’دیوداسی‘ نظام کے خلاف راجا موہن رائے کی طرز پر تحریک چلانا چاہتا ہوں ڈاکٹر جاں نثار معین

تحقیق کے سوامیرااور کوئی شوق نہیں، خواہش رہی کہ ڈاکٹر جمیل جالبی کی طرح لکھ سکوں

’اردو ادب‘ میں صرف مردوں کی تاریخ لکھی گئی، ممتاز ہندوستانی محقق ڈاکٹر جاں نثار معین سے خصوصی گفتگو۔ فوٹو: فائل

یادش بخیر۔۔۔! جب ہم نے 'ایم اے' کے بعد مزید تحقیقی مدارج چڑھنا چاہے تھے، تو 'ایم فل' کی پہلی ہی کلاس میں ایک محترم استاد نے فرمایا تھا کہ اگر تدریس میں آنا چاہتے ہیں،تب ہی 'یہ' مزید تعلیم 'مفید' ثابت ہوگی، لیکن اگر یافت کا ذریعہ دیگر شعبے ہیں، تو 'ایم اے، اِبلاغ عامہ' کی ڈگری ہی کو کافی جانیں۔۔۔!

زیر نظر انٹرویو کرتے ہوئے ہمیں یہ بات شدت سے یاد آئی، کیوں کہ ہماری اس مرتبہ کی 'شخصیت' تحقیق کی اِس پیشہ ورانہ 'کھپت' سے پوری طرح بالا ہے۔۔۔ شاید یہ علمی تحقیق کی کسی ''پیشہ ورانہ لالچ'' سے ماورا ہونے کا نتیجہ ہی ہے کہ انہوں نے دو علاحدہ علاحدہ زمروں میں 'پی ایچ ڈی' کر لیں۔۔۔ انہیں ڈاکٹر جاں نثار معین کہتے ہیں۔ باقی ہم نے کیوں، کیا اور کیسے کے بہت سے جواب آیندہ سطروں میں دینے کی کوشش کی ہے۔ ایک مرتبہ پھر یہ انٹرویو ہندوستان سے کیا گیا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ 'مواصلاتی' انٹرویو کی اپنی رِیت کو زیادہ سے زیادہ نبھایا جا سکے۔

ڈاکٹر جاں نثار معین ابتدائی تعلیم کے بعد شاید تجارت کی بھول بھلیوں میں ہی کھو جاتے، لیکن اُن کے استاد محمد امجد علی انہیں دوبارہ تعلیم کی طرف لائے، پھر انہوں نے تعلیم وتحیق کی منازل طے کیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ 15 فروری 1974ء کو حیدرآباد (دکن) سے منسلک ظہیر آباد شہر میں پیدا ہوئے۔ ظہیر آباد اب تلینگانہ، کرناٹک اور مہاراشٹر کے سنگم پر ہے۔ اُن کا تعلق اُس رجواڑا پریوار سے ہے، جو 80 برس قبل احمد نگر (مہا راشٹر) سے ہجرت کر کے وہاں بسا۔

ڈاکٹر جاں نثار معین کے بقول وہ چار بہن اور چار بھائیوں میں سب سے بڑے ہیں، والد محمد معین الدین چھوٹا موٹا کام کرتے تھے۔ ان کا گھر 10X16 فٹ کا تھا۔ اپنی تعلیم زندگی کے نشیب وفراز میں حاصل کی۔ 1990ء میں میٹرک کے بعد 'آفس اسٹنٹ کورس' میں داخلہ لیا، جہاں کام یاب نہ ہو سکے، شارٹ ہینڈ کے اساتذہ اچھے نہ تھے۔ 1998ء میں انٹر، 1999ء میں 'ادیب کامل' اور 2000ء میں 'معلم اردو' کا امتحان پاس کیا۔

2002ء میں جامعہ عثمانیہ حیدرآباد سے بی اے کیا، پھر گلبرگہ یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے کی پہلی ناکام کوشش کے بعد دوسری بار 56 فی صد نمبر لے پائے۔ وہ کہتے ہیں ہندوستان میں 55 فی صد سے کم نمبر کی ڈگری ناقص خیال کی جاتی ہے، لہٰذا 2012ء میں انہوں نے دوبارہ ایم اے کے امتحان دے کر 75 فی صد نمبر پائے، پھر 2011ء میں انامالیہ یونیورسٹی سے لسانیات میں 'ایم اے' کیا۔

پھر 'ایم فل' کے لیے حیدر آباد سینٹرل یونیورسٹی آئے، جہاں 2004ء میں پروفیسر محمد انوار الدین کی نگرانی میں 'ادارۂ ادبیات اردو' کی مطبوعات کی کتابیات پر تحقیقی کام مکمل کیا، پھر حیدر آباد یونیورسٹی میں ہی 'پی ایچ ڈی' میں داخلہ لیا، لیکن مطمئن نہ ہوئے، پھر جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، (جے این یو) دلی کا رخ کیا، یہاں 2010ء میں ڈاکٹر انوار عالم کی نگرانی میں 'آزادی کے بعد دہلی میں اردو ناول کے بدلتے رجحانات کا فنی وفکری مطالعہ' پر ڈاکٹریٹ کیا۔

ڈاکٹر جاں نثار کے بقول انہوں نے شروع سے اپنے ماحول میں صنفی تفریق کو بہت محسوس کیا۔ اس لیے سماج میں خواتین کے مسائل کو سمجھنے کے لیے 2013ء میں 'ویمن اسٹڈیز' میں 'پی ایچ ڈی' کے طالب علم ہو گئے۔ ہم نے مسائل نسواں پر اُن کے مشاہدے کا سوال کیا، تو وہ بولے 'کچھ مسائل تو بلاتفریق صنف، سب کو لاحق ہیں، لیکن کچھ عائلی زندگی سے متعلق ان کے کافی مسائل ہیں۔

جیسے پدرسری خاندان کے مسائل، اغوا شدہ لڑکیوں کے مسائل، ''دیوداسی سسٹم'' کے مسائل، جس میں بچیاں مندر کی نذر کر دی جاتی ہیں، تاکہ وہاں مہمانوں کا خیال رکھیں اور ان کی جنسی تسکین کا بھی اہتمام کریں۔ آندھرا پردیش کے قرب وجوار میں آج بھی مذہبی فریضہ سمجھ کر صنف نازک کو اس استحصال کے بھینٹ چڑھایا جاتا ہے، اعلیٰ ذاتوں کے لوگ مذہب کی آڑ لے کر عقیدت مندوں کو ایسا کرنے پر اکساتے ہیں، آخری عمر میں وہ دربدر ہو جاتی ہیں، کسمپرسی کے عالم میں بھیک مانگ کر گزارا کرتی ہیں۔

اس گمبھیر مسئلے پر پہلی بار میں نے ہی لکھا۔ پھر ان سے حاصل شدہ رقم مندر پر خرچ ہوتی ہے۔ اس موضوع پر ہندوستانی فلم 'گِدھ' دیکھی جا سکتی ہے۔ اسے ایک کڑوا سچ قرار دیتے ہوئے جاں نثار معین کہتے ہیں کہ جس طرح راجا صاحب موہن رائے 'ستی' (بیوہ کے شوہر کی میت کے ساتھ جلنے) کی رسم کے خلاف کھڑے ہوئے، میری بھی خواہش ہے کہ تحریرو تحقیق کے ساتھ میں بھی دیوداسی نظام کے خلاف کوئی تحریک چلاؤں۔'

ہم نے وہاں کی اکثریتی آبادی کا مذہبی معاملہ چھِڑ جانے پر حساسیت کا ذکر کیا، تو وہ بولے کہ میں نے اس مسئلے کو مذہبی نہیں، بلکہ انسانی مسئلے کے طور پر دیکھا ہے، مجھے جہاں تک علم ہے، اس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں، یہ فقط 150 سال پہلے ان کے ہاں شامل ہوا۔

ڈاکٹر جاں نثار کہتے ہیں کہ یہاں اغوا شدہ لڑکیوں کے مسائل پر بھی کم لکھا گیا۔ بس ناول 'امراؤ جان ادا' میں اس کی تفصیل ہے، جسم فروش (بیسوا) خواتین کے مسائل۔ پہلے طوائف ہوتی تھیں، بعد میں ان کی اہمیت گھٹتے گھٹتے ایک جسم فروش کی رہ گئی۔ گناہ گار دونوں ہیں، لیکن مرد کے معاشرے، میں دوش صرف عورت کو ہوتا ہے، مرد باوقار زندگی گزارتا ہے، یہاں اگر عورت ایک رات تھانے میں رہ لے تو اس کے کردار پر بات کر دی جاتی ہے۔

جاں نثار معین کے بقول اردو ادب کے ساتھ انہوں نے زیادہ تر تحریک نسواں پر لکھا، جہیز اور بے جوڑ شادیوں کے مسائل پر تحقیق کی۔ عائلی زندگی کے مسائل کو موضوع بنایا۔ بالخصوص جس طرح روایتی ہندو بیوہ پر پابندیاں لگا دی جاتی ہیں، نہ وہ سیر ہو کر کھا سکتی ہے، نہ اونچی آواز میں بولسکتی ہے، مغرب کے بعد اکیلے گھر سے نہیں نکل سکتی۔ اس کی خوب صورتی ختم کر دی جاتی ہے اور ساری خوشیاں چھین لی جاتی ہیں۔' وہ اِسے مرد کی جانب سے استحصال قرار دیتے ہیں۔

جاں نثار سماجی تنازعات میں ثالثی بھی کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ میں نے اپنی زندگی خواتین کے تحفظ کے لیے وقف کر دی ہے۔ لوگ مجھے اپنے گھریلو تنازعات نبٹانے کے لیے بلا لیتے ہیں۔' ہم نے پوچھا اب تک کتنے گھر ٹوٹنے سے بچائے ہوں گے؟ تو وہ بولے کہ اس کی تعداد بتانا مشکل ہے۔

ایک تنازع کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ایک نوبیاہتا لڑکی کا شوہر ظالم وعیاش تھا۔ جھگڑوں کے بعد اسے دو مرتبہ طلاق دی گئی، پھر اسے جلا دیا گیا، وہ 80 فی صد جھلس گئی، اور پھر جاں بر نہ ہو سکی! میں اس معاملے میں درمیان میں آیا۔ اس دوران سخت صورت حال کا سامنا کیا، دھمکیاں بھی ملیں، لیکن ڈٹ کر ساری صورت حال کا سامنا کیا۔ ساس اس میں ملوث تھیں، انہیں سرکاری ملازمت سے معطل کیا گیا اور پھر قانونی کارروائی کی تو فقط جرمانہ ہی عائد ہو سکا، بدعنوانی نہ ہوتی تو مزید کڑی سزا بھی ہو سکتی تھی۔

'صرف مسلم خاندانوں کے مسائل نبٹاتے ہیں یا ہندووں کے بھی؟' ہم نے ڈاکٹر جاں نثار سے جاننا چاہا، تو وہ بولے 'میرے لیے دونوں برابر ہیں، زیادہ تر مسلم ہیں، لیکن کچھ ہندو بھی تھے۔ ہم نے کہا آپ جب ہندو خاندانوں کے تنازعات میں پڑتے ہیں، تو اسے وہاں مذہبی رنگ نہیں دیا جاتا؟ وہ بولے کہ ہمارے یہاں مسلمان اور ہندو گھلے ملے ہوئے ہیں، اس لیے اس کا احتمال کم ہوتا ہے، پھر ہم 'ویمن لا' پڑھ کر آتے ہیں، قانونی طور پر آگاہ ہوتے ہیں۔ اگر وہ کوئی غنڈہ گردی کرتے ہیں، تو ہم نے ایسوں کے لیے بھی 'بندوبست' کیا ہوا ہے۔ ''کیا غنڈے رکھے ہوئے ہیں؟'' ہم نے بے ساختہ پوچھا، تو انہوں نے بتایا کہ انہیں کچھ وکلا، پولیس اور سماج کے بااثر افراد کا تعاون حاصل ہے۔

ڈاکٹر جاں نثار بتاتے ہیں کہ ڈاکٹریٹ کی ایک طالبہ نے اُن سے پوچھا تھا کہ آخر مسلمان ہی کیوں آتنک واد (دہشت گرد) ہوتے ہیں؟ تو انہوں نے کہا 'آتنک' کے معنی ڈرانا ہے، یعنی جو مقابلہ کرنے والا ہو تو وہ تو پھر لڑائی کرتا ہے اور اگر فقط حلیے سے کسی کو آتنک واد کہنا ہو تو اس طرح سکھوں کو بھی کہا جا سکتا ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں میں شرح جرم نہایت کم ہے، اس لیے ایسا کہنا غلط ہے۔ انہوں نے بچیوں کو پیدا ہونے سے پہلے قتل کرنے کو سب سے بڑا 'آتنک واد' قرار دیا۔

مادر مستعار (Surrogate) کے حوالے سے ڈاکٹر جاں نثار کہتے ہیں کہ اس میں ہندوستان دنیا بھر میں سب سے آگے ہے اور یہاں سب سے زیادہ اس کا چلن راجستھان میں ہے۔ وہاں باقاعدہ اس کی لابی بنی ہوئی ہے، جس کا کچھ معاوضہ بھی دیا جاتا ہے۔ یہ دراصل 'معذور' خواتین کے لیے ایک راہ تھی، لیکن اب اسے 'سہولت' کے طور پر لیا جانے لگا ہے۔


ڈاکٹر جاں نثار معین کہتے ہیں کہ اردو ادب میں جتنا لکھا گیا ہے، وہ مردوں کی تاریخ ہے۔ میں نے کسی مشن کی طرح خواتین کے حوالے سے کام کیا۔ ہمہ وقت اپنی تحقیق کے حوالے سے ہی سوچ بچار کرتا ہوں۔ نیند آتی ہے سو جاتا ہوں، بھوک لگتی ہے، کھا لیتا ہوں، باقی وقت اسی کام کو دیتا ہوں۔ زندگی میں معاشی آسودگی ہے، اس لیے تحقیق کے سوا اور کوئی شوق یا خواہش نہیں۔ میں دو زندگیاں جی رہا ہوں، ایک اردو کے لیے دوسرا سماجی کارکن کے طور پر۔

معاشرے کی اصلاح کا جذبہ رکھنے والے ڈاکٹر جاں نثار معین کے اب تک مختلف انگریزی اور اردو جرائد میں تقریباً 150 تحقیقی مضامین شایع ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کچھ عرصہ بیجا پور (کرناٹک) کے انجمن کالج میں تدریس بھی کی، حال ہی میں 'تلینگانہ اردو اکادمی' نے ان کی کتاب 'قلی قطب شاہ کے صنفی تصورات' اشاعت کے لیے منظور کی ہے، امبیڈ کر یونیورسٹی اور ہندوستان کے دیگر تعلیمی اداروں میں وقتاً فوقتاً انہیں لیکچر کے لیے بلایا جاتا ہے۔

پولٹری فارمنگ اور برقی مصنوعات کا کام ان کی یافت کا ذریعہ ہے، جب کہ تعلیم وتحقیق کو اپنا شوق قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ زیادہ وقت تحقیق کو دیتے ہیں، اپنی تحقیق کی بنیاد پر سماج کی خدمت کرنا چاہتا ہوں۔ مجھ سے جاب انٹرویو میں بھونڈے سوالات کیے گئے، جیسے 'ولی دکنی کی شاعری کی انفرادیت ایک لفظ میں بیان کریں؟' جواب دیا تو بولے کہ یہ تو دو لفظ ہوگئے۔

وہ 2005ء میں رشتہ ازدواج سے منسلک ہوئے، شریک حیات ڈاکٹر عشرت سلطانہ اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ وہ تین بیٹیوں اور ایک بیٹے کے والد ہیں۔ مصوری اور کسرت سے شغف رکھنے والے ڈاکٹر جاں نثار اپنے دوستوں سید احمد، امجد علی، محمد آصف اور حافظ مبین کو اہم قرار دیتے ہیں۔ اپنے تحقیقی موضوعات کے حوالے سے کہتے ہیں کہ میرے موضوعات عام ڈگر سے الگ ہیں، جیسے میں نے امیر مینائی کی تاریخ گوئی پر کام کیا۔ مثنوی 'کدم راؤ پدم راؤ' کو سہل اور توضیحی انداز میں لکھا، یہ لسانیات پر میرا اہم ترین کام ہے، اس مثنوی کو ڈاکٹر جمیل جالبی نے یہ نام دیا، وہ میرے روحانی استاد ہیں کہ ان کی کتب سے بہت سیکھا اور خواہش رہی کے ان کی طرح لکھ سکوں۔

اردو ادب میں 'خواتین کا انسائیکلو پیڈیا' زیر تکمیل ہے

ڈاکٹر جاں نثار معین نے انکشاف کیا کہ وہ گزشتہ سات برس سے 'اردو ادب میں خواتین' کے ایک انسائیکلو پیڈیا پر کام کر رہے ہیں، لگ بھگ پانچ ہزار سے زائد صفحات کا کام ہو چکا۔ صحت اور حالات نے ساتھ دیا، تو یہ منفرد انسائیکلو پیڈیا دو سال میں تیار ہو جائے گا۔ اس موضوع پر لگ بھگ 150 مضامین مختلف جرائد میں شایع ہو چکے ہیں۔ اس کی پہلی جلد میں 'ادبا کے، جب کہ دوسری میں 'ادیباؤں کے صنفی تصورات' جمع کیے گئے ہیں۔ ساتھ ہی شعر ونثر، افسانوی اور غیر افسانوی، سفرنامے، حکایات اور طنزو مزاح وغیرہ کی موضوعاتی درجہ بندی بھی کی گئی ہے، کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں سرسید احمد خان، علامہ شبلی نعمانی اور الطاف حسین حالی وغیرہ ایک سوچ لے کر آئے، 1857ء کی سختیوں کے ساتھ روایت پسند ماحول میں خواتین کو جدید تعلیم سے جوڑنا ایک معرکے کی طرح تھا۔ آج ہمارا ماحول بہتر ہے۔ میں انہیں بزرگ سمجھ کر ان کی اسی فکر کو سماج میں آگے بڑھانا چاہتا ہوں۔

''1857ء کی جنگ میں خواتین کا حصہ مردوں سے زیادہ محسوس ہوا''

1857ء کی جنگ آزادی کی مسلم حریت پسند خواتین بھی ڈاکٹر جاں نثار کا اہم موضوع ہے۔ کہتے ہیں ان مجاہداؤں کی معلومات ہر جگہ نہیں مل پاتیں۔ اس پر تحقیق کی تو جنگ آزادی میں عورتوں کا کردار مردوں سے زیادہ محسوس ہوا۔ رشید جہاں پہلی 'ایم بی بی ایس' ڈاکٹر تھیں، جو اس تحریک سے منسلک ہوئیں۔ ان مجاہداؤں سے بچوں کو روشناس کرانے کے لیے بچوں کے رسائل میں بھی مضامین لکھے۔

1857ء تا 1947ء حریت پسند خواتین کے کردار اور قربانیوں پر ان کی 500 سے زائد صفحات کی یہ کتاب بہ عنوان 'حقوق نسواں' شایع ہونے والی ہے، یہ موجودہ حقوق نسواں سے جوڑنے کا ذریعہ بنے گی۔

''1857ء کی جدوجہد تو مشترکہ تھی، پھر موضوع تحقیق صرف مسلم خواتین تک محدود کیوں؟'' اس سوال پر وہ بولے کہ 'مسلمان خواتین کے کردار کو پیش کرنے کی زیادہ ضرورت ہے، بہت سی ہندو حریت پسند خواتین پر بھی لکھا ہے، مجموعی مقصد یہ ہے کہ خواتین کی جدوجہد کے حوالے سے آگاہی ہو۔ 'جنگ آزادی' میں ایک 'سبز پوش' خاتون کے بارے میں بتایا جاتا ہے، جو اچانک نمودار ہو کر دھاوا بولتیں اور کئی انگریزی فوجیوں کو ہلاک کر کے غائب ہو جاتیں۔ ان کے بارے میں ہر ممکن معلومات کو جمع کیا۔

''سنسر بورڈ'' کو 'آئٹم سونگ' پر پابندی لگا دینا چاہیے!''

ڈاکٹر جاں نثار معین کی دوسری پی ایچ ڈی 2017ء میں مکمل ہوئی۔ یہ 'ہندی سینما میں خواتین کے کردار' سے متعلق تھی۔ انہوں نے اپنی تحقیق میں 1975ء تا 1985ء کا احاطہ کیا، جسے اقوام متحدہ کی جانب سے 'خواتین کی دہائی' قرار دیا گیا، وہ کہتے ہیں کہ جب ہندوستان میں سینما آیا، تو کوئی خاتون اس میں کام کرنے کے لیے تیار نہ ہوتی تھی، مجبوراً نسوانی کردار بھی مرد ہی ادا کرتے، یہ خاموش فلموں کا زمانہ تھا، جب خاتون کا کردار ادا کرنے والا ایک اداکار سولنکیا مر گیا، تو اس کی بیوی نے پھر باقی ماندہ کردار ادا کیا۔

میں نے اپنی تحقیق میں ہر موضوع کے لیے ایک ایک ہندوستانی فلم چنی، جس کی تفصیل کچھ یوں ہے۔ اغوا شدہ لڑکیوں کے مسائل اور طوائف کی روایت (امراؤ جان ادا 1981ء)، دیو داسی نظام (گِدھ 1984ء)، زنا بالجبر (انصاف کا ترازو 1980ء)، بیسواؤں کے مسائل (منڈی 1983ء)، عائلی مسائل، جہیز اور بے جوڑ شادیاں (بازار 1982ء)، طلاق اور عقد ثانی (نکاح 1982ء)، بیوگی اور بیوہ کی شادی (پریم روگ 1982ء) مردوں کی بے راہ روی اور رکھیل (ارتھ 1982ء) مادیت اور مادر مستعار (دوسری دلہن 1983ء)، انتخابی سیاست میں خواتین (آندھی 1975ء)، فعال سماجی کارکن خواتین (صبح ) اور بنیادی سطح پر سرگرم خواتین (منتھن 1976ء)۔

یہ سن کر ہمارے ذہن میں یہ خیال آیا کہ اگر وہ یہ کھوجتے کہ ہندوستان میں خواتین کے مجموعی مسائل کے حوالے سے یہ فلمیں کیا کردار کر رہی ہیں؟ جس پر وہ کہتے ہیں کہ میری تحقیق تاریخی تھی، یہ جاننا ممکن نہ تھا، کیوں کہ اس دور کے فلم بین اب کیسے ملتے جو اس کا جواب دیتے۔ اگر مروجہ اصولوں پر کاربند نہ رہا جائے، تو وہ معلومات تو ہو سکتی ہے، لیکن اسے تحقیق نہیں کہا جا سکتا۔ 'خواتین کی دَہائی' سے قبل فلموں میں عائلی معاملات پر آگہی ہوتی تھی، اس کے بعد ان کے حقوق کی بات کی جانے لگی۔

ہم نے ہندوستانی سینما میں خواتین کے آج کے کردار کے حوالے سے پوچھا تو وہ بولے کہ اگر اسے خوش دکھانا ہو تو کہتی ہے کہ 'میرا بابو چھیل چھبیلا میں تو ناچوں گی' اگر کوئی زیادتی ہو تو 'دل کے ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے' فلم 'امراؤ جان ادا' میں کہتی ہے کہ 'اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجیو!' اب ایک عورت یہ کیوں کہہ رہی ہے؟ وہ تو رحمت ہے، اس کے پیروں کے نیچے جنت ہے، اس کی وجہ اس پر مرد معاشرے کا ظلم ہے۔ پھر کہیں وہ کہتی ہے کہ 'میں چیز بڑی ہو مست مست!'' 'چیز' تو خرید وفروخت کی ہوتی ہے۔ پھر جو اس دنیا کا نصف حصہ ہو، اسے 'چیز' کہنے کیسوچ نہایت غلط ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ 'سنسر بورڈ' کو فلموں کے 'آئٹم سونگ' پر پابندی لگا دینا چاہیے، آپ ایک صنف کو 'آئٹم' کیسے کہہ سکتے ہیں؟ پھر ان گانوں میں 'میں جنڈو بام ہوئی' جیسے تضحیک آمیز الفاظ ڈالے جاتے ہیں، جو کہ نہیں ہونے چاہئیں۔

ہم نے کہا یہ تو سارے گانے ہیں، ہم فلموں میں کردار پوچھ رہے تھے؟ تو وہ بولے کہ مجموعی طور پر ہندی فلموں میں ہمارے ہر مسئلے کو اچھی طرح پیش کیا گیا۔' ہم نے سماجی 'بے راہ روی' کا سمبندھ فلموں سے ہونے کا استفسار کیا تو وہ بولے 'کمرشل فلمیں چوں کہ کاروباری نقطہ نظر سے تیار کی جاتی ہیں، اس لیے اس میں جذبات، رقص، تصادم اور سارے لوازمات شامل کیے جاتے ہیں، آرٹ فلموں میں ایسا نہیں ہے۔'

ہم نے سماج کے سدھار میں فلموں کے کردار کو کھوجا تو وہ بولے کہ ''اس کا احاطہ کرنا مشکل ہے، لیکن فلموں کے اثرات تو ہوتے ہیں۔''

''فلم بینوں کو کیا ان سے کوئی سیکھ ملی؟'' ہم نے ٹکڑا لگایا، تو وہ بولے ناظرین نے بہت کچھ سیکھا، ان فلموں میں کورٹ کچہری اور بدعنوانی کے حوالے سے دکھایا گیا، بہت سی ہندی فلموں کے لیے سرکاری طور پر بھی روپیا دیا گیا، لیکن صرف فلموں سے سماجی بہتری کے لیے کچھ نہیں ہو سکتا، یہ ایک ذریعہ ضرور ہیں کہ جس طرح کتابیں ہیں۔
Load Next Story