بھارتی فوج کا برفانی انسان کے قدموں کے نشانات دیکھنے کا دعویٰ

بھارتی افواج نے نیپال کے قریب ایک فوجی کیمپ کے پاس قدموں کے نشانات پوسٹ کیے ہیں جن پر تنقید بھی کی جارہی ہے


ویب ڈیسک April 30, 2019
بھارتی افواج کی جاری کردہ اس تصویر میں برف پر پیروں کے نشانات نظر آرہے ہیں جنہیں برفانی انسانی سے منسوب کیا گیا ہے (فوٹو: بھارتی)

ISLAMABAD: بھارتی افواج نے ہمالیائی برفانی علاقے میں دیومالائی برفانی انسان 'ییٹی' کے مبینہ قدموں کے نشانات کی بعض تصاویر پوسٹ کی ہیں جن پر عوام نے ملے جلے ردِ عمل کا اظہار کیا ہے جب کہ بعض نے اسے تنقید اور مذاق کا نشانہ بھی بنایا ہے۔

پیر کے روز بھارتی افواج کے آفیشل ٹویٹر اکاؤنٹ پر یہ تصاویر جاری کی گئیں جس کے فالوور کی تعداد 60 لاکھ سے زائد ہے۔ برف پر بنے نقوشِ پا کی لمبائی 32 انچ اور چوڑائی 15 انچ ہے جو ہمالیائی علاقے میں نیپال کے پاس واقع ماکالو فوجی کیمپ کے پاس دیکھے گئے ہیں۔



نیپالی کہانیوں میں ییٹی اور برفانی انسان کا تذکرہ ملتا ہے جو بن مانس نما ہوتا ہے لیکن اس کا قد عام انسان سے زائد ہوتا ہے۔ بعض داستاںوں کے مطابق یہ انسان نما برفانی مخلوق ہمالیہ، سائبیریا اور مشرقی ایشیا کے برفیلے علاقوں میں پائی جاتی ہے۔ کئی ماہرین اس پر تحقیق بھی کررہے ہیں تاہم سنجیدہ ماہرین نے اسے مسترد کرتے ہوئے صرف ایک داستان ہی قرار دیا ہے۔



بھارتی ذرائع ابلاغ نے ملکی افواج کے ٹویٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ کسی برفانی انسان کے قدموں کا یہ پہلا تصویری ثبوت ہے جو 9 اپریل کو دیکھا گیا تھا ۔ بھارتی افواج نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ 'ثبوت' اس شعبے کے متعلقہ ماہرین کو سائنسی تجزیئے کے لیے دیدیئے گئے ہیں۔


اس ٹویٹ کے جواب میں لوگوں نے پھبتی کسی اور اس سے وابستہ لطائف کا سلسلہ شروع کردیا۔ ایک صارف نے اسے مضحکہ خیز کہا ہے تو دوسرے نے اسے امریکی ٹی وی سیریز 'گیم آف تھرونز' کی مخلوق کے نقشِ پا سے تشبیہ دی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ساری تصاویر میں ییٹی یا برفانی انسان کے صرف ایک قدم کے نشانات ہی دیکھے جاسکتے ہیں۔

بین الاقوامی ماہرین نے کہا ہے کہ اس سے قبل ییٹی کی جتنی علامات اور نشانیاں بتائی گئی ہیں وہ اس علاقے میں پائے جانے والے جانوروں کی ہیں۔ 2017ء میں ان تمام شواہد پر ایک تنقیدی رپورٹ بھی منظرِ عام پرآئی تھیں جس میں کہا گیا تھا کہ برفانی مخلوق کے بال اور قدموں کے نشانات کی اکثریت کا تعلق بھورے ریچھوں سے ہیں جو اس خطے میں عام پائے جاتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔