تبدیلی نام تھا جس کا

عمران خان کا مزید کوئی قرضہ نہ لینے کا دعویٰ بھی دھرے کا دھرا رہ گیا ہے۔


Asghar Abdullah May 03, 2019
[email protected]

عمران خان نے الیکشن 2019سے پہلے ہی اپنی حکومت کے پہلے سو دن کا پرگرام دے دیا تھا اور یہ دعویٰ کیا تھا کہ پہلے سو دن میں ہی عوام کو ہر سطح پر تبدیلی کا احساس ہو جائے گا۔ وہ وزیراعظم بن گئے، تو انھوں نے اعلان کیا کہ ''نیا پاکستان'' وجود میں آ چکا ہے اور ان کے پہلے تین مہینوں میں ہی بنیادی تبدیلیوں کے خال وخد واضح ہو جائیں گے۔ یہ تین مہینے گزر گئے تو مزید تین مہینے کی مہلت مانگی گئی اور اب جب کہ عمران حکومت کو نواں مہینہ لگ چکا ہے تو اس تبدیلی کا کوئی نشان نظر نہیں آ رہا، جس کی عوام کو نوید سنائی گئی تھی۔

الیکشن سے پہلے کہا گیا کہ ماضی کی حکومتوں نے قوم کو قرضوں میں جکڑ کر دیا ہے، لہٰذا تحریک انصاف کی حکومت مزید قرضے نہیں لے گی۔ لوٹ مار کرنے والوں سیاست دانوں اور سرکاری عہدیداروں سے قوم کا پیسا نکلوائے گی، بلکہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے بھی اپیل کرے گی کہ وہ زیادہ سے زیادہ زرمبادلہ اپنے وطن بھیجیں۔ بیرون ملک پاکستانی یقیناً عمران خان کی اپیل پر لبیک کہیں گے اور یوں ملک میں روپے کی ریل پیل ہو جائے گی۔

لیکن اب تک کی صورتحال یہ ہے کہ باقی کرپشن کیسیز تو رہے ایک طرف، پاناما لیکس میں جن لوگوں کے نام آئے ہیں، ان سے بھی ایک پائی تک وصول نہیں کی جا سکی اور جس طرح چیونٹی کی رفتار سے یہ کیسیز چل رہے ہیں، لگتا نہیں کہ باقی چار سال میں بھی ان لوگوں سے کوئی ریکوری ہو پائے گی۔ بعینہ بیرون ملک پاکستانیوں سے جو امیدیں وابستہ کی گئیں، وہ بھی پوری نہیں ہو سکیں۔

عمران خان کا مزید کوئی قرضہ نہ لینے کا دعویٰ بھی دھرے کا دھرا رہ گیا ہے۔ ان کی حکومت بھی غیرملکی قرضوں کے حصول کے لیے سرگرم ہو چکی ہے۔ پہلے سعودی عرب کے سامنے جھولی پھیلائی گئی۔ پھر متحدہ عرب امارات کے سامنے دست سوال دراز کیا گیا اور اس کے بعد حکومت کشکول لے کر چین پہنچ گئی۔ الیکشن سے پہلے عمران خان کی طرف سے تواتر کے ساتھ کہا گیاکہ اگر تحریک انصاف کی حکومت آئی تو کسی صورت میں بھی آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائے گی۔

آئی ایم ایف کے پاس جانے کا مطلب ہوگا کہ قرضہ کے عوض قوم کو مہنگائی کی چکی میں پیس دیا جائے، کیونکہ آئی ایم ایف کی قرضہ کے عوض پہلی شرط ہی یہ ہوتی ہے۔ مگر آٖفرین ہے حکومت کی زود فراموشی پر کہ اپنا یہ پرشکوہ اعلان بھی یکسر فراموش کر چکی ہے۔ اطلاعات یہ ہیں کہ آئی ایم ایف کے ساتھ حکومت کے مذاکرات آخری مراحل میں ہیں اور جلد ہی حکومت کو مطلوبہ پیکیج مل جائے گا۔

ماضی کی حکومتوں میں روپے کی قدرمیں مسلسل کمی پر بھی عمران خان نالاں رہتے تھے۔ ان کی ناراضی سمجھ میں بھی آتی تھی؛ کیونکہ روپے کی قدر میں کمی سے ہر سطح پر مہنگائی کا جو طوفانی ریلا آتا ہے،اس کو روکنا پھر حکومت سمیت کسی کے بس میں نہیں ہوتا۔الیکشن سے پہلے عمران خان نے اپنی تقریروں میں باربار اور زور دے کر کہا کہ ان کی حکومت آئی تو ڈالر کے مقابلہ میں روپے کی قدر کو بہرصورت مستحکم رکھے گی۔ اب تک مگر موصوف اس میں بھی کامیاب نہیں ہو سکے؛ بلکہ گزشتہ نو مہینوں میں روپے کی قدرماضی سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ گری ہے اور روپیہ بالکل '' ٹکے ٹوکری'' ہوگیا ہے۔ روپے کی قدر میں اس کمی سے ملک میں اتنی تیزی سے مہنگائی بڑھی ہے کہ عوام کی چیخیں نکل گئی ہیں۔

تحریک انصاف حکومت کی مقبولیت میں واضح طور پرکمی واقع ہوئی ہے۔کہنے والے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ روپے کی قیمت میں کمی کا فیصلہ بھی حقیقتاً آئی ایم ایف کے ایما پر ہوا۔اس پر مستزاد تیل کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہے۔ عمران خان اپوزیشن دور میں عوام کو یہی باور کراتے رہے کہ تیل کی قیمتوں میں اضافہ حکومتی ٹیکسوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔ان کی حکومت آتے ہی ایسے تمام غیرضروری ٹیکس ختم کر دے گی۔ تیل کی قیمتیں خودبخود نارمل سطح پر آ جائیں گی۔ لیکن تحریک انصاف کی حکومت آنے سے تیل کی قیمتیں کم کیا ہونی تھیں، مزید اوپر چلی گئی ہیں؛ بلکہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بجائے کمی کے، مسلسل اضافہ ہے۔ یوں ایک عام آدمی جو ماضی کی حکومتوںمیں مہنگائی کی چکی میںپس رہا تھا، اب بھی اسی طرح پس رہا ہے؛ بلکہ اب تو عمران خان خود بھی یہ کہنے لگ گئے ہیں کہ '' عوام کو بہت جلد تبدیلی نظر آ جائے گی''، جس کا مطلب ہے کہ فی الحال تو ان کو بھی نہیں نظر آ رہی۔

اس حقیقت واقعی کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ عمران خان نے نو مہینے پہلے جن بلند بانگ دعووں کے ساتھ خود اپنے ہاتھوں اپنی جو کابینہ تشکیل دی تھی، اس کے اہم ترین ارکان کو ازخود فارغ کر چکے ہیں؛ اسدعمر( خزانہ )، فواد چوہدری ( اطلاعات )، شہر یار آفریدی ( داخلہ )، غلام سرور (پیٹرولیم )، عامر کیانی ( صحت )۔ یاد رہے کہ ان میں سے اسدعمر وہ رکن کابینہ تھے، جن کے وزیرخزانہ بننے کا اعلان عمران خان نے الیکشن 2019سے پہلے ہی کر دیا تھا اور تحریک انصاف میں ان کی اقتصادی امور میں مہارت کا بہت چرچا تھا۔

اس طرح فواد چوہدری کو بھی عمران خان نے اپنے اوپننگ بیٹسمین کے طور پر میدان میں اتارا تھا۔ کابینہ میں یہ بنیادی ردوبدل اس امر کا غماز ہے کہ خودعمران خان بھی مضطرب ہیں اور ان کو بھی معلوم ہے کہ اگر صورت حال میں جلد بہتری نہ آئی تو ان کی حکومت بھی ماضی کی حکومتوں کی طرح عوامی غیظ وغضب کا نشانہ بن سکتی ہے، کیونکہ جو چنگاری ابھی سلگ رہی ہے، جو کسی بھی بھڑک سکتی ہے اور سب کچھ خاکستر بنا سکتی ہے۔

ظاہراً ابھی تک حکومت نے عوام کی توجہ ان کے بنیادی مسائل اور مہنگائی کی طرف سے ہٹانے کا وہی آزمودہ نسخہ اختیار کر رکھا ہے، جو ماضی کی ہر نئی آنے والی حکومت کا وتیرہ رہا ہے ۔2008میں زرداری حکومت نے یہی کہتے کہتے پانچ سال گزار دیے کہ ان کو ورثے میں حالات ہی ایسے ملے ہیں۔ 2013 میں نواز حکومت نے بھی یہی راگ الاپتے الاپتے پانچ سال گزار دیے کہ ان کو ورثے میں حالات ہی ایسے بدتر ملے ہیں، اوراب عمران حکومت بھی وہی راگنی الاپ رہی ہے ۔

اس تناظر میں دیکھا جائے تو عمران خان حکومت اب تک ماضی کی حکومتوں سے قطعاً مختلف ثابت نہیں ہوسکی۔ حکمت عملی کچھ ایسی نظر آ رہی ہے کہ زرداری اور نوازشریف کے خلاف جذبات بھڑکا کر عوام کو ذہنی طور پر مصروف رکھا جائے اور اس طرح زیادہ سے زیادہ وقت حاصل کیا جائے؛ لیکن سیدھی سی بات ہے کہ زرداری اور نوازشریف کے بارے میں عوام اگر کسی خوش فہمی میں مبتلا ہوتے تو عمران خان وزیراعظم بن ہی نہیں سکتے تھے۔

لہٰذا اپوزیشن کو برابھلا کہہ کے حکومت زیادہ دیر تک عوام کی توجہ بھٹکانے میں کامیاب نہیں ہو سکے گی۔ اور اگر کابینہ میں ردوبدل کے بعد بھی حکومت عوام کو ریلیف نہ دے سکی تواس کے نتیجہ میں حکومت کے خلاف بیزاری کی جو لہر اٹھے گی، اس میں ماضی کی حکومتوں کے خلاف اٹھنے والی ایسی لہر سے زیادہ شدت ہو گی، کیونکہ جو خواب عمران خان عوام کو دکھا کر آئے ہیں، وہ بڑے ہی سہانے خواب ہیں اور اس طرح کے خواب عوام نے زرداری اور نوازشریف کے بارے میں نہیں دیکھے تھے اور کہتے ہیںکہ خوابوں کے ٹوٹنے اور بکھرنے کا عمل خواب دیکھنے اور دکھانے والوں، دونوںکے لیے نہایت تکلیف دہ اور کبھی کبھی انتہائی خطرناک بھی ہو جاتا ہے۔ شاعرنے کہا تھا ،

یہ داغ داغ اجالا ، یہ شب گزیدہ سحر

وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |