یوم مئی کیوں مناتے ہیں
دنیا کی بہت بڑی آبادی خاص کرایشیا،افریقہ اورلاطینی امریکا کے ملکوں میں بیشتر مزدوروں کو 8گھنٹے کی ڈیوٹی نصیب نہیں ہے۔
مزدوروں کے ساتھ صدیوں سے غلاموں جیسا سلوک کیا جاتا رہا یا یوں کہہ لیں کہ آج بھی صنعتی غلام ہیں ۔ ایک نہیں تو دوسرے سرمایہ دارکے پاس کام کرنا ہے ۔ یعنی مزدور طبقہ بحیثیت مجموعی سرمایہ دار طبقے کا غلام ہے ۔ صرف آزادی اس بات کی ہے کہ وہ کسی ایک فیکٹری میں کام نہ کرے تو دوسری فیکٹری میں کام کرسکتا ہے ۔ 1886ء سے قبل مزدوروں کو سورج طلوع ہونے سے لے کرغروب ہو نے تک مزدوری کرنی ہوتی تھی ، یعنی 12سے 16گھنٹے ۔ سورج بھی بڑا ظالم ہے ، بڑی دیر میں غروب ہوتا ہے۔
مزدوروں نے تو 1886 ء سے قبل بھی درجنوں بار بڑے بڑے جلسے ، جلوس ، مظاہرے اور ہڑتالیں کیں لیکن ان کے مطالبات تسلیم نہ کیے گئے۔ 1886ء میں دراصل زیادہ بڑی تعداد میں یونینوں، فیڈریشنوں اور انفرادی مزدور دوسرے شہروں سے بھی شکاگو پہنچے ۔ ٹرانسپورٹ کی قلت اور مہنگی ہونے کی وجہ سے انھیں منظم کرنے اور دور دراز علاقوں سے لانے میں ذرا دیر تو لگی ۔ ان کاوشوں میں لگے رہنے سے کامریڈ فلڈن کو جلسہ گاہ میں دوسرے شہر سے مزدوروں کو لے کر آ نے میں دیر ہوئی، مگر مزدوروں کی بڑی تعداد 'شکاگو' '' ہے مارکیٹ '' پہنچی ۔ شکاگو امریکا کا صنعتی اور مزدوروں کا بڑا شہر ہے۔ ان مزدوروں کو منظم کرنے والے اور حوصلہ بڑھانے والے تقریبا ًسارے رہنما انارکسٹ (انارکوکمیونسٹ ) تھے ۔ یکم مئی 1886ء سے ریلیاں اور ہڑتالیں شروع ہوئیں ۔
آخری دن 4 مئی کو جلسے کا اختتام ہونا تھا ۔ ہلکی بارش شروع ہوچکی تھی ۔ سیمؤئل فلڈن جوکہ دیر میں جلسے میں پہنچے تھے ۔ جلسے کا پر امن اختتام کرنے کا اعلان کرنے ہی والے تھے کہ مزدوروں کے اجتماع سے ایک مشکوک شخص نے پولیس پر بم مارے جس کے نتیجے میں ایک پولیس افسر مارا گیا اور کچھ زخمی ہوئے، اسے بہانہ بنا کر قانون نافذ کرنے والے ادارے نے مزدوروں پر اندھا دھند گولیاں چلا دیں ۔ جس کے نتیجے میں درجنوں مزدور ہلاک ہوئے اور 8 رہنماؤں کوگرفتارکر لیا ۔ جن میں سیمؤیل فلڈن ، بزرگ رہنما ایڈولف فیشر ، آگیسٹ اسپائز ، جارج اینگل ، ایلبرٹ پارسن اور لوئس لنک شامل تھے ۔
ان کا آدرش تھا کہ سچائی کو تسلیم کر نا ہی انارکسٹوں ،کمیونسٹوں ، انقلابی سوشلسٹوں اور سچ گو انسانوں کی شان ہے ۔ ان میں سے 2 امریکا کے، 2 جرمنی کے ، 1انگلینڈ کے اور 1آئرلینڈ کے تھے جنھیں تختہ دار پر لٹکایا گیا تھا ۔ حکومت کے معنی ہیں جبر ، بے گانگی ، گمرا ہی اور علیحدگی جب کہ انارکی، آزادی ، اتحاد اور محبت ہے ۔ حکومت کا دار و مدار انانیت اور خوف پر ہے جب کہ انارکی برادری ہے۔ ان آٹھ رہنماؤں کوحکومت نے گرفتار کرنے کے کئی مہینوں بعد شکاگوکی عدالت نے تین کو عمر قید اور تین کو پھانسی دے دی ۔ لوئس لنک نے لاک اپ میں خودکشی کرلی تھی ۔
1893ء میں مزدوروں کے شدید احتجاج کے نتیجے میں تین عمر قید پانے والے مزدور رہنماؤں کو رہا کر دیا گیا تھا ۔ بعد میں شکاگو کے گورنر نے برملا یہ بیان دیا تھا کہ پھانسی پانے والے سارے مزدور رہنما معصوم اور بے قصور تھے ۔ مزدوروں کے بارہ مطالبات تھے ، جن میں 8 گھنٹے ڈیوٹی، 8 گھنٹے سونا اور 8 گھنٹے تفریح ، خواتین مزدوروں کو مرد مزدوروں کے برابر تنخواہ دینا ، 14سال سے کم عمرکے بچوں سے کام نہ لینا ، کام کی جگہ اور حالات کار کو بہتر بنانا ، زخمی مزدوروں کو علاج کی سہولت دینا اور مزدوروں کے مطالبات کو قانونی حیثیت دینا وغیرہ وغیرہ شامل تھے ۔
بعد ازاں امریکی حکومت نے ، یورپ نے اور پھر اقوام متحدہ نے قانونا ًمزدوروں کی 8 گھنٹے کی ڈیوٹی کو تسلیم کر لیا جسے دنیا بھرکے ملکوں پر لاگو کرنے کا قانون پاس ہوا ۔ یہ 8گھنٹے کی ڈیوٹی کسی حکومت ، صدر ، وزیراعظم یا لیبر منسٹر یا جماعت یا لیڈر نے نہیں منوائی بلکہ انارکسٹوں ، مزدوروں اور انقلابیوں نے پھانسی پر لٹک کر اپنے مطالبات منوائے۔ انھوں نے پھا نسی پر لٹکنے سے قبل حکمرانوں کو للکارتے ہو ئے کہا کہ '' تم آج ہماری آوازکو روک رہے ہو ،کل یہ آواز تلوار بن کے نکلے گی ، کیؤں نے پھانسی کی رسی کو چومتے ہوئے گلے میں خود ڈا لا ا ورکہا کہ '' یہ رسی ہمارے مزدور ساتھیوں نے ہی بنائی ہے۔''
اب یہ سوال پیدا ہو تا ہے کہ دنیا بھر میں 8 گھنٹے کی ڈیوٹی کروانے کے لیے حکومتوں، جماعتوں اور لیڈروں کے بغیرکیوں کر انجام پایا۔ یہ صرف مزدورطبقے کی یکجہتی ، عزم اور انارکیت کی وجہ سے ممکن ہو پایا ۔اس سے قبل بھی 1871ء میں انار کسٹوں نے مزدوروں کی پیرس کمیون تشکیل دی تھی ۔ یہ مزدورکمیون 70دن قائم رہی ، لیکن ان 70 دن میں کوئی بھوکا مرا، لا علاج رہا، خود کشی کی، عصمت فروشی ہوئی ، ڈاکے پڑے ، چوری ہوئی اور نہ ہی کوئی بے روزگار رہا ۔ مزدور طبقے نے یہ کر دکھا یا کہ ''ہم ایسا کرسکتے ہیں ۔''َ
مگر آج بھی دنیا کی بہت بڑی آبادی خاص کر ایشیا، افریقہ اور لا طینی امریکا کے ملکوں میں بیشتر مزدوروں کو 8گھنٹے کی ڈیوٹی نصیب نہیں ہے۔ خاص کر پاکستان میں تو 90 فیصد مزدور 10گھنٹے سے لے کر 14گھنٹے کام کرنے پر مجبور ہیں ۔ حکومت کی جانب سے ایک غیر ہنر مند مزدورکی 16ہزار روپے تنخواہ دینے کا اعلان ہوا ہے لیکن 90 فیصد مزدوروں کو 6 ہزار سے 12 ہزار روپے سے زیادہ تنخواہیں نہیں ملتیں ۔ جب کہ اسمبلی ارکان جو پہلے سے کروڑ پتی اور ارب پتی ہیں انھیں لاکھوں روپے تنخواہیں دی جاتی ہے ۔
پاکستان میں تو ان ساری باتوں کے علاوہ سب سے زیادہ مزدوروں کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے ۔ مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہیں ، بھوک سے روزانہ لوگ مر رہے ہیں ، لاعلاجی سے مرنا تو ان کا مقدر بن چکا ہے، یہاں مزدور ایک زندہ لاش ہے۔ اس لیے آئیے! ہم محنت کش کم ازکم جینے کے حق کے حصول کے لیے متحدہ جدوجہد کو آگے بڑھائیں ۔ یہ جدوجہد بار بار بغاوتوں کو جنم دے گی ، انقلاب آئے گا ، پھر راج کرے گا مزدورکسان ۔ جیسا کہ غلامی سے جاگیرداری اور اب سرمایہ داری سے اشتمالیت یا امداد باہمی کا آزاد معاشرہ ہوگا جہاں دنیا ایک ہوجائے گی ۔ دنیا کی ساری دولت کے مالک سارے لوگ ہونگے ، مل کر پیداوارکریں گے اور مل کرکھائیں گے ۔
مزدوروں نے تو 1886 ء سے قبل بھی درجنوں بار بڑے بڑے جلسے ، جلوس ، مظاہرے اور ہڑتالیں کیں لیکن ان کے مطالبات تسلیم نہ کیے گئے۔ 1886ء میں دراصل زیادہ بڑی تعداد میں یونینوں، فیڈریشنوں اور انفرادی مزدور دوسرے شہروں سے بھی شکاگو پہنچے ۔ ٹرانسپورٹ کی قلت اور مہنگی ہونے کی وجہ سے انھیں منظم کرنے اور دور دراز علاقوں سے لانے میں ذرا دیر تو لگی ۔ ان کاوشوں میں لگے رہنے سے کامریڈ فلڈن کو جلسہ گاہ میں دوسرے شہر سے مزدوروں کو لے کر آ نے میں دیر ہوئی، مگر مزدوروں کی بڑی تعداد 'شکاگو' '' ہے مارکیٹ '' پہنچی ۔ شکاگو امریکا کا صنعتی اور مزدوروں کا بڑا شہر ہے۔ ان مزدوروں کو منظم کرنے والے اور حوصلہ بڑھانے والے تقریبا ًسارے رہنما انارکسٹ (انارکوکمیونسٹ ) تھے ۔ یکم مئی 1886ء سے ریلیاں اور ہڑتالیں شروع ہوئیں ۔
آخری دن 4 مئی کو جلسے کا اختتام ہونا تھا ۔ ہلکی بارش شروع ہوچکی تھی ۔ سیمؤئل فلڈن جوکہ دیر میں جلسے میں پہنچے تھے ۔ جلسے کا پر امن اختتام کرنے کا اعلان کرنے ہی والے تھے کہ مزدوروں کے اجتماع سے ایک مشکوک شخص نے پولیس پر بم مارے جس کے نتیجے میں ایک پولیس افسر مارا گیا اور کچھ زخمی ہوئے، اسے بہانہ بنا کر قانون نافذ کرنے والے ادارے نے مزدوروں پر اندھا دھند گولیاں چلا دیں ۔ جس کے نتیجے میں درجنوں مزدور ہلاک ہوئے اور 8 رہنماؤں کوگرفتارکر لیا ۔ جن میں سیمؤیل فلڈن ، بزرگ رہنما ایڈولف فیشر ، آگیسٹ اسپائز ، جارج اینگل ، ایلبرٹ پارسن اور لوئس لنک شامل تھے ۔
ان کا آدرش تھا کہ سچائی کو تسلیم کر نا ہی انارکسٹوں ،کمیونسٹوں ، انقلابی سوشلسٹوں اور سچ گو انسانوں کی شان ہے ۔ ان میں سے 2 امریکا کے، 2 جرمنی کے ، 1انگلینڈ کے اور 1آئرلینڈ کے تھے جنھیں تختہ دار پر لٹکایا گیا تھا ۔ حکومت کے معنی ہیں جبر ، بے گانگی ، گمرا ہی اور علیحدگی جب کہ انارکی، آزادی ، اتحاد اور محبت ہے ۔ حکومت کا دار و مدار انانیت اور خوف پر ہے جب کہ انارکی برادری ہے۔ ان آٹھ رہنماؤں کوحکومت نے گرفتار کرنے کے کئی مہینوں بعد شکاگوکی عدالت نے تین کو عمر قید اور تین کو پھانسی دے دی ۔ لوئس لنک نے لاک اپ میں خودکشی کرلی تھی ۔
1893ء میں مزدوروں کے شدید احتجاج کے نتیجے میں تین عمر قید پانے والے مزدور رہنماؤں کو رہا کر دیا گیا تھا ۔ بعد میں شکاگو کے گورنر نے برملا یہ بیان دیا تھا کہ پھانسی پانے والے سارے مزدور رہنما معصوم اور بے قصور تھے ۔ مزدوروں کے بارہ مطالبات تھے ، جن میں 8 گھنٹے ڈیوٹی، 8 گھنٹے سونا اور 8 گھنٹے تفریح ، خواتین مزدوروں کو مرد مزدوروں کے برابر تنخواہ دینا ، 14سال سے کم عمرکے بچوں سے کام نہ لینا ، کام کی جگہ اور حالات کار کو بہتر بنانا ، زخمی مزدوروں کو علاج کی سہولت دینا اور مزدوروں کے مطالبات کو قانونی حیثیت دینا وغیرہ وغیرہ شامل تھے ۔
بعد ازاں امریکی حکومت نے ، یورپ نے اور پھر اقوام متحدہ نے قانونا ًمزدوروں کی 8 گھنٹے کی ڈیوٹی کو تسلیم کر لیا جسے دنیا بھرکے ملکوں پر لاگو کرنے کا قانون پاس ہوا ۔ یہ 8گھنٹے کی ڈیوٹی کسی حکومت ، صدر ، وزیراعظم یا لیبر منسٹر یا جماعت یا لیڈر نے نہیں منوائی بلکہ انارکسٹوں ، مزدوروں اور انقلابیوں نے پھانسی پر لٹک کر اپنے مطالبات منوائے۔ انھوں نے پھا نسی پر لٹکنے سے قبل حکمرانوں کو للکارتے ہو ئے کہا کہ '' تم آج ہماری آوازکو روک رہے ہو ،کل یہ آواز تلوار بن کے نکلے گی ، کیؤں نے پھانسی کی رسی کو چومتے ہوئے گلے میں خود ڈا لا ا ورکہا کہ '' یہ رسی ہمارے مزدور ساتھیوں نے ہی بنائی ہے۔''
اب یہ سوال پیدا ہو تا ہے کہ دنیا بھر میں 8 گھنٹے کی ڈیوٹی کروانے کے لیے حکومتوں، جماعتوں اور لیڈروں کے بغیرکیوں کر انجام پایا۔ یہ صرف مزدورطبقے کی یکجہتی ، عزم اور انارکیت کی وجہ سے ممکن ہو پایا ۔اس سے قبل بھی 1871ء میں انار کسٹوں نے مزدوروں کی پیرس کمیون تشکیل دی تھی ۔ یہ مزدورکمیون 70دن قائم رہی ، لیکن ان 70 دن میں کوئی بھوکا مرا، لا علاج رہا، خود کشی کی، عصمت فروشی ہوئی ، ڈاکے پڑے ، چوری ہوئی اور نہ ہی کوئی بے روزگار رہا ۔ مزدور طبقے نے یہ کر دکھا یا کہ ''ہم ایسا کرسکتے ہیں ۔''َ
مگر آج بھی دنیا کی بہت بڑی آبادی خاص کر ایشیا، افریقہ اور لا طینی امریکا کے ملکوں میں بیشتر مزدوروں کو 8گھنٹے کی ڈیوٹی نصیب نہیں ہے۔ خاص کر پاکستان میں تو 90 فیصد مزدور 10گھنٹے سے لے کر 14گھنٹے کام کرنے پر مجبور ہیں ۔ حکومت کی جانب سے ایک غیر ہنر مند مزدورکی 16ہزار روپے تنخواہ دینے کا اعلان ہوا ہے لیکن 90 فیصد مزدوروں کو 6 ہزار سے 12 ہزار روپے سے زیادہ تنخواہیں نہیں ملتیں ۔ جب کہ اسمبلی ارکان جو پہلے سے کروڑ پتی اور ارب پتی ہیں انھیں لاکھوں روپے تنخواہیں دی جاتی ہے ۔
پاکستان میں تو ان ساری باتوں کے علاوہ سب سے زیادہ مزدوروں کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے ۔ مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہیں ، بھوک سے روزانہ لوگ مر رہے ہیں ، لاعلاجی سے مرنا تو ان کا مقدر بن چکا ہے، یہاں مزدور ایک زندہ لاش ہے۔ اس لیے آئیے! ہم محنت کش کم ازکم جینے کے حق کے حصول کے لیے متحدہ جدوجہد کو آگے بڑھائیں ۔ یہ جدوجہد بار بار بغاوتوں کو جنم دے گی ، انقلاب آئے گا ، پھر راج کرے گا مزدورکسان ۔ جیسا کہ غلامی سے جاگیرداری اور اب سرمایہ داری سے اشتمالیت یا امداد باہمی کا آزاد معاشرہ ہوگا جہاں دنیا ایک ہوجائے گی ۔ دنیا کی ساری دولت کے مالک سارے لوگ ہونگے ، مل کر پیداوارکریں گے اور مل کرکھائیں گے ۔