استقبال رمضان
ہم انفرادی طور پر کوشش کریں کہ ایسے پروگراموں میں اپنے عزیز و اقارب اور دوستوں کو بھی لے جائیں۔
مسلمانوں کے لیے رمضان کا مہینہ انتہائی اہمیت کاحامل ہے یہی وجہ ہے کہ اس ماہ مبارک کی آمد سے قبل ہی مسلمان اسکی تیاری شروع کر دیتے ہیں۔ دور حاضر میں امت مسلمہ کی جو حالت ہے اسکو بہتر بنانے کے لیے یہ مہینہ ہمیں مواقع فراہم کرتا ہے چنانچہ اس ضمن میں مختلف پروگرام رمضان سے قبل بھی منعقد ہوتے ہیں۔ ایسے ہی ایک پروگرام کا اہتمام شعبہ قرآن و سنہ، جامعہ کراچی کی صدر شعبہ ڈاکٹر زینت ہارون و اساتذہ کی جانب سے گذشتہ روزمنعقد کیا گیا جس میں موضوع کی اہمیت کے اعتبار سے راقم نے بھی شرکت کی۔
استقبال رمضان کے عنوان سے ہونے والے اس سمینار میں پروفیسر ڈاکٹر مولانا محمد اسعد تھانوی، ریکٹر جامعہ اشرفیہ سکھر نے کلیدی خطاب کیا جب کہ صدر شعبہ ڈاکٹر زینت ہارون نے بھی موضوع کے اعتبار سے طلبہ کو آگاہی فراہم کی اور سابق صدر شعبہ پروفیسر ڈاکٹر عبدالرشید نے مہمانوں کو خوش آمدید کہا۔ اس پروگرام کی خاص بات مولانا محمد اسعد تھانوی صاحب کا طلبہ سے خطاب تھا جس میں انھوں نے رمضان کی اہمیت و فضیلت بیان کرتے ہوئے اس بات کی طرف خاص طور پرنشان دہی کی کہ آج ہمارا کردار نہایت پستی کا شکار ہوچکا ہے باوجود اس بات کے کہ ہم عبادات کا بہت اہتمام کرتے ہیں۔
راقم کی نظر میں مولانا محمد اسعد تھانوی صاحب کا طلبہ کو اس طرف متوجہ کرنا نہایت اہمیت کا حامل اور وقت کی اشد ضرورت بھی ہے۔ اگر ہم غیرجانبداری سے جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ واقعی آج ہم سب کردارکے معاملے میں پستی کاشکارہیں بہت سی معاشرتی برائیاں ہمیں محسوس بھی نہیں ہوتیں۔ بسا اوقات تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جو کچھ ہم نے قرآن و حدیث کی باتیں سنیں یا پڑھیں وہ ہماری سمجھ سے بالا تر تھی، یا ہم سمجھ نہیں پائے یا پھر ہم نے دنیا حاصل کرنے کے چکر میں ان باتوں پرغور خوص کرنا ہی مناسب نہیں سمجھا۔ وجہ جو بھی ہو یہ تو حقیقت ہے کہ ہم دینی محفلوں میں بھی شرکت کرتے ہیں۔
ان کااہتمام بھی کرتے ہیں مگر اپنی ذاتی اور اجتماعی زندگی میں اس کا ذرا سا اثر بھی پڑنے نہیں دیتے گویا عملی زندگی میں ہم نے دین کو داخل ہونے سے سختی کے ساتھ روک دیا ہے۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ اب ہم ایک دوسرے سے آگے بڑھ کر دنیا حاصل کرنے کی کوشش میں لگ گئے ہیں اور اس دوڑ میں ایک دوسرے کو کچلنے سے بھی باز نہیں آتے۔بات تو بڑی تلخ ہے مگر سچائی تو یہی ہے کہ ہم دنیا حاصل کرنے کے لیے لوٹ کھسوٹ میں لگے ہوئے ہیں۔
ہمارے ایک کالم نگار دوست کا کہنا ہے کہ یہاں تو ڈاکٹرز میں بھی انسانیت نام کی شئے نظر نہیں آتی ، ایسے ڈاکٹرز کم نہیں ہیں جو مرض کو کم اور مریض کی مالی پوزیشن کو زیادہ دیکھتے ہیں اور اپنا بل زیادہ سے زیادہ بنانے کے لیے اچھے خاصے مریضوں کا بلا وجہ آپریشن تک کر دیتے ہیں۔ انھوں نے مجھے کئی واقعات بتائے کہ جن میں مریضوں کے دل کے آپریشن تک محض اس لیے کردیے گئے کہ ان سے علاج کے نام پر بڑی رقم ہتھیا لی جائے۔ ہمارے ایک اوردوست نے اپنا مشاہدہ بتاتے ہوئے کہا کہ فلاں فلاں اسپتال میں مرنے کے بعد بھی مردہ کو مشینوں سے منسلک رکھا جاتا ہے اور تیماردار کو کہا جاتا ہے کہ علاج ہو رہا ہے اس بہانے کئی کئی دن کے بل مختلف مد میں بنا لیے جاتے ہیں ۔
ڈاکٹر حضرات میں اس قسم کی کرپشن یاظلم کی داستانیں عموماً سننے میں آتیں رہتی ہیں مگر افسوس انھیں مریض اوراس کے تیمارداروں پر ذرا برابر رحم نہیں آتا۔ ایک بات تو راقم کے مشاہدے میں مستقل آتی رہی ہے کہ جب بھی کسی ڈاکٹر کے پاس جانا ہوا ، ڈاکٹر نے شاد و نادر ہی کبھی مریض کی بات غور سے سنی ہو، بس ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب ایک ایک سیکنڈ کے حساب سے ڈالر کمارہے ہیں اور اگر کوئی مریض زبر دستی کچھ تفصیلات پوچھ نے کی کو شش کرے تو ڈاکٹر کو سخت نا گوار گزر تا ہے۔
گویا اخلاقیات جیسے ان کو چھو کر ہی نہ گزری ہوں اور کسی نے انھیں بات کرنے کا سلیقہ یا ڈھنگ ہی نہ بتایا ہو۔ اسی طرح بہت سے ڈاکٹر اس طرح رویہ کرکے مریض کو جواب دیتے ہیں کہ جیسے مریض جاہل ، ان پڑھ ہو اور خود ڈاکٹر بہت عالم و فاضل ہو۔ ڈاکٹرکا پیشہ خدمت کا ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ سارے ڈاکٹر ہی پڑھے لکھے ہوتے ہیں مگر محسوس یہ ہوتا ہے کہ تعلیم نے ان کا کچھ نہیں 'بگاڑا' ۔ اسی طرح وکلا برادری پڑھی لکھی تصور کی جاتی ہے مگر ان میں بھی اچھی خاصی تعداد ان کی ہے جو لوگوں سے چھوٹے چھوٹے کیسزکی بڑی بڑی رقم حاصل کر لیتے ہیں اور کلائنٹ کو ایسا سبز باغ دکھاتے ہیں کہ وہ فوراً ہی انھیں مطلوبہ رقم یا فیس دے دیتا ہے اور بعد میں پیشی پر پیشی بھگتا رہتا ہے مگر فیصلہ ہی نہیں ہوتا۔ عدالتوں میں مقدمات کی پیشی کے لیے آنے والے عام لوگوں کا کیا حال ہے؟ ایک وکیل صاحب نے بتایا کہ لوگ اپنے ہی سگے رشتے داروں کے خلاف قرآن پر ہاتھ رکھنے کے باوجود نہایت جھوٹ اورغلط بیانی کا مظاہرہ کرتے ہیں خواہ کسی جائیداد کا تنازع ہو یا طلاق وغیرہ کا کیس ہو۔
بہر کیف یہ وہ بیماریاں ہے جو آج ہم میں سرائیت کر چکی ہیں، ہم سب مادہ پرست بنتے جا رہے ہیں، معاشرتی اقدار، اخلاقیات اور تمیز وہ تہذیب سب زمین میں دفن ہوتی جارہی ہیں جنھیں بچانے کی ضرورت ہے اور ان کو راہ راست پرلانے کی قوت روحانی قوت ہی ہو سکتی ہے یعنی دین کا تصور۔ دین کا تصور ہی ایک انسان کو جواب دہ بناتا ہے جہاں وہ غلط کام کرنے سے قبل سوچتا ہے کہ اگر کلوز سرکٹ کیمرہ نہیں لگا ہوا ہے تو کیا ہوا ، اللہ تعالیٰ کا تو کیمرہ لگا ہوا ہو، آخرت میں تو حقوق العباد کابھی حساب دینا ہے کہ جہاں کوئی بندہ کسی دوسرے کو معاف نہیں کرے گا، ہر ایک کو اپنی اپنی فکر پڑی ہوگی۔ اگر یہ بات ذہن میں بیٹھ جائے تو پھر ہمارا کردار یقینا بہتر ہو جائے گا اور ہمارے معاملات بہتر ہو جائیں گے۔
لیکن اہم سوال یہ ہے کہ ان ذہنوں کو کیسے جھنجھوڑا جائے؟ اس کے لیے رمضان المبارک کا مہینہ سب سے بہتر ہے کیونکہ اس میں ایک بہت بڑی تعداد میں لوگ مساجد کا رخ کرتے ہیں ایسے میں خاص موضوعات اور پروگرام کے انعقاد کسی بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ بہت سی تنظیمیں تراویح کا اہتمام کرتی ہیں چند ایک تراویح کے ساتھ قرآن پاک کا ترجمہ یا تفسیر وغیرہ کااہتمام بھی کرتی ہیں جن میں مذہبی تنظیمیں وغیرہ بھی شامل ہیں۔ اگر اس قسم کے پروگرام کا دائرہ وسیع کیا جائے اور ان میں موضوعات ہمارے عمومی کردار کے حوالے سے رکھیں جائیں اور اچھے مقرر کا انتخاب کیا جائے تو اس قوم کو جگایا جا سکتا ہے اور اس معاشرے کو بہتر بنا یا جا سکتا ہے۔
ہم انفرادی طور پر کوشش کریں کہ ایسے پروگراموں میں اپنے عزیز و اقارب اور دوستوں کو بھی لے جائیں تاکہ ہمیں کم ازکم ہماری اپنی زبان میں وہ پیغام تو سننے کو ملے جو قرآن ہمیں دے رہا ہے ، ہم صرف عربی میں سن کر سمجھتے ہیں کہ ہمارا کردار درست ہے اور ہم درست سمت میں سفر کر رہے ہیں۔ آئیے اس رمضان میںقرآن کو اپنی زبان میں بھی سننے اور پڑھنے کی کو شش کریں تاکہ ہماری کچھ تو اصلاح ہو سکے۔ آئیے غور کریں ۔
استقبال رمضان کے عنوان سے ہونے والے اس سمینار میں پروفیسر ڈاکٹر مولانا محمد اسعد تھانوی، ریکٹر جامعہ اشرفیہ سکھر نے کلیدی خطاب کیا جب کہ صدر شعبہ ڈاکٹر زینت ہارون نے بھی موضوع کے اعتبار سے طلبہ کو آگاہی فراہم کی اور سابق صدر شعبہ پروفیسر ڈاکٹر عبدالرشید نے مہمانوں کو خوش آمدید کہا۔ اس پروگرام کی خاص بات مولانا محمد اسعد تھانوی صاحب کا طلبہ سے خطاب تھا جس میں انھوں نے رمضان کی اہمیت و فضیلت بیان کرتے ہوئے اس بات کی طرف خاص طور پرنشان دہی کی کہ آج ہمارا کردار نہایت پستی کا شکار ہوچکا ہے باوجود اس بات کے کہ ہم عبادات کا بہت اہتمام کرتے ہیں۔
راقم کی نظر میں مولانا محمد اسعد تھانوی صاحب کا طلبہ کو اس طرف متوجہ کرنا نہایت اہمیت کا حامل اور وقت کی اشد ضرورت بھی ہے۔ اگر ہم غیرجانبداری سے جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ واقعی آج ہم سب کردارکے معاملے میں پستی کاشکارہیں بہت سی معاشرتی برائیاں ہمیں محسوس بھی نہیں ہوتیں۔ بسا اوقات تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جو کچھ ہم نے قرآن و حدیث کی باتیں سنیں یا پڑھیں وہ ہماری سمجھ سے بالا تر تھی، یا ہم سمجھ نہیں پائے یا پھر ہم نے دنیا حاصل کرنے کے چکر میں ان باتوں پرغور خوص کرنا ہی مناسب نہیں سمجھا۔ وجہ جو بھی ہو یہ تو حقیقت ہے کہ ہم دینی محفلوں میں بھی شرکت کرتے ہیں۔
ان کااہتمام بھی کرتے ہیں مگر اپنی ذاتی اور اجتماعی زندگی میں اس کا ذرا سا اثر بھی پڑنے نہیں دیتے گویا عملی زندگی میں ہم نے دین کو داخل ہونے سے سختی کے ساتھ روک دیا ہے۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ اب ہم ایک دوسرے سے آگے بڑھ کر دنیا حاصل کرنے کی کوشش میں لگ گئے ہیں اور اس دوڑ میں ایک دوسرے کو کچلنے سے بھی باز نہیں آتے۔بات تو بڑی تلخ ہے مگر سچائی تو یہی ہے کہ ہم دنیا حاصل کرنے کے لیے لوٹ کھسوٹ میں لگے ہوئے ہیں۔
ہمارے ایک کالم نگار دوست کا کہنا ہے کہ یہاں تو ڈاکٹرز میں بھی انسانیت نام کی شئے نظر نہیں آتی ، ایسے ڈاکٹرز کم نہیں ہیں جو مرض کو کم اور مریض کی مالی پوزیشن کو زیادہ دیکھتے ہیں اور اپنا بل زیادہ سے زیادہ بنانے کے لیے اچھے خاصے مریضوں کا بلا وجہ آپریشن تک کر دیتے ہیں۔ انھوں نے مجھے کئی واقعات بتائے کہ جن میں مریضوں کے دل کے آپریشن تک محض اس لیے کردیے گئے کہ ان سے علاج کے نام پر بڑی رقم ہتھیا لی جائے۔ ہمارے ایک اوردوست نے اپنا مشاہدہ بتاتے ہوئے کہا کہ فلاں فلاں اسپتال میں مرنے کے بعد بھی مردہ کو مشینوں سے منسلک رکھا جاتا ہے اور تیماردار کو کہا جاتا ہے کہ علاج ہو رہا ہے اس بہانے کئی کئی دن کے بل مختلف مد میں بنا لیے جاتے ہیں ۔
ڈاکٹر حضرات میں اس قسم کی کرپشن یاظلم کی داستانیں عموماً سننے میں آتیں رہتی ہیں مگر افسوس انھیں مریض اوراس کے تیمارداروں پر ذرا برابر رحم نہیں آتا۔ ایک بات تو راقم کے مشاہدے میں مستقل آتی رہی ہے کہ جب بھی کسی ڈاکٹر کے پاس جانا ہوا ، ڈاکٹر نے شاد و نادر ہی کبھی مریض کی بات غور سے سنی ہو، بس ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب ایک ایک سیکنڈ کے حساب سے ڈالر کمارہے ہیں اور اگر کوئی مریض زبر دستی کچھ تفصیلات پوچھ نے کی کو شش کرے تو ڈاکٹر کو سخت نا گوار گزر تا ہے۔
گویا اخلاقیات جیسے ان کو چھو کر ہی نہ گزری ہوں اور کسی نے انھیں بات کرنے کا سلیقہ یا ڈھنگ ہی نہ بتایا ہو۔ اسی طرح بہت سے ڈاکٹر اس طرح رویہ کرکے مریض کو جواب دیتے ہیں کہ جیسے مریض جاہل ، ان پڑھ ہو اور خود ڈاکٹر بہت عالم و فاضل ہو۔ ڈاکٹرکا پیشہ خدمت کا ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ سارے ڈاکٹر ہی پڑھے لکھے ہوتے ہیں مگر محسوس یہ ہوتا ہے کہ تعلیم نے ان کا کچھ نہیں 'بگاڑا' ۔ اسی طرح وکلا برادری پڑھی لکھی تصور کی جاتی ہے مگر ان میں بھی اچھی خاصی تعداد ان کی ہے جو لوگوں سے چھوٹے چھوٹے کیسزکی بڑی بڑی رقم حاصل کر لیتے ہیں اور کلائنٹ کو ایسا سبز باغ دکھاتے ہیں کہ وہ فوراً ہی انھیں مطلوبہ رقم یا فیس دے دیتا ہے اور بعد میں پیشی پر پیشی بھگتا رہتا ہے مگر فیصلہ ہی نہیں ہوتا۔ عدالتوں میں مقدمات کی پیشی کے لیے آنے والے عام لوگوں کا کیا حال ہے؟ ایک وکیل صاحب نے بتایا کہ لوگ اپنے ہی سگے رشتے داروں کے خلاف قرآن پر ہاتھ رکھنے کے باوجود نہایت جھوٹ اورغلط بیانی کا مظاہرہ کرتے ہیں خواہ کسی جائیداد کا تنازع ہو یا طلاق وغیرہ کا کیس ہو۔
بہر کیف یہ وہ بیماریاں ہے جو آج ہم میں سرائیت کر چکی ہیں، ہم سب مادہ پرست بنتے جا رہے ہیں، معاشرتی اقدار، اخلاقیات اور تمیز وہ تہذیب سب زمین میں دفن ہوتی جارہی ہیں جنھیں بچانے کی ضرورت ہے اور ان کو راہ راست پرلانے کی قوت روحانی قوت ہی ہو سکتی ہے یعنی دین کا تصور۔ دین کا تصور ہی ایک انسان کو جواب دہ بناتا ہے جہاں وہ غلط کام کرنے سے قبل سوچتا ہے کہ اگر کلوز سرکٹ کیمرہ نہیں لگا ہوا ہے تو کیا ہوا ، اللہ تعالیٰ کا تو کیمرہ لگا ہوا ہو، آخرت میں تو حقوق العباد کابھی حساب دینا ہے کہ جہاں کوئی بندہ کسی دوسرے کو معاف نہیں کرے گا، ہر ایک کو اپنی اپنی فکر پڑی ہوگی۔ اگر یہ بات ذہن میں بیٹھ جائے تو پھر ہمارا کردار یقینا بہتر ہو جائے گا اور ہمارے معاملات بہتر ہو جائیں گے۔
لیکن اہم سوال یہ ہے کہ ان ذہنوں کو کیسے جھنجھوڑا جائے؟ اس کے لیے رمضان المبارک کا مہینہ سب سے بہتر ہے کیونکہ اس میں ایک بہت بڑی تعداد میں لوگ مساجد کا رخ کرتے ہیں ایسے میں خاص موضوعات اور پروگرام کے انعقاد کسی بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ بہت سی تنظیمیں تراویح کا اہتمام کرتی ہیں چند ایک تراویح کے ساتھ قرآن پاک کا ترجمہ یا تفسیر وغیرہ کااہتمام بھی کرتی ہیں جن میں مذہبی تنظیمیں وغیرہ بھی شامل ہیں۔ اگر اس قسم کے پروگرام کا دائرہ وسیع کیا جائے اور ان میں موضوعات ہمارے عمومی کردار کے حوالے سے رکھیں جائیں اور اچھے مقرر کا انتخاب کیا جائے تو اس قوم کو جگایا جا سکتا ہے اور اس معاشرے کو بہتر بنا یا جا سکتا ہے۔
ہم انفرادی طور پر کوشش کریں کہ ایسے پروگراموں میں اپنے عزیز و اقارب اور دوستوں کو بھی لے جائیں تاکہ ہمیں کم ازکم ہماری اپنی زبان میں وہ پیغام تو سننے کو ملے جو قرآن ہمیں دے رہا ہے ، ہم صرف عربی میں سن کر سمجھتے ہیں کہ ہمارا کردار درست ہے اور ہم درست سمت میں سفر کر رہے ہیں۔ آئیے اس رمضان میںقرآن کو اپنی زبان میں بھی سننے اور پڑھنے کی کو شش کریں تاکہ ہماری کچھ تو اصلاح ہو سکے۔ آئیے غور کریں ۔