چین کی خودی اور ہماری بے خودی
چینی کہاوت ہے کہ ’’دور کے رشتے دار سے قریب کا پڑوسی زیادہ اچھا ہے‘‘ اس کہاوت کو چینی عوام نے سچ بھی کر دکھایا ہے۔
ہمارے محبوب شاعر علامہ اقبال ؒ نے خودی کو بلند کرنے اور اپنی تقدیر آپ بنانے کی نصیحت تو ہمیں کی تھی، مگر ہم ان کی تاکید کو یکسر نظر انداز کرکے محض کشکول لیے اپنی رضا ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ لیکن یہ چین کیسا دوست ہے، جس نے خودی تو خود رکھ لی اور بے خودی ہماری جھولی میں ڈال دی۔
دراصل وہ ہم سے محبت ہی اتنی کرتے ہیں کہ ہمہ وقت 'اپنے غم مجھے دے دو' کی تصویر بنے ہمارے مسائل حل کرنے میں سرگرداں رہتے ہیں اور کہیں نہ کہیں اگر ہم اپنے دلوں کو ٹٹولیں تو ہزار خواہشوں میں یہ تمنا بھی موجود ہے کہ سی پیک پروجیکٹ کی کامیابی کے بعد چین ہی اپنی مدد آپ کے تحت بلوچستان کو بھی خوشحالی سے ہمکنار کردے گا، وہاںکے مقامی اور ناراض باشندوں کو اپنے شیشے میں اتار لے گا۔ پھر نہ شناختی کارڈ دیکھ کر کوئی پاکستانی اپنی جان سے جائے گا، نہ ہمیں کوئی ہاتھ پیر ہلانے کی ضرورت پیش آئے گی۔
پاک چین سفارتی تعلقات کی کہانی بہت پرانی ہے۔ ہمارے وزیراعظم چین کے دور ے پر ہیں۔ ہماری مالی مدد کے لیے چین اربوں روپے کے پروجیکٹ پر دستخط بھی کرے گا۔
چینی کہاوت ہے کہ ''دور کے رشتے دار سے قریب کا پڑوسی زیادہ اچھا ہے'' اس کہاوت کو چینی عوام نے سچ بھی کر دکھایا ہے۔ عوامی جمہوریہ چین پاکستان کا ایک پڑوسی دوست، جس نے ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کی دامے درمے سخنے مدد کی۔ ہمیشہ کی طرح آج بھی چینی وزیراعظم کا بیان ہمیں تقویت دیتا ہے کہ پاک چین دوستی نسل در نسل آگے بڑھتی رہے گی۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دور حکومت کے تمام وزرا چین کا دروہ کرتے رہے اور اس تعلق کو مضبوط بنانے کی کوشش بھی کی جاتی رہی کہ وزرا چین کے دورے میں بہت ''چین'' محسوس کرتے ہیں۔ مگر غور کرنے کی بات ہے چین تو اپنی ذمے داری نبھا رہا ہے، مگر کیا ہم بھی؟
چین کی صلاحیتوں پر نظر کی جائے تو ہم اور ان میں زمین آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔ افسوس بھی ہوتا ہے، ہم اتنے اچھے پڑوس سے کچھ کام کی باتیں سیکھنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟ ایک زندہ و محنتی قوم ہونے کے ناتے چینی چھٹیوں کو سارا دن موبائل و ٹی وی کے آگے بیٹھ کر یا سوکر نہیں گنواتے۔ وہ وقت ضایع کرنے کے بجائے ملک کی خد مت کو ترجیح دیتے ہیں۔ شہری ان اوقات میں کوئی فلاحی کام مثلاً پودے لگانا یا ساحل سمندر کے کنارے رضاکارانہ صفائی کا کام انجام دیتے ہیں۔
چینی بڑی باصلاحیت، محنتی اور سادہ قوم ہیں۔ ہزاروں سال قبل جب مغربی قومیں بربریت اور جہالت کی تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھیں، اس وقت فرزندانِ چین نے مل جل کر بامقصد زندگی بسر کرنا اور چیزیں بنانا سیکھ لیا تھا۔ انھوں نے سب سے پہلے کاغذ اور چھاپے خانے ایجاد کرکے دنیائے علم پر ایک احسان عظیم کیا۔ دنیا میں عرصہ دراز تک چین میں کتابوں کی تعداد سب سے زیادہ تھی۔ چین میں پہلا ناول چھ سو سال قبل مسیح میں لکھا گیا۔
چین کی ابتدائی لکھی گئی تاریخ پر زیادہ تر انسانی رنگ غالب ہے۔ 1929ء میں سوئیڈن کے ماہر ارضیات ڈاکٹر اینڈرسن کو چین کے ایک غار میں ایسے انسانی ڈھانچے ملے جو اس بات کا ٖثبوت تھے کہ چین میں انسانی تاریخ تقریباً پانچ لاکھ سال پرانی ہے۔ چین کی قدیم بادشاہت مختلف خاندانوں، جن میں شنگ خاندان، منگ خاندان، چاؤ خاندان، تنگ خاندان، سن خاندان، یان خاندان، ہانگ خاندان، بان اور سنگ خاندان شامل تھے۔ چین مغرب میں 5 ہزار میل تک بلند پہاڑیوں اور ریگستانوں میں گھرا ہوا ہے۔ مشرق میں بحرالکاہل تک بکھرا ہوا ہے۔ محل وقوع کے لحاظ سے کافی بڑا ملک ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایئے کہ اس کے ایک صوبے سنکیانگ کا رقبہ انگلستان، روس، جرمنی اور فرانس سے بھی بڑا ہے۔
اتنے بڑے محل وقوع کے باوجود چینی فطرتی طور پر دنیا سے الگ رہنے کے خواہش مند تھے۔ ان کے فلسفیوں کی تعلیمات نے انھیں اور بھی قدامت پسند اور کنارہ کش کردیا تھا۔ وہ صلح جو اور امن پسند طبیعت رکھتے تھے۔ دیوار چین بنانے کی وجہ بھی شاید یہی رہی ہوگی، جو انھیں تاتاریوں کے حملے سے بچنے میں بھی مددگار ثابت ہوئی تھی۔ یہ دیوار چین جسے دنیا ''دی گریٹ وال آف چائنا'' کے نام سے جانتی ہے، یہ دیوار 300 ق م میں شہنشاہ ہو آن لی نے بنوائی تھی۔ اس کی لمبائی 15 سو میل اور چواڑئی 25 فٹ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کی لمبائی کی بنا پر اسے چاند سے بھی دیکھا جاسکتا ہے۔
چین کی اکثریت بدھ مت کی پیروکار ہے۔ ان کے مذہبی فلسفیوں میں لاؤتسی اور کنفیوشس خاصے مشہور ہوئے۔ خاص طور پر کنفیوشس کے افکار نے ان کے خیالات میں کافی تبدیلیاں پیدا کیں۔ حتیٰ کہ اس کی وفات کے بعد بھی ہر شہر میں اس کے نام کے مندر تعمیر کیے گئے۔ آج بھی اس کے معتقدین کی تعداد کروڑوں میں ہے، جو پوری دنیا میں پائے جاتے ہیں۔
اہل مغرب کے قدم چین کے شہر کینٹین میں سب سے پہلے پڑے اور مشہور زمانہ افیون جنگ کا آغاز ہوا، جس میں چینیوں کی شکست کے بعد مغربی ملکوں نے یہاں پر اپنے قدم جمالیے۔ ان مغربی ملکوں نے انھیں اپنے زیر نگیں رکھنے کے لیے افیون کا عادی بنادیا تھا۔ چینیوں نے ایک طویل جدوجہد کے بعد آزادی حاصل کی۔ ہزاروں چینی انقلابیوں کو ایک دن میں تہ تیغ کیا گیا۔ یہاں تک کہ چائنا کی سڑکیں مدتوں خون سے رنگین رہیں۔
چینی قوم ان کی قربانی کبھی نہیں بھولی، جنھوں نے جانوں کا نذارنہ پیش کرکے وطن کو آزادی سے ہمکنار کیا۔ ان ساتھیوں کی یاد میں چینی قوم 4 مئی کو یوم بیداری مناتی ہے۔ آزادی کے بعد چینی قوم نے تیزی سے ترقی شروع کی۔ وہ قوم جو پوری دنیا میں افیونی قوم کے لقب سے مشہور تھی، اس نے ثابت کر دکھایا کہ اگر پوری قوم متحد ہوکر حالات کا مقابلہ کرے اور اس کے لیڈرز نیک نیتی سے ملک کی تعمیر میں حصہ لیں تو وہ ضرور کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہے۔
چینی عوام اپنے قائد ماؤزے تنگ کے افکار پر سختی سے عمل پیرا ہیں، جنھوں نے محنت کی عظمت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہر چینی اپنے ہاتھ سے کام کرے۔ تمام عمر اچھے کام کرنا، محنت کرو گے تو تجربہ ہوگا۔ تجربہ ہی علم کا سونا اور معراج ہے۔ چینی قوم نے ان ہی افکار کی روشنی میں اپنا انفرااسٹرکچر تیار کیا۔ پورے ملک میں سڑکوں کا جال بچھایا گیا۔ ریلوے لائنیں، بندرگاہیں اور ایئرپورٹس بنائے گئے۔ تعلیم اور صحت کی سہولت سب کے لیے مفت ہوئی۔ دنیا میں سب سے بڑی فورس چین کے پاس ہے۔ اس وقت چین کا گروتھ ریٹ دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ آج دنیا میں ہر گھر، محلہ، دکان، اسپتال، کارخانوں غرض ہر جگہ ''میڈ ان چائنا'' چھایا ہوا ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا ملک ہونے کے باوجود مسائل کا شکار نہیں ہوا۔ دنیا میں سب سے بڑی افرادی قوت چین کے پاس ہے۔
یورپ اس وقت چین کی مصنوعات کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ اس کے بعد امریکا کا نمبر آتا ہے۔ چین نے یہ مقام اپنی شب و روز محنت و ایمانداری سے حاصل کیا۔ اس وقت ہمارے وزیراعظم بھی چین کے دورے پر ہیں، وہ یقینا وہاں ملک کی امداد کے لیے گئے ہیں۔ لیکن! کاش تھوڑی سی محنت، ایمان داری اور دانشوری بھی پڑوسی دوست سے لاسکتے کہ اس وقت چین اپنی خودی کے ساتھ دنیا میں ترقی و طاقت کا لوہا منوا رہا ہے، جب کہ ہم اپنے تجاہل عارفانہ و خواب غفلت میں گم بے خودی کی کیفیت لیے کل عالم میں مارے مارے پھرتے ہیں۔
دراصل وہ ہم سے محبت ہی اتنی کرتے ہیں کہ ہمہ وقت 'اپنے غم مجھے دے دو' کی تصویر بنے ہمارے مسائل حل کرنے میں سرگرداں رہتے ہیں اور کہیں نہ کہیں اگر ہم اپنے دلوں کو ٹٹولیں تو ہزار خواہشوں میں یہ تمنا بھی موجود ہے کہ سی پیک پروجیکٹ کی کامیابی کے بعد چین ہی اپنی مدد آپ کے تحت بلوچستان کو بھی خوشحالی سے ہمکنار کردے گا، وہاںکے مقامی اور ناراض باشندوں کو اپنے شیشے میں اتار لے گا۔ پھر نہ شناختی کارڈ دیکھ کر کوئی پاکستانی اپنی جان سے جائے گا، نہ ہمیں کوئی ہاتھ پیر ہلانے کی ضرورت پیش آئے گی۔
پاک چین سفارتی تعلقات کی کہانی بہت پرانی ہے۔ ہمارے وزیراعظم چین کے دور ے پر ہیں۔ ہماری مالی مدد کے لیے چین اربوں روپے کے پروجیکٹ پر دستخط بھی کرے گا۔
چینی کہاوت ہے کہ ''دور کے رشتے دار سے قریب کا پڑوسی زیادہ اچھا ہے'' اس کہاوت کو چینی عوام نے سچ بھی کر دکھایا ہے۔ عوامی جمہوریہ چین پاکستان کا ایک پڑوسی دوست، جس نے ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کی دامے درمے سخنے مدد کی۔ ہمیشہ کی طرح آج بھی چینی وزیراعظم کا بیان ہمیں تقویت دیتا ہے کہ پاک چین دوستی نسل در نسل آگے بڑھتی رہے گی۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دور حکومت کے تمام وزرا چین کا دروہ کرتے رہے اور اس تعلق کو مضبوط بنانے کی کوشش بھی کی جاتی رہی کہ وزرا چین کے دورے میں بہت ''چین'' محسوس کرتے ہیں۔ مگر غور کرنے کی بات ہے چین تو اپنی ذمے داری نبھا رہا ہے، مگر کیا ہم بھی؟
چین کی صلاحیتوں پر نظر کی جائے تو ہم اور ان میں زمین آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔ افسوس بھی ہوتا ہے، ہم اتنے اچھے پڑوس سے کچھ کام کی باتیں سیکھنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟ ایک زندہ و محنتی قوم ہونے کے ناتے چینی چھٹیوں کو سارا دن موبائل و ٹی وی کے آگے بیٹھ کر یا سوکر نہیں گنواتے۔ وہ وقت ضایع کرنے کے بجائے ملک کی خد مت کو ترجیح دیتے ہیں۔ شہری ان اوقات میں کوئی فلاحی کام مثلاً پودے لگانا یا ساحل سمندر کے کنارے رضاکارانہ صفائی کا کام انجام دیتے ہیں۔
چینی بڑی باصلاحیت، محنتی اور سادہ قوم ہیں۔ ہزاروں سال قبل جب مغربی قومیں بربریت اور جہالت کی تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھیں، اس وقت فرزندانِ چین نے مل جل کر بامقصد زندگی بسر کرنا اور چیزیں بنانا سیکھ لیا تھا۔ انھوں نے سب سے پہلے کاغذ اور چھاپے خانے ایجاد کرکے دنیائے علم پر ایک احسان عظیم کیا۔ دنیا میں عرصہ دراز تک چین میں کتابوں کی تعداد سب سے زیادہ تھی۔ چین میں پہلا ناول چھ سو سال قبل مسیح میں لکھا گیا۔
چین کی ابتدائی لکھی گئی تاریخ پر زیادہ تر انسانی رنگ غالب ہے۔ 1929ء میں سوئیڈن کے ماہر ارضیات ڈاکٹر اینڈرسن کو چین کے ایک غار میں ایسے انسانی ڈھانچے ملے جو اس بات کا ٖثبوت تھے کہ چین میں انسانی تاریخ تقریباً پانچ لاکھ سال پرانی ہے۔ چین کی قدیم بادشاہت مختلف خاندانوں، جن میں شنگ خاندان، منگ خاندان، چاؤ خاندان، تنگ خاندان، سن خاندان، یان خاندان، ہانگ خاندان، بان اور سنگ خاندان شامل تھے۔ چین مغرب میں 5 ہزار میل تک بلند پہاڑیوں اور ریگستانوں میں گھرا ہوا ہے۔ مشرق میں بحرالکاہل تک بکھرا ہوا ہے۔ محل وقوع کے لحاظ سے کافی بڑا ملک ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایئے کہ اس کے ایک صوبے سنکیانگ کا رقبہ انگلستان، روس، جرمنی اور فرانس سے بھی بڑا ہے۔
اتنے بڑے محل وقوع کے باوجود چینی فطرتی طور پر دنیا سے الگ رہنے کے خواہش مند تھے۔ ان کے فلسفیوں کی تعلیمات نے انھیں اور بھی قدامت پسند اور کنارہ کش کردیا تھا۔ وہ صلح جو اور امن پسند طبیعت رکھتے تھے۔ دیوار چین بنانے کی وجہ بھی شاید یہی رہی ہوگی، جو انھیں تاتاریوں کے حملے سے بچنے میں بھی مددگار ثابت ہوئی تھی۔ یہ دیوار چین جسے دنیا ''دی گریٹ وال آف چائنا'' کے نام سے جانتی ہے، یہ دیوار 300 ق م میں شہنشاہ ہو آن لی نے بنوائی تھی۔ اس کی لمبائی 15 سو میل اور چواڑئی 25 فٹ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کی لمبائی کی بنا پر اسے چاند سے بھی دیکھا جاسکتا ہے۔
چین کی اکثریت بدھ مت کی پیروکار ہے۔ ان کے مذہبی فلسفیوں میں لاؤتسی اور کنفیوشس خاصے مشہور ہوئے۔ خاص طور پر کنفیوشس کے افکار نے ان کے خیالات میں کافی تبدیلیاں پیدا کیں۔ حتیٰ کہ اس کی وفات کے بعد بھی ہر شہر میں اس کے نام کے مندر تعمیر کیے گئے۔ آج بھی اس کے معتقدین کی تعداد کروڑوں میں ہے، جو پوری دنیا میں پائے جاتے ہیں۔
اہل مغرب کے قدم چین کے شہر کینٹین میں سب سے پہلے پڑے اور مشہور زمانہ افیون جنگ کا آغاز ہوا، جس میں چینیوں کی شکست کے بعد مغربی ملکوں نے یہاں پر اپنے قدم جمالیے۔ ان مغربی ملکوں نے انھیں اپنے زیر نگیں رکھنے کے لیے افیون کا عادی بنادیا تھا۔ چینیوں نے ایک طویل جدوجہد کے بعد آزادی حاصل کی۔ ہزاروں چینی انقلابیوں کو ایک دن میں تہ تیغ کیا گیا۔ یہاں تک کہ چائنا کی سڑکیں مدتوں خون سے رنگین رہیں۔
چینی قوم ان کی قربانی کبھی نہیں بھولی، جنھوں نے جانوں کا نذارنہ پیش کرکے وطن کو آزادی سے ہمکنار کیا۔ ان ساتھیوں کی یاد میں چینی قوم 4 مئی کو یوم بیداری مناتی ہے۔ آزادی کے بعد چینی قوم نے تیزی سے ترقی شروع کی۔ وہ قوم جو پوری دنیا میں افیونی قوم کے لقب سے مشہور تھی، اس نے ثابت کر دکھایا کہ اگر پوری قوم متحد ہوکر حالات کا مقابلہ کرے اور اس کے لیڈرز نیک نیتی سے ملک کی تعمیر میں حصہ لیں تو وہ ضرور کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہے۔
چینی عوام اپنے قائد ماؤزے تنگ کے افکار پر سختی سے عمل پیرا ہیں، جنھوں نے محنت کی عظمت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہر چینی اپنے ہاتھ سے کام کرے۔ تمام عمر اچھے کام کرنا، محنت کرو گے تو تجربہ ہوگا۔ تجربہ ہی علم کا سونا اور معراج ہے۔ چینی قوم نے ان ہی افکار کی روشنی میں اپنا انفرااسٹرکچر تیار کیا۔ پورے ملک میں سڑکوں کا جال بچھایا گیا۔ ریلوے لائنیں، بندرگاہیں اور ایئرپورٹس بنائے گئے۔ تعلیم اور صحت کی سہولت سب کے لیے مفت ہوئی۔ دنیا میں سب سے بڑی فورس چین کے پاس ہے۔ اس وقت چین کا گروتھ ریٹ دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ آج دنیا میں ہر گھر، محلہ، دکان، اسپتال، کارخانوں غرض ہر جگہ ''میڈ ان چائنا'' چھایا ہوا ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا ملک ہونے کے باوجود مسائل کا شکار نہیں ہوا۔ دنیا میں سب سے بڑی افرادی قوت چین کے پاس ہے۔
یورپ اس وقت چین کی مصنوعات کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ اس کے بعد امریکا کا نمبر آتا ہے۔ چین نے یہ مقام اپنی شب و روز محنت و ایمانداری سے حاصل کیا۔ اس وقت ہمارے وزیراعظم بھی چین کے دورے پر ہیں، وہ یقینا وہاں ملک کی امداد کے لیے گئے ہیں۔ لیکن! کاش تھوڑی سی محنت، ایمان داری اور دانشوری بھی پڑوسی دوست سے لاسکتے کہ اس وقت چین اپنی خودی کے ساتھ دنیا میں ترقی و طاقت کا لوہا منوا رہا ہے، جب کہ ہم اپنے تجاہل عارفانہ و خواب غفلت میں گم بے خودی کی کیفیت لیے کل عالم میں مارے مارے پھرتے ہیں۔