پی ٹی آئی کا جشن تاسیس اور ملکی حالات
موجودہ حکومت جب سے برسر اقتدار آئی ہے عوام کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے۔
پاکستان کی موجودہ حکمران سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف (PTI) کو معرض وجود میں آئے ہوئے 23 سال ہوچکے ہیں۔ کرکٹ کے میدان سے سیاست کے میدان میں قدم رکھنے والے مشہور و معروف کھلاڑی اور ورلڈ کپ جیتنے والی پاکستانی کرکٹ ٹیم کے نامور کپتان عمران خان نے 25 اپریل 1996کو یہ جماعت پاکستان کے تاریخی شہر لاہور میں قائم کی تھی۔ پاکستان تحریک انصاف کا یوم تاسیس یکم مئی 2019 کو دارالحکومت اسلام آباد میں جناح کنونشن سینٹر میں شایان شان انداز میں منایا جائے گا۔
اس موقع پر پی ٹی آئی کے قائد اور وزیر اعظم پاکستان عمران خان ایک تاریخی خطاب فرمائیں گے اور پارٹی کی مستقبل کی حکمت عملی اور اہداف کا تعین اور اعلان بھی کریں گے۔ پی ٹی آئی کا یوم تاسیس ایک ایسے موقع پر منایا جا رہا ہے جب اسے برسر اقتدار آئے ہوئے 9 ماہ کا عرصہ ہوچکا ہے۔ اقتدار میں آنے سے قبل پی ٹی آئی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران پاکستان کے عوام سے ''تبدیلی'' کے نام پر بڑے بڑے وعدے کیے تھے مگر افسوس کہ ان وعدوں میں سے کوئی ایک وعدہ بھی پورا نہیں کیا جاسکا جس سے عوام میں ہر آنے والے دن کے ساتھ مایوسی بڑھتی جا رہی ہے۔ اس تناظر میں پی ٹی آئی کے یوم تاسیس کے حوالے سے بازبانِ ساحر صرف یہی کہا جاسکتا ہے:
بربادیوں کا سوگ منانا فضول تھا
بربادیوں کا جشن مناتا چلا گیا
زمینی حقائق یہ ہیں کہ وطن عزیز پاکستان زندگی کے ہر شعبے میں مشکل ترین حالات سے گزر رہا ہے۔ موجودہ حکومت نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے بیشتر معاملات سنبھالے نہیں سنبھل رہے۔ حالات کا تقاضا تو یہ تھا کہ پی ٹی آئی کی حکومت ایک ایسی حکمت عملی تیار کرتی جس سے ملک استحکام اور ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا۔ بہتر تھا کہ حکومت اپنے مقاصد کے حصول اور اپنے انتخابی منشور کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اپنی مخالف جماعتوں کی طرف تعاون کا ہاتھ بڑھاتی اور ملک کو درپیش مشکلات کا حل تلاش کرنے کے لیے حزب اختلاف کو اپنے ساتھ لے کر چلتی۔ بقول شاعر:
چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو
لیکن افسوس صد افسوس ایسا نہ ہوا بلکہ جو کچھ ہوا اس کے برعکس ہوا جس کا خمیازہ ملک و قوم کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اسے پی ٹی آئی کی قیادت کی عاقبت نااندیشی کہیے کہ اس نے الیکشن سے قبل اپنی جارحانہ پالیسی اور مخالفانہ طرز سیاست کے تسلسل کو اقتدار میں آنے کے باوجود جاری رکھا ہوا ہے اور اس کے اس رویے میں کسی تبدیلی کے کوئی آثار بھی نظر نہیں آرہے۔
قصہ مختصر کہ پی ٹی آئی کی حکومت کے انداز سیاست نے ملکی سیاست کے سمندر میں جو طوفان برپا کر رکھا ہے اس نے صرف سیاست ہی نہیں بلکہ معیشت اور معاشرت کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ افسوس اس بات کا بھی ہے کہ حزب اختلاف کی جانب سے بھی جواب آں غزل کے طور پر دشنام طرازی اور الزام تراشی کے تیر چلائے جا رہے ہیں۔ اس صورتحال کی وجہ سے ملکی سطح پر ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ہماری جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔ حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں ہی کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف غیر پارلیمانی زبان استعمال کی جا رہی ہے۔ اس حوالے سے مرزا غالب یاد آرہے ہیں کہ جنھوں نے کیا خوب فرمایا ہے:
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تُو کیا ہے
تم ہی کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے
پاکستان کے عوام کو ''تبدیلی'' اور ''نیا پاکستان'' کی دعویدار پی ٹی آئی کی حکمران جماعت سے بہتری کی بڑی بڑی توقعات وابستہ تھیں لیکن موجودہ حکومت جب سے برسر اقتدار آئی ہے عوام کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے۔ بجلی، گیس اور روزمرہ استعمال کی اشیا کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ہوچکا ہے جس میں کمی آنے کے بجائے روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ خود حکومتی ماہرین یہ اعتراف کر رہے ہیں کہ رمضان سے قبل مہنگائی مزید بڑھے گی۔ دواؤں کی قیمتوں میں زبردست اضافے نے عوام کی زندگی مزید اجیرن کردی ہے۔ مہنگائی کے سونامی نے مفلس اور بے بس عوام کو یہ کہنے پر مجبور کردیا ہے کہ:
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
سب سے زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ حکمراں جماعت کے ذمے داران سراپا احتجاج غریبوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے اپنے غیر ذمے دارانہ بیانات کے ذریعے زخموں پر نمک پاشی کر رہے ہیں۔ ابھی حال ہی میں پی ٹی آئی کے رہنما اور خیبر پختونخوا اسمبلی کے اسپیکر مشتاق غنی نے یہ مشورہ دیا تھا کہ مہنگائی میں عوام صرف ایک روٹی کھائیں۔
''تبدیلی'' کے نعرے اور دعوے پر برسر اقتدار آنے والی پی ٹی آئی کی حکومت نے بجلی، گیس اور پٹرول کو اپنی آمدن بڑھانے کا سب سے بڑا ذریعہ بنالیا ہے۔ پٹرول کی قیمتوں میں پے درپے اضافہ کرکے حکومت اتنا زیادہ منافع کما رہی ہے کہ اگر کوئی صنعت کار اتنا منافع کماتا تو قابل مذمت اور سزاوار قرار پاتا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ سابق وزیر خزانہ اسد عمر جب وزیر نہیں بنے تھے تو لہک لہک کر اور حساب لگا لگا کر حکومت وقت کے خلاف یہ بتایا کرتے تھے کہ حکومت پٹرول پر اتنا زیادہ منافع کما رہی ہے۔
میڈیا گواہ ہے کہ انھوں نے متعدد بار یہ کہا تھا کہ پٹرول چالیس اور پینتالیس روپے فی لیٹر سے زیادہ قیمت پر فروخت نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن خود وزیر خزانہ بننے کے بعد وہ اپنا یہ دعویٰ بھول گئے اور پٹرول کی قیمت میں وقفے وقفے سے اضافہ کرتے چلے گئے جس کے نتیجے میں اشیائے ضرورت کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں۔ بالآخر انھیں اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے پر مجبور ہونا پڑا۔ لیکن اس عرصے میں ملکی معیشت دگرگوں ہوگئی اور عوام کی ہمت و سکت جواب دے گئی۔ چنانچہ ان حالات میں اسد عمر کے اپنا عہدہ چھوڑنے کے حوالے سے صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ:
کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
آپ کو یہ بھی یاد ہوگا کہ پی ٹی آئی کے قائد نے بیرونی قرضے حاصل کرنے کے لیے کشکول اٹھانے پر خودکشی کرنے کو ترجیح دی تھی لیکن اب ان کی حکومت دھڑا دھڑ غیر ملکی قرضے حاصل کرنے میں مصروف ہے جس میں آئی ایم ایف سے قرضوں کا حصول سرفہرست ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ برسر اقتدار جماعت نے زندگی کے جن شعبوں کو ماضی کی حکومتوں کے کردار کے حوالے سے خرابیوں کے باعث ہدف تنقید بنایا تھا وہ خود بھی اب وہی کچھ کر رہی ہے۔ جوکہ ایک مسلمہ حقیقت کے علاوہ ایک کھلا تضاد بھی ہے۔
ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ اپنے وعدوں سے انحراف کا اعتراف کرنے کے بجائے حکومت اسے ''یوٹرن'' کا نام دے رہی ہے۔ یہ عجیب و غریب یوٹرن ہے کہ جس نے ملک و قوم کو ''پوائنٹ آف نو ریٹرن'' پر پہنچا دیا ہے جہاں سے واپسی کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔ اقتدار سنبھالنے سے پہلے عمران خان نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ ٹیکس کی مد میں دگنا تگنا اضافہ کرکے دکھائیں گے لیکن اب وہ ٹیکس میں کمی کا ذمے دار ایف بی آر کو ٹھہرا رہے ہیں اور یہ تک کہہ چکے ہیں کہ وہ اس ادارے کو ختم کرکے ایک ''نیا ادارہ'' بنائیں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت اپنے ہر اقدام کو مدینہ کی ریاست جیسی ریاست کی تشکیل سے تعبیر کرتی ہے۔ حالانکہ اس قسم کے اقدامات کا مدینہ جیسی مقدس ریاست سے دور پرے کا بھی کوئی واسطہ نہیں۔
چہ نسبت خاک را با عالم پاک
اصل حقیقت یہ ہے کہ محض کھوکھلے نعروں اور پروپیگنڈے کے ذریعے مدینہ جیسی ریاست نہیں بنا کرتی اس کے لیے اسلامی نظام کا قیام شرط اول ہے جس میں ''سودی کاروبار'' سے دست برداری لازمی ہے۔ عوام کی فلاح و بہبود اور معاشرتی ہم آہنگی اسلامی مساوات کا اولین خاصہ اور تقاضا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے معاشرے میں لبرل ازم اور سیکولرازم کے تیزی سے بڑھتے ہوئے طوفان کے پیش نظر مدینہ جیسی ریاست کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے گا؟