567 لاپتہ افراد کی فہرست پیش دہشت گرد ملک پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں وزارت دفاع

آئین کے تحت فوج نے سول حکومت کی مدد کیلیے فاٹا اور پاٹا میں حراستی مراکز قائم کیے ہیں، سندھ ہائیکورٹ میں مؤقف

40 سے زائد مقدمات کی سماعت، سندھ کے لاپتہ 6 افراد کے نام بھی بتائے گئے، وزارت داخلہ،ڈی جی رینجرز،آئی جی سندھ اور دیگر کو 19 ستمبرکیلیے نوٹس جاری کر دیے گئے۔ فوٹو فائل

KARACHI:
دہشت گرد بیرونی امداد سے پاکستان پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں، پاک فوج اور حساس ادارے شرپسند عناصر کے خلاف بھرپور کارروائی کررہے ہیں۔

آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت فوج نے سویلین حکومت کی مدد کیلیے فاٹا اور پاٹا میں حراستی مراکز قائم کیے ہیں جن میں دہشت گردی میں ملوث افراد کو رکھا جاتا ہے۔ یہ موقف بدھ کو وزارت دفاع نے سندھ ہائیکورٹ میں لاپتہ شہریوں کے مقدمات کی سماعت کے دوران اختیار کیا۔ وزارت دفاع نے عدالت میں567 لاپتہافراد کی فہرست بھی پیش کی جس میں فوجی حراستی مراکز میں قید افراد بھی شامل ہیں۔

عدالت کو بتایا گیا کہ خیبرپختونخواکے فوجی حراستی مراکز میں سندھ سے تعلق رکھنے والے6 لاپتہ افراد قید ہیں۔ چیف جسٹس مشیرعالم کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے بدھ کولاپتہ افراد کے 40 سے زائدمقدمات کی سماعت کی، اس موقع پر اٹارنی جنرل کے کنسلٹنٹ فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے فوجی حراستی مراکز میں قیدسندھ سے تعلق رکھنے والے 6 لاپتہ افرا د کی فہرست پیش کی اور بتایا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلیے وفاقی حکومت نے ٹاسک فورس قائم کردی ہے اور جلد مثبت نتائج کی توقع ہے۔

وزارت دفاع کی جانب سے ڈپٹی اٹارنی جنرل اشرف مغل نے جواب داخل کیا، ڈائریکٹر لیگل گروپ کیپٹن محمد عرفان کی جانب سے پیش کیے گئے کمنٹس میں بتایا گیا ہے کہ خیبرپختونخواحکومت نے حراستی مراکز میں قید افراد کی اہل خانہ سے ملاقات کیلیے طریقہ کار طے کرلیا ہے۔ شرپسند عناصرکو ''ان ایڈ آف سول پاور، ریگولیشنز 2011'' کے تحت حراست میں لیا گیا ہے جس کا اختیار آئین کی دفعہ 247(5) کے تحت دیا گیا ہے۔


وزارت دفاع نے آئی ایس آئی، ایم آئی اور جی ایچ کیو کے تعاون سے تیار کردہ لاپتا افراد کی فہرست بھی پیش کی ۔ذرائع کے مطابق سندھ ہائی کورٹ میں پیش کی گئی567 لاپتا افراد کی فہرست خفیہ رکھنے کی استدعا کی گئی ہے۔ عدالت نے فوجی حراستی مراکز میں قید لاپتا افراد کی اہل خانہ سے ملاقات کیلیے کمیٹی قائم کرنے کا حکم دیا اوراٹارنی جنرل کو ہدایت کی ہے کہ حساس اداروں کے تعاون سے اپنا ایک نمائندہ بھی نامزدکردیں اور مذکورہ کمیٹی ہر کیس کا اس کے حالات کے مطابق جائزہ لے کر ملاقات کا طریقہ کار طے کرے۔



عدالت کو بتایا گیا کہ سندھ سے تعلق رکھنے والے محمد رمضان،اسامہ وحید،اکبرخان،مومن خان،رحیم سعید اور لئیق خان کے پی کے میں فوجی حراستی مراکز میں قید ہیں۔ مسمات امینہ بتول کی درخواست کی سماعت کے موقع پر عدالت کو بتایا گیا کہ درخواست گزار کے خاوند اجمل وحید 14 فروری 2013 کو بحفاظت گھر واپس آگئے ہیں مگر ان کے شوہر کا چھوٹا بھائی اسامہ وحید تاحال لاپتا ہے۔ اس موقع پر عدالت کو بتایا گیا کہ انھیں پاک فوج کے تفتیشی کیمپ (کے پی کے) میں قید مشتبہ افراد کی فہرست موصول ہوئی ہے جس میں 13ویں نمبرپراسامہ وحید کا نام بھی درج ہے۔ مسمات امینہ نے اپنی درخواست میں موقف اختیار کیا کہ حساس اداروں نے اجمل وحید اور اسامہ وحید کو کراچی ایئرپورٹ سے 12 مارچ 2012 کو گرفتار کرلیا تھا۔

فضل رحیم نے کہا کہ اس کا بیٹا سجاد رحیم 13 مئی 2011 سے لاپتا ہے۔ مسماۃ سمعیہ نے کہا کہ اس کے بیٹے فیض علی کو 7 جنوری 2011 کو گرفتار کیا گیا۔ سعید خان نے موقف اختیار کیاکہ اسکے بھائی فیاض خان اور اسکے دوست محمد عمران خان کو 17 اپریل 2011 کو حراست میں لیا گیا۔ مسعود حسن نیبتایا کہ اسکے بھائی آصف اقبال کو 21 جون 2011 کو حراست میں لیا گیا۔ مسماۃ عائشہ نے موقف اختیار کیا کہ اس کے شوہر محمدافضل کو 22 اپریل 2011 کو جوڑیا بازار سے حراست میں لیا گیا ۔

محمد زمان نے کہا کہ اس کے عزیزوں محمدسلیمان،پیرزادہ،محمدطاہر،ایازخان،باسن خان، فرحان اللہ اور بسم اللہ خان کو بھی چند ماہ قبل حراست میں لیا گیا مگر رہا نہیں کیا گیا۔فاضل عدالت نے پختون خان ،بلال اور شعیب غفران کی گمشدگی سے متعلق دائر درخواستوں پروفاقی وزارت داخلہ،ڈی جی رینجرز،آئی جی سندھ اور دیگر کو 19 ستمبر کیلیے نوٹس جاری کردیے ۔ہستی گل نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ یکم نومبر 2012 کو رینجرز اہلکاروں نے اس کے گھر پر چھاپہ مارکردرخواست گزرا کے بیٹے بلال کو حراست میں لے لیا تھا اور بعد ازاں 19 نومبر بھائی پختون خان کو بھی گرفتار کرلیا گیا۔جاویدغفران نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ اس کے بھائی رکشہ ڈرایئورشعیب غفران کو15 نومبر 2012 کو حراست میں لیا گیا تھا وہ تاحال لاپتا ہے۔
Load Next Story