وزیرستان سے ایران میرا ہینڈسم کپتان

وزیراعظم 22 سالہ جدوجہد کے بعد منزل تک پہنچ چکے ہیں، لیکن شاید انہیں تاحال یقین نہیں ہورہا کہ ان کا سفر مکمل ہوچکا ہے

وزیراعظم کو ایکسٹرا معاملات میں مداخلت اور بلاتحقیق بیان بازی سے گریز کرنا چاہیے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ڈسکوری چینل جہاں دن بھر کی تھکان کے بعد کرنٹ افیئرز کے شور شرابے کے بجائے سکون کا ذریعہ ہے، وہیں معلومات کا خزانہ بھی ہے۔ اگر آپ اسمبلی اور ٹاک شوز کی لڑائیوں سے پریشان ہوجائیں تو ڈسکوری چینلز پر جانوروں کی لڑائیاں دیکھ لیں۔ اگر سیاسی بیانات سے دل اچاٹ ہوجائے تو آپ کے سامنے ڈسکوری چینل کی خوبصورت کمنٹری موجود ہے۔ خیر حیوان ناطق اور مطلق کا تقابلی جائزہ پیش کرنے کے بجائے میرے کپتان کے کچھ بیانات دل کو راحت دینے کےلیے کافی ہیں، جو سب کے دل جیتنے کے لیے اپنے جگر میں چھید کررہے ہیں۔

بھارتی عوام جب جنگی جنون میں مبتلا ہوتے ہیں تو میرا کپتان جائے نماز لے کر مودی کی جیت کا مژدہ سناتا ہے۔ افواج پاکستان ملکی دفاع کےلیے کوشاں ہوں، دہشت گردی کے خلاف سینہ سپر ہوں تو میرا کپتان نعرۂ مستانہ بلند کرتا ہے اور ببانگ دہل اعلان کرتا ہے کہ دہشت گرد اور کالعدم تنظیمیں تو فوج نے بنائی ہیں۔ وزیرستان میں خطاب کیا تو منظور پشتین کو اپنا چہتا قرار دیا اور کہا کہ ہاں پشتین کا موقف درست ہے۔ میرے ہینڈسم کپتان کو جب کچھ نہیں بن پاتا تو اداروں اور اپوزیشن پر جی بھر کے تنقید کردیتے ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ ارض مقدس پر میرے کپتان سے بڑھ کا قابل اعتبار، دیانت دار، محب وطن اور نیک دل انسان کوئی نہیں ہے۔

ابھی چند دن پہلے میرے کپتان نے 'روندو کھلاڑی' کی اصطلاح متعارف کرائی، جس کی انہوں نے تعریف کی کہ یہ ایسا کھلاڑی ہوتا ہے جو آؤٹ ہونے پر وکٹیں لے کر بھاگ جاتا ہے۔ مجھے میرا کپتان وزیراعظم ہاؤس کے بجائے شاہراہ دستور پر نظر آیا، جس کا کنٹینر 22 سال تک سفر میں رہا اور اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ کنٹینر کے ٹائر پنکجر ہوگئے ہیں اور کپتان اس کنٹینر میں پھنس سا گیا ہو۔

میرے وزیراعظم، میرے دیس کے قائد اور ہزاروں نوجوانوں کی امید، عمران خان 22 سالہ جدوجہد کے بعد منزل تک پہنچ چکے ہیں، لیکن شاید انہیں تاحال یقین نہیں ہورہا کہ ان کا سفر مکمل ہوچکا ہے اور اب وہ اپنی خوابوں کی جگہ پر پہنچ گئے ہیں۔ وزیراعظم کے بیانات اور تقریریں اپنے مخصوص لہجے کے باعث ملک کےلیے کسی بھی صورت میں بہتر نہیں دکھائی دے رہیں۔

وزیراعظم پاکستان کے شدت پسند تنظیموں کے خلاف بیان نے نیشنل ایکشن پلان کی کشتی ڈبو کر رکھی دی ہے۔ عالمی برادری کو بھرپور تنقید کا موقع مل گیا۔ اسی طرح منظور پشتین کے حوالے سے بیان نے بھی اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگادیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان ایران جاتے ہیں، یہ دورہ کئی لحاظ سے اہم تھا۔ دورے سے چند دن قبل ہزارہ کمیونٹی کے افراد کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس کے بعد وزیرخارجہ ایران میں موجود دہشت گردوں کا حوالہ بھی دیتے ہیں۔ لیکن وزیراعظم وہاں پہنچتے ہی تسلیم کرتے ہیں کہ ایران پر دہشت گردی میں ملوث افراد کا پاکستان میں ٹھکانہ ہے۔ ایسا ہی بیان ماضی میں دینے پر غداری کے سرٹیفکیٹ بھی جاری ہوچکے ہیں۔ میرے کپتان نے تو جرمنی اور جاپان کو ایک ساتھ ملا کر کمال ہی کردیا، جس پر نہ صرف اندرون ملک بلکہ عالمی سطح پر بھی خوب لے دے ہوئی۔


تحریر میں روندو کھلاڑی کا تذکرہ کیا، وزیراعظم نے مولانا فضل الرحمان کو روندو کھلاڑی قرار دیا۔ لیکن گزشتہ بیانات اور کنٹینر کے حصار میں قید میرے کپتان مجھے زیادہ روندو کھلاڑی نظر آتے ہیں، جو جب کچھ نہ بن پڑا تو ''ڈبو دیں گے سفینہ اپنا'' کے مشن پر گامزن ہیں۔ جو سازگار میدان، حامی شائقین اور اپنے ہی امپائرز کے ساتھ میدان میں موجود ہیں، لیکن اپوزیشن کی نپی تلی بولنگ اور بچگانہ باؤنسرز کے سامنے بھی بے بس نظر آرہے۔ اب وہ بندر کی بلا طویلے کے سر چڑھانے کےلیے کوشاں نظر آتے ہیں۔ عملی زندگی میں یہی خصوصیات تو روندو کھلاڑی میں ہوتی ہیں۔ وزیراعظم نہ کھیڈاں گے، نہ کھیڈن دیاں گے (نہ کھیلیں گے اور نہ ہی کھیلنے دیں گے) کے منشور پر چل رہے ہیں۔

وزیراعظم کے بیانات پر کھلاڑی اسے زبان کی پھسلن قرار دے رہے تھے، لیکن ایک دن پھر میرے کپتان کی زبان میں ارتعاش پیدا ہوگیا۔ انہوں نے بلاول کو صاحبہ کہہ دیا۔ اس لفظ کے آتے ہی ملک بھر میں تماشا برپا ہوگیا۔ ہینڈسم وزیراعظم اپوزیشن کے دور میں میڈیا کوریج حاصل کرنے کےلیے اپنے مشیر خاص شیخ رشید کی رائے کا بہت احترام کرتے ہیں، انہوں نے شاید یہ سوچ لیا ہے کہ کوئی شخص جتنا زبان دراز ہوگا، اسے اتنی ہی کوریج ملے گی۔ لیکن وہ شاید ہھول جاتے ہیں کہ وہ ایک ذمے دار ریاست کے وزیراعظم ہیں، وہ 22 کروڑ عوام کی نمائندگی کررہے ہیں۔ وہ سیاست کے میدان میں اپنے سیاسی مخالفین کےلیے ایسی زبان استعمال کریں گے تو دنیا بھر میں پوری قوم کا امیج خراب ہوگا۔ وزیراعظم کو بہرحال اپنی زبان پر قابو رکھتے ہوئے عوام کے حقیقی مسائل کی جانب توجہ دینا ہوگی۔

وزیراعظم کے اردگرد مشیر سوشل میڈیا پر دعوے تو بے شمار کرتے ہیں، انہی کے دعوؤں پر وزیراعظم قبل از وقت اہم اعلان بھی کردیتے ہیں، جن کو پایۂ تکمیل تک پہنچانا بظاہر ناممکن ہوتا ہے۔ ملک کے وسیع تر مفاد میں وزیراعظم کے آس پاس موجود مشیروں کو تبدیل کردیا جانا چاہیے، جو کہ انہیں بروقت مشورے دینے میں ناکام ہیں۔ کیوں کہ وزیراعظم کی موجودہ اسپیڈ ان کے بولنگ ایکشن کو مشکوک بناسکتی ہے، اور سلپ میں موجود فیلڈرز ان کے سلپنگ آف ٹنگ سے فائدہ حاصل کرسکتے ہیں۔

وزیراعظم کو ایکسٹرا معاملات میں مداخلت اور بلاتحقیق بیان بازی سے گریز کرنا چاہیے، کیوں کہ سوشل میڈیا اسپیڈ میٹر اور تھرڈ ایمپائر کا کردار ادا کررہا ہے۔ میرے منہ میں خاک لیکن اگر ایسے غیر ذمے دارانہ شاٹس کا سلسلہ جاری رہا تھا تو گلی اور ایکسٹرا کور پر میرے کپتان آؤٹ بھی ہوسکتے ہیں، جس کے بعد انہیں دوبارہ باری ملے گی اور نہ ہی روندو کھلاڑی کی طرح وکٹیں اٹھا کر بھاگنے کا موقع میسر آئے گا۔ کیوں کہ اس وقت ان کی اپنی ہی وکٹیں کسی اور کی جھولی میں گرنے کے لیے وکٹ کیپرز سے رابطے میں ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story