یوم مئی اور افغان انقلاب کا جذبہ
ثور انقلاب ایک تاریخی واقعہ ہے اور تاریخ کو مٹایا نہیں جا سکتا۔
18سال کی جارحیت اور قبضے کے بعد امریکی سامراج کو کوریا' ویتنام' عراق اور شام کے بعد اب افغانستان میں شکست کا سامنا ہے۔ سامراجی حملہ آور اور سابقہ جنگجو جو آج طالبان بن گئے ہیں' دراصل ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں' یہ وحشی جنگجو امریکی سامراج اور اس کے کاسہ لیسوں کی پیداوار اور تربیت یافتہ ہیں۔
یکم مئی 1886ء کو شکاگو کے ''Hay market'' چوک سے شروع ہونی والی تحریک دنیا میں کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے ۔ آج اسی یکم مئی کے جذبے سے حاصل کردہ شعور کی بنا پر آنے والے افغان ثور انقلاب کو بھی یاد کرتے ہیں جو 27 اپریل 1978 کوبرپا ہوا۔یکم مئی 1979کو ثور انقلاب کی پہلی سالگرہ کے موقع پر کابل میں تقریر کرتے ہوئے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان کے رہنماء اور افغان انقلاب کے سربراہ نور محمد ترکئی نے کہا تھا کہ ''ثور انقلاب صرف افغانستان کے محنت کشوں اور مسلح انقلابی سپاہیوں کا انقلاب نہیں' یہ پوری دنیا کے محنت کشوں اور محکوموں کا انقلاب ہے' (PDPA) کی قیادت میں مسلح انقلابی فوج کی مدد سے برپا ہونے والا یہ انقلاب پوری دنیا کے محنت کشوں کی عظیم کامیابی ہے ' اس نے1917 کے اکتوبر انقلاب سے رہنمائی اور شکتی حاصل کی ہے اور ایک بار پھر پوری دنیا کو ہلاکر رکھ دے گا ''۔
اس دن کابل شہر میں ہر طرف موسم بہار کے پھول رنگ بکھیر رہے تھے ' اسی جلسے میں جب مشہور افغان گلوکارہ قمر گلہ نے یہ نغمہ گایا ۔ ان دنوں یہ نغمہ افغانستان میں ہر طرف گونج رہا تھا ۔
؎گرانو وطن والو مبارک مو شہ دا دوہ سپرلی
یو د انقلاب سپرلے اور بل د سرو گلونو دے
ترجمہ۔ (پیارے ہم و طنو ! کو دو بہاریں مبارک ' ایک سرخ پھولوں کی اور دوسری انقلاب کی)۔
افغان انقلاب نے واقعی دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ' سامراج نے اپنے استحصالی نظام کو بچانے کے لیے جو لشکر اس انقلاب کو ختم کرنے لیے تیار کیا تھا وہ آج تک اس کے گلے میں ایسا پھنساہے جیسے ''سانپ کے منہ میں چھچھوندر''۔ افغان انقلاب کو حکمران طبقوں نے تاریخ کے اوراق سے کھرچ دینے کی پوری کو شش کی ہے' افغانستان کا کوئی بھی چینل لگائیں' میروس نیکہ اور احمد شاہ بابا سے لے کر حامد کرزئی اور اشرف غنی تک تمام حکمرانوں کا ذکر ہو گا لیکن نور محمد ترکئی'حفیظ اللہ امین' ببرک کارمل اور ڈاکٹر نجیب کا نام موجود نہیں ہے' سامراجی حکمران طبقے27 اپریل 1978سے لے کر 12 اپریل 1992 کو ڈاکٹر نجیب کے استعفا دینے تک کے 14 سالوں کو تاریخ کے صفحات سے کیسے کھرچ سکتے ہیں؟
ثور انقلاب ایک تاریخی واقعہ ہے اور تاریخ کو مٹایا نہیں جا سکتا ' سامراجی میڈیا ' حکمران طبقے کے دانشور اور سرکاری تاریخ دان اس انقلاب سے پہلے اور بعد میں جنم لینے والے واقعات کو مسخ کر کے عوامی شعور سے مٹا دینے کی سعی میں جھوٹ اور منافقت کی ہر حد تک گئے ہیں۔ اس حقیقت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جنوبی ایشیاء کی تاریخ میں سب سے ریڈیکل سماجی ' معاشی اور ثقافتی اصلاحات کا آغاز ''ثور انقلاب '' کے بعد افغانستان میں ہوا تھا' ان جرات مندانہ اقدامات کا مقصد صدیوں سے مقامی اشرافیہ کے استحصال ' پسماندگی' غربت اور مختلف سامراجی قوتوں کی اقتصادی زنجیروں میں جکڑے افغان عوام کو آزاد کروا کے ایک جدید سماج کی تعمیر کا آغاز کرنا تھا۔
حکمران طبقے کے تاریخ دان اور دانشور دانستہ طور پر ثور انقلاب کو سوویت یونین کی فوج کشی کے ساتھ گڈ مڈ کر دیتے ہیں' اس حقیقت کو چھپایا جاتا ہے کہ ثور انقلاب 27 اپریل 1978 کو برپا ہوا اور سوویت فوجیں ثور انقلاب کے 18ماہ بعد 29 دسمبر 1979 کو افغانستان میں داخل ہوئی تھیں' انقلابی حکومت کے پہلے دو سربراہان نور محمد ترکئی اور حفیظ اللہ امین کے دور میں سوویت یونین سے دوستانہ تعلقات قائم رہے لیکن مداخلت کا واقعہ نہیںہوا ' اس دوران افغان انقلاب کے خلاف بیرونی سازشیں شروع ہوگئی تھیں جن میں عالمی سامراج' ان کے نمایندہ اور کرایے کے سپاہی شامل تھے' افغان انقلاب فوج میں قائم پارٹی کے ساتھیوں نے برپا کیا تھا اور اس کی فوری وجہ استاد امیر اکبر خیبر کی حکومت کے ہاتھوں موت اور دوسرے رہنماؤں کی گرفتاری بنی ' انقلابی پارٹی پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی آف افغانستان PDPA) ( کئی طرح کی نظریاتی ' تنظیمی اور سیاسی کمزوریوں کا شکار تھی لیکن سرمایہ دار دنیا کے لیے اصل خطرے کی بات وہ اقدامات تھے جو افغانستان کی انقلابی حکومت نے عوام کی بہتری کے لیے کیے۔
ملٹری انقلابی کونسل کی جانب سے نافذ کیے گئے انقلابی قوانین ثور انقلاب کی حقیقی روح اور اساس کو واضح کرتے ہیں' انقلابی حکمنامے کے ذریعے مندرجہ ذیل اقدامات کیے گئے٭۔غریب کسانوں کے ذمے سود خوروں اور جاگیرداروں کا تمام واجب الاداقرضہ سود سمیت منسوخ کر دیا گیا ' بے زمین کسان نسل در نسل سودی قرضے کی دلدل میں پھنسے ہوئے تھے اور ایک اندازے کے مطابق اس قرضے کا مجموعی حجم افغانستان کی سرکاری معیشت سے بھی زیادہ تھا ٭۔ قانون کی نظر میںخواتین اور مردوں کی برابری کو یقینی بنانے کی بات کی گئی تھی ' پیسے کے بدلے لڑکیوں کی شادی ' زبردستی کی شادی اور بیوہ کی دوبارہ شادی کی راہ میں رکاوٹ بننے والی قبائلی رسم و رواج کو جرم قرار دیا گیا۔
اس کے علاوہ شادی یا منگنی کی کم سے کم عمر کو لڑکیوں کے لیے 16 سال اور لڑکوں کے لیے 18 سال مقرر کر کے بچپن کی شادیوں پر پابندی لگا دی گئی ٭۔ جاگیرداروں اور شاہی خاندان کی تمام تر زمین کو بغیر کسی معاوضے کے ریاستی ملکیت میں لیتے ہوئے غریب اور بے زمین کسانوں میں تقسیم کر دیا گیا ' اس قانون کا سب سے اہم مقصد ''ملک کے سماجی اور معاشی ڈھانچے میں سے جاگیرداری اور قبل از جاگیرداری کے رشتوں کا خاتمہ تھا ۔٭۔ انقلابی حکومت کے دوسرے ریڈیکل اقدامات میں پانی کی منصفانہ تقسیم اور کسانوں کی اشتراکی انجمنوں کا قیام شامل تھا۔
اس کے علاوہ ناخواندگی کے خاتمے کے لیے بڑے پیمانے کی مہم شروع کی گئی جس کے تحت 1979سے 1984تک 15 لاکھ ان پڑھ لوگوں کو لکھنا پڑھنا سکھایا گیا۔ افغان انقلابی حکومت نے ان تمام اقدامات کا آغاز سوویت فوجوں کی آمدسے قبل کیا تھا ' افغان عوام کی تقدیر بدلنے کے لیے انھیں سرمایہ دار انہ ریاست کا خاتمہ کرنا پڑا تھا ' ثور انقلاب نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ سابق نوآبادیاتی ممالک کا ناتواں اور پیداواری صلاحیت سے عاری سرمایہ دار طبقہ معاشی اور ثقافتی طور پر اس قابل نہیں ہے کہ سرمایہ دارانہ جمہوری انقلاب کے انتہائی بنیاد ی فرائض بھی ادا کر سکے۔
ثور انقلاب کے انقلابی اقدامات پورے خطے میں جاگیرداری' سرمایہ داری اور سامراجی مفادات کے لیے خطرہ تھے ' واشنگٹن ' لندن' ریاض اور اسلام آباد تک طاقت کے ایوانوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں' واضح امکانات موجود تھے کہ افغانستان میں انقلاب کے حاصلات سے متاثر ہوکر پورے خطے کے عوام سامراج اور اس کے استحصالی نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں چنانچہ نومولود انقلاب کو کچل دینے کا فیصلہ کیا گیا ۔ ''کمیونسٹ کافروں کے خلاف سامراجی جہاد'' کی پالیسی ترتیب دی گئی۔
امریکی سی آئی اے نے اپنے حواریوںکی مدد سے اپنی تاریخ کے سب سے بڑے خفیہ ''آپریشن سائیکلون'' کا روسی فوجوں کی آمد سے چھ ماہ قبل آغاز کر دیا تھا ' پٹرو ڈالر (PetroDollar) کے ایندھن سے بنیاد پرستی 'فرقہ واریت' جرائم ' اور دہشتگردی کی وہ آگ بھڑکائی گئی جس میں پورا خطہ آج بھی جل رہا ہے 'جہادی ضروریات پوری کرنے کے لیے منشیات اور اسلحے کی اسمگلنگ کا وسیع نیٹ ورک تشکیل دیا گیا ' منشیات اور جرائم کے کالے دھن کا دودھ پی کر وہ گینگ جوان ہوئے جو آج پاکستان کی ریاست کی بنیادوں کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔
انقلاب کی ناکامی سماج کو پسماندگی کی گہری کھائیوں میں دھکیل دیتی ہے ' افغانستان میںیہی ہوا، سامراج کی رد انقلاب جنگ نے ان 40 برسوں میں افغانستان کے ساتھ ساتھ پاکستان کے عوام کو بھی برباد کر کے رکھ دیا ' جس کے نتائج آج بھی ہم بھگت رہے ہیں۔ یہ سمجھنا غلطی ہو گی کہ انقلاب کا خاتمہ ہو گیا ' جب تک دنیا میں طبقات موجود ہیں ' یوم مئی اور ثور انقلاب کا جذبہ زندہ رہے گا 'افغان انقلاب کو امریکی ڈالروں کی مدد سے ختم کرنے کے لیے جو جھتے تیار کیے گئے تھے ' وہ آج پاکستان کی ریاست کو چمٹ گئے ہیں' جس کی پیشنگوئی ڈاکٹر نجیب نے کی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ جو آگ آج افغانستان میں بھڑکائی گئی ہے ' یہ آگ کل ہمسایوں کو بھی جلاکر بھسم کردے گی۔
یکم مئی 1886ء کو شکاگو کے ''Hay market'' چوک سے شروع ہونی والی تحریک دنیا میں کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے ۔ آج اسی یکم مئی کے جذبے سے حاصل کردہ شعور کی بنا پر آنے والے افغان ثور انقلاب کو بھی یاد کرتے ہیں جو 27 اپریل 1978 کوبرپا ہوا۔یکم مئی 1979کو ثور انقلاب کی پہلی سالگرہ کے موقع پر کابل میں تقریر کرتے ہوئے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان کے رہنماء اور افغان انقلاب کے سربراہ نور محمد ترکئی نے کہا تھا کہ ''ثور انقلاب صرف افغانستان کے محنت کشوں اور مسلح انقلابی سپاہیوں کا انقلاب نہیں' یہ پوری دنیا کے محنت کشوں اور محکوموں کا انقلاب ہے' (PDPA) کی قیادت میں مسلح انقلابی فوج کی مدد سے برپا ہونے والا یہ انقلاب پوری دنیا کے محنت کشوں کی عظیم کامیابی ہے ' اس نے1917 کے اکتوبر انقلاب سے رہنمائی اور شکتی حاصل کی ہے اور ایک بار پھر پوری دنیا کو ہلاکر رکھ دے گا ''۔
اس دن کابل شہر میں ہر طرف موسم بہار کے پھول رنگ بکھیر رہے تھے ' اسی جلسے میں جب مشہور افغان گلوکارہ قمر گلہ نے یہ نغمہ گایا ۔ ان دنوں یہ نغمہ افغانستان میں ہر طرف گونج رہا تھا ۔
؎گرانو وطن والو مبارک مو شہ دا دوہ سپرلی
یو د انقلاب سپرلے اور بل د سرو گلونو دے
ترجمہ۔ (پیارے ہم و طنو ! کو دو بہاریں مبارک ' ایک سرخ پھولوں کی اور دوسری انقلاب کی)۔
افغان انقلاب نے واقعی دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ' سامراج نے اپنے استحصالی نظام کو بچانے کے لیے جو لشکر اس انقلاب کو ختم کرنے لیے تیار کیا تھا وہ آج تک اس کے گلے میں ایسا پھنساہے جیسے ''سانپ کے منہ میں چھچھوندر''۔ افغان انقلاب کو حکمران طبقوں نے تاریخ کے اوراق سے کھرچ دینے کی پوری کو شش کی ہے' افغانستان کا کوئی بھی چینل لگائیں' میروس نیکہ اور احمد شاہ بابا سے لے کر حامد کرزئی اور اشرف غنی تک تمام حکمرانوں کا ذکر ہو گا لیکن نور محمد ترکئی'حفیظ اللہ امین' ببرک کارمل اور ڈاکٹر نجیب کا نام موجود نہیں ہے' سامراجی حکمران طبقے27 اپریل 1978سے لے کر 12 اپریل 1992 کو ڈاکٹر نجیب کے استعفا دینے تک کے 14 سالوں کو تاریخ کے صفحات سے کیسے کھرچ سکتے ہیں؟
ثور انقلاب ایک تاریخی واقعہ ہے اور تاریخ کو مٹایا نہیں جا سکتا ' سامراجی میڈیا ' حکمران طبقے کے دانشور اور سرکاری تاریخ دان اس انقلاب سے پہلے اور بعد میں جنم لینے والے واقعات کو مسخ کر کے عوامی شعور سے مٹا دینے کی سعی میں جھوٹ اور منافقت کی ہر حد تک گئے ہیں۔ اس حقیقت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جنوبی ایشیاء کی تاریخ میں سب سے ریڈیکل سماجی ' معاشی اور ثقافتی اصلاحات کا آغاز ''ثور انقلاب '' کے بعد افغانستان میں ہوا تھا' ان جرات مندانہ اقدامات کا مقصد صدیوں سے مقامی اشرافیہ کے استحصال ' پسماندگی' غربت اور مختلف سامراجی قوتوں کی اقتصادی زنجیروں میں جکڑے افغان عوام کو آزاد کروا کے ایک جدید سماج کی تعمیر کا آغاز کرنا تھا۔
حکمران طبقے کے تاریخ دان اور دانشور دانستہ طور پر ثور انقلاب کو سوویت یونین کی فوج کشی کے ساتھ گڈ مڈ کر دیتے ہیں' اس حقیقت کو چھپایا جاتا ہے کہ ثور انقلاب 27 اپریل 1978 کو برپا ہوا اور سوویت فوجیں ثور انقلاب کے 18ماہ بعد 29 دسمبر 1979 کو افغانستان میں داخل ہوئی تھیں' انقلابی حکومت کے پہلے دو سربراہان نور محمد ترکئی اور حفیظ اللہ امین کے دور میں سوویت یونین سے دوستانہ تعلقات قائم رہے لیکن مداخلت کا واقعہ نہیںہوا ' اس دوران افغان انقلاب کے خلاف بیرونی سازشیں شروع ہوگئی تھیں جن میں عالمی سامراج' ان کے نمایندہ اور کرایے کے سپاہی شامل تھے' افغان انقلاب فوج میں قائم پارٹی کے ساتھیوں نے برپا کیا تھا اور اس کی فوری وجہ استاد امیر اکبر خیبر کی حکومت کے ہاتھوں موت اور دوسرے رہنماؤں کی گرفتاری بنی ' انقلابی پارٹی پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی آف افغانستان PDPA) ( کئی طرح کی نظریاتی ' تنظیمی اور سیاسی کمزوریوں کا شکار تھی لیکن سرمایہ دار دنیا کے لیے اصل خطرے کی بات وہ اقدامات تھے جو افغانستان کی انقلابی حکومت نے عوام کی بہتری کے لیے کیے۔
ملٹری انقلابی کونسل کی جانب سے نافذ کیے گئے انقلابی قوانین ثور انقلاب کی حقیقی روح اور اساس کو واضح کرتے ہیں' انقلابی حکمنامے کے ذریعے مندرجہ ذیل اقدامات کیے گئے٭۔غریب کسانوں کے ذمے سود خوروں اور جاگیرداروں کا تمام واجب الاداقرضہ سود سمیت منسوخ کر دیا گیا ' بے زمین کسان نسل در نسل سودی قرضے کی دلدل میں پھنسے ہوئے تھے اور ایک اندازے کے مطابق اس قرضے کا مجموعی حجم افغانستان کی سرکاری معیشت سے بھی زیادہ تھا ٭۔ قانون کی نظر میںخواتین اور مردوں کی برابری کو یقینی بنانے کی بات کی گئی تھی ' پیسے کے بدلے لڑکیوں کی شادی ' زبردستی کی شادی اور بیوہ کی دوبارہ شادی کی راہ میں رکاوٹ بننے والی قبائلی رسم و رواج کو جرم قرار دیا گیا۔
اس کے علاوہ شادی یا منگنی کی کم سے کم عمر کو لڑکیوں کے لیے 16 سال اور لڑکوں کے لیے 18 سال مقرر کر کے بچپن کی شادیوں پر پابندی لگا دی گئی ٭۔ جاگیرداروں اور شاہی خاندان کی تمام تر زمین کو بغیر کسی معاوضے کے ریاستی ملکیت میں لیتے ہوئے غریب اور بے زمین کسانوں میں تقسیم کر دیا گیا ' اس قانون کا سب سے اہم مقصد ''ملک کے سماجی اور معاشی ڈھانچے میں سے جاگیرداری اور قبل از جاگیرداری کے رشتوں کا خاتمہ تھا ۔٭۔ انقلابی حکومت کے دوسرے ریڈیکل اقدامات میں پانی کی منصفانہ تقسیم اور کسانوں کی اشتراکی انجمنوں کا قیام شامل تھا۔
اس کے علاوہ ناخواندگی کے خاتمے کے لیے بڑے پیمانے کی مہم شروع کی گئی جس کے تحت 1979سے 1984تک 15 لاکھ ان پڑھ لوگوں کو لکھنا پڑھنا سکھایا گیا۔ افغان انقلابی حکومت نے ان تمام اقدامات کا آغاز سوویت فوجوں کی آمدسے قبل کیا تھا ' افغان عوام کی تقدیر بدلنے کے لیے انھیں سرمایہ دار انہ ریاست کا خاتمہ کرنا پڑا تھا ' ثور انقلاب نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ سابق نوآبادیاتی ممالک کا ناتواں اور پیداواری صلاحیت سے عاری سرمایہ دار طبقہ معاشی اور ثقافتی طور پر اس قابل نہیں ہے کہ سرمایہ دارانہ جمہوری انقلاب کے انتہائی بنیاد ی فرائض بھی ادا کر سکے۔
ثور انقلاب کے انقلابی اقدامات پورے خطے میں جاگیرداری' سرمایہ داری اور سامراجی مفادات کے لیے خطرہ تھے ' واشنگٹن ' لندن' ریاض اور اسلام آباد تک طاقت کے ایوانوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں' واضح امکانات موجود تھے کہ افغانستان میں انقلاب کے حاصلات سے متاثر ہوکر پورے خطے کے عوام سامراج اور اس کے استحصالی نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں چنانچہ نومولود انقلاب کو کچل دینے کا فیصلہ کیا گیا ۔ ''کمیونسٹ کافروں کے خلاف سامراجی جہاد'' کی پالیسی ترتیب دی گئی۔
امریکی سی آئی اے نے اپنے حواریوںکی مدد سے اپنی تاریخ کے سب سے بڑے خفیہ ''آپریشن سائیکلون'' کا روسی فوجوں کی آمد سے چھ ماہ قبل آغاز کر دیا تھا ' پٹرو ڈالر (PetroDollar) کے ایندھن سے بنیاد پرستی 'فرقہ واریت' جرائم ' اور دہشتگردی کی وہ آگ بھڑکائی گئی جس میں پورا خطہ آج بھی جل رہا ہے 'جہادی ضروریات پوری کرنے کے لیے منشیات اور اسلحے کی اسمگلنگ کا وسیع نیٹ ورک تشکیل دیا گیا ' منشیات اور جرائم کے کالے دھن کا دودھ پی کر وہ گینگ جوان ہوئے جو آج پاکستان کی ریاست کی بنیادوں کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔
انقلاب کی ناکامی سماج کو پسماندگی کی گہری کھائیوں میں دھکیل دیتی ہے ' افغانستان میںیہی ہوا، سامراج کی رد انقلاب جنگ نے ان 40 برسوں میں افغانستان کے ساتھ ساتھ پاکستان کے عوام کو بھی برباد کر کے رکھ دیا ' جس کے نتائج آج بھی ہم بھگت رہے ہیں۔ یہ سمجھنا غلطی ہو گی کہ انقلاب کا خاتمہ ہو گیا ' جب تک دنیا میں طبقات موجود ہیں ' یوم مئی اور ثور انقلاب کا جذبہ زندہ رہے گا 'افغان انقلاب کو امریکی ڈالروں کی مدد سے ختم کرنے کے لیے جو جھتے تیار کیے گئے تھے ' وہ آج پاکستان کی ریاست کو چمٹ گئے ہیں' جس کی پیشنگوئی ڈاکٹر نجیب نے کی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ جو آگ آج افغانستان میں بھڑکائی گئی ہے ' یہ آگ کل ہمسایوں کو بھی جلاکر بھسم کردے گی۔