حکومت کا داخلی بحران
اگر وزرا کی سطح پر جوابدہی کا نظام ہوگا تو اس سے حکمرانی کا نظام شفافیت کی طرف بڑھ سکتا ہے۔
عمومی طور پر کسی بھی حکومت کو دو محاذوں پر بحران کا سامنا ہوتا ہے۔ اول داخلی اوردوئم خارجی۔ ان دونوں محاذوں پر موجود مسائل سے نمٹنے کی صلاحیت ہی کسی بھی حکمرانی کا بڑا امتحان ہوتا ہے۔ حکمرانی کا ایک ایسا نظام جو خوبیاں کم او رخامیاں زیادہ رکھتا ہو اس میں حکمرانی کی شفافیت اور فعالیت کو قائم کرنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔
ایک دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ خارجی بحران سے نمٹنے کے لیے حکمرانی کے نظام کی بنیادی شرط داخلی بحران سے نمٹنا ہوتا ہے ۔کیونکہ اگر آپ خود داخلی بحران سے نمٹنے کی صلاحیت سے محروم ہو تو خارجی مسائل سے نمٹنا بھی ناممکن ہوتا ہے۔ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہم بحرانوں کا تجزیہ پیش کرتے ہوئے داخلی بحران کو قبول کرنے کے بجائے سارا ملبہ خارجی عوامل پر ڈال کر خود کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں ,لیکن یہ حکمت عملی وقتی ہوتی ہے ۔
تحریک انصاف کو جاننے اور سمجھنے والے سیاسی پنڈت ہمیشہ سے یہ دلیل پیش کرتے رہے ہیں او رکرتے ہیں کہ اس جماعت کو اپنے داخلی بحران سے زیادہ خطرات لاحق ہیں ۔ مجھے یاد ہے کہ اقتدار میں آنے سے قبل وزیر اعظم عمران خان سے جب کبھی ملاقات ہوتی تو وہ ایک بات ہمیشہ کھل کر کرتے اور اعتراف کرتے کہ ان کی جماعت کا داخلی بحران زیادہ سنگین ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان کایہ جملہ ہمیشہ یاد رہتا کہ اگر کبھی ہم ناکام ہوئے تو اس کی وجہ ہمارے سیاسی مخالفین کم اور پارٹی کا داخلی بحران زیادہ ہوگا۔
حالیہ دنوں میں وزیر اعظم عمران خان نے اپنی کابینہ میں اکھاڑ پچھاڑ کی ہے، یہ جو تحریک انصاف کو مختلف محاذ پر کڑی تنقید کا سامنا تھا ،کابینہ میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں اسی سلسلے کی کڑی ہے ۔ یہ کہنا کہ یہ کام راتوں رات ہوا ہے درست نہیں ۔ یہ فیصلے ابھی رکیں گے نہیں، مزید نئے فیصلے بھی سامنے آئیں گے۔اسد عمرسے جو بڑی توقعات وزیر اعظم کو وابستہ تھیں اس کی کوئی بڑی جھلک ہمیں دیکھنے کو نہیں ملی او رنہ ہی اسد عمر یہ تصور اجاگر کرسکے کہ ان کی حکومت کی معاشی پالیسیاں درست سمت پر چل رہی ہے اوراس کے بہتر نتائج نکل سکیں گے ۔
اگر وزرا کی سطح پر جوابدہی کا نظام ہوگا تو اس سے حکمرانی کا نظام شفافیت کی طرف بڑھ سکتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے سخت فیصلہ کرکے ثابت کیا ہے کہ وہ ایک جنگجو کھلاڑی ہیں۔ان کی مخالفت میں دو طرح کے لوگ ہیں ۔ اول وہ جو ان کے سیاسی مخالفین ہیں اور دوئم وہ جو ان سے بہت زیادہ اچھے کی توقع رکھتے تھے ۔مخالفین کا کام تو تنقید برائے تنقید ہی ہوتا ہے ,لیکن جو لو گ ان کے خیر خواہ ہیں اوران پر تنقید کررہے ہیں ان کی تنقید وتجاویز سے فائدہ اٹھانے کی حکومتی صلاحیت بھی کمزور ہے ۔
عمومی طو رپر ہمارے یہاں کہ حکمرانی کے نظام میں کوئی بھی حکمران اپنی ناکامی کو تسلیم نہیں کرتا او رنہ ہی وہ بڑے فیصلے کرنے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ اسے ڈر ہوتا ہے کہ بڑے فیصلے اس کے لیے نئی سیاسی مشکلات پیدا کر سکتے ہیں ۔لیکن وزیر اعظم عمران خان نے یہ بڑا فیصلہ بھی کیا اور مزید عندیہ دیا کہ وفاق او رپنجاب سمیت خیبر پختونخواہ میں بھی تبدیلیاں لائی جاسکتی ہیں۔
اس بحران سے وزیر اعظم عمران خان کو تسلیم کرنا چاہیے کہ ان سے اپنی ٹیم کی سلیکشن پر بھی کافی غلطیاں ہوئی ہیں اور وہ خود بھی اس بحران کے ذمے دار ہیں ۔ وزیر اعلی پنجاب کے طور پر عثمان بزدار کی تقرری بھی خود تحریک انصاف کی حکومت کے لیے ایک مشکل صورتحال کا باعث بنی ہوئی ہے۔یقینی طور پر پنجاب کی سیاسی حکمت عملی میں مزید سوچ وبچار کی ضرورت ہے اورایک مضبوط حکمت عملی سے ہی نواز شریف کی طاقت کو کم کیا جاسکتا ہے ۔
اب بھی وزیراعظم عمران خان نے جو کابینہ میں تبدیلیاں کی ہیں اس پر بھی تنقید ہورہی ہے ۔ اعجازشاہ جو داخلہ , عاشق فردوس اعوان کو مشیر اطلاعات, اعظم سواتی کو پارلیمانی امور بنانے پر بھی حیرت ہے کہ وزیر اعظم عمران خان ان سے کیا کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔وزیر اعظم عمران خان کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اگر وہ واقعی کوئی حقیقی تبدیلی چاہتے ہیں تو وہ پرانے روائتی طر ز کے چہروں سے ممکن نہیں۔اس کے لیے حکمرانی کے نظام میں غیر معمولی اقدامات سمیت نئے لوگوں پر او رپارٹی کے اصل سیاسی ورکروں پر زیادہ انحصار کرنا چاہیے۔ایک مسئلہ پارٹی کا داخلی جماعتی بحران ہے ۔ ایک ہی وقت میں پارٹی میں موجود مختلف گروپ بندیاں پارٹی اور حکمرانی کے نظام میں مشکلات پیدا کرنے کا سبب بن رہی ہیں اور اس پر وزیر اعظم عمران خان کی خاموشی یا مصلحت پسندی درست حکمت عملی نہیں ۔
وزیر اعظم عمران خان کو حکومتی او رجماعتی سطح پر مختلف پالیسی اورحکمت عملی کو موثر بنانے کی ضرورت ہے۔ حکومت اور وزیروں کیکارکردگی جانچنے کے لیے جماعتی کردار کو بڑھانا ہوگا ۔کیونکہ پارلیمانی سیاست میں اقتدار میں شامل جماعت ہی حکومتی نگرانی کا موثر نظام ہوتا ہے اوراس کے مضبوط بنائے بغیر اچھی حکمرانی کا تصور ممکن نہیں ہوسکتا۔اب بھی بہت سے وزیر حکومت سمیت تحریک انصاف کے لیے اچھی مثال پیدا نہیں کررہے ۔ ان میں ایک نام وفاقی وزیر فیصل واڈا کا بھی ہے ۔ حکومتی سطح پر وزیروں,شیروں کے لب ولہجہ کے حوالے سے ان کی جوابدہی ہونی چاہیے ۔
وزیر اعظم عمران خان نے کابینہ تبدیل کردی او ران کے بقول آگے بھی جو کارکردگی دکھائے گا وہی کابینہ یا حکومت کا حصہ رہے گا ۔ اس حالیہ عمران خان کے فیصلہ پر یقینی طور پر تنقید ہوسکتی ہے لیکن اس فیصلہ سے حکومت میں جوابدہی کا نظام بھی آگے بڑھے گا اور دوسرے وزیر بھی خود کو بدلیں گے بھی او رجوابدہ بھی ہونگے ۔لیکن اس قسم کی تبدیلیاں بار بار نہیں کی جاتی کیونکہ اس سے حکومت کا عمومی تصور کمزو رہوتا ہے اور ایسے لگتا ہے کہ جیسے وزیر اعظم کا حکومت پر مضبوط کنٹرول نہیں۔
وزیراعظم عمران خان کا بڑا چیلنج ان کے سیاسی مخالفین نہیں بلکہ ان کا اپنا داخلی حکمرانی او رجماعتی نظام ہے جو گروپ بندیوں کا شکار ہے , یہ لوگ حکومت اور جماعت سے زیادہ اپنے مفادات کی سیاست کررہے ہیں او ریہ ہی تحریک انصاف یا عمران خان کے لیے بڑا مسئلہ ہونا چاہیے ۔یہ مسائل محض کابینہ کی تبدیلی سے حل نہیں ہونگے۔ اس کے لیے وزیر اعظم عمران خان کو اپنی پارٹی بھی منظم کرنی چاہیے اوران کو حکومت میں ایسے لوگوں کو لانا چاہیے جو واقعی تبدیلی کو اپنی سیاست کا محور سمجھتے ہیں۔ وگرنہ روائتی طرز کی سیاست سے نہ پہلے ملک کا بھلاہوا ہے اورنہ ہی آیندہ ہوسکے گا ۔
ایک دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ خارجی بحران سے نمٹنے کے لیے حکمرانی کے نظام کی بنیادی شرط داخلی بحران سے نمٹنا ہوتا ہے ۔کیونکہ اگر آپ خود داخلی بحران سے نمٹنے کی صلاحیت سے محروم ہو تو خارجی مسائل سے نمٹنا بھی ناممکن ہوتا ہے۔ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہم بحرانوں کا تجزیہ پیش کرتے ہوئے داخلی بحران کو قبول کرنے کے بجائے سارا ملبہ خارجی عوامل پر ڈال کر خود کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں ,لیکن یہ حکمت عملی وقتی ہوتی ہے ۔
تحریک انصاف کو جاننے اور سمجھنے والے سیاسی پنڈت ہمیشہ سے یہ دلیل پیش کرتے رہے ہیں او رکرتے ہیں کہ اس جماعت کو اپنے داخلی بحران سے زیادہ خطرات لاحق ہیں ۔ مجھے یاد ہے کہ اقتدار میں آنے سے قبل وزیر اعظم عمران خان سے جب کبھی ملاقات ہوتی تو وہ ایک بات ہمیشہ کھل کر کرتے اور اعتراف کرتے کہ ان کی جماعت کا داخلی بحران زیادہ سنگین ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان کایہ جملہ ہمیشہ یاد رہتا کہ اگر کبھی ہم ناکام ہوئے تو اس کی وجہ ہمارے سیاسی مخالفین کم اور پارٹی کا داخلی بحران زیادہ ہوگا۔
حالیہ دنوں میں وزیر اعظم عمران خان نے اپنی کابینہ میں اکھاڑ پچھاڑ کی ہے، یہ جو تحریک انصاف کو مختلف محاذ پر کڑی تنقید کا سامنا تھا ،کابینہ میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں اسی سلسلے کی کڑی ہے ۔ یہ کہنا کہ یہ کام راتوں رات ہوا ہے درست نہیں ۔ یہ فیصلے ابھی رکیں گے نہیں، مزید نئے فیصلے بھی سامنے آئیں گے۔اسد عمرسے جو بڑی توقعات وزیر اعظم کو وابستہ تھیں اس کی کوئی بڑی جھلک ہمیں دیکھنے کو نہیں ملی او رنہ ہی اسد عمر یہ تصور اجاگر کرسکے کہ ان کی حکومت کی معاشی پالیسیاں درست سمت پر چل رہی ہے اوراس کے بہتر نتائج نکل سکیں گے ۔
اگر وزرا کی سطح پر جوابدہی کا نظام ہوگا تو اس سے حکمرانی کا نظام شفافیت کی طرف بڑھ سکتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے سخت فیصلہ کرکے ثابت کیا ہے کہ وہ ایک جنگجو کھلاڑی ہیں۔ان کی مخالفت میں دو طرح کے لوگ ہیں ۔ اول وہ جو ان کے سیاسی مخالفین ہیں اور دوئم وہ جو ان سے بہت زیادہ اچھے کی توقع رکھتے تھے ۔مخالفین کا کام تو تنقید برائے تنقید ہی ہوتا ہے ,لیکن جو لو گ ان کے خیر خواہ ہیں اوران پر تنقید کررہے ہیں ان کی تنقید وتجاویز سے فائدہ اٹھانے کی حکومتی صلاحیت بھی کمزور ہے ۔
عمومی طو رپر ہمارے یہاں کہ حکمرانی کے نظام میں کوئی بھی حکمران اپنی ناکامی کو تسلیم نہیں کرتا او رنہ ہی وہ بڑے فیصلے کرنے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ اسے ڈر ہوتا ہے کہ بڑے فیصلے اس کے لیے نئی سیاسی مشکلات پیدا کر سکتے ہیں ۔لیکن وزیر اعظم عمران خان نے یہ بڑا فیصلہ بھی کیا اور مزید عندیہ دیا کہ وفاق او رپنجاب سمیت خیبر پختونخواہ میں بھی تبدیلیاں لائی جاسکتی ہیں۔
اس بحران سے وزیر اعظم عمران خان کو تسلیم کرنا چاہیے کہ ان سے اپنی ٹیم کی سلیکشن پر بھی کافی غلطیاں ہوئی ہیں اور وہ خود بھی اس بحران کے ذمے دار ہیں ۔ وزیر اعلی پنجاب کے طور پر عثمان بزدار کی تقرری بھی خود تحریک انصاف کی حکومت کے لیے ایک مشکل صورتحال کا باعث بنی ہوئی ہے۔یقینی طور پر پنجاب کی سیاسی حکمت عملی میں مزید سوچ وبچار کی ضرورت ہے اورایک مضبوط حکمت عملی سے ہی نواز شریف کی طاقت کو کم کیا جاسکتا ہے ۔
اب بھی وزیراعظم عمران خان نے جو کابینہ میں تبدیلیاں کی ہیں اس پر بھی تنقید ہورہی ہے ۔ اعجازشاہ جو داخلہ , عاشق فردوس اعوان کو مشیر اطلاعات, اعظم سواتی کو پارلیمانی امور بنانے پر بھی حیرت ہے کہ وزیر اعظم عمران خان ان سے کیا کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔وزیر اعظم عمران خان کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اگر وہ واقعی کوئی حقیقی تبدیلی چاہتے ہیں تو وہ پرانے روائتی طر ز کے چہروں سے ممکن نہیں۔اس کے لیے حکمرانی کے نظام میں غیر معمولی اقدامات سمیت نئے لوگوں پر او رپارٹی کے اصل سیاسی ورکروں پر زیادہ انحصار کرنا چاہیے۔ایک مسئلہ پارٹی کا داخلی جماعتی بحران ہے ۔ ایک ہی وقت میں پارٹی میں موجود مختلف گروپ بندیاں پارٹی اور حکمرانی کے نظام میں مشکلات پیدا کرنے کا سبب بن رہی ہیں اور اس پر وزیر اعظم عمران خان کی خاموشی یا مصلحت پسندی درست حکمت عملی نہیں ۔
وزیر اعظم عمران خان کو حکومتی او رجماعتی سطح پر مختلف پالیسی اورحکمت عملی کو موثر بنانے کی ضرورت ہے۔ حکومت اور وزیروں کیکارکردگی جانچنے کے لیے جماعتی کردار کو بڑھانا ہوگا ۔کیونکہ پارلیمانی سیاست میں اقتدار میں شامل جماعت ہی حکومتی نگرانی کا موثر نظام ہوتا ہے اوراس کے مضبوط بنائے بغیر اچھی حکمرانی کا تصور ممکن نہیں ہوسکتا۔اب بھی بہت سے وزیر حکومت سمیت تحریک انصاف کے لیے اچھی مثال پیدا نہیں کررہے ۔ ان میں ایک نام وفاقی وزیر فیصل واڈا کا بھی ہے ۔ حکومتی سطح پر وزیروں,شیروں کے لب ولہجہ کے حوالے سے ان کی جوابدہی ہونی چاہیے ۔
وزیر اعظم عمران خان نے کابینہ تبدیل کردی او ران کے بقول آگے بھی جو کارکردگی دکھائے گا وہی کابینہ یا حکومت کا حصہ رہے گا ۔ اس حالیہ عمران خان کے فیصلہ پر یقینی طور پر تنقید ہوسکتی ہے لیکن اس فیصلہ سے حکومت میں جوابدہی کا نظام بھی آگے بڑھے گا اور دوسرے وزیر بھی خود کو بدلیں گے بھی او رجوابدہ بھی ہونگے ۔لیکن اس قسم کی تبدیلیاں بار بار نہیں کی جاتی کیونکہ اس سے حکومت کا عمومی تصور کمزو رہوتا ہے اور ایسے لگتا ہے کہ جیسے وزیر اعظم کا حکومت پر مضبوط کنٹرول نہیں۔
وزیراعظم عمران خان کا بڑا چیلنج ان کے سیاسی مخالفین نہیں بلکہ ان کا اپنا داخلی حکمرانی او رجماعتی نظام ہے جو گروپ بندیوں کا شکار ہے , یہ لوگ حکومت اور جماعت سے زیادہ اپنے مفادات کی سیاست کررہے ہیں او ریہ ہی تحریک انصاف یا عمران خان کے لیے بڑا مسئلہ ہونا چاہیے ۔یہ مسائل محض کابینہ کی تبدیلی سے حل نہیں ہونگے۔ اس کے لیے وزیر اعظم عمران خان کو اپنی پارٹی بھی منظم کرنی چاہیے اوران کو حکومت میں ایسے لوگوں کو لانا چاہیے جو واقعی تبدیلی کو اپنی سیاست کا محور سمجھتے ہیں۔ وگرنہ روائتی طرز کی سیاست سے نہ پہلے ملک کا بھلاہوا ہے اورنہ ہی آیندہ ہوسکے گا ۔