ماہ رمضان اورنیا پاکستان
ہم ایسا بالکل نہیں بننا چاہیے کہ ایک طرف ناجائز منافع خوری بھی کریں اوردوسری طرف زیادہ سے زیادہ خیرات و صدقات بھی کریں
سمجھ میں نہیں آرہا،ہم کیسے لوگ ہیں کہ ایک طرف تو رمضان المبارک جیسے مقدس مہینے کی آمد آمد ہے اور دوسری طرف مارکیٹ سے روز مرہ کی اشیائے ضروریہ غائب ہیں۔ ذخیرہ اندوزوں نے زیادہ منافع کمانے کے چکر میں عوام کو گھما کر رکھ دیا ہے۔ ادارہ شماریات کے مطابق 40 سے زائد اشیاء کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ ہوگیا ہے۔ کیا ہم بے حس ہو گئے ہیں؟ کیا جھوٹ، فراڈ اور ناجائز منافع خوری کے بغیر ہم کامیاب ہی نہیں ہو سکتے؟
ہم نام کے مسلمان بھی نہیں رہے اور جب ہم اجتماعی طور پر خرابی کا شکار ہوں اور خود کو ٹھیک بھی نہ کر سکتے ہوںتو کیسے ممکن ہے کہ نیا پاکستان وجود میں آجائے؟ مجھے بس ایک بات کا جواب چاہیے کہ ہماری قبر کا حساب کیا کسی اور نے دینا ہے؟جو قوم ماہ رمضان میں مہنگائی کرنے سے باز نہیں آتی، ذخیرہ اندوزی سے پرہیز نہیں کرتی، ملاوٹ کرنے سے پرہیز نہیں کرتی میرے خیال میں اُسے کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ کہے ''پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الاللہ۔ ''
یورپ میں تہواروں کی آمد سے پہلے ہی دکانوں میں قیمتوں میں کمی شروع ہو جاتی ہے جو 25 فیصد سے لے کر 75فیصد تک ہوتی ہے۔ یعنی 100روپے کی چیز 25روپے تک آسانی سے مل جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ کرسمس اور ایسٹر کے تہواروں پر صرف کرسچن نہیں بلکہ مسلمان بھی اپنی عید کے لیے پیشگی تیاری کر لیتے ہیں۔ عموعی طور پر بھی امیر اور غریب کے طرز زندگی میں زیادہ فرق دکھائی نہیں دیتا۔
اسلام! جو ہمیں مساوات اور قربانی کا سبق دیتا ہے، ہمارے یہاں رمضان میں کیا ہوتا ہے؟ سفید پوش لوگوں کے دستر خوان پر جو کبھی پھل دکھائی دیے جاتے تھے، اس ہوش ربا مہنگائی کی وجہ سے وہ بھی غائب ہو جاتے ہیں۔ رمضان کا سب سے زیادہ اثر اس طبقہ پر پڑتا ہے جن کے لیے زندگی پہلے ہی مشکل اور ضروریات زندگی پہلے ہی شجر ممنوعہ ہوتی ہیں۔
یہ وہ غریب دیہاڑی دار لوگ ہیں جو روز کماتے اور روز کھاتے ہیں، جنھیں ایک دن کام نہ ملے تو دوسرے دن گھر میں فاقہ ہو جاتا ہے۔ ان کے لیے روز مرہ کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کا مطلب فاقوں میں اضافہ اور مرے پہ سو درّے وہ ٹی وی پروگرام ہیں جن میں کھانا پکانے کی وہ ترکیبیں اور مختلف انواع و اقسام کے وہ کھانے دکھائے جاتے ہیں جن کا وہ غریب شاید خواب میں بھی تصّور نہ کرتے ہوں۔ ان کے لیے تو رمضان میں پکوڑوں کے لیے بیسن اور اضافی تیل بھی بڑی عیاشی ہوتا ہے اوراس لیے اس قسم کے پروگرام اس محروم طبقے کی محرومیوں میں اضافہ کر دیتے ہیں۔
لہٰذا اس حوالے سے ہماری اجتماعی تربیت کی ضرورت ہے اور اس بات کا تعین کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمیں خود کو کیا کرنا ہے؟ جب تک ہم انفرادی طور پر ٹھیک نہیں ہوں گے ''نیا پاکستان'' بھی نہیں بن سکتا۔ آپ یقین کریںکہ چند سال قبل میں نے رمضان کا مہینہ انگلینڈ میں گزارا ۔انگلینڈ کے شہر مانچسٹر میں بہت بڑی تعداد میں پاکستانی رہائش پذیر ہیں لیکن حیرت کی بات یہ تھی اس غیر مسلم ملک میں رمضان کے موقع پر سارے برطانیہ میں سستی اشیا کے ڈھیر لگ گئے ۔جو چاول رمضان سے پہلے 3 پونڈ کے مل رہے تھے، وہ رمضان میں 2 سے ڈیڑھ پونڈ کے مل رہے تھے۔ ایک ہم بدقسمت ملک ہیں جہاں اس مقدس مہینہ کو منافع خوری کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ معذرت کے ساتھ یہاں جس شخص کے نام کے ساتھ حاجی، مولوی لگا ہو اس سے ڈیل کرتے ہوئے بھی ہچکچاہٹ محسوس ہوتی ہے اوررمضان میں تو ویسے ہی ہم ڈرے اور سہمے رہتے ہیں۔
خیر اس مہینے میں غریبوں کی اشک شوئی کے لیے ماضی میں بھی حکومتیں ''رمضان بازار'' قائم کرتی رہی ہیں اور موجودہ حکومت نے بھی قائم کیے ہیں جب کہ موجودہ حکومت نے سابقہ حکومت سے 3ارب روپے زیادہ رکھ کر معرکہ مارا ہے۔ حالانکہ محض پرائز کنٹرول کمیٹیاں ہی اگر صحیح انداز میں کام کرنا شروع کردیں تو اس طرح کے بازار لگانے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ ماضی کے حوالے سے قارئین کو یاد ہوگا کہ ''رمضان بازار'' کے نام پراربوں روپے کی کرپشن کی جاتی رہی، وہاں ہیلی کاپٹرز میں جا کر فوٹو سیشن کرائے جاتے رہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ اس بار ماہ رمضان میں کیا ہوتاہے! اب دیکھنا یہ بھی ہے کہ ہم انفرادی طور پر رمضان میں کیا کرتے ہیں؟ کیا ہم نمازی و پرہیز گار بن کر عوام کو لوٹتے ہیں یا اپنے تئیں قیمتوں میں کمی کا اعلان کرتے ہیں۔ اگر ہم یہ نہیں کر سکتے تو کم از کم اُس چیز کا بائیکاٹ ہی کردیں جس کی مصنوعی قلت پیدا کی جا رہی ہے۔ کیوں کہ ہمارے ملک میں موجود مہنگائی اور ذخیرہ اندوزوں سے نمٹنے کا ایک بہت اچھا حل اشیا کا بائیکاٹ ہے۔ پچھلے سال فروٹ کے بائیکاٹ کی مہم سوشل مڈیا سے شروع ہو کر بہت کامیاب ہوئی۔ بائیکاٹ کی یہ کال سوشل میڈیا کے ذریعے میں نے چلائی تھی۔فروٹ کے ریٹ تین دن میں آدھے ہو گئے تھے۔ اسی طرح بطور قوم ہم اتحاد کر کے ہی ان غلط لوگوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔
اس وقت بھی اگر ہم صرف چکن کا تین دن کے لیے بائیکاٹ کر دیں تو اس کی قیمت خود بخود نیچے آ سکتی ہے۔ چین میں انڈوں کی قلت ہوئی اور قیمت بڑھ گئی۔ عوام نے انڈے خریدنے بند کر دیے اور قیمت خود بخود کم ہو گئی۔ اس طرح کے بائیکاٹ کی دنیا میں مثالیں موجود ہیں۔فرانس کی مثال آپ کے سامنے ہے، وہاں مہنگائی کے خلاف احتجاج نے اس قدر زور پکڑا ہے کہ 6ماہ گزرنے کو ہیں مگر احتجاج کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ اسی وجہ سے وہاں حکومت مجبور ہو چکی ہے کہ ہر چیز کو سستے داموں فراہم کرے۔
پس ہم اپنی برائیوں، ناکامیوں اور غلطیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے ہم دوسروں کا گالیوں کا نشانہ بنا رہے ہوتے ہیں، ہمارا کام محض حکومت کو گالیاں نکالنا رہ گیا ہے،ہمیں کسی نے باہر سے آکر ٹھیک نہیں کرنا، ہمیں عثمان بزدار ٹھیک نہیں کر سکتے، نہ چوہدری نثار کے آنے کے بعد ہم ٹھیک ہو سکتے ہیں۔ ہم اُس وقت ٹھیک ہوسکتے ہیں جب ہم خود کوشش کریں گے۔ ہم تو رمضان میں سوفٹ ہی نہیں ہوتے ، ہمارا لہجہ ہی بدل جاتا ہے، ہمارا رویہ ہی کھا جانے والا ہوتا ہے،ایک بار پھر معذرت کے ساتھ کہ جو روزہ رکھ لیتا ہے وہ گلے پڑ جاتا ہے۔
بہرکیف ہمیں اس ماہ مقدس کے احترام میں مال کی خریدوفروخت میں نرمی کا برتاؤرکھنا چاہیے، ذخیرہ اندوزی سے گریز، ملاوٹ سے مکمل اجتناب، ناجائز منافع خوری سے پرہیز، مال کا عیب نہ چھپانا، پورا ناپنا اور تولنا اور مال بیچنے کے لیے قسمیں کھانے سے احتراز، دوسرے ان تمام باتوں سے بچنا چاہیے جو مسلمان کو روزے کے اجروثواب سے محروم کردیتی ہیں ۔
ہم ایسا بالکل نہیں بننا چاہیے کہ ایک طرف ناجائز منافع خوری بھی کریں اور دوسری طرف زیادہ سے زیادہ خیرات و صدقات بھی کریں، کیوں کہ ناجائز منافع کما کر اس میں سے خیرات کرنے سے وہ مال پاک نہیں ہو جاتا۔ ایسے لوگوں سے صرف اتنی ہی استدعا ہے کہ لوگوں تک صدقات و خیرات پہنچانے کے بجائے مساوات پہنچائیں۔ زیادہ منافع کمانے کے بجاتے قیمتوں میں کمی کر کے صدقہ دیں تاکہ چیزیں لوگوں کی پہنچ میں ہوں اور ان کی عزت نفس بھی محفوظ رہے اور آپ کا نامہ اعمال بھی۔ میرے خیال میں یہی احسن طریقہ ہے نیا پاکستان بنانے کا اور جنت کمانے کا!