پیپلزپارٹی اور نون لیگ ساتھ نہیں چل سکتے
پاکستان پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی ایک ہوسکتے ہیں لیکن مسلم لیگ نون اور پی پی پی کبھی ایک نہیں ہوسکتے۔
WASHINGTON:
پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون گرچہ دونوں ہی موجودہ حکومت کے سخت خلاف ہیں اور پارلیمنٹ میں حزب اختلاف کا کردار بھی نبھا رہے ہیں لیکن نظریاتی طور پر دونوں میں بہت بڑا فرق اور خلیج حائل ہے۔ دونوں بظاہر ایک دوسرے کے دوست اور ہم نوا ہیں لیکن باطنی طور پر وہ سخت مخالف ہیں۔
انھیں جب جب موقعہ ملا ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔ ایک دوسرے کے خلاف سچے جھوٹے الزامات بھی لگاتے اور حکومتیں بھی گراتے رہے ہیں۔ لیکن جب سے تحریک انصاف ایک تیسری سیاسی قوت بن کر ابھری ہے انھوں نے اپنے بارود خانے میں کچھ اسلحہ پی ٹی آئی کے لیے بھی مختص کردیا ہے۔ پی ٹی آئی بھی جب جب موقعہ ملتا ہے اِنہی دونوں کو تنقیدکا نشانہ بناتی رہی ہے۔ پیپلز پارٹی سے کچھ معاملات میں سمجھوتہ بھی کر لیا تھا، مگر اقتدار ملتے ہی اُسے ایک بار پھر دونوں کی مخالفت کا جذبہ جوش مارنے لگا اور وہ کھل کر اُن دونوں کے خلاف سیاست کرنے لگی ۔
حالات اور واقعات کے گردش نے اِن دونوں کو بھی ایک دوسرے سے قریب کردیا ہے۔ وہ پارلیمنٹ میں ایک دوسرے کے ساتھی اورہم نوا بنے ہوئے ہیں ۔ پیپلز پارٹی کو وہ سارے غم اور زخم اب تک یاد ہیں جومسلم لیگ نے انھیں ماضی میں اُسے دیے تھے۔ اِسی طرح مسلم لیگ والوں کے دلوں اور ذہنوں میں بھی وہ سارے خدشات اور وسوسے ابھی تک تروتازہ ہیں جو زرداری صاحب کی شاطرانہ سیاست نے پیدا کیے تھے۔
مسلم لیگ نون اوراُس کے سربراہ ابھی ایک سال پہلے کی وہ بات کیسے بھول سکتے ہیں کہ زرداری صاحب نے بلاول ہاؤس میں بیٹھے بیٹھے کس طرح بلوچستان میں اُن کی حکومت کو چند نوں میں چلتا کرڈالاتھا اور پھر وہاں ایک ایسی حکومت کے قیام کو ممکن بنایا جس نے آگے چل کے سینیٹ کے الیکشن میں مسلم لیگ نون کے سارے خواب ادھورے کر ڈالے اور وہ اپنا چیئرمین بھی منتخب نہیں کرواسکی ۔
زرداری صاحب اُن دنوں کسی غیبی اشارے پریہ سارے کام بخوبی سرانجام بھی دے رہے تھے کہ اور علی الاعلان یہ دعویٰ بھی کرتے جا رہے تھے کہ ہم نے تمہیں سینیٹ میں اپنا چیئرمین بھی لانے نہیں دیا اب تمہیں پنجاب میں حکومت بنانے بھی نہیں دینگے۔ وہ سینیٹ کے ارکان کی سرعام بولی بھی لگاتے رہے اور عدلیہ سمیت سارے ادارے خاموشی سے یہ سب کچھ دیکھتے بھی رہے ۔ خود پی ٹی آئی کو یہ گلا بھی رہا تھا کہ سینیٹ کے الیکشن میں اُس کے کچھ ارکان نے اپنی وفاداری کا سودا کر ڈالاہے لیکن اپنے دور رس فوائد کو سامنے رکھتے ہوئے وہ بھی یہ سب کچھ نظر اندازکرتی رہی۔ سینیٹ میں مسلم لیگ کے چیئرمین منتخب نہ ہونے کا بالواسطہ فائدہ بہر حال اُسے بھی پہنچا ہی تھا۔
زرداری صاحب نے صرف اِسی پر اکتفا نہیں کیا وہ بعد میں بھی مسلم لیگ نون کو اپنی پرانی بے وفائی اوربے رخی کا مزہ پوری طرح چکھانا چاہتے تھے ۔ لہذا وزیراعظم کے انتخاب سے لے کر پنجاب میں وزیراعلیٰ کے بنائے جانے تک وہ ہر ہر موقعہ پر مسلم لیگ نون کو زک پہنچاتے رہے۔ میاں نواز شریف اگرآج جیل اور قید کی صعوبتیں اُٹھا رہے ہیں تو اِس کے پیچھے بھی زرداری صاحب کی خاموش دلی خواہش ضرور کارفرما ہے۔ میاں صاحب کے ساتھ بھی اُن کاایسا ہی رشتہ ہے۔
وہ کبھی کبھار مجبوری کے تحت اُن سے سمجھوتہ کرنے اُن کے در پر توضرور پہنچ جاتے ہیں لیکن اپنے دل سے اُن کے دیے ہوئے زخم کبھی بھلا نہیں سکتے۔ جب موقعہ ملتا ہے وہ پلٹ کروار کرنے میں ذرا بھی دیر نہیں کرتے۔ اینٹ سے اینٹ بجا دینے کے اپنے یاد گار جملوں کی پاداش میں جب انھیں نادیدہ قوتوں کے جانب سے سختیوں اور مصیبتوں کا سامناہونے لگا توانھوں نے اِس معاملے میں مدد کے لیے میاں صاحب سے ملنے کی خواہش کی،جسے میاں صاحب نے بھی کسی انجانے خوف کی وجہ سے ٹھکرا دیا اورنتیجتا ًپھر زرداری صاحب کو خود ساختہ جلاوطنی اختیاربھی کرنا پڑی۔ وہ میاں صاحب کی یہ بے رخی ابھی تک بھلا نہیں پائے ہیںاور شاید کبھی بھول نہیں پائیں گے۔
ادھر میاں صاحب بھی زرداری سے معاملات طے کرنے میں اب کچھ احتیاط برتنے لگے ہیں۔ انھیں اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ آج جن سختیوں اور صعوبتوں کا سامنا کررہے ہیں اُن سے چھٹکارا بھی وہی قوتیں انھیں دیں گی جنہوں نے اُن پر یہ سختیاں لادی ہیں۔ زرداری صاحب ابھی اِس پوزیشن میں ہرگز نہیں ہیں کہ وہ میاں صاحب کو جیل کی سلاخوں سے باہر نکال سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ میاں صاحب اوراُن کے رفقاء نے زرداری صاحب کی سیاسی چالوں کا مہرہ بننے کی بجائے فی الحال خاموش سیاست کو اپنا ہتھیار اور آسرا بنا لیا ہے۔اُن کے بیانوں میںاب نہ وہ گرمی ہے اور نہ وہ جوش و ولولہ۔ رفتہ رفتہ '' ووٹ کو عزت دو'' کا نعرہ بھی مدھم پڑنے لگاہے اور ایسا لگتا ہے خاموشی اختیار کرنے کا یہ حربہ کچھ کچھ کامیاب بھی ہونے لگا ہے۔میاں صاحب کے گرد احتساب کا شکنجہ ڈھیلا پڑتا جا رہا ہے اور وہ جیل کے دیواروں سے باہر نکل کر کھلی ہوا میں سانسیں بھی لینے لگے ہیں۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کبھی ہم خیال اور ہم سفر نہیں بن سکتے ۔ اُن کے درمیان سیاسی، نظریاتی اور اُصولوں کی جنگ ہمیشہ سے رہی ہے اور آیندہ بھی رہے گی۔پاکستان پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی ایک ہوسکتے ہیں لیکن مسلم لیگ نون اور پی پی پی کبھی ایک نہیں ہوسکتے۔ ویسے بھی آج اگر ہماری اِس حکومت کے کابینہ کے وزیروں پر نظر ڈالیں تو آدھے سے ذیادہ ارکان کا تعلق ہمیں پیپلزپارٹی ہی سے ملے گا۔لہذا یہ کہنا کوئی بعید از خیال ہرگز نہیں ہے کہ ضرورت پڑنے پر تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی ساتھ ساتھ چل سکتے ہیں۔
خان صاحب نے ہر اُس کرپٹ اور بدعنوان شخص کو خوشی سے گلے لگا لیا ہے جو اپنی کسی سیاسی پرخا ش یا کسی ذاتی مفاد کی خاطرپاکستان پیپلزپارٹی چھوڑ کر آیا ہے۔خان صاحب نے ماضی میں جس کسی کو بد عنوان ،چور اورڈاکو یا قاتل کہا اُسے اپنا دوست ، نفیس اور وسیم اکرم پلس کہنے میں بھی دیر نہ کی۔جو شخص ایسے یوٹرنز کو دانشمندی اور عقلمندی سے تشبیح دیتا ہو اُسے نظریات او ر اُصولوں کا پاسدار کہنا اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔وزیراعظم آج کل صرف ایک بات پر مسلسل زور دیتے دکھائی دیتے ہیں کہ وہ چوروں اورڈاکوؤں کا نہیں چھوڑیں گے۔ لہذا قوم اُن کے قول وفعل کودیکھتے ہوئے یہ سمجھ لے کہ وہ درحقیقت ایسا ہی کرنے جارہے ہیں۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون ہمارے جمہوری اور پارلیمانی نظام ِسیاست میں کبھی ہم خیال، ہم سفر اور ہم رکاب نہیں بن سکتے۔ اُن کے درمیان ایک عرصہ سے نظریات اور اُصولوں کے ایک ازلی اوردائمی جنگ چل رہی ہے۔ وہ کبھی مکمل ہم آہنگی اورباہمی رفاقتوں کے ساتھ یکجا نہیںہوسکتے لیکن پی ٹی آئی اورپیپلز پارٹی کے بارے میں وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ وہ وقت آنے پر یقینا ایک دوسرے کے دوست اوربہی خواہ ضرور بن سکتے ہیں۔ خان صاحب کی بے اصولی اور بے اعتباری کو مد نظر رکھتے ہوئے ایسی پیش گوئی کرنا اب کوئی امر مانع نہیں رہا۔
پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون گرچہ دونوں ہی موجودہ حکومت کے سخت خلاف ہیں اور پارلیمنٹ میں حزب اختلاف کا کردار بھی نبھا رہے ہیں لیکن نظریاتی طور پر دونوں میں بہت بڑا فرق اور خلیج حائل ہے۔ دونوں بظاہر ایک دوسرے کے دوست اور ہم نوا ہیں لیکن باطنی طور پر وہ سخت مخالف ہیں۔
انھیں جب جب موقعہ ملا ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔ ایک دوسرے کے خلاف سچے جھوٹے الزامات بھی لگاتے اور حکومتیں بھی گراتے رہے ہیں۔ لیکن جب سے تحریک انصاف ایک تیسری سیاسی قوت بن کر ابھری ہے انھوں نے اپنے بارود خانے میں کچھ اسلحہ پی ٹی آئی کے لیے بھی مختص کردیا ہے۔ پی ٹی آئی بھی جب جب موقعہ ملتا ہے اِنہی دونوں کو تنقیدکا نشانہ بناتی رہی ہے۔ پیپلز پارٹی سے کچھ معاملات میں سمجھوتہ بھی کر لیا تھا، مگر اقتدار ملتے ہی اُسے ایک بار پھر دونوں کی مخالفت کا جذبہ جوش مارنے لگا اور وہ کھل کر اُن دونوں کے خلاف سیاست کرنے لگی ۔
حالات اور واقعات کے گردش نے اِن دونوں کو بھی ایک دوسرے سے قریب کردیا ہے۔ وہ پارلیمنٹ میں ایک دوسرے کے ساتھی اورہم نوا بنے ہوئے ہیں ۔ پیپلز پارٹی کو وہ سارے غم اور زخم اب تک یاد ہیں جومسلم لیگ نے انھیں ماضی میں اُسے دیے تھے۔ اِسی طرح مسلم لیگ والوں کے دلوں اور ذہنوں میں بھی وہ سارے خدشات اور وسوسے ابھی تک تروتازہ ہیں جو زرداری صاحب کی شاطرانہ سیاست نے پیدا کیے تھے۔
مسلم لیگ نون اوراُس کے سربراہ ابھی ایک سال پہلے کی وہ بات کیسے بھول سکتے ہیں کہ زرداری صاحب نے بلاول ہاؤس میں بیٹھے بیٹھے کس طرح بلوچستان میں اُن کی حکومت کو چند نوں میں چلتا کرڈالاتھا اور پھر وہاں ایک ایسی حکومت کے قیام کو ممکن بنایا جس نے آگے چل کے سینیٹ کے الیکشن میں مسلم لیگ نون کے سارے خواب ادھورے کر ڈالے اور وہ اپنا چیئرمین بھی منتخب نہیں کرواسکی ۔
زرداری صاحب اُن دنوں کسی غیبی اشارے پریہ سارے کام بخوبی سرانجام بھی دے رہے تھے کہ اور علی الاعلان یہ دعویٰ بھی کرتے جا رہے تھے کہ ہم نے تمہیں سینیٹ میں اپنا چیئرمین بھی لانے نہیں دیا اب تمہیں پنجاب میں حکومت بنانے بھی نہیں دینگے۔ وہ سینیٹ کے ارکان کی سرعام بولی بھی لگاتے رہے اور عدلیہ سمیت سارے ادارے خاموشی سے یہ سب کچھ دیکھتے بھی رہے ۔ خود پی ٹی آئی کو یہ گلا بھی رہا تھا کہ سینیٹ کے الیکشن میں اُس کے کچھ ارکان نے اپنی وفاداری کا سودا کر ڈالاہے لیکن اپنے دور رس فوائد کو سامنے رکھتے ہوئے وہ بھی یہ سب کچھ نظر اندازکرتی رہی۔ سینیٹ میں مسلم لیگ کے چیئرمین منتخب نہ ہونے کا بالواسطہ فائدہ بہر حال اُسے بھی پہنچا ہی تھا۔
زرداری صاحب نے صرف اِسی پر اکتفا نہیں کیا وہ بعد میں بھی مسلم لیگ نون کو اپنی پرانی بے وفائی اوربے رخی کا مزہ پوری طرح چکھانا چاہتے تھے ۔ لہذا وزیراعظم کے انتخاب سے لے کر پنجاب میں وزیراعلیٰ کے بنائے جانے تک وہ ہر ہر موقعہ پر مسلم لیگ نون کو زک پہنچاتے رہے۔ میاں نواز شریف اگرآج جیل اور قید کی صعوبتیں اُٹھا رہے ہیں تو اِس کے پیچھے بھی زرداری صاحب کی خاموش دلی خواہش ضرور کارفرما ہے۔ میاں صاحب کے ساتھ بھی اُن کاایسا ہی رشتہ ہے۔
وہ کبھی کبھار مجبوری کے تحت اُن سے سمجھوتہ کرنے اُن کے در پر توضرور پہنچ جاتے ہیں لیکن اپنے دل سے اُن کے دیے ہوئے زخم کبھی بھلا نہیں سکتے۔ جب موقعہ ملتا ہے وہ پلٹ کروار کرنے میں ذرا بھی دیر نہیں کرتے۔ اینٹ سے اینٹ بجا دینے کے اپنے یاد گار جملوں کی پاداش میں جب انھیں نادیدہ قوتوں کے جانب سے سختیوں اور مصیبتوں کا سامناہونے لگا توانھوں نے اِس معاملے میں مدد کے لیے میاں صاحب سے ملنے کی خواہش کی،جسے میاں صاحب نے بھی کسی انجانے خوف کی وجہ سے ٹھکرا دیا اورنتیجتا ًپھر زرداری صاحب کو خود ساختہ جلاوطنی اختیاربھی کرنا پڑی۔ وہ میاں صاحب کی یہ بے رخی ابھی تک بھلا نہیں پائے ہیںاور شاید کبھی بھول نہیں پائیں گے۔
ادھر میاں صاحب بھی زرداری سے معاملات طے کرنے میں اب کچھ احتیاط برتنے لگے ہیں۔ انھیں اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ آج جن سختیوں اور صعوبتوں کا سامنا کررہے ہیں اُن سے چھٹکارا بھی وہی قوتیں انھیں دیں گی جنہوں نے اُن پر یہ سختیاں لادی ہیں۔ زرداری صاحب ابھی اِس پوزیشن میں ہرگز نہیں ہیں کہ وہ میاں صاحب کو جیل کی سلاخوں سے باہر نکال سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ میاں صاحب اوراُن کے رفقاء نے زرداری صاحب کی سیاسی چالوں کا مہرہ بننے کی بجائے فی الحال خاموش سیاست کو اپنا ہتھیار اور آسرا بنا لیا ہے۔اُن کے بیانوں میںاب نہ وہ گرمی ہے اور نہ وہ جوش و ولولہ۔ رفتہ رفتہ '' ووٹ کو عزت دو'' کا نعرہ بھی مدھم پڑنے لگاہے اور ایسا لگتا ہے خاموشی اختیار کرنے کا یہ حربہ کچھ کچھ کامیاب بھی ہونے لگا ہے۔میاں صاحب کے گرد احتساب کا شکنجہ ڈھیلا پڑتا جا رہا ہے اور وہ جیل کے دیواروں سے باہر نکل کر کھلی ہوا میں سانسیں بھی لینے لگے ہیں۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کبھی ہم خیال اور ہم سفر نہیں بن سکتے ۔ اُن کے درمیان سیاسی، نظریاتی اور اُصولوں کی جنگ ہمیشہ سے رہی ہے اور آیندہ بھی رہے گی۔پاکستان پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی ایک ہوسکتے ہیں لیکن مسلم لیگ نون اور پی پی پی کبھی ایک نہیں ہوسکتے۔ ویسے بھی آج اگر ہماری اِس حکومت کے کابینہ کے وزیروں پر نظر ڈالیں تو آدھے سے ذیادہ ارکان کا تعلق ہمیں پیپلزپارٹی ہی سے ملے گا۔لہذا یہ کہنا کوئی بعید از خیال ہرگز نہیں ہے کہ ضرورت پڑنے پر تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی ساتھ ساتھ چل سکتے ہیں۔
خان صاحب نے ہر اُس کرپٹ اور بدعنوان شخص کو خوشی سے گلے لگا لیا ہے جو اپنی کسی سیاسی پرخا ش یا کسی ذاتی مفاد کی خاطرپاکستان پیپلزپارٹی چھوڑ کر آیا ہے۔خان صاحب نے ماضی میں جس کسی کو بد عنوان ،چور اورڈاکو یا قاتل کہا اُسے اپنا دوست ، نفیس اور وسیم اکرم پلس کہنے میں بھی دیر نہ کی۔جو شخص ایسے یوٹرنز کو دانشمندی اور عقلمندی سے تشبیح دیتا ہو اُسے نظریات او ر اُصولوں کا پاسدار کہنا اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔وزیراعظم آج کل صرف ایک بات پر مسلسل زور دیتے دکھائی دیتے ہیں کہ وہ چوروں اورڈاکوؤں کا نہیں چھوڑیں گے۔ لہذا قوم اُن کے قول وفعل کودیکھتے ہوئے یہ سمجھ لے کہ وہ درحقیقت ایسا ہی کرنے جارہے ہیں۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون ہمارے جمہوری اور پارلیمانی نظام ِسیاست میں کبھی ہم خیال، ہم سفر اور ہم رکاب نہیں بن سکتے۔ اُن کے درمیان ایک عرصہ سے نظریات اور اُصولوں کے ایک ازلی اوردائمی جنگ چل رہی ہے۔ وہ کبھی مکمل ہم آہنگی اورباہمی رفاقتوں کے ساتھ یکجا نہیںہوسکتے لیکن پی ٹی آئی اورپیپلز پارٹی کے بارے میں وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ وہ وقت آنے پر یقینا ایک دوسرے کے دوست اوربہی خواہ ضرور بن سکتے ہیں۔ خان صاحب کی بے اصولی اور بے اعتباری کو مد نظر رکھتے ہوئے ایسی پیش گوئی کرنا اب کوئی امر مانع نہیں رہا۔