تبدیلی کا پہلا قدم
اگر میں وزیر اعظم پاکستان ہوتا تو یہ سارے اقدامات چھ ماہ میں مکمل کرلیتا۔
اگر میں وزیر اعظم پاکستان ہوتا تو تبدیلی کا پہلا قدم میرا یہ ہوتا کہ اپنی کابینہ کو سب سے پہلے یہ حکم دیتا کہ آج تک جتنی مہنگائی ہوئی ہے جس کا تعلق کم سے کم اناج اور اشیا خورونوش سے ہو اور بنیادی ضروریات جس میں بجلی، پانی اور گیس شامل ہے ان کو وہیں منجمد کردو ، جہاں پر وہ اس وقت ہیں، ان اشیا کی قیمتوں میں کسی طور پر ایک پیسے کا بھی اضافہ نہیں ہونا چاہیے۔
اس طرح کرنے سے عوام کو پہلی خوشگوار تبدیلی ملتی، اگر میں وزیر اعظم ہوتا تو اعلان کرتا کہ ملک کے بڑے بڑے شہروں جیساکہ کراچی، لاہور، اسلام آباد، پشاور، کوئٹہ سمیت دیگر جو شہر ہیں ان کے انفرااسٹرکچر پر توجہ دی جائے، اگر میں وزیر اعظم ہوتا تو اپنی کابینہ سے کہتا کہ وہ اپنی اپنی وزارتوں میں جاری ترقیاتی پروجیکٹ کی تمام تفصیلات پارلیمنٹ میں اور عوام کے سامنے پیش کریں اور بتائیں کون کون سا پروجیکٹ کب شروع ہوا اور اسے کب مکمل ہونا ہے۔
اس کی لاگت کیا ہے، اگر میں وزیر اعظم ہوتا تو وزیر تعلیم کوکہتا کہ وہ پورے پاکستان میں تعلیم کا ایک ایسا سلیبس تیار کریں جو پورے ملک میں یکساں ہو، اور تعلیم کا ذریعہ قومی زبان اردو اور انگریزی ہو، میں اعلان کرتا کہ تمام تعلیمی اداروں، مدرسوں، اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں کی خستہ حالی کو ختم کرو، پاکستان کے تمام سرکاری اسکولوں کا یونیفارم ایک جیسا ہو جب کہ پرائیویٹ اسکولوں کا الگ مگر وہ بھی ایک ہی جیسا ہو، میں سختی سے اعلان کرتا کہ جہاں جہاں عوام سرکاری دفتر آتے ہیں اپنے معاملات کے لیے وہاں ان کے بیٹھنے کا انتظام ہو اور سب کو برابری کی بنیاد پر اپنی اپنی باری پر بلایا جائے، جس طرح کراچی کے پاسپورٹ آفس میں سارا کام کمپیوٹر پر ہوتا ہے سب کو انتظار کا نمبر ملتا ہے۔
اگر میں وزیر اعظم ہوتا تو تمام تھانوں میں عوامی شکایات کے لیے ایک سیل بنواتا جس میں اس علاقے کے معزز حضرات کے علاوہ گورنر ہاؤس کا نمایندہ بھی ہوتا جو تمام تھانوں کو پابند کرتا کہ وہ کسی بھی ملزم کے ساتھ کسی طور پر کوئی بدسلوکی یا تشدد کا عمل نہ کرے کیونکہ پولیس انھیں ملزم کے طور پر عدالت لے جاتی ہے مجرم کے طور پر نہیں اور سارا تفتیشی نظام سائنسی بنیادوں پر ہونا چاہیے، کسی طور پر اس تفتیش کو مسخ نہ کیا جائے، میں وزیر اعظم ہوتا تو صوبے کے انسپکٹر جنرل پولیس کو کہتا کہ وہ صوبائی وزیر داخلہ کے ساتھ کم سے کم تین ماہ میں ایک دفعہ تھانے میں عوامی کچہری لگائیں وہاں غیر قانونی قیدیوں کا پتا چلائیں، اگر میں وزیر اعظم ہوتا تو انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر بجلی، پانی اور گیس کے بل کا ریٹ اس رہائش گاہ یا دکان کی وسعت کے مطابق کرتا مثلاً اس وقت بجلی، پانی اور گیس کے بلوں کا ریٹ ساٹھ گز کے مکان سے لے کر 6000 گز کے بنگلے ہر ایک کے لیے ایک ہی ہے جب کہ ان کو حسب وسعت بل کا ریٹ دیا جائے۔
60 گز سے لے کر 120 گز کے مکان یا فلیٹ پر سب سے کم ریٹ رکھا جائے پھر 125 گز سے لے کر 240 گز پھر 250 گز سے لے کر 400 گز پھر 450 گز سے لے کر 600 گز اور اس سے اوپر جتنے بھی بڑے بڑے بنگلے ہوں ان کے لیے بجلی، پانی اور گیس کے بلوں کے ریٹ مختلف ہوں اس طرح ایک طرف آمدنی میں اضافہ ہوگا اور دوسری طرف چھوٹے گھر والوں کے ریٹ میں کمی ہوگی یہی اصول کمرشل عمارتوں پر لاگو کیا جائے۔
اگر میں وزیر اعظم پاکستان ہوتا تو سب سے پہلے شہر قائد کراچی کی بحالی پر توجہ دیتا اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کا 20 فیصد اسی شہر کے انفرااسٹرکچر پر خرچ کرتا یہ اصول صرف 5 سال کے لیے کافی ہے، اگر میں وزیر اعظم پاکستان ہوتا تو پارلیمنٹ کے تمام ارکان خواہ وہ کسی بھی جماعت کے ہوں ان کو پاکستان کی ترقیاتی اسکیموں کی نگرانی میں شامل کرتا اور ان میں جو تجربہ کار قابل لوگ ہیں انھیں وزارت میں شامل کرتا جیساکہ مسلم لیگ کے مفتاح اسماعیل، ملک احمد خان، احسن اقبال، غلام دستگیر تاکہ ملک میں جو مثبت تبدیلی لانا چاہتا ہوں۔
اس میں کامیاب ہوتا۔ اگر میں وزیر اعظم پاکستان ہوتا تو کبھی کسی بھی سیاسی پارٹی کو چور یا ڈاکو نہیں کہتا بلکہ یہ کہتا کچھ پارٹیوں کے لوگوں نے اپنے زمانے میں ناجائز اختیارات کے ذریعے ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا ہے اس لیے ہماری حکومت ان کو انصاف کے کٹہرے تک لے جائے گی۔ ان کے ساتھ اس وقت رعایت کی جائے گی جب وہ لوٹی ہوئی دولت قومی خزانے کو واپس کردیں گے۔ اگر میں وزیر اعظم پاکستان ہوتا تو میری سیاسی جدوجہد پاکستان کے پارلیمانی نظام کے بدلے صدارتی نظام کی کوشش کرتا اور اسی پارلیمنٹ کو قائل کرتا کہ پاکستان کی ترقی، خوشحالی، امن کا پیریڈ ہمیشہ اس وقت رہا جب ملک میں صدارتی نظام تھا۔
اس میں قومی یکجہتی پیدا ہوتی ہے اور معاشی اقتصادی طور پر ملک مضبوط ہوتا ہے، اس میں کہیں صوبائیت پر سیاست نہیں ہوسکتی، اگر میں وزیر اعظم پاکستان ہوتا تو ایک اہم سیاسی فکر لاتا کہ جو پاکستان میں مذہبی جماعتیں ہیں جن کی بنیاد مسلک ہے انھیں سیاست سے منع کرتا مذہبی جماعتوں کو مذہبی اور مسلکی آزادی دیتا اور جتنی سیاسی جماعتیں ہیں انھیں کبھی مذہبی یا مسلکی بنیادوں پر سیاست نہیں کرنے دیتا، یہی وہ حل ہے جو پاکستان کو قائد اعظم کا پاکستان بناتا، قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی ایک تقریر میں یہ کہا تھا کہ پاکستان وجود میں آگیا ہے یہاں کا ہر شہری پاکستانی ہے وہ اپنے مذہبی، دینی معاملات میں آزاد ہے اپنے اپنے عقیدے کے مطابق جیسے چاہیں عبادت کریں ریاست کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔
ہماری افواج پاکستان کے ترجمان آئی ایس پی آر نے بھی ہمیشہ قائد اعظم کی اس فکر کو اپنایا ہے اس ادارے نے پاکستان کو داخلی اور خارجی طور پر بہت مضبوط کیا ہے، اس ملک میں جو آج امن و سلامتی نظر آرہی ہے اس میں افواج پاکستان کا بڑا اہم کردار ہے، لیکن وقت کا تقاضا ہے کہ تمام شہروں میں امن عامہ کی ذمے داری صرف پولیس پر ڈالی جائے اور رینجرز جیسے اہم ادارے جس نے شہروں کو مافیا سے نجات دلائی انھیں صوبائی سرحدوں پر تعینات کیا جائے تاکہ اسمگلنگ کی روک تھام ہوسکے اور دہشتگردوں کو آسانی سے کسی شہر میں داخلہ نہ ملے۔
شہروں میں پولیس کو ہر ضروری اسلحہ سے ان کی اہم ضروریات کو خاص بجٹ کے ذریعے پورا کیا جائے، محکمہ پولیس میں نچلی سطح پر بہت بدعنوانی ہے جو ڈی ایس پی کی سطح تک ہے ان کو تبدیل کیا جائے، تعلیم یافتہ لوگوں کو ایس ایچ او بنایا جائے ان کا خاندانی پس منظر دیکھ کر آج بھی شہر کراچی میں AIG سے لے کر SP تک بہت سے اعلیٰ تجربہ کار پولیس افسران موجود ہیں ان سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ اگر میں وزیر اعظم پاکستان ہوتا تو یہ سارے اقدامات چھ ماہ میں مکمل کرلیتا۔
ہمارے موجودہ وزیر اعظم عمران خان بے شک تعلیم یافتہ، ایماندار اور قوم سے مخلص ہیں مگر ان کے پاس ویسی ٹیم نہیں ہے جیسی ورلڈ کپ جیتنے کے وقت تھی۔ آپ کی فیڈ بیک کا انتظار رہے گا۔
اس طرح کرنے سے عوام کو پہلی خوشگوار تبدیلی ملتی، اگر میں وزیر اعظم ہوتا تو اعلان کرتا کہ ملک کے بڑے بڑے شہروں جیساکہ کراچی، لاہور، اسلام آباد، پشاور، کوئٹہ سمیت دیگر جو شہر ہیں ان کے انفرااسٹرکچر پر توجہ دی جائے، اگر میں وزیر اعظم ہوتا تو اپنی کابینہ سے کہتا کہ وہ اپنی اپنی وزارتوں میں جاری ترقیاتی پروجیکٹ کی تمام تفصیلات پارلیمنٹ میں اور عوام کے سامنے پیش کریں اور بتائیں کون کون سا پروجیکٹ کب شروع ہوا اور اسے کب مکمل ہونا ہے۔
اس کی لاگت کیا ہے، اگر میں وزیر اعظم ہوتا تو وزیر تعلیم کوکہتا کہ وہ پورے پاکستان میں تعلیم کا ایک ایسا سلیبس تیار کریں جو پورے ملک میں یکساں ہو، اور تعلیم کا ذریعہ قومی زبان اردو اور انگریزی ہو، میں اعلان کرتا کہ تمام تعلیمی اداروں، مدرسوں، اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں کی خستہ حالی کو ختم کرو، پاکستان کے تمام سرکاری اسکولوں کا یونیفارم ایک جیسا ہو جب کہ پرائیویٹ اسکولوں کا الگ مگر وہ بھی ایک ہی جیسا ہو، میں سختی سے اعلان کرتا کہ جہاں جہاں عوام سرکاری دفتر آتے ہیں اپنے معاملات کے لیے وہاں ان کے بیٹھنے کا انتظام ہو اور سب کو برابری کی بنیاد پر اپنی اپنی باری پر بلایا جائے، جس طرح کراچی کے پاسپورٹ آفس میں سارا کام کمپیوٹر پر ہوتا ہے سب کو انتظار کا نمبر ملتا ہے۔
اگر میں وزیر اعظم ہوتا تو تمام تھانوں میں عوامی شکایات کے لیے ایک سیل بنواتا جس میں اس علاقے کے معزز حضرات کے علاوہ گورنر ہاؤس کا نمایندہ بھی ہوتا جو تمام تھانوں کو پابند کرتا کہ وہ کسی بھی ملزم کے ساتھ کسی طور پر کوئی بدسلوکی یا تشدد کا عمل نہ کرے کیونکہ پولیس انھیں ملزم کے طور پر عدالت لے جاتی ہے مجرم کے طور پر نہیں اور سارا تفتیشی نظام سائنسی بنیادوں پر ہونا چاہیے، کسی طور پر اس تفتیش کو مسخ نہ کیا جائے، میں وزیر اعظم ہوتا تو صوبے کے انسپکٹر جنرل پولیس کو کہتا کہ وہ صوبائی وزیر داخلہ کے ساتھ کم سے کم تین ماہ میں ایک دفعہ تھانے میں عوامی کچہری لگائیں وہاں غیر قانونی قیدیوں کا پتا چلائیں، اگر میں وزیر اعظم ہوتا تو انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر بجلی، پانی اور گیس کے بل کا ریٹ اس رہائش گاہ یا دکان کی وسعت کے مطابق کرتا مثلاً اس وقت بجلی، پانی اور گیس کے بلوں کا ریٹ ساٹھ گز کے مکان سے لے کر 6000 گز کے بنگلے ہر ایک کے لیے ایک ہی ہے جب کہ ان کو حسب وسعت بل کا ریٹ دیا جائے۔
60 گز سے لے کر 120 گز کے مکان یا فلیٹ پر سب سے کم ریٹ رکھا جائے پھر 125 گز سے لے کر 240 گز پھر 250 گز سے لے کر 400 گز پھر 450 گز سے لے کر 600 گز اور اس سے اوپر جتنے بھی بڑے بڑے بنگلے ہوں ان کے لیے بجلی، پانی اور گیس کے بلوں کے ریٹ مختلف ہوں اس طرح ایک طرف آمدنی میں اضافہ ہوگا اور دوسری طرف چھوٹے گھر والوں کے ریٹ میں کمی ہوگی یہی اصول کمرشل عمارتوں پر لاگو کیا جائے۔
اگر میں وزیر اعظم پاکستان ہوتا تو سب سے پہلے شہر قائد کراچی کی بحالی پر توجہ دیتا اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کا 20 فیصد اسی شہر کے انفرااسٹرکچر پر خرچ کرتا یہ اصول صرف 5 سال کے لیے کافی ہے، اگر میں وزیر اعظم پاکستان ہوتا تو پارلیمنٹ کے تمام ارکان خواہ وہ کسی بھی جماعت کے ہوں ان کو پاکستان کی ترقیاتی اسکیموں کی نگرانی میں شامل کرتا اور ان میں جو تجربہ کار قابل لوگ ہیں انھیں وزارت میں شامل کرتا جیساکہ مسلم لیگ کے مفتاح اسماعیل، ملک احمد خان، احسن اقبال، غلام دستگیر تاکہ ملک میں جو مثبت تبدیلی لانا چاہتا ہوں۔
اس میں کامیاب ہوتا۔ اگر میں وزیر اعظم پاکستان ہوتا تو کبھی کسی بھی سیاسی پارٹی کو چور یا ڈاکو نہیں کہتا بلکہ یہ کہتا کچھ پارٹیوں کے لوگوں نے اپنے زمانے میں ناجائز اختیارات کے ذریعے ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا ہے اس لیے ہماری حکومت ان کو انصاف کے کٹہرے تک لے جائے گی۔ ان کے ساتھ اس وقت رعایت کی جائے گی جب وہ لوٹی ہوئی دولت قومی خزانے کو واپس کردیں گے۔ اگر میں وزیر اعظم پاکستان ہوتا تو میری سیاسی جدوجہد پاکستان کے پارلیمانی نظام کے بدلے صدارتی نظام کی کوشش کرتا اور اسی پارلیمنٹ کو قائل کرتا کہ پاکستان کی ترقی، خوشحالی، امن کا پیریڈ ہمیشہ اس وقت رہا جب ملک میں صدارتی نظام تھا۔
اس میں قومی یکجہتی پیدا ہوتی ہے اور معاشی اقتصادی طور پر ملک مضبوط ہوتا ہے، اس میں کہیں صوبائیت پر سیاست نہیں ہوسکتی، اگر میں وزیر اعظم پاکستان ہوتا تو ایک اہم سیاسی فکر لاتا کہ جو پاکستان میں مذہبی جماعتیں ہیں جن کی بنیاد مسلک ہے انھیں سیاست سے منع کرتا مذہبی جماعتوں کو مذہبی اور مسلکی آزادی دیتا اور جتنی سیاسی جماعتیں ہیں انھیں کبھی مذہبی یا مسلکی بنیادوں پر سیاست نہیں کرنے دیتا، یہی وہ حل ہے جو پاکستان کو قائد اعظم کا پاکستان بناتا، قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی ایک تقریر میں یہ کہا تھا کہ پاکستان وجود میں آگیا ہے یہاں کا ہر شہری پاکستانی ہے وہ اپنے مذہبی، دینی معاملات میں آزاد ہے اپنے اپنے عقیدے کے مطابق جیسے چاہیں عبادت کریں ریاست کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔
ہماری افواج پاکستان کے ترجمان آئی ایس پی آر نے بھی ہمیشہ قائد اعظم کی اس فکر کو اپنایا ہے اس ادارے نے پاکستان کو داخلی اور خارجی طور پر بہت مضبوط کیا ہے، اس ملک میں جو آج امن و سلامتی نظر آرہی ہے اس میں افواج پاکستان کا بڑا اہم کردار ہے، لیکن وقت کا تقاضا ہے کہ تمام شہروں میں امن عامہ کی ذمے داری صرف پولیس پر ڈالی جائے اور رینجرز جیسے اہم ادارے جس نے شہروں کو مافیا سے نجات دلائی انھیں صوبائی سرحدوں پر تعینات کیا جائے تاکہ اسمگلنگ کی روک تھام ہوسکے اور دہشتگردوں کو آسانی سے کسی شہر میں داخلہ نہ ملے۔
شہروں میں پولیس کو ہر ضروری اسلحہ سے ان کی اہم ضروریات کو خاص بجٹ کے ذریعے پورا کیا جائے، محکمہ پولیس میں نچلی سطح پر بہت بدعنوانی ہے جو ڈی ایس پی کی سطح تک ہے ان کو تبدیل کیا جائے، تعلیم یافتہ لوگوں کو ایس ایچ او بنایا جائے ان کا خاندانی پس منظر دیکھ کر آج بھی شہر کراچی میں AIG سے لے کر SP تک بہت سے اعلیٰ تجربہ کار پولیس افسران موجود ہیں ان سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ اگر میں وزیر اعظم پاکستان ہوتا تو یہ سارے اقدامات چھ ماہ میں مکمل کرلیتا۔
ہمارے موجودہ وزیر اعظم عمران خان بے شک تعلیم یافتہ، ایماندار اور قوم سے مخلص ہیں مگر ان کے پاس ویسی ٹیم نہیں ہے جیسی ورلڈ کپ جیتنے کے وقت تھی۔ آپ کی فیڈ بیک کا انتظار رہے گا۔