائد زخمی، تین چرچ اور تین ہوٹل اور دو ارب ڈالر کی سیاحتی صنعت پل بھر میں برباد ہو گئی؟
تاملوں کے ساتھ چھبیس برس تک جاری خانہ جنگی جس کا خاتمہ ایک لاکھ سے زائد ہلاکتوں اور بنیادی شہری آزادیوں اور انسانی حقوق کی قربانی کی قیمت پر دو ہزار نو میں ہوا۔اس دوران سری لنکا کی فوج اور انٹیلی جینس ایجنسیوں کو میدانِ جنگ اور پسِ میدان ِ جنگ جاری لڑائی جیتنے کے گر بھارت، پاکستان اور اسرائیل کے اداروں نے سکھائے۔ لہذا یہ بات ناقابلِ فہم ہے کہ سری لنکا کے پاس وہ پیشہ ورانہ تجربہ نہیں جو خفیہ طور پر متحرک گروہوں تک رسائی اور سرکوبی کے لیے ضروری ہوتا ہے۔
یہ بات اب شک و شبہے سے بالا ہو چکی ہے کہ اکیس اپریل کے سانحے سے سترہ روز پہلے بھارتی خفیہ ایجنسی را نے سری لنکا کے اہلکاروں کو خبردار کر دیا تھا کہ ایسٹر کے آس پاس مسیحی عبادت گاہوںاور کولمبو میں بھارتی سفارتخانے پر حملہ ہو سکتا ہے۔اس اطلاع میں ہوٹلوں پر حملے کے امکان کا تذکرہ نہیں تھا۔
جب اکیس اپریل کو واردات ہو گئی تو فوراً بعد وزیرِ اعظم رانیل وکرما سنگھے نے بیان دیا کہ اگر کوئی ایسی اطلاع تھی تو ان کے علم میں نہیں۔شاید صدر کو علم ہو کیونکہ دفاع اور داخلہ کے معاملات صدر میتھری پالا سرسینا دیکھتے ہیں۔ صدر نے لاعلمی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ میری ڈیسک تک ایسی کوئی فائل نہیں پہنچی۔جس کے نتیجے میں پیشگی احتیاطی تدابیر اختیار کی جا سکتیں۔
یہ وہ المناک صورتِحال ہے جو کسی بھی ریاست کو مفلوج کرنے کے لیے کافی ہے اور دیگر ریاستوں اور ان کے اداروں کو اس سے سبق سیکھنے کی اشد ضرورت ہے۔سری لنکا کا انتظامی بریک ڈاؤن گزشتہ برس اکتوبر میں شروع ہوا جب صدر سرسینا نے اچانک وزیرِ اعظم رانیل کی حکومت برطرف کر کے قائدِ حزبِ اختلاف راجہ پکسے کو نیا وزیرِاعظم مقرر کر دیا۔( راجہ پکسے دو ہزار پانچ سے پندرہ تک سری لنکا کے صدر رہے۔انھیں دو ہزار پندرہ کے انتخابات میں شکست ہوئی )۔
ملک سیاسی طور پر دو حصوں میں بٹ گیا۔اکیاون روز تک ملک میں دو وزیرِ اعظم رہے۔جب سپریم کورٹ نے برطرف وزیرِ اعظم وکرما سنگھے کو بحال کر دیا اور صدارتی حکم کو غیر آئینی قرار دے دیا تو بظاہر سیاسی بحران ختم ہوگیا مگر صدر اور وزیرِ اعظم کے دفاتر کے درمیان رابطہ عملی طور پر معطل ہی رہا۔حتیٰ کہ وزیرِ اعظم کو نیشنل سیکیورٹی کونسل کے اجلاسوں میں بھی مدعو نہیں کیا گیا۔اس کا اثر قومی اداروں اور اعلی اہلکاروں پر پڑا جنھیں یہی نہیں معلوم تھا کہ کسے کس کو جوابدہ ہونا ہے اور کیا کیا انتظامی فیصلے اوپر والوں کے لیے چھوڑنے ہیں اور کون سے فیصلے نچلی سطح پر کرنے ہیں۔اور پھر اس فالج زدہ نظام میں پڑنے والے شگافوں کا فائدہ دہشت گردوں نے آسانی سے اٹھا لیا۔
اگرچہ صدر اور وزیرِ اعظم نے قوم کے سامنے اجتماعی ریاستی ناکامی کا اعتراف تو کیا ہے مگر کوئی بھی استعفیٰ دینے کو تیار نہیں۔صدر نے قربانی کا بکرا پولیس سربراہ اور سیکریٹری دفاع کو بنا کر انھیں برطرف کر دیا۔حکومت پر تنقید روکنے کے لیے سوشل میڈیا پر لگائی گئی پابندیوں کی معیاد بڑھا دی گئی ہے۔ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔اس کے تحت سیکیورٹی اہلکار کہیں بھی کسی کو بھی گرفتار کر کے نوے روز تک بلا وارنٹ قید رکھ سکتے ہیں۔ اخبارات کو قومی سلامتی اور امنِ عامہ کے نام پر سنسر کیا جاسکتا ہے تاکہ حکومتی ناکامی پر تنقید کو لگام دی جا سکے۔
سری لنکا میں ایمرجنسی انیس سو اکہتر سے دو ہزار گیارہ تک نافذ رہی اور آٹھ برس بعد واپس لوٹ آئی ہے۔اس عرصے میں میڈیا نے تابعداری سیکھ لی۔ اب سوشل میڈیا کو لگام دینے کا مرحلہ ہے۔عوام کی توجہ سرکاری ناکامیوں سے ہٹانے کے لیے نمائشی اقدامات بھی کیے جا رہے ہیں۔ مثلاً منہ ڈھانپنے پر پابندی۔بقول صدر نقاب کی روایت نے قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالا۔گویا اصل مسئلہ ریاستی اداروں کا مفلوج ہونا نہیں بلکہ نقاب ہے۔ریاستی نااہلی پر بھلے نقاب پڑا رہے مگر جنتا کے چہرے پر قبول نہیں۔
ملک میں مسلم اقلیت کے خلاف غم و غصہ فطری ہے مگر اکیس اپریل کے بعد کئی مقامات پر اقلیتوں پر حملوں اور املاک کو نقصان اور نقلِ مکانی کی خبریں دبانے سے حکومت کا خیال ہے کہ حالات جلد معمول پر آجائیں گے۔مجھے ایسا کیوں لگتا ہے کہ سب ریاستیں ایک ہی طرح سے کام کرتی ہیں سوائے نیوزی لینڈ کے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)
انگریزی محاورہ ہے کہ لڑائی کے بعد جو مکا یاد آئے اسے اپنے منہ پر مار لیں۔
تین برس پہلے آل سیلون جمیعت العلما نے متعلقہ سرکاری محکموں کو خبردار کیا کہ کچھ انتہا پسند مسلمان نوجوانوں کو شدت پسندی کی جانب راغب کر رہے ہیں۔بالخصوص ظہران ہاشم نامی ایک شخص سوشل میڈیااور بطورِ خاص یوٹیوب چینل کے ذریعے زہریلا پروپیگنڈہ کر رہا ہے۔مگر متعلقہ سرکاری محکموں نے جمعیت کی اس وارننگ کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔
گزشتہ برس مارچ میں گوتم بدھ کے ایک مجسمے کو نامعلوم افراد کی جانب سے مسخ کرنے کی ایک مقامی واردات کے بہانے سنہالہ انتہا پسند راہبوں کے اکسانے پر مقامی بودھوں نے وسطی اور مشرقی سری لنکا میں مسلمانوں کی املاک پر ہلہ بول دیا۔ایک شخص ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔بارہ دن کی ایمرجنسی لگی اور حالات پر قابو پا لیا گیا۔چھان بین سے معلوم ہوا کہ کشیدگی کو ہوا دینے میں بودھ انتہا پسندوں کے ساتھ ساتھ ایک چھوٹے سے انتہا پسند مسلمان گروہ نیشنل توحید جماعت کا بھی کردار تھا کہ جس کا سرغنہ ظہران ہاشم ہے۔تاہم متعلقہ اداروں نے اس معاملے کو بھی مزید چھان بین کے قابل نہیں جانا۔
اس غفلت کی لاشعوری وجہ شاید یہ ہو کہ تاریخی اعتبار سے سری لنکا کی دس فیصد مسلمان اقلیت کو ایک پرامن برادری سمجھا جاتا ہے۔ان میں سے اکثر سیکڑوں برس پہلے جزیرہ نما عرب اور مشرقی افریقہ سے آنے والے تاجروں سے اپنے نسلی ڈانڈے ملاتے ہیں۔سیاست میں کبھی اتنے متحرک نہیں رہے کہ کوئی نسلی گروہ انھیں اپنے مفادات کے لیے خطرہ سمجھے۔زیادہ تر نوکری پیشہ یا کاروبار سے منسلک اور نسبتاً خوشحال اور پڑھے لکھے ہیں۔
( اس کا اندازہ آپ کو خود کش بمباروں کے پروفائل سے بھی ہو سکتا ہے۔مثلاً محمد یوسف ابراہیم مصالحوں کے سب سے بڑے تاجر ہونے کے ناتے سری لنکا کے مصالحہ کنگ کہلاتے ہیں۔ان کے دو بیٹے اکیس اپریل کے خود کش حملوں میں شامل تھے۔ایک خود کش بمبار عبدالطیف جمیل محمد لندن کی کنگسٹن یونیورسٹی سے ایرو اسپیس انجینئرنگ میں گریجویٹ تھا۔خود کش بمباروں کے سرغنہ ظہران ہاشم کا تعلق بھی ایک کروڑ پتی کاروباری گھرانے سے تھا۔بعد از واردات جب سیکیورٹی دستوں نے اس کے گھر پر چھاپہ مارا تو ظہران کے دو بھائیوں نے خود کو والد ، والدہ، اہلیہ اور تین بچوں سمیت اڑا لیا اور آٹھ سرکاری سپاہی بھی ہلاک ہوئے )
اب سوال اٹھتا ہے کہ کیا اتوار اکیس اپریل کی اس المناک واردات سے بچا جا سکتا تھا جس کے نتیجے میں چالیس غیر ملکیوں سمیت ڈھائی سو سے زائد باشندے ہلاک ، پانچ سو سے زائد زخمی، تین چرچ اور تین ہوٹل اور دو ارب ڈالر کی سیاحتی صنعت پل بھر میں برباد ہو گئی؟
تاملوں کے ساتھ چھبیس برس تک جاری خانہ جنگی جس کا خاتمہ ایک لاکھ سے زائد ہلاکتوں اور بنیادی شہری آزادیوں اور انسانی حقوق کی قربانی کی قیمت پر دو ہزار نو میں ہوا۔اس دوران سری لنکا کی فوج اور انٹیلی جینس ایجنسیوں کو میدانِ جنگ اور پسِ میدان ِ جنگ جاری لڑائی جیتنے کے گر بھارت، پاکستان اور اسرائیل کے اداروں نے سکھائے۔ لہذا یہ بات ناقابلِ فہم ہے کہ سری لنکا کے پاس وہ پیشہ ورانہ تجربہ نہیں جو خفیہ طور پر متحرک گروہوں تک رسائی اور سرکوبی کے لیے ضروری ہوتا ہے۔
یہ بات اب شک و شبہے سے بالا ہو چکی ہے کہ اکیس اپریل کے سانحے سے سترہ روز پہلے بھارتی خفیہ ایجنسی را نے سری لنکا کے اہلکاروں کو خبردار کر دیا تھا کہ ایسٹر کے آس پاس مسیحی عبادت گاہوںاور کولمبو میں بھارتی سفارتخانے پر حملہ ہو سکتا ہے۔اس اطلاع میں ہوٹلوں پر حملے کے امکان کا تذکرہ نہیں تھا۔
جب اکیس اپریل کو واردات ہو گئی تو فوراً بعد وزیرِ اعظم رانیل وکرما سنگھے نے بیان دیا کہ اگر کوئی ایسی اطلاع تھی تو ان کے علم میں نہیں۔شاید صدر کو علم ہو کیونکہ دفاع اور داخلہ کے معاملات صدر میتھری پالا سرسینا دیکھتے ہیں۔ صدر نے لاعلمی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ میری ڈیسک تک ایسی کوئی فائل نہیں پہنچی۔جس کے نتیجے میں پیشگی احتیاطی تدابیر اختیار کی جا سکتیں۔
یہ وہ المناک صورتِحال ہے جو کسی بھی ریاست کو مفلوج کرنے کے لیے کافی ہے اور دیگر ریاستوں اور ان کے اداروں کو اس سے سبق سیکھنے کی اشد ضرورت ہے۔سری لنکا کا انتظامی بریک ڈاؤن گزشتہ برس اکتوبر میں شروع ہوا جب صدر سرسینا نے اچانک وزیرِ اعظم رانیل کی حکومت برطرف کر کے قائدِ حزبِ اختلاف راجہ پکسے کو نیا وزیرِاعظم مقرر کر دیا۔( راجہ پکسے دو ہزار پانچ سے پندرہ تک سری لنکا کے صدر رہے۔انھیں دو ہزار پندرہ کے انتخابات میں شکست ہوئی )۔
ملک سیاسی طور پر دو حصوں میں بٹ گیا۔اکیاون روز تک ملک میں دو وزیرِ اعظم رہے۔جب سپریم کورٹ نے برطرف وزیرِ اعظم وکرما سنگھے کو بحال کر دیا اور صدارتی حکم کو غیر آئینی قرار دے دیا تو بظاہر سیاسی بحران ختم ہوگیا مگر صدر اور وزیرِ اعظم کے دفاتر کے درمیان رابطہ عملی طور پر معطل ہی رہا۔حتیٰ کہ وزیرِ اعظم کو نیشنل سیکیورٹی کونسل کے اجلاسوں میں بھی مدعو نہیں کیا گیا۔اس کا اثر قومی اداروں اور اعلی اہلکاروں پر پڑا جنھیں یہی نہیں معلوم تھا کہ کسے کس کو جوابدہ ہونا ہے اور کیا کیا انتظامی فیصلے اوپر والوں کے لیے چھوڑنے ہیں اور کون سے فیصلے نچلی سطح پر کرنے ہیں۔اور پھر اس فالج زدہ نظام میں پڑنے والے شگافوں کا فائدہ دہشت گردوں نے آسانی سے اٹھا لیا۔
اگرچہ صدر اور وزیرِ اعظم نے قوم کے سامنے اجتماعی ریاستی ناکامی کا اعتراف تو کیا ہے مگر کوئی بھی استعفیٰ دینے کو تیار نہیں۔صدر نے قربانی کا بکرا پولیس سربراہ اور سیکریٹری دفاع کو بنا کر انھیں برطرف کر دیا۔حکومت پر تنقید روکنے کے لیے سوشل میڈیا پر لگائی گئی پابندیوں کی معیاد بڑھا دی گئی ہے۔ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔اس کے تحت سیکیورٹی اہلکار کہیں بھی کسی کو بھی گرفتار کر کے نوے روز تک بلا وارنٹ قید رکھ سکتے ہیں۔ اخبارات کو قومی سلامتی اور امنِ عامہ کے نام پر سنسر کیا جاسکتا ہے تاکہ حکومتی ناکامی پر تنقید کو لگام دی جا سکے۔
سری لنکا میں ایمرجنسی انیس سو اکہتر سے دو ہزار گیارہ تک نافذ رہی اور آٹھ برس بعد واپس لوٹ آئی ہے۔اس عرصے میں میڈیا نے تابعداری سیکھ لی۔ اب سوشل میڈیا کو لگام دینے کا مرحلہ ہے۔عوام کی توجہ سرکاری ناکامیوں سے ہٹانے کے لیے نمائشی اقدامات بھی کیے جا رہے ہیں۔ مثلاً منہ ڈھانپنے پر پابندی۔بقول صدر نقاب کی روایت نے قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالا۔گویا اصل مسئلہ ریاستی اداروں کا مفلوج ہونا نہیں بلکہ نقاب ہے۔ریاستی نااہلی پر بھلے نقاب پڑا رہے مگر جنتا کے چہرے پر قبول نہیں۔
ملک میں مسلم اقلیت کے خلاف غم و غصہ فطری ہے مگر اکیس اپریل کے بعد کئی مقامات پر اقلیتوں پر حملوں اور املاک کو نقصان اور نقلِ مکانی کی خبریں دبانے سے حکومت کا خیال ہے کہ حالات جلد معمول پر آجائیں گے۔مجھے ایسا کیوں لگتا ہے کہ سب ریاستیں ایک ہی طرح سے کام کرتی ہیں سوائے نیوزی لینڈ کے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)