کتاب ترقی کا پہلا زینہ
’’نئی کتابوں کی روشنی میں اردو افسانہ اور سماجی معنویت‘‘ کا موضوع بھی سننے والوں کے لیے دلچسپی کا سبب رہا۔
اسلام آباد کی فضاؤں میں چٹکے ہوئے غنچوں اور بلند وبالا پیڑوں سے لپٹی ہوئی سر سبز بیلوں کی خوشبو ہے ۔ یہ خوشبو کراچی میں کہاں میسر ، وہاں ڈیزل کا دھواں اور ڈھکن سے محروم گٹر عفونت بکھیرتے ہیں ۔ رہی سہی کسرکوڑے کرکٹ کے ڈھیر پوری کردیتے ہیں ۔ ادھڑی ہوئی سڑکیں ہیں اور ابلتے ہوئے نالے۔
ایک شہر جو 70 برس پہلے 3 لاکھ کا تھا اب ڈیڑھ یا دوکروڑ کا ہوچکا ہے۔ اس کی بوٹیاں نوچنے والے سیکڑوں ہزاروں ہیں لیکن اس کے زخموں پر کوئی مرہم نہیں رکھتا، کوئی اس کے سینہ ٔصد چاک کو رفو نہیں کرتا ۔ اس کی خدمت کے دعویداروں کی کمی نہیں۔
میں ذہن میں رینگتے ہوئے ان خیالات کو جھٹک دیتی ہوں اور شہر اقتدار کی عطر بیز ہواؤں کو اپنے پھیپھڑوں میں اتار لیتی ہوں ۔ دعا دیتی ہوں نیشنل بک فاؤنڈیشن اور اس کے منیجنگ ڈائریکٹر ڈاکٹر انعام الحق جاوید کو جنھوں نے اس ادارے کا انتظام و انصرام اردو کے اعلیٰ افسانہ نگار مظہر الاسلام سے سنبھالا تھا اور سچ تو یہ ہے کہ حق ادا کر دیا۔ گزشتہ برسوں سے نیشنل بک فاؤنڈیشن کے سالانہ قومی کتاب میلے میں مظہر الاسلام کے لکھے ہوئے ایک نغمے کی گونج '' کتابوں کی دنیا سلامت رہے'' ہم سب کی سماعتوں کے لیے جاں فزا ہوتی ہے۔
پاک چائنا فرینڈ شپ سینٹر، اسلام آباد میں اردو، انگریزی، سندھی، فارسی اور کئی دوسری زبانوں کی کتابوں کے ڈیڑھ سو سے زیادہ اسٹال تھے۔ یہ دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی ہورہی تھیں کہ بچے ان دکانوں پر ٹوٹے پڑ رہے تھے۔ جہاں ان کے لیے کتابیں، رنگ بھرنے کی کاپیاں اور رنگ تھے۔ اس کے علاوہ بھی بچوں کا دل لبھانے والے متعدد تعلیمی کھلونے اور چارٹ تھے۔ یہ بچے متوسط اور نچلے طبقے سے تعلق رکھتے تھے، کتابوں کی خریداری کے سلسلے میں ان کا اشتیاق دیدنی تھا۔ ماں باپ سے ضد کرتے ہوئے، ان کی جیب خالی کراتے ہوئے اور اس کے بعد بھی مطمئن نہ ہونے والے یہ بچے ہمارا مستقبل ہیں۔ وہ تاریخ اور جغرافیہ پڑھنا چاہتے ہیں۔ جغرافیہ تو انھیں بہت دیدہ ریزی سے پڑھنا چاہیے، کہیں یہ نہ ہو کہ بڑے ہوکر وہ ایران کی سرحدوں کو اسکینڈے نیویا سے ملا دیں اور امتحان میں فیل ہو جائیں۔ اس مرتبہ نیشنل بک فاؤنڈیشن نے یہ نعرہ دیا کہ ''کتاب تعلیمی ترقی کی ضامن۔''
اس تقریب کا افتتاح حسب دستور صدر مملکت نے کیا ۔ وفاقی وزیر تعلیم بھی اس کی شوبھا بڑھا رہے تھے۔ اپنے تحریری پیغام میں انھوں نے کہا کہ ''انسانی ارتقاء کے سفر میں ابتدا سے اب تک کے جدید دورکی ترقی کے عمل میں کتاب کے کردار اور کتاب کی اہمیت اور افادیت سے کوئی باشعور انسان انکار نہیں کرسکتا ۔ قوموں میں شائستہ روی، انسان شناسی، مثبت فکر، اقدار سے محبت اور انسانی صفات کی صحیح پہچان کتاب اور مطالعے سے ہی ممکن ہے'' اتنی اچھی باتیں پڑھ کر جب ان کی برجستہ تقریر سنی تو حیرت ہوئی۔
ان کے برعکس جب صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی تقریر کرنے کھڑے ہوئے تو انھوں نے فی البدیہہ جو باتیں کیں اس نے ہم سب کا دل شاد کیا۔ وہ بتا رہے تھے کہ کتابوں نے ان کی زندگی میں کتنا اہم کردار ادا کیا۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ انھیں جاسوسی ناول پڑھنے سے دلچسپی تھی جب کہ ان کی والدہ یہ چاہتی تھیں کہ وہ تاریخ، فلسفہ اور ادبی کتابوں کا مطالعہ کریں۔ عارف صاحب جب ضخیم کتابوں میں چھپا کر ناول پڑھتے تھے تو وہ ان کی چوری پکڑ لیتی تھیں اور انھیں سرزنش کرتی تھیں۔
تین دن کے اس میلے میں اسلام آباد، کراچی، لاہور، پشاور اور دور دراز شہروں سے آنے والے ادیبوں اور شاعروں کا ہجوم تھا۔ فاطمہ حسن کے کہنے کے مطابق ہم ایک شہر میں رہتے ہوئے ایک دوسرے سے مل نہیں پاتے لیکن یہ کتاب میلہ ہمیں اپنے شہر کے ادیبوں، دوستوں اور دور دراز سے آئے ہوئے ادیبوں سے ملنے کا موقع فراہم کردیتا ہے۔ اس مرتبہ بھی یہی ہوا کہ محمود شام، راشد نور، عقیل عباس جعفری، مبین مرزا، ناصرہ زبیری سے ہم یوں مل رہے تھے جیسے ان سے ہر وقت کا میل جول ہے۔ ناشتہ ساتھ کررہے ہیں۔ کھانے پر ایک ساتھ ہیں۔ مذاکروں اور مباحثوں کی تو بات ہی کیا۔
اس میلے میں ان دوستوں سے بھی ملاقات رہی جن کی یاد بہت آتی ہے۔ لیکن ملاقات ایسی ہی کسی تقریب میں ہوتی ہے۔ نجیبہ عارف، نیلم احمد بشیر، سلمیٰ اعوان، یاسمین حمید، نصرت زہرا، حمید شاہد، احسن عباس رضا، حمیرا اشفاق، فرخ سہیل گویندی اور محبوب ظفر ان ہی میں سے ہیں۔ ڈاکٹر سعیدہ شاہ انگلستان کی لیسٹر یونیورسٹی میں پڑھاتی ہیں۔ اس کانفرنس میں شرکت کے لیے وہاں سے آئی ہوئی تھیں۔ انھوں نے ادب میں صنفی مضامین کے موضوع پر ہونیوالے اجلاس کی صدارت کی۔ اسی اجلاس میں ڈاکٹر حمیرا شہباز کی کتاب ''ذکر زن'' کا تعارف کرایا گیا۔ اس کتاب میں حمیرا صاحبہ نے اقبال کی شاعری میں جن خواتین کا ذکر ہوا ہے، ان کا احاطہ کیا ہے۔ ''خاموشی کی آواز'' کے مرتبین ڈاکٹر فاطمہ حسن اور ڈاکٹر آصف فرخی ہیں۔ آصف آئے نہیں تھے۔ فاطمہ حسن موجود تھیں۔ انھوں نے اس کتاب کا مختصر تعارف کرایا۔
ینگ ویمن رائٹرز فورم، اسلام آباد کی جانب سے ''نوجوان تخلیق کار خواتین اور نئے تخلیقی رویے'' کے موضوع پر ایک گرما گرم مذاکرہ ہوا۔ جس میں رابعہ بصری، ابصار فاطمہ، عروج احمد، صفیہ شاہد، معافیہ شیخ اور حنا امین کے علاوہ کئی دوسری لکھنے والیوںنے شرکت کی۔ ان کی باتیں سن کر خوشی ہوئی۔ سپوگمئی علی خٹک، فرحین خالد اور دوسری لکھنے والیاں نئے موضوعات کی شناوری کررہی ہیں۔
''نئی کتابوں کی روشنی میں اردو افسانہ اور سماجی معنویت'' کا موضوع بھی سننے والوں کے لیے دلچسپی کا سبب رہا۔ اس میں حمید شاہد، مبین مرزا، رخسانہ صولت، فریدہ حفیظ، منزہ احتشام گوندل، فاطمہ حسن اور نجیہ عارف شامل تھیں۔ اس محفل کے میزبان عثمان عالم تھے۔ اس محفل میں بھی بہت زبردست مباحثہ رہا۔ اور ہم نئے اور بعض پرانے لکھنے والوں کی سیر حاصل گفتگو سن کر اٹھے۔
انعام الحق جاوید نے نیشنل بک فاؤنڈیشن کی سربراہی بہت محنت اور نئے خیالات سے استفادے کے ساتھ کی ہے۔''کتاب آپ کی دیلیز پر'' کے نام سے بنائے گئے منصوبے کے تحت 2015ء میں بسوں میں بنائی گئی بک شاپس/ بک کلب کے تحت مردان، نوشہرہ، سوات، بنوں، چار سدہ، کوہاٹ، ڈی آئی خان، چترال، اسکردو، فاٹا، ایبٹ آباد، مانسہرہ، مالا کنڈ، کرک، لکی مروت، ہری پور اور خیبرپختونخواکے دیگر دور دراز علاقوں میں رہنے والوں کو کتابیں پڑھنے کی سہولتیں فراہم کی جا رہی ہیں۔
اگست 2015ء میں کوئٹہ میں پہلی بار لگائے گئے ہفت روزہ آزادی میلے کے دوران شائقین کتاب نے تقریباً ایک کروڑ روپے کی کتابیں خریدیں۔ یوم آزادی کے موقع پر یہ میلے 2016ء اور 2017ء میں بھی لگائے گئے تھے۔ 2018ء میں آٹھ سو چھوٹے بڑے کتب میلوں میں شرکت اور کتاب میلوںکی نمائشوں کا اہتمام کیا گیا۔ گزشتہ برس مرزا غالبؔ کے یوم پیدائش کی مناسبت سے این بی ایف کے صدر دفتر اور ملک بھر کے اہم مراکز پر دو روزہ نمائش کتب کا انعقاد بھی کیا گیا۔ نئی منصوبہ بندی کے تحت اب تک قومی اور علمی موضوعات پر مبنی تاریخ، علم و ادب، فلسفہ، نفسیات، سائنس، جغرافیہ ، تاریخ اور اسلامی علوم کی 500 سے زائد کتابوں کے علاوہ بچوں کے لیے مفید، معیاری کم نرخوں کی جنرل بکس شایع کی گئیں۔ قارئین اور شائقین کتب کی پذیرائی کے باعث ان کتب میں سے 70 فیصد ایسی ہیں جن کے دوسرے، تیسرے اور چوتھے ایڈیشن دو دو اور تین تین ہزار کی تعداد میں شایع ہوئے۔
گزشتہ برس نویں سالانہ قومی کتب میلے میں تین لاکھ 39 ہزار 703 لوگوں نے شرکت کی۔ اور 44 فیصد رعایتی قیمت پر ایک کروڑ 80 لاکھ روپے سے زائد کی کتب خریدیں۔ میرے لیے یہ خوشی کی بات تھی کی میری بیٹی فینانہ فرنام نے بچوں کے لیے جو دو کتابیں ''امن کی کہانیاں'' اور ''ٹالسٹائی کی حکایات'' ترجمہ کی تھیں، وہ بھی دھڑا دھڑ فروخت ہورہی تھیں۔
''جہانِ حکمت و حیرت'' کے عنوان سے اسلام آباد میں نیشنل بک میوزیم، قائم کیا گیا ہے جو یقیناً دیکھنے کی چیز ہے۔ ''کوچہ کتاب'' میں قدیم ترین تحریری خط سے آج کے نستعلیق کے نمونے بھی دیے گئے ہیںَ اس میں ابن بطوطہ اور ابن خلدون کی کتابیں ہیں۔ ایران اور ترکی کے تعاون سے ''گوشہ حافظ شیرازی'' اور 'گوشہ مولانا روم'' ہے۔ این بی ایف بک پارک بنایا گیا ہے۔ جس میں داخل ہوں تو یہ مشہور مصرعہ دامنِ دل کھینچتا ہے کہ ''فراغتے و کتابے و گوشۂ چمنے''۔ مختلف انداز اور رنگوں کے فائبر گلاس سے ہمارے بڑے ادیبوں کے مجمسے تراشے گئے ہیں۔
گندھارا، موہنجو دڑو، مہر گڑھ سب ہی کی جھلکیاں نظر آتی ہیں اور اندازہ ہوتا ہے کہ ہم کیسی رنگا رنگ ثقافت اور ہزاروں برس پرانی تاریخ کے وارث اور امین ہیں۔ اس ورثے کے بارے میں ہماری نئی نسل کی آگاہی انھیں اس پر فخر کرنا سکھاتی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی یاد دلاتی ہے کہ ہم ایک بین الاقوامی ثقافت کا حصہ ہیں اور رواداری ہماری ترقی کا پہلا زینہ ہے۔
ایک شہر جو 70 برس پہلے 3 لاکھ کا تھا اب ڈیڑھ یا دوکروڑ کا ہوچکا ہے۔ اس کی بوٹیاں نوچنے والے سیکڑوں ہزاروں ہیں لیکن اس کے زخموں پر کوئی مرہم نہیں رکھتا، کوئی اس کے سینہ ٔصد چاک کو رفو نہیں کرتا ۔ اس کی خدمت کے دعویداروں کی کمی نہیں۔
میں ذہن میں رینگتے ہوئے ان خیالات کو جھٹک دیتی ہوں اور شہر اقتدار کی عطر بیز ہواؤں کو اپنے پھیپھڑوں میں اتار لیتی ہوں ۔ دعا دیتی ہوں نیشنل بک فاؤنڈیشن اور اس کے منیجنگ ڈائریکٹر ڈاکٹر انعام الحق جاوید کو جنھوں نے اس ادارے کا انتظام و انصرام اردو کے اعلیٰ افسانہ نگار مظہر الاسلام سے سنبھالا تھا اور سچ تو یہ ہے کہ حق ادا کر دیا۔ گزشتہ برسوں سے نیشنل بک فاؤنڈیشن کے سالانہ قومی کتاب میلے میں مظہر الاسلام کے لکھے ہوئے ایک نغمے کی گونج '' کتابوں کی دنیا سلامت رہے'' ہم سب کی سماعتوں کے لیے جاں فزا ہوتی ہے۔
پاک چائنا فرینڈ شپ سینٹر، اسلام آباد میں اردو، انگریزی، سندھی، فارسی اور کئی دوسری زبانوں کی کتابوں کے ڈیڑھ سو سے زیادہ اسٹال تھے۔ یہ دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی ہورہی تھیں کہ بچے ان دکانوں پر ٹوٹے پڑ رہے تھے۔ جہاں ان کے لیے کتابیں، رنگ بھرنے کی کاپیاں اور رنگ تھے۔ اس کے علاوہ بھی بچوں کا دل لبھانے والے متعدد تعلیمی کھلونے اور چارٹ تھے۔ یہ بچے متوسط اور نچلے طبقے سے تعلق رکھتے تھے، کتابوں کی خریداری کے سلسلے میں ان کا اشتیاق دیدنی تھا۔ ماں باپ سے ضد کرتے ہوئے، ان کی جیب خالی کراتے ہوئے اور اس کے بعد بھی مطمئن نہ ہونے والے یہ بچے ہمارا مستقبل ہیں۔ وہ تاریخ اور جغرافیہ پڑھنا چاہتے ہیں۔ جغرافیہ تو انھیں بہت دیدہ ریزی سے پڑھنا چاہیے، کہیں یہ نہ ہو کہ بڑے ہوکر وہ ایران کی سرحدوں کو اسکینڈے نیویا سے ملا دیں اور امتحان میں فیل ہو جائیں۔ اس مرتبہ نیشنل بک فاؤنڈیشن نے یہ نعرہ دیا کہ ''کتاب تعلیمی ترقی کی ضامن۔''
اس تقریب کا افتتاح حسب دستور صدر مملکت نے کیا ۔ وفاقی وزیر تعلیم بھی اس کی شوبھا بڑھا رہے تھے۔ اپنے تحریری پیغام میں انھوں نے کہا کہ ''انسانی ارتقاء کے سفر میں ابتدا سے اب تک کے جدید دورکی ترقی کے عمل میں کتاب کے کردار اور کتاب کی اہمیت اور افادیت سے کوئی باشعور انسان انکار نہیں کرسکتا ۔ قوموں میں شائستہ روی، انسان شناسی، مثبت فکر، اقدار سے محبت اور انسانی صفات کی صحیح پہچان کتاب اور مطالعے سے ہی ممکن ہے'' اتنی اچھی باتیں پڑھ کر جب ان کی برجستہ تقریر سنی تو حیرت ہوئی۔
ان کے برعکس جب صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی تقریر کرنے کھڑے ہوئے تو انھوں نے فی البدیہہ جو باتیں کیں اس نے ہم سب کا دل شاد کیا۔ وہ بتا رہے تھے کہ کتابوں نے ان کی زندگی میں کتنا اہم کردار ادا کیا۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ انھیں جاسوسی ناول پڑھنے سے دلچسپی تھی جب کہ ان کی والدہ یہ چاہتی تھیں کہ وہ تاریخ، فلسفہ اور ادبی کتابوں کا مطالعہ کریں۔ عارف صاحب جب ضخیم کتابوں میں چھپا کر ناول پڑھتے تھے تو وہ ان کی چوری پکڑ لیتی تھیں اور انھیں سرزنش کرتی تھیں۔
تین دن کے اس میلے میں اسلام آباد، کراچی، لاہور، پشاور اور دور دراز شہروں سے آنے والے ادیبوں اور شاعروں کا ہجوم تھا۔ فاطمہ حسن کے کہنے کے مطابق ہم ایک شہر میں رہتے ہوئے ایک دوسرے سے مل نہیں پاتے لیکن یہ کتاب میلہ ہمیں اپنے شہر کے ادیبوں، دوستوں اور دور دراز سے آئے ہوئے ادیبوں سے ملنے کا موقع فراہم کردیتا ہے۔ اس مرتبہ بھی یہی ہوا کہ محمود شام، راشد نور، عقیل عباس جعفری، مبین مرزا، ناصرہ زبیری سے ہم یوں مل رہے تھے جیسے ان سے ہر وقت کا میل جول ہے۔ ناشتہ ساتھ کررہے ہیں۔ کھانے پر ایک ساتھ ہیں۔ مذاکروں اور مباحثوں کی تو بات ہی کیا۔
اس میلے میں ان دوستوں سے بھی ملاقات رہی جن کی یاد بہت آتی ہے۔ لیکن ملاقات ایسی ہی کسی تقریب میں ہوتی ہے۔ نجیبہ عارف، نیلم احمد بشیر، سلمیٰ اعوان، یاسمین حمید، نصرت زہرا، حمید شاہد، احسن عباس رضا، حمیرا اشفاق، فرخ سہیل گویندی اور محبوب ظفر ان ہی میں سے ہیں۔ ڈاکٹر سعیدہ شاہ انگلستان کی لیسٹر یونیورسٹی میں پڑھاتی ہیں۔ اس کانفرنس میں شرکت کے لیے وہاں سے آئی ہوئی تھیں۔ انھوں نے ادب میں صنفی مضامین کے موضوع پر ہونیوالے اجلاس کی صدارت کی۔ اسی اجلاس میں ڈاکٹر حمیرا شہباز کی کتاب ''ذکر زن'' کا تعارف کرایا گیا۔ اس کتاب میں حمیرا صاحبہ نے اقبال کی شاعری میں جن خواتین کا ذکر ہوا ہے، ان کا احاطہ کیا ہے۔ ''خاموشی کی آواز'' کے مرتبین ڈاکٹر فاطمہ حسن اور ڈاکٹر آصف فرخی ہیں۔ آصف آئے نہیں تھے۔ فاطمہ حسن موجود تھیں۔ انھوں نے اس کتاب کا مختصر تعارف کرایا۔
ینگ ویمن رائٹرز فورم، اسلام آباد کی جانب سے ''نوجوان تخلیق کار خواتین اور نئے تخلیقی رویے'' کے موضوع پر ایک گرما گرم مذاکرہ ہوا۔ جس میں رابعہ بصری، ابصار فاطمہ، عروج احمد، صفیہ شاہد، معافیہ شیخ اور حنا امین کے علاوہ کئی دوسری لکھنے والیوںنے شرکت کی۔ ان کی باتیں سن کر خوشی ہوئی۔ سپوگمئی علی خٹک، فرحین خالد اور دوسری لکھنے والیاں نئے موضوعات کی شناوری کررہی ہیں۔
''نئی کتابوں کی روشنی میں اردو افسانہ اور سماجی معنویت'' کا موضوع بھی سننے والوں کے لیے دلچسپی کا سبب رہا۔ اس میں حمید شاہد، مبین مرزا، رخسانہ صولت، فریدہ حفیظ، منزہ احتشام گوندل، فاطمہ حسن اور نجیہ عارف شامل تھیں۔ اس محفل کے میزبان عثمان عالم تھے۔ اس محفل میں بھی بہت زبردست مباحثہ رہا۔ اور ہم نئے اور بعض پرانے لکھنے والوں کی سیر حاصل گفتگو سن کر اٹھے۔
انعام الحق جاوید نے نیشنل بک فاؤنڈیشن کی سربراہی بہت محنت اور نئے خیالات سے استفادے کے ساتھ کی ہے۔''کتاب آپ کی دیلیز پر'' کے نام سے بنائے گئے منصوبے کے تحت 2015ء میں بسوں میں بنائی گئی بک شاپس/ بک کلب کے تحت مردان، نوشہرہ، سوات، بنوں، چار سدہ، کوہاٹ، ڈی آئی خان، چترال، اسکردو، فاٹا، ایبٹ آباد، مانسہرہ، مالا کنڈ، کرک، لکی مروت، ہری پور اور خیبرپختونخواکے دیگر دور دراز علاقوں میں رہنے والوں کو کتابیں پڑھنے کی سہولتیں فراہم کی جا رہی ہیں۔
اگست 2015ء میں کوئٹہ میں پہلی بار لگائے گئے ہفت روزہ آزادی میلے کے دوران شائقین کتاب نے تقریباً ایک کروڑ روپے کی کتابیں خریدیں۔ یوم آزادی کے موقع پر یہ میلے 2016ء اور 2017ء میں بھی لگائے گئے تھے۔ 2018ء میں آٹھ سو چھوٹے بڑے کتب میلوں میں شرکت اور کتاب میلوںکی نمائشوں کا اہتمام کیا گیا۔ گزشتہ برس مرزا غالبؔ کے یوم پیدائش کی مناسبت سے این بی ایف کے صدر دفتر اور ملک بھر کے اہم مراکز پر دو روزہ نمائش کتب کا انعقاد بھی کیا گیا۔ نئی منصوبہ بندی کے تحت اب تک قومی اور علمی موضوعات پر مبنی تاریخ، علم و ادب، فلسفہ، نفسیات، سائنس، جغرافیہ ، تاریخ اور اسلامی علوم کی 500 سے زائد کتابوں کے علاوہ بچوں کے لیے مفید، معیاری کم نرخوں کی جنرل بکس شایع کی گئیں۔ قارئین اور شائقین کتب کی پذیرائی کے باعث ان کتب میں سے 70 فیصد ایسی ہیں جن کے دوسرے، تیسرے اور چوتھے ایڈیشن دو دو اور تین تین ہزار کی تعداد میں شایع ہوئے۔
گزشتہ برس نویں سالانہ قومی کتب میلے میں تین لاکھ 39 ہزار 703 لوگوں نے شرکت کی۔ اور 44 فیصد رعایتی قیمت پر ایک کروڑ 80 لاکھ روپے سے زائد کی کتب خریدیں۔ میرے لیے یہ خوشی کی بات تھی کی میری بیٹی فینانہ فرنام نے بچوں کے لیے جو دو کتابیں ''امن کی کہانیاں'' اور ''ٹالسٹائی کی حکایات'' ترجمہ کی تھیں، وہ بھی دھڑا دھڑ فروخت ہورہی تھیں۔
''جہانِ حکمت و حیرت'' کے عنوان سے اسلام آباد میں نیشنل بک میوزیم، قائم کیا گیا ہے جو یقیناً دیکھنے کی چیز ہے۔ ''کوچہ کتاب'' میں قدیم ترین تحریری خط سے آج کے نستعلیق کے نمونے بھی دیے گئے ہیںَ اس میں ابن بطوطہ اور ابن خلدون کی کتابیں ہیں۔ ایران اور ترکی کے تعاون سے ''گوشہ حافظ شیرازی'' اور 'گوشہ مولانا روم'' ہے۔ این بی ایف بک پارک بنایا گیا ہے۔ جس میں داخل ہوں تو یہ مشہور مصرعہ دامنِ دل کھینچتا ہے کہ ''فراغتے و کتابے و گوشۂ چمنے''۔ مختلف انداز اور رنگوں کے فائبر گلاس سے ہمارے بڑے ادیبوں کے مجمسے تراشے گئے ہیں۔
گندھارا، موہنجو دڑو، مہر گڑھ سب ہی کی جھلکیاں نظر آتی ہیں اور اندازہ ہوتا ہے کہ ہم کیسی رنگا رنگ ثقافت اور ہزاروں برس پرانی تاریخ کے وارث اور امین ہیں۔ اس ورثے کے بارے میں ہماری نئی نسل کی آگاہی انھیں اس پر فخر کرنا سکھاتی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی یاد دلاتی ہے کہ ہم ایک بین الاقوامی ثقافت کا حصہ ہیں اور رواداری ہماری ترقی کا پہلا زینہ ہے۔