یومِ مئی کا پیغام

اس صدی کی پاکستان میں ہونے والی شاید یہ سب سے بڑی جدوجہد ہے۔


Dr Tauseef Ahmed Khan May 01, 2019
[email protected]

شکاگو کے مزدوروں نے اپنے بنیادی حقوق کے لیے پولیس کی فائرنگ کا مقابلہ کیا تھا۔ عدالتوں نے شکاگو کے مزدوروں کو منظم کرنے کے جرم میں مزدور رہنماؤں کو موت کی سزائیں دی تھیں مگر شکاگو کے مزدوروں کی جدوجہد کے نتیجے میں دنیا بھر کے مزدوروں کو بنیادی حقوق حاصل ہوئے ،یو ں8 گھنٹے کام اور 8 گھنٹے آرام کا اصول دنیا بھر میں تسلیم کیا گیا۔

ہندوستان میں کمیونسٹ پارٹی نے مزدوروں کے حقوق کے لیے جدوجہد کا آغاز کیا ۔اس جدوجہد کو منوانے کے لیے ہندوستان کے مزدوروں نے ہڑتال کے حق کو پہلی دفعہ استعمال کرنے کا طریقہ سیکھا ۔کامریڈ ڈانگے وی وی گری اور مرزا ابراہیم مزدور تحریک کے قائدین میں شامل تھے۔

ہندوستان کے بٹوارے کے بعد بھارت اور پاکستان وجود میں آئے اورپاکستان کے مزدوروں کو برطانوی دور کے سیاہ قوانین ورثے میں ملے۔مزدوروں کو یونین سازی کے حق سے محروم کردیا گیا ،حالاتِ کار کو بہتر بنانے کے لیے ہڑتال کے حق کے استعمال کو غداری قرار دیا گیا۔ اگرچہ اس ملک کے بانی محمد علی جناح نے سب سے پہلے انڈین لیجسلیٹو کونسل میں مزدوروں کے حا لتِ کار کو بہتر بنانے کے لیے یہ جامع قانون منظورکرانے میں بنیادی کردارادا کیا تھا ۔

جناح صاحب پوسٹل یونین کے صدر بھی تھے مگر جب وہ گورنر جنرل کے عہدے پر فائز ہوئے تو مزدور یونین بنانے کے حق کو متعارف کرنے والے کمیونسٹ پارٹی کے کارکنوں کو امتناعی قوانین کے تحت گرفتار کرنے کا سلسلہ شروع ہوا ۔کراچی پورٹ ٹرسٹ کے یونین کو منظم کرنے کے جرم میں نوجوان کارکن شرف علی گرفتار ہوئے ۔ قربان الٰہی اور دادا فیروز الدین سمیت دیگر اور کارکنوں کو قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں۔ ریاستی جبر کی بناء پر وہ کمیونسٹ مزدورکارکن جو اپنے آباؤ اجداد کے عقیدے کے لحاظ سے ہندو تھے انھیں یہ ملک چھوڑ کر جانا پڑا ۔مزدور رہنما مرزا ابراہیم کو پنجاب اسمبلی کے انتخابات میں ہرایا گیا۔

ایوب خان کا دور مزدور طبقے کو کچلنے کے دور سے شروع ہوا ۔1963ء میں سائٹ کراچی میں مزدوروں نے اجرتوں میں اضافے کے لیے تحریک شروع کی ۔کراچی کی انتظامیہ نے پولیس کے ذریعے اس تحریک کو کچلا۔ پولیس کی اندھادھند فائرنگ کے نتیجے میں کئی مزدور شہید ہوئے ۔جنرل ایوب خان کے خلاف 1968 ء میں شروع کی جانے والی عوامی تحریک میں مزدور طبقے نے بنیادی کردار ادا کیا۔ ڈھاکا، چٹاگانگ، کراچی، حیدرآباد، لاہور،ملتان اور لائل پور وغیرہ میں مزدوروں نے تاریخی جلوس نکالے ۔اس عوامی تحریک کے نتیجے میں جنرل ایوب خان کو اقتدار چھوڑنا پڑا ۔جنرل یحییٰ خان نے ایئر مارشل نور خان کو نئی لیبر پالیسی بنانے کا فریضہ سونپا، یوں ملک میں پہلی دفعہ جامع لیبر پالیسی تیار ہوئی جس پالیسی کے تحت مزدور یونین کی اجتماعی سودا کاری کے حق کو تسلیم کیا گیا ۔

پیپلزپارٹی کی پہلی حکومت کے تیار ہونے والے آئین میں آرٹیکل 3 شامل کیا گیا ۔اس آرٹیکل کے تحت ہر قسم کے استحصال کا خاتمہ ریاست کی ذمے داریوں میں شامل ہوا ۔پھر نئی لیبر پالیسی میں مزدوروں کے یونین سازی،حقِ ہڑتال ،صنعتی اداروں کے منافع میں ان مزدوروں کی شرکت کے فیصلے شامل کیے گئے ،مگر بھٹو حکومت نے 1972ء میں کراچی کے علاقے سائٹ اور پھر لانڈھی کی طاقتور مزدور تحریکوں کو پولیس اور فیڈرل سیکیورٹی فورس (FSF) کی طاقت سے کچلا۔جنرل ضیاء الحق کے دور میں مزدور تنظیموں پر عملاً پابندی رہی ۔جنرل ضیاء کے دور کا آغاز ہی ملتان کی کالونی ٹیکسٹائل مل کے مزدوروں کے قتلِ عام سے ہوا ۔

جنرل ضیاء الحق کے دور میں مزدوروں کے حقوق 1973ء کے آئین کی بحالی اورعوام کو اپنے حکمرانوں کو منتخب کرنے کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والے مزدورکارکنوں کو قید و بنداور جلاوطنی کی صعوبتوں کے علاوہ کچھ نہیں ملا۔90ء کی دہائی میں سوویت یونین کے خاتمے ،فری مارکیٹ اکانومی کے نافذ ہونے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے سستا ہونے سے مزدور تحریک بری طرح متاثر ہوئی۔ برسر اقتدارحکومتوں نے مزدوروںسے انجمن سازی کاحق چھین لیا۔

مزدوروں کی دا درسی کے ادارے انڈسٹریل ریلیشن ،کمیشن اورلیبر کورٹس عملی طور پر معطل ہوگئے ۔فری مارکیٹ اکانومی میں ٹھیکیداری نظام تھرڈ پارٹی کانٹریکٹ سسٹم نافذ ہوا۔یہ ٹھیکیداری نظام صرف صنعتی اداروں میں ہی نافذ نہیں ہوا بلکہ متوسط طبقے کے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی کام کی جگہوں مثلاً بینکنگ،ادویہ سازی ،ٹیکسٹائل اور دیگر صنعتوں حتیٰ کہ ذرایع ابلاغ کے اداروں میں بھی اس نظام نے جڑیں پکڑ لیں۔

اب صرف صنعتی اداروں کے کم پڑھے لکھے مزدوروں کو ہی نہیں بلکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کو بھی جو مختلف صنعتوں میں فرائض انجام دیتے ہیں 10 سے12 گھنٹے تک کام کرنے کی پابندی قبول کرنی پڑی ۔ان افراد کو بونس ،تعطیلات، پروویڈنڈ فنڈ،پینشن اور کوئی دوسری سہولت نہیں ملی ۔ٹھیکیداری نظام کے تحت آجر کو کسی بھی وقت کسی بھی کارکن کو برطرف کرنے کا اختیار حاصل ہے ،یوں15,20 سال ملازمت کرنے والے یا اچانک انتقال کی صورت میں ان کے لواحقین کسی بھی فنڈ سے قانوناً محروم رہتے ہیں ۔ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ نے دسمبر 2017ء میں تھرڈپارٹی کانٹریکٹ سسٹم کوآئین اور بنیادی حقوق کے خلاف قرار دے دیا۔

پاکستان کی مزدور تحریک کی تاریخ پر سپریم کورٹ کایہ تاریخی فیصلہ ہوامگر اس فیصلے پر عملدرآمد کرانے کے لیے نہ وفاقی اور نہ تو صوبائی حکومت نے اقدام اٹھائے ۔ مزدوروں کے برے حالات کے باوجودملک کی تاریخ میں پہلی دفعہ گھروں میں کام کرنے والی خواتین کو منظم کرنے کی تحریک زور پکڑ گئی ۔

ایک جواں سال کامریڈزہرہ جووومین ورکرز فیڈریشن کے بانیوں میں سے ہیںان کا کہنا ہے کہ جو خواتین گھروںمیںہاتھ سے کام کرتی ہیںوہ شدید استحصال کا شکار ہیں ۔ان کا مزید کہناہے کہ ملک بھر میں86 لاکھ سے زیادہ خواتین غیر منظم انداز میں کام کرتی ہیں، یہ خواتین سلائی ،کڑاھی ،جوتے ،ٹوکریاں ،زیورات،جھینگے صاف کرنے،اگربتی، فٹبال بنانے ،قالین،باقی ،کھیلوں کے سامان بنانے ،بورے،ریڈی میڈ گارمنٹس کا کام اوردیگر شعبوں سے منسلک ہیں ۔یہ مزدور عورتیں اپنے بچوں اور خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ انتہائی نامساعد حالات میں قلیل اجر ت پر 18,18 گھنٹے کام کرنے پر مجبور ہیں جس کے بدلے میں انھیں کسی بھی قسم کی کوئی بھی سہولت موثر نہیں ہے ۔کامریڈزہرہ کامشاہدہ ہے کہ ملک میں روزگار کے مواقع میں کمی اور مہنگائی کے نتیجے میں ان خواتین کی تعداد میں اضافہ ہو رہاہے۔ انھیںروزانہ پیس ریٹ کے حساب سے اجرت دی جاتی ہے جو ان کی محنت کے مقابلے میں بہت کم ہوتی ہے۔

ان خواتین کو مستقل بنیادوں پر کام نہیں ملتا۔ اس کے علاوہ ان ورکرزکو یہ بھی معلو م نہیںہوتا کہ وہ کس کے لیے اور کس فیکٹری کا کام کر رہی ہیں ۔دوسر ے مزدور خواتین کابراہ راست کسی سرمایہ دار یا فیکٹری سے رابطہ و تعلق نہیں ہوتالیکن یہ ٹھیکیدارمڈل پرسن پر انحصار کرتی ہیں۔

ان خواتین کو کسی قسم کی طبی امداد تک نہیں ملتی ۔ملک میں چوڑی کی صنعت میں کام کرنے والی 6 لاکھ خواتین اور ان کے بچے چوڑی بنانے کے لیے استعمال ہونے والے کیمیکلز کی وجہ سے بہت سی جلدی امراض، الرجی ،ٹی بی ،سانس کی بیماریوں کے علاوہ بینائی ضایع ہونے کی بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔ زہرہ اور دوسری خواتین کی جدوجہد کے نتیجے میں حکومتِ سندھ نے خواتین کے حقوق کے لیے ایک قانون نافذ کیا مگرتمام تر کمزوریوں کے باوجود مقابلتاًیہ ایک اچھا قانون ہے مگر حکومتِ سندھ نے اس قانون کے قواعدِضوابط تیار نہیں کیے ، یوں سندھ میں ایک قانون بننے کے باوجوداب تک اس پر عملدرآمد نہیں ہوسکا۔

مزدور تحریک سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے خوشخبری یہ ہے کہ کراچی کی دوسری بندرگاہ پورٹ قاسم کے مزدوروں نے اجرتوں میں اضافے اور پرائیوٹ پارٹی کانٹریکٹ سسٹم کے خاتمے کے لیے کراچی پریس کلب کے سامنے 4 ماہ سے زیادہ عرصے تک دھرنا دیا۔

اس صدی کی پاکستان میں ہونے والی شاید یہ سب سے بڑی جدوجہد ہے۔پورٹ قاسم کے مزدوروں کی جدوجہد کی بنا پر پورٹ قاسم میں کام کرنے والی چینی حکومت مزدوروں کے مطالبات ماننے کے لیے راضی ہوئی۔ پاکستان میں مزدور طبقے کے حالات کار آج شکاگو کے مزدوروں سے بھی زیادہ برے ہیں ۔مزدور طبقہ بکھر رہا ہے ، مزدور طبقے کے حالاتِ کارکو بہتر بنانے کے لیے قانونی جدوجہد کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ شاید یہی یومِ مئی کا پیغام ہے کہ مزدور طبقہ متحد ہو اور جدوجہد کرے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں