افغان مسئلہ پاکستان کا مثبت کردار
افغانستان کی بد قسمتی یہ ہے کہ غیر متعلقہ طاقتیں اپنے سیاسی مفادات کی خاطر افغانستان میں منفی کردار ادا کرتی رہیں۔
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان افغانستان کے داخلی معاملات میں فریق نہیں بنے گا۔ عمران خان نے کہا ہے کہ ایک طویل انتظار کے بعد افغانستان میں امن کے عمل سے خطے میں قیام ان کے لیے ایک تاریخی موقع ملا ہے، تمام فریق اس موقعے کی اہمیت کا ادراک کریں دونوں ملک 40 سال کے دوران بدامنی سے بہت متاثر ہوئے ہیں۔
افغانستان میں تشدد سے پاکستان میں اضطراب پایا جاتا ہے، افغانستان متعلقہ فریقوں کے درمیان مذاکرات سے خطے میں امن کی کوششوں کو توانائی ملے گی، پاکستان افغانستان میں امن کی بھرپور حمایت کرتا ہے۔
عمران خان نے کہا کہ افغانستان کے داخلی معاملات پاکستان مداخلت نہیں کرے گا، 40 سال بعد افغانستان میں امن کے لیے کوششیں ہو رہی ہیں جس کی عالمی سطح پر حمایت ہونی چاہیے۔ اب حالات ایسے حوصلہ افزا ہیں کہ افغان عوام اپنے ملک کے مستقبل کا خود فیصلہ کریں گے۔
عمران خان نے کہا کہ تشدد آمیزکارروائیاں قابل مذمت ہیں کیونکہ اس سے امن کی کوششوں کو نقصان پہنچے گا، پاکستان تمام فریقین پر زور دیتا ہے کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھائیں اور افغانستان میں امن کی کوششوں کی بھرپور حمایت کریں۔ عمران خان نے کہا کہ پاکستان امن کے عمل کی کامیابی کے لیے تمام سفارتی اور سیکیورٹی تعاون فراہم کرنے کے لیے پُرعزم ہے۔
افغانستان کی بد قسمتی یہ ہے کہ غیر متعلقہ طاقتیں اپنے سیاسی مفادات کی خاطر افغانستان میں منفی کردار ادا کرتی رہیں اور بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ افغانستان کا حکمران طبقہ اپنے پڑوسیوں کی مثبت کوششوں کو نظر انداز کر کے غیر متعلقہ ملکوں کے ہاتھوں میں کھیلتا رہا۔ انھوں نے کہا کہ دباؤ کے ذریعے مذاکرات بامعنی نہیں ہو سکتے۔ افغانستان کا مسئلہ یہ ہے کہ ماضی میں بھی افغان قیادت اپنے پڑوسیوں کو نظر انداز کر کے سیاسی مفادات کی خاطر افغانستان سے دوستی کا ڈھونگ رچانے والوں سے قریبی تعلقات رکھنے کی پالیسی پر عمل پیرا رہی۔
ویسے تو افغانستان عشروں پہلے سے ہی سیاسی عدم استحکام کا شکار رہا ہے لیکن جب امریکا نے افغانستان میں روسی مداخلت کے نام افغانستان میں مداخلت شروع کی تو افغانستان ایسے پیچیدہ مسائل کا شکار ہو گیا جس کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ سامراجی ملکوں کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ پسماندہ ملکوں کو اپنے سیاسی مفادات کے لیے استعمال کریں۔ افغانستان میں روسی مداخلت اگر امریکا کے لیے نقصان رساں تھی اور امریکا افغانستان سے روس کو نکالنا چاہتا تھا تو اس کے لیے اپنی فوجی طاقت کو استعمال کرنا چاہیے تھا لیکن چونکہ امریکا کے لیے روس سے جنگ ہزاروں میل کے فاصلے سے آسان نہ تھی جس کی وجہ امریکا کی قیادت نے افغانستان سے روس کو نکالنے کے نام پر دوسرے ممالک کو اس جنگ میں گھسیٹنے کی کوشش کی ، اس دور میں پاکستان میں جنرل مشرف کی حکومت قائم تھی۔
امریکی صدر بش جونیئر نے دباؤ اور دھونس کے ذریعے پاکستان کو بھی اس جنگ میں گھسیٹا اور پاکستانی علاقوں میں مذہبی انتہا پسندوں کی کاشت شروع کی۔ سامراجی ملکوں کی عیاری اور مکاری سے نابلد مذہبی انتہا پسند امریکا کے ہاتھوں میں کھیلتے ہوئے سامراجی مقاصد کا کھلونا بن گئے۔
روس نے تاریخ کی سب سے بڑی غلطی یہ کی کہ روس کو افغانستان سے نکالنے کے لیے ان نامعلوم منزل کے مسافروں کو استعمال کیا اور جب روس کو افغانستان سے نکال دیا گیا تو امریکا ان مذہبی انتہا پسندوں کو افغانستان میں بے یار و مددگار چھوڑ کر چلا گیا، یوں روس سے جنگ کر کے اسے افغانستان سے نکالنے والے مذہبی انتہا پسندوں کے لیے کوئی مصروفیت نہ رہی تو انھوں نے اس دہشت گردی کے میدان میں قدم رکھ دیا جو آج ساری دنیا کے لیے ایسا مسئلہ بن گئی ہے جس کا حل کسی کے پاس نہیں۔ خود پاکستان کے 70 ہزار عوام اس بے سروپا مذہبی انتہا پسندی کی نظر ہو گئے۔
کہا جاتا ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں کا حکمران طبقہ کوئی بڑا قدم اٹھانے سے پہلے اہل دانش سے جو مغربی ملکوں میں تھنک ٹینکوں کی شکل میں نائی کی دکانوں کی طرح جگہ جگہ ڈیرہ ڈالے بیٹھے ہیں غالباً مشورہ نہیں کیا اگر مشورہ کیا ہو گا تو کسی تھنک ٹینک نے امریکی قیادت کو یہ مشورہ نہیں دیا کہ کمبختو تم بھڑوں کے ایسے چھتے میں ہاتھ ڈال رہے ہو جو اپنے چھتے سے نکل کر ساری دنیا میں پھیل جائیں گی اور انسانوں کا زندہ رہنا مشکل کر دیں گی۔ امریکا بہادر نے افغانستان سے مذہبی انتہا پسندوں کو نیٹو کی مدد سے نکالنے کی کوشش کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکا اور نیٹو کی فوجوں کے بھاری نقصان کے علاوہ اربوں ڈالر کا معاشی نقصان ہوا۔
ہم نے افغانستان کی موجودہ صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے اس کا پس منظر بتانے کی کوشش کی افغانستان عشروں کی تباہیوں کے بعد اب امن کی طرف پیش رفت کر رہا ہے اور اس پیش رفت میں پاکستان مثبت کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے جو ایک فال نیک ہے افغان مذاکرات کی کامیابی کے لیے شرط یہ ہے کہ ان مذاکرات سے مغربی ملکوں خصوصاً امریکا کو دور بہت دور رکھا جائے ورنہ نہ صرف مذاکرات بے معنی ہوں گے بلکہ نئے مسائل جنم لیں گے۔