جو لین پال اسانج کو سلام
اسانج نے عالمی سامراج اور ان کے حواریوں کے سیاہ کارناموں کو عوام کے سامنے بے نقاب کر دیا۔
جو لین اسانج نہ کمیونسٹ ہے ، نہ انارکسٹ ہے اور نہ سوشلسٹ ۔ مگر وہ ایک بہادر، سچا، جرات مند، بے خوف اور عوام دوست انسان ضرور ہے ۔ سر مایہ کے لحا ظ سے وہ سر ما یہ دار ہے اور طبقاتی لحاظ سے بھی صاحب جائیداد طبقے سے اس کا تعلق ہے ۔ کسی لالچ میں آ کر اور نہ کسی کے خوف سے پیچھے ہٹے بلکہ سامراجی انسان دشمن منصو بوں اورسازشوں کو پوری طاقت سے بے نقاب کیا۔
سچائی، با ضمیری اور آزاد خیالی کی بنیاد پر اس نے عالمی سامراج خصوصاً امریکی سامراج اور اس کی در پردہ سی آ ئی اے کو بے نقاب کیا۔ ساری نا م نہاد مہذ ب دنیا کے سامنے اس کا بھا نڈا پھوڑ دیا ۔اسانج 3 جو لائی 1971میں ٹا ؤنس ویل ، کو نس لینڈ ، آ سٹریلیا میں پیدا ہوا۔ میلبورن یو نیورسٹی میں ریا ضی اور طبعیات کا بہترین طالب علم تھا ۔ وہ ریاضی کے معروف طالب علم بھی رہے اس لیے انھیں وکی لیکس ورک کے لیے موزوں قرار دیا گیا ۔ وہ کمپیو ٹر پرو گرا مر ، صحا فی اور وکی لیکس کے با نی ڈائریکٹر ہیں ۔
اسانج نے 2006 میں وکی لیکس کی بنیاد رکھی ۔2010 میں جب وکی لیکس نے افغا نستان اور عراق میں منصو بہ بندعوام کے قتل عام کو بے نقاب کیا تو امریکی سامراج کی ایما پر اسا نجے پر جھو ٹے اور بے بنیاد جنسی الزام کے تحت مقد مہ قا یم کیا گیا ۔پھر خفیہ دستاویزات کی بے نقا بی کر نے پر امریکہ نے بھی براہ راست ان پر مقد مہ درج کرلیا ۔ 7 دسمبر2010 کو آ سانج نے اپنے آپ کو لندن پو لیس کے حوا لے کر دیا اور دس دن کے بعد ضما نت پر رہا ہوئے ۔
اسانجے ایکوا ڈور کی ایمبیسی، لندن میں 2012 سے پناہ لیے ہو ئے تھے۔ 12 دسمبر 2017 تک ایکوا ڈور میں با ئیں با زو کے صدر کوریا بر سر اقتدار رہے ، وہ وکی لیکس کی زبر دست وکا لت کر رہے تھے ۔ بعد ازاں لینن مو رینو کے صدر بن جانے کے بعد اسا نج کے با رے میں ایکواڈور کے مو قف میں تبدیلی آ ئی ۔ 11اپریل 2019کو لندن کی میٹرو پو لیس نے انھیں گرفتار کر لیا ۔
اسا نج نے جو عظیم کام انجام دیا وہ یہ تھا کہ انھوں نے عراق اور افغانستان پر 45فو جی دستا ویزات بنائیں اور اسے 2010 میں ویو سا ئیٹ وڈیو پر چلادیا اور5 ملین خفیہ امریکی ای میل کو عام کیا ۔ اسانجے نے یو این او سے شکایت کی کہ انھیں غیر قا نو نی طور پر بر طا نیہ میں نظر بند رکھا گیا ہے ۔ فروری2016 میں یو این او پینیل نے حکم صادر کیا کہ اسا نج بلا وجہ نظر بند ہے اسے رہا کیا جا ئے اور اسے آ زادی سے نقل و حرکت کر نے دی جا ئے ۔ آ سانجے کے وکیل نے سویڈن میں ان پر عا ید الزام پر عدالت سے استدعا کی کہ ان کے مقدمے کو رو کا جا ئے یہ یو کے کے لیے جائز قانونی کارروا ئی نہیں ہے ۔ بہر حال اس اپیل کو سنتے ہوئے عدالت نے کہا کہ اس سے کو ئی تبدیلی نہیں آ ئے گی۔
یاد رہے عراق کے صدر صدام حسین پر مہلک ہتھیار رکھنے کے الزام میں امریکی سامراج نے بر طا نیہ کو ساتھ لے کر عراق پر حملہ کیا تھا ۔ بعد ازاں بر طا نیہ کے سابق وزیر اعظم ٹو نی بلیئر نے خود تسلیم کیا تھا کہ بر طا نیہ نے عراق پر حملے میں امریکہ کا ساتھ دیکر غلطی کی تھی ۔ پھر سابق امریکی صدر بارک اوباما نے بھی یہ تسلیم کیا تھا کہ خفیہ ایجینسیوں کی غلط رپور ٹنگ کی وجہ سے عراق پر حملہ کیا گیا تھا ۔ صرف غلطی کی وجہ سے عراق میں لا کھوں عوام کا قتل عام کہاں کا انصاف اور جمہوریت تھی ۔ اگر ایسا نہیں تھا تو پھر حملہ کر نے وا لوں کے خلاف مقد مہ کیوں نہیںچلا اور قرار واقعی سزا کے لیے ان افراد کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی ۔
یہی صورتحال افغانستان کے ساتھ ہوئی ۔ افغانستان میں کامریڈ نور محمد ترکئی سے کامریڈ ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکمرا نی تک امریکی سامراج نے طالبان کو تشکیل دیا اور بعد ازاں ڈاکٹر نجیب کو شہید کر وا یا گیا ۔ افغانستان کی با ئیں بازو کی حکو مت نے افغانستان میں جاگیرداری کا خاتمہ کر کے تیس جریپ سے زیادہ زمینیں بے زمین کسانوں میں بانٹ دیں ، سودی نظام کو ختم کیا ، ولور( بر دہ فروشی ) کو ممنوع قرار دیا اور سامرا جی سر مائے کو ضبط کر کے حکو مت نے اپنی تحویل میں لے لیا ِ، پھراپنی حکومت کے دوران آ ئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے قرضے لینا بند کر دیا ۔ ان سامراج مخالف اور عوام دوست اقدام سے امریکی سامراج بوکھلا گیا اور اس نے افغا نستان میں مدا خلت شروع کی اور یہ قتل و غارت گری آج بھی جا ری ہے ۔ اگر جو لین پال آ سانج ان حقائق کو وکی لیکس کے ذریعے عوام کے سامنے لا ئے تو یہ تمام عوا مل عوام دوستی اور سامراج دشمنی کے زمرے میں آتے ہیں ۔
اسانج نے عالمی سامراج اور ان کے حواریوں کے سیاہ کارناموں کو عوام کے سامنے بے نقاب کر دیا۔ جو کام بڑی بڑی سیا سی جما عتیں نہیں کر پائیں وہ اسانج نے اکیلے کر دکھایا ۔ یہ اس کی جرات مندی اور صلاحیتوں کا بر ملا اظہار ہے ۔ امریکہ کے عظیم دا نشور ، رائٹر ، ما ہر لسانیات اور ہا ورڈ یونیورسٹی کے پرو فیسر نوم چومسکی نے اپنی کتاب میں درست کہا کہ امریکہ اب تک 88 ملکوں میں بلا واسطہ اور با الواسطہ مدا خلت کر چکا ہے جس کے نتیجے میں 3کروڑ انسا نوں کا قتل ہوا ۔ پھر تو امریکی حکمرا نوں پر کروڑوں انسانوں کے قتل کے خلاف عالمی عدالت میں کیوں نہ مقدمہ چلے ۔
اب بھی امریکی سامراج وینیزویلا، کیوبا ، شما لی کوریا، بو لیویا، شام ، ایران ، یوکرائین ، کو لمبیا ، افغانستان اور میکسیکو میں پروکسی اور براہ راست مداخلت کر رہا ہے۔ اس کے خلاف سوڈان، الجزائر، لیبیا، فلسطین، عراق، کشمیر ، بر طا نیہ، فرانس اور خود امریکی عوام نبرد و آزما ہیں ۔ دنیا بھر میں عا لمی سر ما یہ داری کے خلاف لڑی جانے وا لی جنگ اور عوامی جدو جہد ایک دن ضرور رنگ لائے گی ۔ دنیا کے عوام کو تب چین ، آ زادی اور خوشحالی نصیب ہو گی جب دنیا کی سر حدیں ختم ہو جائینگی۔ جب جائیداد، ملکیت ، فوج،خاندان اور مبہم سوچ کا خاتمہ ہو جائے گا تو لوگ جینے لگیں گے یعنی ایک آسمان تلے ایک ہی خاندان ہو گا ، کو ئی طبقہ ہو گا اور نہ کوئی ریاست ۔ چہار طرف محبتوں اور خوشحالی کے بو ئے گل سے دنیا معطر ہو جائے گی جس کا ہم نے کبھی تصور بھی نہیں کیا ہوگا ۔
سچائی، با ضمیری اور آزاد خیالی کی بنیاد پر اس نے عالمی سامراج خصوصاً امریکی سامراج اور اس کی در پردہ سی آ ئی اے کو بے نقاب کیا۔ ساری نا م نہاد مہذ ب دنیا کے سامنے اس کا بھا نڈا پھوڑ دیا ۔اسانج 3 جو لائی 1971میں ٹا ؤنس ویل ، کو نس لینڈ ، آ سٹریلیا میں پیدا ہوا۔ میلبورن یو نیورسٹی میں ریا ضی اور طبعیات کا بہترین طالب علم تھا ۔ وہ ریاضی کے معروف طالب علم بھی رہے اس لیے انھیں وکی لیکس ورک کے لیے موزوں قرار دیا گیا ۔ وہ کمپیو ٹر پرو گرا مر ، صحا فی اور وکی لیکس کے با نی ڈائریکٹر ہیں ۔
اسانج نے 2006 میں وکی لیکس کی بنیاد رکھی ۔2010 میں جب وکی لیکس نے افغا نستان اور عراق میں منصو بہ بندعوام کے قتل عام کو بے نقاب کیا تو امریکی سامراج کی ایما پر اسا نجے پر جھو ٹے اور بے بنیاد جنسی الزام کے تحت مقد مہ قا یم کیا گیا ۔پھر خفیہ دستاویزات کی بے نقا بی کر نے پر امریکہ نے بھی براہ راست ان پر مقد مہ درج کرلیا ۔ 7 دسمبر2010 کو آ سانج نے اپنے آپ کو لندن پو لیس کے حوا لے کر دیا اور دس دن کے بعد ضما نت پر رہا ہوئے ۔
اسانجے ایکوا ڈور کی ایمبیسی، لندن میں 2012 سے پناہ لیے ہو ئے تھے۔ 12 دسمبر 2017 تک ایکوا ڈور میں با ئیں با زو کے صدر کوریا بر سر اقتدار رہے ، وہ وکی لیکس کی زبر دست وکا لت کر رہے تھے ۔ بعد ازاں لینن مو رینو کے صدر بن جانے کے بعد اسا نج کے با رے میں ایکواڈور کے مو قف میں تبدیلی آ ئی ۔ 11اپریل 2019کو لندن کی میٹرو پو لیس نے انھیں گرفتار کر لیا ۔
اسا نج نے جو عظیم کام انجام دیا وہ یہ تھا کہ انھوں نے عراق اور افغانستان پر 45فو جی دستا ویزات بنائیں اور اسے 2010 میں ویو سا ئیٹ وڈیو پر چلادیا اور5 ملین خفیہ امریکی ای میل کو عام کیا ۔ اسانجے نے یو این او سے شکایت کی کہ انھیں غیر قا نو نی طور پر بر طا نیہ میں نظر بند رکھا گیا ہے ۔ فروری2016 میں یو این او پینیل نے حکم صادر کیا کہ اسا نج بلا وجہ نظر بند ہے اسے رہا کیا جا ئے اور اسے آ زادی سے نقل و حرکت کر نے دی جا ئے ۔ آ سانجے کے وکیل نے سویڈن میں ان پر عا ید الزام پر عدالت سے استدعا کی کہ ان کے مقدمے کو رو کا جا ئے یہ یو کے کے لیے جائز قانونی کارروا ئی نہیں ہے ۔ بہر حال اس اپیل کو سنتے ہوئے عدالت نے کہا کہ اس سے کو ئی تبدیلی نہیں آ ئے گی۔
یاد رہے عراق کے صدر صدام حسین پر مہلک ہتھیار رکھنے کے الزام میں امریکی سامراج نے بر طا نیہ کو ساتھ لے کر عراق پر حملہ کیا تھا ۔ بعد ازاں بر طا نیہ کے سابق وزیر اعظم ٹو نی بلیئر نے خود تسلیم کیا تھا کہ بر طا نیہ نے عراق پر حملے میں امریکہ کا ساتھ دیکر غلطی کی تھی ۔ پھر سابق امریکی صدر بارک اوباما نے بھی یہ تسلیم کیا تھا کہ خفیہ ایجینسیوں کی غلط رپور ٹنگ کی وجہ سے عراق پر حملہ کیا گیا تھا ۔ صرف غلطی کی وجہ سے عراق میں لا کھوں عوام کا قتل عام کہاں کا انصاف اور جمہوریت تھی ۔ اگر ایسا نہیں تھا تو پھر حملہ کر نے وا لوں کے خلاف مقد مہ کیوں نہیںچلا اور قرار واقعی سزا کے لیے ان افراد کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی ۔
یہی صورتحال افغانستان کے ساتھ ہوئی ۔ افغانستان میں کامریڈ نور محمد ترکئی سے کامریڈ ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکمرا نی تک امریکی سامراج نے طالبان کو تشکیل دیا اور بعد ازاں ڈاکٹر نجیب کو شہید کر وا یا گیا ۔ افغانستان کی با ئیں بازو کی حکو مت نے افغانستان میں جاگیرداری کا خاتمہ کر کے تیس جریپ سے زیادہ زمینیں بے زمین کسانوں میں بانٹ دیں ، سودی نظام کو ختم کیا ، ولور( بر دہ فروشی ) کو ممنوع قرار دیا اور سامرا جی سر مائے کو ضبط کر کے حکو مت نے اپنی تحویل میں لے لیا ِ، پھراپنی حکومت کے دوران آ ئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے قرضے لینا بند کر دیا ۔ ان سامراج مخالف اور عوام دوست اقدام سے امریکی سامراج بوکھلا گیا اور اس نے افغا نستان میں مدا خلت شروع کی اور یہ قتل و غارت گری آج بھی جا ری ہے ۔ اگر جو لین پال آ سانج ان حقائق کو وکی لیکس کے ذریعے عوام کے سامنے لا ئے تو یہ تمام عوا مل عوام دوستی اور سامراج دشمنی کے زمرے میں آتے ہیں ۔
اسانج نے عالمی سامراج اور ان کے حواریوں کے سیاہ کارناموں کو عوام کے سامنے بے نقاب کر دیا۔ جو کام بڑی بڑی سیا سی جما عتیں نہیں کر پائیں وہ اسانج نے اکیلے کر دکھایا ۔ یہ اس کی جرات مندی اور صلاحیتوں کا بر ملا اظہار ہے ۔ امریکہ کے عظیم دا نشور ، رائٹر ، ما ہر لسانیات اور ہا ورڈ یونیورسٹی کے پرو فیسر نوم چومسکی نے اپنی کتاب میں درست کہا کہ امریکہ اب تک 88 ملکوں میں بلا واسطہ اور با الواسطہ مدا خلت کر چکا ہے جس کے نتیجے میں 3کروڑ انسا نوں کا قتل ہوا ۔ پھر تو امریکی حکمرا نوں پر کروڑوں انسانوں کے قتل کے خلاف عالمی عدالت میں کیوں نہ مقدمہ چلے ۔
اب بھی امریکی سامراج وینیزویلا، کیوبا ، شما لی کوریا، بو لیویا، شام ، ایران ، یوکرائین ، کو لمبیا ، افغانستان اور میکسیکو میں پروکسی اور براہ راست مداخلت کر رہا ہے۔ اس کے خلاف سوڈان، الجزائر، لیبیا، فلسطین، عراق، کشمیر ، بر طا نیہ، فرانس اور خود امریکی عوام نبرد و آزما ہیں ۔ دنیا بھر میں عا لمی سر ما یہ داری کے خلاف لڑی جانے وا لی جنگ اور عوامی جدو جہد ایک دن ضرور رنگ لائے گی ۔ دنیا کے عوام کو تب چین ، آ زادی اور خوشحالی نصیب ہو گی جب دنیا کی سر حدیں ختم ہو جائینگی۔ جب جائیداد، ملکیت ، فوج،خاندان اور مبہم سوچ کا خاتمہ ہو جائے گا تو لوگ جینے لگیں گے یعنی ایک آسمان تلے ایک ہی خاندان ہو گا ، کو ئی طبقہ ہو گا اور نہ کوئی ریاست ۔ چہار طرف محبتوں اور خوشحالی کے بو ئے گل سے دنیا معطر ہو جائے گی جس کا ہم نے کبھی تصور بھی نہیں کیا ہوگا ۔