شخصیت پرستی پر مبنی سیاست
سیاسی قیادت بڑی خوبصورتی سے اپنے خلاف قانونی معاملات کو سیاسی رنگ دینے کا ہنر جانتی ہے۔
جب سیاست انفرادی شخصیات کے گرد محدود ہوجائے تو وہاں اداروں کی مضبوطی کا عمل بہت پیچھے رہ جاتا ہے ۔ انفرادی اور شخصیت پرستی پر مبنی سیاست کا المیہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے موضوعات بھی ذاتیات تک محدود ہوتے ہیں۔ اس کا عملی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ معاشرے میں اہم اور حساس معاملات یا موضوعات بہت پیچھے چلے جاتے ہیں اور ہمارے مباحث ایسے معاملات میں الجھ کر رہ جاتے ہیں جو ہماری ریاستی اور قومی ضرورت کے برعکس ہوتے ہیں۔
بدقسمتی سے یہ معاملات محض اہل سیاست تک یا سیاسی مجالس تک ہی محدود نہیں ہوتے بلکہ قومی سطح پر رائے عامہ تشکیل دینے والے افراد یا اداروں سمیت اہل دانش اور میڈیا کے محاذ پر بھی ہم غیر اہم موضوعات کو بنیاد بنا کر منفی سیاست کرتے ہیں ۔
سیاسی اور سماجی مفکرین قومی سطح پر ایک ایسے مکالمہ کے کلچر کو مضبوط بناتے ہیں جس کا مقصد قومی سطح کے معاملات پر مسائل کا حل نکالنا ہوتا ہے ۔لیکن بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ہم معاملات کو حل کرنے والوں کی فہرست میں کم اور خراب کرنے والوں کی فہرست میں زیادہ کھڑے نظر آتے ہیں ۔
ہماری مجموعی سیاست سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں افراد کے سامنے کھڑی ہے ۔تمام سیاسی جماعتوں میں ہمیں سنجیدہ نوعیت کے حامل افراد نظر آتے ہیں ۔لیکن ان کا المیہ یہ ہے کہ یہ سیاسی جماعتوں میں بالادست شخصیات یا سیاسی قیادت کے لیے قابل قبول نہیں ہوتے ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ لوگ یا تو خود کو سیاسی عمل سے لاتعلق کرلیتے ہیں یا خاموشی اختیار کرلیتے ہیں یا حالات سے سمجھوتہ کرکے وہی رویہ اختیارکرلیتے ہیں جو ان سے قیادت چاہتی ہے ۔ یہ عمل ان کو شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار بنا دیتا ہے ۔
ہماری مقبول سیاسی جماعتوں کے پاس کوئی قومی ایجنڈا نہیں اور نہ ہی ان کا اصل مسئلہ قومی نوعیت کے سنگین مسائل ہیں ۔ ساری سیاست جماعتوں کی قیادت کا دفاع ہے۔ قیادت کا دفاع کرنا کوئی بری بات نہیں، اگر معاملات میں کرپشن پر مبنی سیاست ہو تو اس کا دفاع کرنا ایک سنگین مسئلہ بن جاتا ہے ۔ سیاسی جماعتوں میں شامل افراد جن میں بڑے بڑے نام ہیں جس انداز سے وہ اپنی قیادت کی نااہلی اورکرپشن سمیت ان کی غیر جمہوری سیاست کا دفاع کرتے ہیں تو بہت سے لوگوں کے لیے یہ حیرانگی کا عمل بھی ہوتا ہے۔
سیاسی قیادت بڑی خوبصورتی سے اپنے خلاف قانونی معاملات کو سیاسی رنگ دینے کا ہنر جانتی ہے اور وہ اپنی اپنی سیاسی جماعتوں اورکارکنوں کو سیاسی ڈھال بنا کر اپنے حق میں استعمال کرتے ہیں ۔کوئی ایسا نہیں جو ان جماعتوں میں اپنی قیادت سے یہ پوچھے کہ ان کے خلاف جو الزامات ہیں ان کی حقیقت کیا ہے اور کیوں پارٹی قیادت ان الزامات کا جواب دینے کے بجائے سیاست کرتی ہے ۔نجی مجالس میں بہت سے سیاسی جماعتوں کے بڑے نام کھل کر یہ اعتراف کرتے ہیں کہ وہ بہت سے معاملات میں بے بس ہیں۔ کیونکہ اگر ہم نے آواز اٹھائی تو اس جماعت میں اور قیادت کے سامنے ہماری کوئی حیثیت باقی نہیں رہے گی ۔
شخصیت پرستی کی سیاست کے علمبرداروں کی بڑی حکمت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے معاملات میں ادارہ سازی کے سب سے بڑے مخالف کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اگر ادارے مضبوط ہونگے تو ان کو ہر سطح پر جوابدہ ہونا ہوگا۔یہ ہی وجہ ہے کہ شخصیت پرستی پر مبنی قیادت سیاسی جماعتوں میں تنظیم سازی اور داخلی جمہوری نظام کے خلاف ہوتے ہیں ۔ہماری سیاست میں سیاسی جماعتیں کم اور پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیاں زیادہ ہیں جو سیاست کو بھی مالیات کی بنیاد پر چلانے کی عادی ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں موجود سیاسی خاندانوں کا قبضہ ہے اور بڑی عمر کے سنجیدہ سیاست دان اپنی قیادت کے خاندان کے کم عمر بچوں کے سامنے بے بس ہوتے ہیں اور وہ ان بچوں کے سامنے ایک درباری کی حیثیت سے پیش ہوتے ہیں ۔
شخصیت پرستی کی سیاست میں اپنی پوجا کرنے والوں میں سچ اورجھوٹ کی تمیز کو ختم کرنا ہوتا ہے ۔ یہ اس انداز سے عوام میں خودکو مقبول بناتے ہیں کہ بس وہی سچے ہیں اور باقی ان کے مخالفین اور جھوٹے ہیں ۔یہ عمل بدقسمتی سے قومی سطح پر عام لوگوں میں اپنے سیاسی مخالفین کے بارے میں نفرت، غصہ اور جھوٹ کی سیاست کو پیدا کرتے ہیں ۔ہم نے ماضی میں بھٹو حمایت اورمخالفت کی سیاست کو دیکھا ہے اورحال میں ہم عمران خان مخالفت اور محبت کی سیاست کو بھی دیکھ رہے ہیں ۔ ایسی سیاست میں یہ تصور کرنا کہ یہاں سچ کی سیاست کو بالادستی حاصل ہوگی تو محض خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں ہوگا ۔
ہم کیسے اس شخصیت پرستی پر مبنی سیاست کو ختم کرسکیں گے ۔ اس میں ہمیں پانچ امور پر زیادہ سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔اول یہ عمل کسی جادو سے ممکن نہیں بلکہ یہ ایک بڑی سیاسی حکمت عملی اور وقت کا تقاضہ کرتا ہے ۔ جلد بازی میں کسی بھی فیصلے سے فوری طور پر کسی بڑے معجزے کی توقع غلط ہوگی ۔ دوئم شخصیت پرستی کا علاج مضبوط سیاسی نظام سے ہی ممکن ہوگا ۔
اس کے لیے سیاسی جماعتوں کے داخلی جمہوری عمل کو مضبوط بنانا ہوگا اور یہ سوچ اجاگر کرنا ہوگی کہ کوئی بھی ناگزیر نہیں ہے ۔ سوئم عام لوگوں میں جذباتیت کے مقابلے میں علمی اور فکری محاذ پر شعور کو بڑھانا ہوگا اور اس نکتہ پر لانا ہوگا کہ وہ شخصیت پرستی کے مقابلے میں ادارہ سازی پر توجہ دیں۔یہ کام محض سیاسی جماعتوں تک ہی محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ یہ عمل ہماری تعلیمی نظام سے جڑا ہونا چاہیے اور لوگوں کی علمی و فکری آبیاری اس انداز سے کی جائے کہ وہ اپنی سوچ کو بت پرستی کے مقابلے میں دلیل کی بنیاد پر آگے بڑھائیں ۔
چہارم سیاسی جماعتوں کے داخلی نظام میں خود احتسابی کے عمل کو طاقت دینی ہوگی اورخاندانی سیاست کے مقابلے میں حقیقی سیاسی نظام کو بڑی طاقت سمجھ کر اسی عمل کو آگے بڑھانا ہوگا۔ پنجم ملک کے اہل دانش یا رائے عامہ بنانے والے افراد اورادارے اس شخصیت پرستی کی سیاست کو خود بھی چیلنج کریں اور دوسروں کو بھی ترغیب دیں کہ وہ اس نظام کے خلاف پرامن جمہوری جدوجہد کریں ۔
شخصیت پرستی کے مقابلے میں حقیقی سیاست اور جمہوریت کی ضرورت اس لیے بھی بڑھ گئی ہے کہ ہمیں ان تمام چھوٹے اوربڑے چیلنجزسے نمٹنا ہے جو آج ایک بڑے مرض کی صورت اختیار کرگئے ہیں ۔یہ کام کسی روایتی طرز کی سیاست سے ممکن نہیں ہوگا بلکہ اس کے لیے ہمیں کچھ نیا اور غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہے ۔ایک مثبت تبدیلی اسی صورت میں پیدا ہوتی ہے جب طاقت ور افراد یا حکومت پر دباؤ بڑھانے کی سیاست کو طاقت حاصل ہو۔ کیونکہ کوئی بھی تبدیلی خود سے نہیں آتی بلکہ اس کے پیچھے جہاں سیاسی جدوجہد ہوتی ہے وہیں دباؤ سے جڑی ایک بڑی سیاست بھی اس کا حصہ ہوتی ہے ۔
اس لیے پاکستان میں جو لوگ بھی تبدیلی چاہتے ہیں ان کو اپنے اپنے موجودہ طرز عمل کو نئے سرے سے سمجھنا ہوگا کیونکہ اگر تبدیلی کے تناظر میں پرانی حکمت عملیاں یا طور طریقے ناکا م ہورہے ہیں تو نئی سوچ و فکر او رحکمت عملی کی طرف پیش قدمی کرنا ہی درست حکمت عملی ہوتی ہے ۔ لیکن یہ کام کسی کی انفرادی کوشش سے نہیں ہوگا بلکہ حقیقی تبدیلی کے حامل لوگوں کو ایک اجتماعی فکر کو بھی آگے بڑھانا ہوگا اوراپنی سوچ و فکر سے ایک نئے بیانیہ کو پیش کرنا ہوگا جو ملک میں شخصیت پرستی کے مقابلے میں اداروں کی بالادستی کو یقینی بنائے ۔