محنت کشوں کے بڑھتے آلام
مزدور تحریک میں شروع ہونے والا انحطاط کا سلسلہ جاری ہے
پاکستان میں بھی دنیا کے دیگر ممالک کی طرح اب سے 133سال قبل امریکا کے شہر شکاگو میں مزدوروں کے بنیادی حقوق اُٹھانے کے''الزام'' میں شہید کیے گئے شہداء کی یاد منانے کے لیے ہر سال یکم مئی کو ''لیبر ڈے'' منایا جاتا ہے۔
یوں تو یہ یوم قیام پاکستان کے فوری بعد ہی منانے کا سلسلہ شروع ہوا تھا مگر اس کو با قاعدہ اور قانونی شکل وزیراعظم شہید ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں حاصل ہوئی کہ جب انہوں نے یکم مئی کو سرکاری طور پر منانے کے ساتھ ساتھ اُس دن کے لیے عام تعطیل کا اعلان بھی کردیا۔
اس دن کو مختلف تقریبات کی شکل میں منانے کا ایک مقصد تو یہ ہے کہ اُن مزدور راہ نماؤں اور کارکنوں کو خراجِ عقیدت پیش کیا جائے کہ جنہوں نے مظلوموں کے حقوق کے لیے پھانسی کے پھندے کو چوما اور جام شہادت نوش کیا۔ دوسرا مقصد یہ ہے کہ ہم آج مزدور طبقہ کی جدوجہد اور اُن کی صورت حال کا جائزہ لیں اور مستقبل کے بارے میں کسی لائحہ عمل کے بارے میں سوچ بچار کریں۔
اپریل اور مئی 1886میں شکاگو میں واقعات کی تفصیلات میں جائے بغیر سرسری طور پر یہ بتانا بہتر ہوگا کہ اُس وقت بھی بنیادی جھگڑا زیادہ سے زیادہ اوقاتِ کار کا تعین اور محنت کش عوام کے لیے اُن کے بنیادی حقوق کو تسلیم کئے جانے کا تھا جو آج بھی مختلف اشکال میں جاری ہے۔ اُس جدوجہد کے نتیجے میں بعدازاں عالمی طور پر یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ ایک ملازم /کارکن سے 8گھنٹہ یومیہ سے زیادہ کام نہیں لیا جائے گا۔ اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے ''بین الاقوامی ادارۂ محنت (ILO)''نے اس فیصلے کو حتمی شکل دی اور پاکستان سمیت دنیا کی دیگر حکومتوں نے بھی اس کی توثیق کی مگر حقیقی صورت حال اس کے بالکل برعکس ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اکثریت میں پرائیویٹ سیکٹر کے اداروں میں اس قانون کی خلاف ورزی عام ہوگئی ہے۔
ملز، فیکٹریز،چھوٹے بڑے کارخانوں، تجارتی اداروں، کمرشل بنکس، شاپنگ مالز اور اُن تمام مقامات پر جہاں ملازمت پیشہ افراد اپنی روزی کماتے ہیں اُن سے ایک دن میں کم از کم 12گھنٹہ کام لیا جاتا ہے۔ سرکاری و نیم سرکاری اداروں میں صورت حال بہرکیف اس کے برعکس ہے۔
معاملہ صرف اس ایک خلاف ورزی پر ختم نہیں ہوجاتا بلکہ تحقیق میں جائیں تو پتا چلتا ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر کے بہت سارے اداروں میں ملازمین کو تحریری تقررنامے بھی نہیں دیے جاتے اور اس طرح ملازمین EOBIکی جانب سے دی جانے والی بڑھاپے کی پینشن، ایمپلائز سوشل سیکیوریٹی انسٹیٹیوشن کی جانب سے دی جانے والی طبّی سہولیات اور ورکرز ویلفیئر بورڈز کی جانب سے مزدوروں کے لیے مکانات کی فراہمی اور بچوں کے لیے تعلیم کی سہولیات سے محروم ہوجاتے ہیں جب کہ ان اداروں کی انتظامیہ اپنے ادارہ کے ذمہ عائد کیے جانے والے معمولی سیContributionکی رقم کی ادائیگی سے بچ جاتی ہے لیکن محنت کش اپنے بنیادی حقوق سے محروم کردیے جاتے ہیں۔
ایک اور بڑا مسئلہ اوقاتِ کار کے دوران مزدوروں کی جان کے تحفظ کا بھی ہے۔ آئے دن اخبارات میں آتا رہتا ہے کہ بوائلر پھٹنے، لفٹ کا رسّہ ٹوٹنے، مین ہولز کی صفائی،آگ لگنے،کوئلے کی کان میں دھماکا ہونے یا فیکٹری میں آگے لگ جانے سے سیکڑوں بے گناہ اور معصوم مزدور اپنی زندگی گنوا بیٹھتے ہیں۔ بلدیہ کراچی کی ایک گارمنٹس فیکٹری میں 2013میں سیکڑوں مزدور آگ کی لپیٹ میں آکر شہید ہوئے۔ وقتاًفوقتاً ایسے حادثات ہوتے ہی رہتے ہیں اور پیٹ میں لگی آگ بُجھانے کی کوشش میں مجبور لوگ آگ ہی کا ایندھن بن جاتے ہیں۔
ہمارے ہاںاہم ترین مسئلہ قانون پر عمل درآمد کا بھی ہے۔ محنت کشوں کے حوالے سے بین الاقوامی ادارۂ محنت کی گائیڈ لائنز اور کنونشنز پر اقوام متحدہ کی رکن قومیں اورحکومتیں عمل پیرا ہونے کی پابند ہیں۔ پاکستان کی حکومت نے بھی ILOکے بیشتر کنونشنز کی توثیق کی اور اُن کے مطابق قوانین وضع کیے اور رولز بنائے ہیں لیکن ان پر عمل درآمد کی صورت حال انتہائی حوصلہ شکن ہے۔ کسی بھی معاشرے میں اُس کی ریاست کے قوانین پر عملدرآمد نہ ہونا گورننس کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اچھی گورننس کے ذریعہ پاکستان کے عوام کو درپیش بہت سارے مسائل حل کیے جاسکتے ہیں لیکن ''گُڈ گورننس''کا اطلاق بھی بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اس کے لیے حکومتوں اور ریاستی مشینری میں ''Political Will(سیاسی قوتِ ارادی)''کی ضرورت ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی صوبۂ سندھ کی حکومت نے مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے مُتعدد بہتر قانون وضع کیے اور صوبائی سہہ فریقی کانفرنس بھی منعقد کی ہے لیکن پرائیویٹ سیکٹر کے اداروں سے ان پر عمل درآمد کروانا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ ملک میں معاشی واقتصادی بحران نے سب سے زیادہ ملازمت پیشہ طبقات، مزدوروں اور کسانوں کو متاثر کیا ہے ، خطِ افلاس میں اضافہ ہوا ہے، کسی شہر اورگاؤں میں بھی جائیں تو آپ کو سڑکوں اور گلیوں میں ماضی کی نسبت آج بھیک مانگنے والوں کی تعداد میں زبردست اضافہ نظر آئے گا۔ غربت کے نتیجے میں بھکاریوں کو گرفتار کرنے سے بہرکیف مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ بھیک مانگنے کے جواز اور وجوہات کوختم کیا جائے تو بھکاری خود بہ خود غائب ہوجائے گا۔ غربت اور جرائم میں اضافہ کا ایک بڑا سبب روز افزوں مہنگائی اور بیروزگاری بھی ہے جس کو بڑھنے سے روکنے کے لیے کوئی مؤثر اقدامات نظر نہیں آتے۔
آج یوم مزدور ہے گذشتہ تیس، پینتیس سالوں سے اس تحریک میں انحطاط کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ بدقسمتی سے اب بھی جاری ہے، لیبر اُمور کے ایک ماہر جناب کرامت علی کے مطابق پاکستان بھر میں ٹریڈ یونینز کے ممبر ز کی تعداد مزدوروں کی کل تعداد کا صرف 1فی صد رہ گئی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ملک میں سیکڑوں کی تعداد میں رجسٹرڈ ٹریڈ یونین فیڈریشنز اور ہزاروں کی تعداد میں رجسٹرڈ ٹریڈ یونینز موجود ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کوئی ملک گیر ٹریڈیونین تحریک موجود نہیں اور نہ ہی ان ٹریڈ یونین تنظیموں میں قومی سطح پر کوئی مؤثر رابطہ ہے۔ ٹریڈ یونینز کی اکثریت اپنے اداروں تک محدود ہے۔ مختلف مزدور تنظیموں اور لیبر رائٹس کے لیے کام کرنے والی آرگنائزیشنز، جن میں ''پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ (PILER)'' بھی شامل ہے، قومی اور صوبائی کانفرنسز منعقد کرتی رہتی ہیں جو تبادلۂ خیال کے اچھے فورم ہوتے ہیں۔
بہت سارے معاملات پر یکجہتی کا اظہار بھی ہوتا ہے جس کے نتیجے میں مشترکہ مؤقف سامنے آتے ہیں لیکن قومی سطح پرمزدوروں کی ایک تنظیم، پلیٹ فارم یا فورم ابھی بہرکیف مستقبل قریب میں منظم ہوتا نظر نہیں آتا۔ ٹریڈ یونین کی کم زوری کی بہت بڑی وجہ ملازمتوں کا ٹھیکے داری نظام، تھرڈ پارٹی کنٹریکٹ ایمپلائمنٹ سسٹم اور پاکٹ ٹریڈ یونین کا قیام بھی ہے ۔جب صورتحال یہ ہو کہ 80 فی صد اداروں میں پاکٹ یونین کام کررہی ہوں تو پھر نمائندہ ٹریڈ یونین تحریک کا منظم ہونا زیادہ ضروری مگر بہت مشکل بھی ہے۔
صورت حال مایوس کُن ہونے کے باوجود ہمیں مایوس ہونے سے بچنا اور بہتر مستقبل کے لیے اپنی سعی جاری رکھنا ہے، کیوںکہ قدرت کے کارخانے کی سب سے بڑی حقیقت تبدیلی یا پھر انقلاب ہے، لہٰذا
پیوستہ رہ شجر سے
اُمید بہار رکھ
یوں تو یہ یوم قیام پاکستان کے فوری بعد ہی منانے کا سلسلہ شروع ہوا تھا مگر اس کو با قاعدہ اور قانونی شکل وزیراعظم شہید ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں حاصل ہوئی کہ جب انہوں نے یکم مئی کو سرکاری طور پر منانے کے ساتھ ساتھ اُس دن کے لیے عام تعطیل کا اعلان بھی کردیا۔
اس دن کو مختلف تقریبات کی شکل میں منانے کا ایک مقصد تو یہ ہے کہ اُن مزدور راہ نماؤں اور کارکنوں کو خراجِ عقیدت پیش کیا جائے کہ جنہوں نے مظلوموں کے حقوق کے لیے پھانسی کے پھندے کو چوما اور جام شہادت نوش کیا۔ دوسرا مقصد یہ ہے کہ ہم آج مزدور طبقہ کی جدوجہد اور اُن کی صورت حال کا جائزہ لیں اور مستقبل کے بارے میں کسی لائحہ عمل کے بارے میں سوچ بچار کریں۔
اپریل اور مئی 1886میں شکاگو میں واقعات کی تفصیلات میں جائے بغیر سرسری طور پر یہ بتانا بہتر ہوگا کہ اُس وقت بھی بنیادی جھگڑا زیادہ سے زیادہ اوقاتِ کار کا تعین اور محنت کش عوام کے لیے اُن کے بنیادی حقوق کو تسلیم کئے جانے کا تھا جو آج بھی مختلف اشکال میں جاری ہے۔ اُس جدوجہد کے نتیجے میں بعدازاں عالمی طور پر یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ ایک ملازم /کارکن سے 8گھنٹہ یومیہ سے زیادہ کام نہیں لیا جائے گا۔ اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے ''بین الاقوامی ادارۂ محنت (ILO)''نے اس فیصلے کو حتمی شکل دی اور پاکستان سمیت دنیا کی دیگر حکومتوں نے بھی اس کی توثیق کی مگر حقیقی صورت حال اس کے بالکل برعکس ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اکثریت میں پرائیویٹ سیکٹر کے اداروں میں اس قانون کی خلاف ورزی عام ہوگئی ہے۔
ملز، فیکٹریز،چھوٹے بڑے کارخانوں، تجارتی اداروں، کمرشل بنکس، شاپنگ مالز اور اُن تمام مقامات پر جہاں ملازمت پیشہ افراد اپنی روزی کماتے ہیں اُن سے ایک دن میں کم از کم 12گھنٹہ کام لیا جاتا ہے۔ سرکاری و نیم سرکاری اداروں میں صورت حال بہرکیف اس کے برعکس ہے۔
معاملہ صرف اس ایک خلاف ورزی پر ختم نہیں ہوجاتا بلکہ تحقیق میں جائیں تو پتا چلتا ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر کے بہت سارے اداروں میں ملازمین کو تحریری تقررنامے بھی نہیں دیے جاتے اور اس طرح ملازمین EOBIکی جانب سے دی جانے والی بڑھاپے کی پینشن، ایمپلائز سوشل سیکیوریٹی انسٹیٹیوشن کی جانب سے دی جانے والی طبّی سہولیات اور ورکرز ویلفیئر بورڈز کی جانب سے مزدوروں کے لیے مکانات کی فراہمی اور بچوں کے لیے تعلیم کی سہولیات سے محروم ہوجاتے ہیں جب کہ ان اداروں کی انتظامیہ اپنے ادارہ کے ذمہ عائد کیے جانے والے معمولی سیContributionکی رقم کی ادائیگی سے بچ جاتی ہے لیکن محنت کش اپنے بنیادی حقوق سے محروم کردیے جاتے ہیں۔
ایک اور بڑا مسئلہ اوقاتِ کار کے دوران مزدوروں کی جان کے تحفظ کا بھی ہے۔ آئے دن اخبارات میں آتا رہتا ہے کہ بوائلر پھٹنے، لفٹ کا رسّہ ٹوٹنے، مین ہولز کی صفائی،آگ لگنے،کوئلے کی کان میں دھماکا ہونے یا فیکٹری میں آگے لگ جانے سے سیکڑوں بے گناہ اور معصوم مزدور اپنی زندگی گنوا بیٹھتے ہیں۔ بلدیہ کراچی کی ایک گارمنٹس فیکٹری میں 2013میں سیکڑوں مزدور آگ کی لپیٹ میں آکر شہید ہوئے۔ وقتاًفوقتاً ایسے حادثات ہوتے ہی رہتے ہیں اور پیٹ میں لگی آگ بُجھانے کی کوشش میں مجبور لوگ آگ ہی کا ایندھن بن جاتے ہیں۔
ہمارے ہاںاہم ترین مسئلہ قانون پر عمل درآمد کا بھی ہے۔ محنت کشوں کے حوالے سے بین الاقوامی ادارۂ محنت کی گائیڈ لائنز اور کنونشنز پر اقوام متحدہ کی رکن قومیں اورحکومتیں عمل پیرا ہونے کی پابند ہیں۔ پاکستان کی حکومت نے بھی ILOکے بیشتر کنونشنز کی توثیق کی اور اُن کے مطابق قوانین وضع کیے اور رولز بنائے ہیں لیکن ان پر عمل درآمد کی صورت حال انتہائی حوصلہ شکن ہے۔ کسی بھی معاشرے میں اُس کی ریاست کے قوانین پر عملدرآمد نہ ہونا گورننس کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اچھی گورننس کے ذریعہ پاکستان کے عوام کو درپیش بہت سارے مسائل حل کیے جاسکتے ہیں لیکن ''گُڈ گورننس''کا اطلاق بھی بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اس کے لیے حکومتوں اور ریاستی مشینری میں ''Political Will(سیاسی قوتِ ارادی)''کی ضرورت ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی صوبۂ سندھ کی حکومت نے مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے مُتعدد بہتر قانون وضع کیے اور صوبائی سہہ فریقی کانفرنس بھی منعقد کی ہے لیکن پرائیویٹ سیکٹر کے اداروں سے ان پر عمل درآمد کروانا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ ملک میں معاشی واقتصادی بحران نے سب سے زیادہ ملازمت پیشہ طبقات، مزدوروں اور کسانوں کو متاثر کیا ہے ، خطِ افلاس میں اضافہ ہوا ہے، کسی شہر اورگاؤں میں بھی جائیں تو آپ کو سڑکوں اور گلیوں میں ماضی کی نسبت آج بھیک مانگنے والوں کی تعداد میں زبردست اضافہ نظر آئے گا۔ غربت کے نتیجے میں بھکاریوں کو گرفتار کرنے سے بہرکیف مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ بھیک مانگنے کے جواز اور وجوہات کوختم کیا جائے تو بھکاری خود بہ خود غائب ہوجائے گا۔ غربت اور جرائم میں اضافہ کا ایک بڑا سبب روز افزوں مہنگائی اور بیروزگاری بھی ہے جس کو بڑھنے سے روکنے کے لیے کوئی مؤثر اقدامات نظر نہیں آتے۔
آج یوم مزدور ہے گذشتہ تیس، پینتیس سالوں سے اس تحریک میں انحطاط کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ بدقسمتی سے اب بھی جاری ہے، لیبر اُمور کے ایک ماہر جناب کرامت علی کے مطابق پاکستان بھر میں ٹریڈ یونینز کے ممبر ز کی تعداد مزدوروں کی کل تعداد کا صرف 1فی صد رہ گئی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ملک میں سیکڑوں کی تعداد میں رجسٹرڈ ٹریڈ یونین فیڈریشنز اور ہزاروں کی تعداد میں رجسٹرڈ ٹریڈ یونینز موجود ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کوئی ملک گیر ٹریڈیونین تحریک موجود نہیں اور نہ ہی ان ٹریڈ یونین تنظیموں میں قومی سطح پر کوئی مؤثر رابطہ ہے۔ ٹریڈ یونینز کی اکثریت اپنے اداروں تک محدود ہے۔ مختلف مزدور تنظیموں اور لیبر رائٹس کے لیے کام کرنے والی آرگنائزیشنز، جن میں ''پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ (PILER)'' بھی شامل ہے، قومی اور صوبائی کانفرنسز منعقد کرتی رہتی ہیں جو تبادلۂ خیال کے اچھے فورم ہوتے ہیں۔
بہت سارے معاملات پر یکجہتی کا اظہار بھی ہوتا ہے جس کے نتیجے میں مشترکہ مؤقف سامنے آتے ہیں لیکن قومی سطح پرمزدوروں کی ایک تنظیم، پلیٹ فارم یا فورم ابھی بہرکیف مستقبل قریب میں منظم ہوتا نظر نہیں آتا۔ ٹریڈ یونین کی کم زوری کی بہت بڑی وجہ ملازمتوں کا ٹھیکے داری نظام، تھرڈ پارٹی کنٹریکٹ ایمپلائمنٹ سسٹم اور پاکٹ ٹریڈ یونین کا قیام بھی ہے ۔جب صورتحال یہ ہو کہ 80 فی صد اداروں میں پاکٹ یونین کام کررہی ہوں تو پھر نمائندہ ٹریڈ یونین تحریک کا منظم ہونا زیادہ ضروری مگر بہت مشکل بھی ہے۔
صورت حال مایوس کُن ہونے کے باوجود ہمیں مایوس ہونے سے بچنا اور بہتر مستقبل کے لیے اپنی سعی جاری رکھنا ہے، کیوںکہ قدرت کے کارخانے کی سب سے بڑی حقیقت تبدیلی یا پھر انقلاب ہے، لہٰذا
پیوستہ رہ شجر سے
اُمید بہار رکھ