امیر العظیم جماعت اسلامی میں نئی روح پھونک سکیں گے
ایسا بھی ممکن ہے کہ سراج الحق قومی سیاست کرتے رہیں اورامیر العظیم جماعت اسلامی کوکرپشن کے خلاف تحریک کیلیے متحرک کریں۔
ایک و قت ملک کے سیاسی منظر نامہ میں جماعت اسلامی کا ایک بڑا وزن تھا۔ حکومت بنانے اور حکومت گرانے میں اس کا بڑا کردار تھا۔ سیاسی منظر نامے پر بچھی کوئی بھی بساط جماعت اسلامی کے بغیر مکمل نہیں تھی۔ لیکن آہستہ آہستہ جماعت اسلامی کا سیاسی وزن کم ہوتاجا رہا ہے۔ ایک طرف جماعت اسلامی کا ووٹ بینک کم ہو گیا ہے دوسری طرف اس کی اتحادی و انتخابی سیاست بھی اچھی نہیں رہی ہے۔
پانچ سال تحریک انصاف کے ساتھ مل کر کے پی میں حکومت کرنے کے بعد تحریک انصاف سے اتحاد ختم کرنا اور مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھ دس سال بعد یک دم اتحاد بنانا ناقا بل فہم تھا۔ لیکن جماعت اسلامی ایسے فیصلے پہلی دفعہ نہیں کر رہی ہے، اس لیے پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ قاضی حسین احمد بھی بائیکاٹ کے فیصلے اسی منطق سے کرتے تھے۔ ایک عمومی رائے یہ بھی ہے کہ قاضی حسین احمد کے بائیکاٹ نے جماعت اسلامی کے ووٹ بینک کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔
جماعت ا سلامی کی سب سے بڑی خوبصورتی اس کے اندر جمہوریت ہے۔قیادت کی تبدیلی کا عمل اس قدر خوبصورت ہے کہ جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ سراج الحق دوبارہ ووٹ کی طاقت سے امیر جماعت اسلامی منتخب ہو گئے۔ ان کے امیر منتخب ہونے کے بعد میں نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ اگر سراج الحق نے خود کوسیاسی طور پر دوبارہ زندہ کرنے کے لیے آؤٹ آف باکس کام نہ کیا تو یہ ان کی آخری اننگ بھی ہو سکتی ہے۔ سراج الحق کے بعد جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ نے لیاقت بلوچ کی جگہ امیر العظیم کو جماعت اسلامی کا سیکریٹری جنرل مقرر کر دیا ہے۔ بظاہر یہ ایک چھوٹی سے تبدیلی لگتی ہے لیکن جو لوگ جماعت اسلامی کے تنظیمی نظم کو جانتے ہیں، وہ جانتے ہیں جماعت اسلامی میں سیکریٹری جنرل کی کیا اہمیت ہے۔
اس اہمیت کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا ہی کافی ہے کہ مولانا مودودی کے سیکریٹری جنرل میاں طفیل تھے ۔ میاں طفیل کے سیکریٹری جنرل قاضی حسین احمد تھے جب کہ قاضی حسین احمد نے پہلے چوہدری رحمت الہیٰ کو سیکریٹری جنرل بنایا لیکن بعدمیں سید منور حسن کو سیکریٹری جنرل بنایا۔سید منور حسن نے لیاقت بلوچ کو اپنا سیکریٹری جنرل بنایا لیکن وہ امیر جماعت اسلامی نہ بن سکے۔
اس پر بعد میں کسی کالم میں بات کریں گے۔ لیکن اس ضمن میں بھی ایک دلچسپ بات ہے کہ لیاقت بلوچ کو سیکریٹری جنرل بنانے سے پہلے سید منور حسن نے امیر العظیم کو ہی جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ میں سیکریٹری جنرل کے لیے تجویز کیا تھا۔ لیکن امیر العظیم نے انجانی وجوہات کی بنا پر سیکریٹری جنرل بننے سے معذرت کر لی۔ ان کی معذرت سید منور حسن کے لیے ایک دھچکا تھی۔ وہ شاید اس کے لیے تیار نہیں تھے۔ تا ہم امیر العظیم کی معذرت کی بعد جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کی مشاورت کے بعد لیاقت بلوچ کو سیکریٹری جنرل بنا دیا گیا۔
سید منور حسن کے بعد سراج الحق جماعت اسلامی کے امیر بن گئے۔ یہ پہلی دفعہ تھا کہ کوئی سیکریٹری جنرل امیر نہیں بنااور جماعت اسلامی کے ارکان نے سیکریٹری جنرل کے علاوہ کسی کو امیر جماعت اسلامی کے لیے منتخب کیا ۔ سراج الحق نے امیر جماعت اسلامی بننے کے بعد اپنی پہلی مدت میں لیاقت بلوچ کو سیکریٹری جنرل کے عہدہ پر برقرار رکھا۔ لیکن اب دوسری مدت میں وہ امیر العظیم کو اپنے ساتھ لے کر آئے ہیں۔ خوش آیند بات یہ ہے کہ اس بار امیر العظیم نے حسب روایت معذرت نہیں کی ہے اور سیکریٹری جنرل کا عہدہ قبول کر لیا ہے۔
اس بار یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ جماعت اسلامی میں قیادت کی تبدیلی کا عمل منظم طریقہ سے کیا جا رہا ہے۔ جماعت اسلامی میں صرف امیر جماعت کا ہی انتخاب نہیں ہوتا بلکہ فیصلہ ساز ادارے مرکزی مجلس شوریٰ کے بھی باقاعدہ انتخابات ہوتے ہیں۔ ارکان صرف امیر ہی نہیں منتخب کرتے بلکہ مرکزی مجلس شوریٰ کے ارکان کو بھی منتخب کرتے ہیں۔
مرکزی مجلس شوریٰ میں تمام سنیئرز موجود ہوتے ہیں۔ایک عمومی رائے یہ بھی ہے کہ مرکزی مجلس شوریٰ قدامت پسندوں کا ادارہ ہوتا ہے۔ جہاں سے امیر جماعت کو باندھ کر رکھا جاتاہے لیکن اس بار جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کے انتخابات کے نتائج بھی حیران کن ہیں۔ 70رکنی اس مجلس شوریٰ میں 24ارکان نئے ہیں۔ پرانے ارکان کی چھٹی ہو گئی ہے۔ دس خواتین ایسی ہیں جو پہلی دفعہ مرکزی مجلس شوریٰ میں منتخب ہوئی ہیں۔ اس طرح ایک نئی قیادت سامنے آگئی ہے۔ کیا امیر العظیم کی قیادت میں یہ نئی تبدیلی جماعت اسلامی میں نئی روح پھونک سکے گی۔
مجھے امیر العظیم سے بہت امیدیں وابستہ ہیں۔ وہ نہ صرف جماعت اسلامی کے اندر نئی روح پھونکنے میں کامیاب ہو جائیں گے بلکہ ملکی سیاست میں بھی امیر العظیم ایک تازہ ہوا کا جھونکا ہوںگے۔ میری رائے میں امیر العظیم جماعت اسلامی کا ایک سافٹ امیج بھی سامنے لائیں گے جو جماعت اسلامی کو ایک نئی شکل بھی دے گا۔ وہ آج کی نئی نوجوان نسل کو سمجھتے ہیں۔
مجھے امید ہے کہ وہ نئی نسل اور جماعت اسلامی کے درمیان فاصلوں کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کریں گے۔ وہ میڈیا کو بھی سمجھتے ہیں۔ امیج بلڈنگ کی سائنس کو بھی سمجھتے ہیں۔ وہ جماعت اسلامی کو نہ صرف اس کی کھوئی ہوئی سیاسی طاقت واپس دلواسکتے ہیں بلکہ نئے راستے بھی کھولیں گے۔
امیر العظیم کی سیاسی سوچ بھی جدید ہے۔ وہ آج کے دور کے انسان ہیں۔ وہ پرانی اور فرسودہ روایات کے قائل نہیں ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ نئے دور میں نئے تقاضوں کے مطابق ہی سیاست ہو سکتی ہے۔ مجھے امید ہے کہ وہ جماعت اسلامی میں نہ صرف سیاسی یکسوئی لائیں گے بلکہ اس کو عوامی بھی بنائیںگے۔کہیں نہ کہیں وہ جماعت اسلامی کو بند دروازوں سے نکال کر عوام میں بھی لائیں گے۔ اس ضمن میں ماضی میں بھی بہت کوششیں کی گئی ہیں تا ہم کامیاب نہیں ہو سکی ہیں۔
جماعت اسلامی کوسیاسی طور پر ایک نئی سمت کی ضرورت ہے۔ جماعت اسلامی کی اس نئی قیادت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ روایتی سیاست میں اب جماعت اسلامی کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ جماعت اسلامی ملک کی روایتی سیاست میں جگہ بنانے کی کوشش میں مزیدنقصان اٹھا رہی ہے۔ جب تک جماعت اسلامی ایک نئے ایجنڈے اور ایک نئی شکل میں عوام کے سامنے نہیں آئے گی تب تک جماعت اسلامی ملکی سیاست میں کوئی مقام حاصل نہیں کر سکے گی۔
سوال یہ بھی ہے کہ تنقید کرنا آسان ہے لیکن جماعت اسلامی کو کرنا کیا چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جماعت اسلامی کو ملک میں بے لاگ احتساب کے لیے کام کرنا چاہیے۔ احتساب مقدمات کی طوالت پر احتجاج کرنا چاہیے۔ وہ کام کرنا چاہیے جو باقی جماعتیں نہیں کر سکتیں۔ اپنے دفاتر میں ہر قسم کی کرپشن کے خلاف شکایات وصول کرنی چاہیے۔ ان شکایات کی تحقیق کے بعد ان پر ریفرنس فائل کرنے چاہییں۔ملک میں کرپشن کلچر کے خلاف جماعت اسلامی کے اندر ایک موثر آواز بننے کی صلاحیت موجود ہے۔
ایسا بھی ممکن ہے کہ سراج الحق قومی سیاست کرتے رہیں اور امیر العظیم جماعت اسلامی کو کرپشن کے خلاف تحریک کے لیے متحرک کریں۔ جماعت اسلامی کے عہدیداران کی شرافت اور امانت شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ جماعت اسلامی کو یہ ممتاز مقام حاصل ہے کہ مختلف جماعتوں کے ساتھ شراکت اقتدار کے باوجود جماعت اسلامی پر کرپشن کا کوئی الزا م نہیں ہے۔ایسے میں ہر سطح پر کرپشن کے خلاف جماعت اسلامی ایک موثر آواز بن سکتی ہے۔ عدالتی نظام کو موثر کرنے کے لیے بھی جماعت اسلامی ایک متحرک کردار ادا کر سکتی ہے۔ لیکن وہ ایسا کر نہیں رہی ہے۔ یہی جماعت اسلامی کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ امیر العظیم ایسا کر لیں گے۔
پانچ سال تحریک انصاف کے ساتھ مل کر کے پی میں حکومت کرنے کے بعد تحریک انصاف سے اتحاد ختم کرنا اور مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھ دس سال بعد یک دم اتحاد بنانا ناقا بل فہم تھا۔ لیکن جماعت اسلامی ایسے فیصلے پہلی دفعہ نہیں کر رہی ہے، اس لیے پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ قاضی حسین احمد بھی بائیکاٹ کے فیصلے اسی منطق سے کرتے تھے۔ ایک عمومی رائے یہ بھی ہے کہ قاضی حسین احمد کے بائیکاٹ نے جماعت اسلامی کے ووٹ بینک کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔
جماعت ا سلامی کی سب سے بڑی خوبصورتی اس کے اندر جمہوریت ہے۔قیادت کی تبدیلی کا عمل اس قدر خوبصورت ہے کہ جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ سراج الحق دوبارہ ووٹ کی طاقت سے امیر جماعت اسلامی منتخب ہو گئے۔ ان کے امیر منتخب ہونے کے بعد میں نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ اگر سراج الحق نے خود کوسیاسی طور پر دوبارہ زندہ کرنے کے لیے آؤٹ آف باکس کام نہ کیا تو یہ ان کی آخری اننگ بھی ہو سکتی ہے۔ سراج الحق کے بعد جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ نے لیاقت بلوچ کی جگہ امیر العظیم کو جماعت اسلامی کا سیکریٹری جنرل مقرر کر دیا ہے۔ بظاہر یہ ایک چھوٹی سے تبدیلی لگتی ہے لیکن جو لوگ جماعت اسلامی کے تنظیمی نظم کو جانتے ہیں، وہ جانتے ہیں جماعت اسلامی میں سیکریٹری جنرل کی کیا اہمیت ہے۔
اس اہمیت کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا ہی کافی ہے کہ مولانا مودودی کے سیکریٹری جنرل میاں طفیل تھے ۔ میاں طفیل کے سیکریٹری جنرل قاضی حسین احمد تھے جب کہ قاضی حسین احمد نے پہلے چوہدری رحمت الہیٰ کو سیکریٹری جنرل بنایا لیکن بعدمیں سید منور حسن کو سیکریٹری جنرل بنایا۔سید منور حسن نے لیاقت بلوچ کو اپنا سیکریٹری جنرل بنایا لیکن وہ امیر جماعت اسلامی نہ بن سکے۔
اس پر بعد میں کسی کالم میں بات کریں گے۔ لیکن اس ضمن میں بھی ایک دلچسپ بات ہے کہ لیاقت بلوچ کو سیکریٹری جنرل بنانے سے پہلے سید منور حسن نے امیر العظیم کو ہی جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ میں سیکریٹری جنرل کے لیے تجویز کیا تھا۔ لیکن امیر العظیم نے انجانی وجوہات کی بنا پر سیکریٹری جنرل بننے سے معذرت کر لی۔ ان کی معذرت سید منور حسن کے لیے ایک دھچکا تھی۔ وہ شاید اس کے لیے تیار نہیں تھے۔ تا ہم امیر العظیم کی معذرت کی بعد جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کی مشاورت کے بعد لیاقت بلوچ کو سیکریٹری جنرل بنا دیا گیا۔
سید منور حسن کے بعد سراج الحق جماعت اسلامی کے امیر بن گئے۔ یہ پہلی دفعہ تھا کہ کوئی سیکریٹری جنرل امیر نہیں بنااور جماعت اسلامی کے ارکان نے سیکریٹری جنرل کے علاوہ کسی کو امیر جماعت اسلامی کے لیے منتخب کیا ۔ سراج الحق نے امیر جماعت اسلامی بننے کے بعد اپنی پہلی مدت میں لیاقت بلوچ کو سیکریٹری جنرل کے عہدہ پر برقرار رکھا۔ لیکن اب دوسری مدت میں وہ امیر العظیم کو اپنے ساتھ لے کر آئے ہیں۔ خوش آیند بات یہ ہے کہ اس بار امیر العظیم نے حسب روایت معذرت نہیں کی ہے اور سیکریٹری جنرل کا عہدہ قبول کر لیا ہے۔
اس بار یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ جماعت اسلامی میں قیادت کی تبدیلی کا عمل منظم طریقہ سے کیا جا رہا ہے۔ جماعت اسلامی میں صرف امیر جماعت کا ہی انتخاب نہیں ہوتا بلکہ فیصلہ ساز ادارے مرکزی مجلس شوریٰ کے بھی باقاعدہ انتخابات ہوتے ہیں۔ ارکان صرف امیر ہی نہیں منتخب کرتے بلکہ مرکزی مجلس شوریٰ کے ارکان کو بھی منتخب کرتے ہیں۔
مرکزی مجلس شوریٰ میں تمام سنیئرز موجود ہوتے ہیں۔ایک عمومی رائے یہ بھی ہے کہ مرکزی مجلس شوریٰ قدامت پسندوں کا ادارہ ہوتا ہے۔ جہاں سے امیر جماعت کو باندھ کر رکھا جاتاہے لیکن اس بار جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کے انتخابات کے نتائج بھی حیران کن ہیں۔ 70رکنی اس مجلس شوریٰ میں 24ارکان نئے ہیں۔ پرانے ارکان کی چھٹی ہو گئی ہے۔ دس خواتین ایسی ہیں جو پہلی دفعہ مرکزی مجلس شوریٰ میں منتخب ہوئی ہیں۔ اس طرح ایک نئی قیادت سامنے آگئی ہے۔ کیا امیر العظیم کی قیادت میں یہ نئی تبدیلی جماعت اسلامی میں نئی روح پھونک سکے گی۔
مجھے امیر العظیم سے بہت امیدیں وابستہ ہیں۔ وہ نہ صرف جماعت اسلامی کے اندر نئی روح پھونکنے میں کامیاب ہو جائیں گے بلکہ ملکی سیاست میں بھی امیر العظیم ایک تازہ ہوا کا جھونکا ہوںگے۔ میری رائے میں امیر العظیم جماعت اسلامی کا ایک سافٹ امیج بھی سامنے لائیں گے جو جماعت اسلامی کو ایک نئی شکل بھی دے گا۔ وہ آج کی نئی نوجوان نسل کو سمجھتے ہیں۔
مجھے امید ہے کہ وہ نئی نسل اور جماعت اسلامی کے درمیان فاصلوں کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کریں گے۔ وہ میڈیا کو بھی سمجھتے ہیں۔ امیج بلڈنگ کی سائنس کو بھی سمجھتے ہیں۔ وہ جماعت اسلامی کو نہ صرف اس کی کھوئی ہوئی سیاسی طاقت واپس دلواسکتے ہیں بلکہ نئے راستے بھی کھولیں گے۔
امیر العظیم کی سیاسی سوچ بھی جدید ہے۔ وہ آج کے دور کے انسان ہیں۔ وہ پرانی اور فرسودہ روایات کے قائل نہیں ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ نئے دور میں نئے تقاضوں کے مطابق ہی سیاست ہو سکتی ہے۔ مجھے امید ہے کہ وہ جماعت اسلامی میں نہ صرف سیاسی یکسوئی لائیں گے بلکہ اس کو عوامی بھی بنائیںگے۔کہیں نہ کہیں وہ جماعت اسلامی کو بند دروازوں سے نکال کر عوام میں بھی لائیں گے۔ اس ضمن میں ماضی میں بھی بہت کوششیں کی گئی ہیں تا ہم کامیاب نہیں ہو سکی ہیں۔
جماعت اسلامی کوسیاسی طور پر ایک نئی سمت کی ضرورت ہے۔ جماعت اسلامی کی اس نئی قیادت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ روایتی سیاست میں اب جماعت اسلامی کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ جماعت اسلامی ملک کی روایتی سیاست میں جگہ بنانے کی کوشش میں مزیدنقصان اٹھا رہی ہے۔ جب تک جماعت اسلامی ایک نئے ایجنڈے اور ایک نئی شکل میں عوام کے سامنے نہیں آئے گی تب تک جماعت اسلامی ملکی سیاست میں کوئی مقام حاصل نہیں کر سکے گی۔
سوال یہ بھی ہے کہ تنقید کرنا آسان ہے لیکن جماعت اسلامی کو کرنا کیا چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جماعت اسلامی کو ملک میں بے لاگ احتساب کے لیے کام کرنا چاہیے۔ احتساب مقدمات کی طوالت پر احتجاج کرنا چاہیے۔ وہ کام کرنا چاہیے جو باقی جماعتیں نہیں کر سکتیں۔ اپنے دفاتر میں ہر قسم کی کرپشن کے خلاف شکایات وصول کرنی چاہیے۔ ان شکایات کی تحقیق کے بعد ان پر ریفرنس فائل کرنے چاہییں۔ملک میں کرپشن کلچر کے خلاف جماعت اسلامی کے اندر ایک موثر آواز بننے کی صلاحیت موجود ہے۔
ایسا بھی ممکن ہے کہ سراج الحق قومی سیاست کرتے رہیں اور امیر العظیم جماعت اسلامی کو کرپشن کے خلاف تحریک کے لیے متحرک کریں۔ جماعت اسلامی کے عہدیداران کی شرافت اور امانت شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ جماعت اسلامی کو یہ ممتاز مقام حاصل ہے کہ مختلف جماعتوں کے ساتھ شراکت اقتدار کے باوجود جماعت اسلامی پر کرپشن کا کوئی الزا م نہیں ہے۔ایسے میں ہر سطح پر کرپشن کے خلاف جماعت اسلامی ایک موثر آواز بن سکتی ہے۔ عدالتی نظام کو موثر کرنے کے لیے بھی جماعت اسلامی ایک متحرک کردار ادا کر سکتی ہے۔ لیکن وہ ایسا کر نہیں رہی ہے۔ یہی جماعت اسلامی کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ امیر العظیم ایسا کر لیں گے۔