بڑھتی ہوئی سیاسی اخلاق باختگی
نئی نسل اپنے پسندیدہ رہنماؤں کی تقاریر کے انداز پر کڑی نظر رکھتی ہے اور ان کا انداز اپناتی ہے۔
ملک میں بڑھتی ہوئی سیاسی اخلاق باختگی کوئی نئی بات نہیں۔ 45 سال قبل پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں شروع ہوئی تھی اور بلاول زرداری کے نانا ذوالفقار علی بھٹو اس وقت ملک کے وزیر اعظم تھے جنھوں نے اپنے سیاسی مخالفین کو مختلف ناموں سے مخاطب کیا تھا جن میں ایک مسلم لیگی رہنما ممتاز محمد خان دولتانہ اور دوسرے مسلم لیگ قیوم کے سربراہ خان عبدالقیوم خان تھے۔ قیوم خان کو بھٹو حکومت میں وزیر داخلہ جیسا اہم عہدہ دیا گیا تھا۔ قیوم خان کے متعلق بھٹو صاحب انھیں آگے سے بھی خان پیچھے سے بھی خان کہا کرتے تھے۔
مشہور سیاستدان اصغر خان کو بھی وزیر اعظم بھٹو نے آلو خان کا نام دیا تھا اور بعد میں دولتانہ کو برطانیہ میں سفیر بھی بنایا تھا۔ اس وقت پیپلز پارٹی کی مخالفت میں مسلم لیگ ہی تھی جو مغربی پاکستان میں مسلم لیگ کونسل اور قیوم گروپوں میں منقسم تھی اور بعد میں مرحوم پیر صاحب کو بھی مسلم لیگ کا سربراہ بنایا گیا تھا ، جو اب مسلم لیگ فنکشنل ہے اور ضیا دور کے وزیر اعظم محمد خان جونیجو کا تعلق پیر پگاڑا کی مسلم لیگ سے تھا، جو اس وقت پاکستان مسلم لیگ تھی۔
بھٹو صاحب اپنے مخالفین کا تمسخر اڑاتے تھے اور ان کی صلاحیتوں سے فائدہ بھی اٹھاتے تھے۔ بھٹو حکومت کے آخری دنوں میں ان کے کزن ممتاز علی بھٹو جوش میں مخالفین کے لیے جلسوں میں بھی قابل اعتراض الفاظ استعمال کر جایا کرتے تھے۔
ذوالفقار علی بھٹو کے بعد طویل عرصہ جنرل ضیا الحق کی حکومت رہی مگر وہ اپنے سیاسی مخالفین کو بھی عزت دیتے تھے اور بعض مواقع پر جنرل ضیا اپنے مخالف رہنماؤں کی گاڑی کا دروازہ خود کھولنے سے گریز نہیں کرتے تھے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں ان کے مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائیاں بھی ہوئیں جب کہ بھٹو حکومت کے خلاف پی این اے کی تحریک میں ان کے مخالفین کو نہ صرف گرفتار کیا گیا بلکہ جیلوں میں ان کے ساتھ ناروا سلوک اور بداخلاقی کی بھی شکایات سنی جاتی تھیں۔
بینظیر بھٹو کی حکومت کے وقت راولپنڈی کے فرزند شیخ رشید احمد میاں نواز شریف کے قریبی ساتھی تھے اور انھوں نے وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے خلاف سیاست میں متعدد بار قابل اعتراض الفاظ استعمال کیے جس پر وہ گرفتار بھی ہوئے تھے۔
ملک میں سیاسی اخلاق باختگی کی ابتدا خود شیخ رشید نے کی جو اب انتہا پر ہے جس کی وجہ سے انھیں بھی مخالفین کی طرف سے راولپنڈی کا شیطان اور شیدا ٹلی جیسے خطابات ملے۔
جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف کے فوجی ادوار اور تین سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ قائد اعظم کی دو عشروں تک حکومت رہی مگر مخالفین کے لیے کبھی قابل اعتراض الفاظ استعمال نہیں ہوئے اور سیاست میں جارحانہ رویہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے اختیار کیا۔ انھوں نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو ''اوئے نواز شریف !'' سے مخاطب کرنا شروع کیا تھا اور بات اب بڑھتے بڑھتے ''بلاول بھٹو زرداری صاحبہ'' تک پہنچ گئی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ تین سیاسی اور دو فوجی حکومتوں میں سیاسی اخلاق باختگی کا مظاہرہ اس قدر کبھی نہیں ہوا جتنا عمران خان کے سیاست میں آنے کے بعد ہوا۔ عمران خان کے مخالفین انھیں سیاست میں گالم گلوچ اور غیر اخلاقی جملے کسنے، سرکاری افسروں کی تقریروں میں تذلیل کا ذمے دار قرار دیتے ہیں۔ ایک شرم ناک واقعہ ٹاک شو کے دوران پیش آیا تھا اور یہ ابتدا پی ٹی آئی رہنما نعیم الحق نے کی تھی جس میں انھوں نے شو کے دوران ایک مسلم لیگی رہنما دانیال عزیز کو تھپڑ مار دیا تھا جس پر کہا جاتا ہے کہ عمران خان نے ان کی سرزنش کی بجائے ستائش کی تھی۔ اگر یہ طریقہ وسیع ہوتا تو ٹی وی چینلز کو ایسے مہمانوں کو روکنے کے لیے انتظامات کرنا پڑتے۔
اسلام آباد کے ایک تعلیمی ادارے میں ملک کے ایک سینئر صحافی سے ایک طالبہ نے وفاقی وزیر شیخ رشید احمد کے بلاول زرداری سے متعلق ذو معنی جملوں سے متعلق سوال کیا مگر سینئر صحافی جواب نہ دے سکے اور صرف اتنا کہا کہ شیخ رشید کو ایسے جملوں سے گریز کرنا چاہیے۔ شیخ رشید احمد پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری کو پہلے ''بلو رانی'' کہتے تھے اب ''چیکو'' قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ وزیر اعظم نے اگر بلاول کو ''صاحبہ'' کہہ دیا تو کوئی بات نہیں ہے۔
شیخ رشید کے قریب وزیر اعظم کی طرف سے بلاول کو ''صاحبہ'' قرار دینا اور خود ان کی طرف سے ''بلو رانی'' یا ''چیکو'' کہہ دینا کوئی اہمیت نہیں رکھتا کیونکہ وہ جب خود متنازعہ باتیں کرتے ہیں تو انھیں وہ برا نہیں لگتا تو وزیر اعظم کا کہا کیسے برا لگ سکتا ہے؟ مسلم لیگ (ق) کے وفاقی وزیر چیمہ کی حال ہی میں پنجاب سے پی ٹی آئی کے ایک رکن کے ساتھ بھی تلخ کلامی ہوئی جب کہ اس سے قبل وزیر موصوف ایک صحافی کو محض اس بات پر گالیاں اور دھمکیاں دے چکے ہیں کہ صحافی نے ان کی کسی سے ملاقات کی خبر لگا دی تھی جس کی وہ تردید پر تیار تھا مگر وزیر موصوف کی رعونت ختم نہیں ہو رہی تھی۔
بھٹو مرحوم اور عمران خان کے دور اور دونوں کا موازنہ کیا جائے تو ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار میں آنے سے قبل اپنے مخالفین کے ساتھ ایسا جارحانہ رویہ اختیار نہیں کیا جیسا عمران خان نے اپنے لاہور کے پہلے کامیاب دھرنے کی کامیابی کے بعد اپنے مخالفین کے خلاف اختیار کرنا شروع کیا تھا۔ عمران خان کے جارحانہ انداز پر سیاسی اعتراضات بھی ہوئے مگر ان کے اس انداز کو ان کے نوجوان حامیوں نے پسند بھی کیا اور یہ جارحانہ انداز ہی ان کی کامیابی کی وجہ بھی بنا اور انھیں پسند کیا گیا، مگر ان کے مخالفین اعتراض کرتے رہے۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثنا اللہ بھی مخالفین کو جواب دینے میں فواد چوہدری اور شیخ رشید سے کم نہیں ہیں اور ان کی بدکلامی کے بھی چرچے ہیں۔
نئی نسل اپنے پسندیدہ رہنماؤں کی تقاریر کے انداز پر کڑی نظر رکھتی ہے اور ان کا انداز اپناتی ہے۔ وہ اس کی اچھائی اور برائی سے متاثر ہوتی ہے اور انھیں اپنے پسندیدہ رہنما کی خامی بھی برائی محسوس نہیں ہوتی بلکہ وہ اس کی فخریہ تقلید کرتے ہیں اس لیے وہ اپنے لیڈر کو کبھی برا کہتے ہیں نہ کہنے دیتے ہیں جس سے سیاسی جھگڑے بڑھتے ہیں اس لیے قومی رہنماؤں کا فرض بنتا ہے کہ وہ خود کو اخلاقیات کے دائرے میں رکھیں۔
مشہور سیاستدان اصغر خان کو بھی وزیر اعظم بھٹو نے آلو خان کا نام دیا تھا اور بعد میں دولتانہ کو برطانیہ میں سفیر بھی بنایا تھا۔ اس وقت پیپلز پارٹی کی مخالفت میں مسلم لیگ ہی تھی جو مغربی پاکستان میں مسلم لیگ کونسل اور قیوم گروپوں میں منقسم تھی اور بعد میں مرحوم پیر صاحب کو بھی مسلم لیگ کا سربراہ بنایا گیا تھا ، جو اب مسلم لیگ فنکشنل ہے اور ضیا دور کے وزیر اعظم محمد خان جونیجو کا تعلق پیر پگاڑا کی مسلم لیگ سے تھا، جو اس وقت پاکستان مسلم لیگ تھی۔
بھٹو صاحب اپنے مخالفین کا تمسخر اڑاتے تھے اور ان کی صلاحیتوں سے فائدہ بھی اٹھاتے تھے۔ بھٹو حکومت کے آخری دنوں میں ان کے کزن ممتاز علی بھٹو جوش میں مخالفین کے لیے جلسوں میں بھی قابل اعتراض الفاظ استعمال کر جایا کرتے تھے۔
ذوالفقار علی بھٹو کے بعد طویل عرصہ جنرل ضیا الحق کی حکومت رہی مگر وہ اپنے سیاسی مخالفین کو بھی عزت دیتے تھے اور بعض مواقع پر جنرل ضیا اپنے مخالف رہنماؤں کی گاڑی کا دروازہ خود کھولنے سے گریز نہیں کرتے تھے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں ان کے مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائیاں بھی ہوئیں جب کہ بھٹو حکومت کے خلاف پی این اے کی تحریک میں ان کے مخالفین کو نہ صرف گرفتار کیا گیا بلکہ جیلوں میں ان کے ساتھ ناروا سلوک اور بداخلاقی کی بھی شکایات سنی جاتی تھیں۔
بینظیر بھٹو کی حکومت کے وقت راولپنڈی کے فرزند شیخ رشید احمد میاں نواز شریف کے قریبی ساتھی تھے اور انھوں نے وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے خلاف سیاست میں متعدد بار قابل اعتراض الفاظ استعمال کیے جس پر وہ گرفتار بھی ہوئے تھے۔
ملک میں سیاسی اخلاق باختگی کی ابتدا خود شیخ رشید نے کی جو اب انتہا پر ہے جس کی وجہ سے انھیں بھی مخالفین کی طرف سے راولپنڈی کا شیطان اور شیدا ٹلی جیسے خطابات ملے۔
جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف کے فوجی ادوار اور تین سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ قائد اعظم کی دو عشروں تک حکومت رہی مگر مخالفین کے لیے کبھی قابل اعتراض الفاظ استعمال نہیں ہوئے اور سیاست میں جارحانہ رویہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے اختیار کیا۔ انھوں نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو ''اوئے نواز شریف !'' سے مخاطب کرنا شروع کیا تھا اور بات اب بڑھتے بڑھتے ''بلاول بھٹو زرداری صاحبہ'' تک پہنچ گئی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ تین سیاسی اور دو فوجی حکومتوں میں سیاسی اخلاق باختگی کا مظاہرہ اس قدر کبھی نہیں ہوا جتنا عمران خان کے سیاست میں آنے کے بعد ہوا۔ عمران خان کے مخالفین انھیں سیاست میں گالم گلوچ اور غیر اخلاقی جملے کسنے، سرکاری افسروں کی تقریروں میں تذلیل کا ذمے دار قرار دیتے ہیں۔ ایک شرم ناک واقعہ ٹاک شو کے دوران پیش آیا تھا اور یہ ابتدا پی ٹی آئی رہنما نعیم الحق نے کی تھی جس میں انھوں نے شو کے دوران ایک مسلم لیگی رہنما دانیال عزیز کو تھپڑ مار دیا تھا جس پر کہا جاتا ہے کہ عمران خان نے ان کی سرزنش کی بجائے ستائش کی تھی۔ اگر یہ طریقہ وسیع ہوتا تو ٹی وی چینلز کو ایسے مہمانوں کو روکنے کے لیے انتظامات کرنا پڑتے۔
اسلام آباد کے ایک تعلیمی ادارے میں ملک کے ایک سینئر صحافی سے ایک طالبہ نے وفاقی وزیر شیخ رشید احمد کے بلاول زرداری سے متعلق ذو معنی جملوں سے متعلق سوال کیا مگر سینئر صحافی جواب نہ دے سکے اور صرف اتنا کہا کہ شیخ رشید کو ایسے جملوں سے گریز کرنا چاہیے۔ شیخ رشید احمد پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری کو پہلے ''بلو رانی'' کہتے تھے اب ''چیکو'' قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ وزیر اعظم نے اگر بلاول کو ''صاحبہ'' کہہ دیا تو کوئی بات نہیں ہے۔
شیخ رشید کے قریب وزیر اعظم کی طرف سے بلاول کو ''صاحبہ'' قرار دینا اور خود ان کی طرف سے ''بلو رانی'' یا ''چیکو'' کہہ دینا کوئی اہمیت نہیں رکھتا کیونکہ وہ جب خود متنازعہ باتیں کرتے ہیں تو انھیں وہ برا نہیں لگتا تو وزیر اعظم کا کہا کیسے برا لگ سکتا ہے؟ مسلم لیگ (ق) کے وفاقی وزیر چیمہ کی حال ہی میں پنجاب سے پی ٹی آئی کے ایک رکن کے ساتھ بھی تلخ کلامی ہوئی جب کہ اس سے قبل وزیر موصوف ایک صحافی کو محض اس بات پر گالیاں اور دھمکیاں دے چکے ہیں کہ صحافی نے ان کی کسی سے ملاقات کی خبر لگا دی تھی جس کی وہ تردید پر تیار تھا مگر وزیر موصوف کی رعونت ختم نہیں ہو رہی تھی۔
بھٹو مرحوم اور عمران خان کے دور اور دونوں کا موازنہ کیا جائے تو ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار میں آنے سے قبل اپنے مخالفین کے ساتھ ایسا جارحانہ رویہ اختیار نہیں کیا جیسا عمران خان نے اپنے لاہور کے پہلے کامیاب دھرنے کی کامیابی کے بعد اپنے مخالفین کے خلاف اختیار کرنا شروع کیا تھا۔ عمران خان کے جارحانہ انداز پر سیاسی اعتراضات بھی ہوئے مگر ان کے اس انداز کو ان کے نوجوان حامیوں نے پسند بھی کیا اور یہ جارحانہ انداز ہی ان کی کامیابی کی وجہ بھی بنا اور انھیں پسند کیا گیا، مگر ان کے مخالفین اعتراض کرتے رہے۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثنا اللہ بھی مخالفین کو جواب دینے میں فواد چوہدری اور شیخ رشید سے کم نہیں ہیں اور ان کی بدکلامی کے بھی چرچے ہیں۔
نئی نسل اپنے پسندیدہ رہنماؤں کی تقاریر کے انداز پر کڑی نظر رکھتی ہے اور ان کا انداز اپناتی ہے۔ وہ اس کی اچھائی اور برائی سے متاثر ہوتی ہے اور انھیں اپنے پسندیدہ رہنما کی خامی بھی برائی محسوس نہیں ہوتی بلکہ وہ اس کی فخریہ تقلید کرتے ہیں اس لیے وہ اپنے لیڈر کو کبھی برا کہتے ہیں نہ کہنے دیتے ہیں جس سے سیاسی جھگڑے بڑھتے ہیں اس لیے قومی رہنماؤں کا فرض بنتا ہے کہ وہ خود کو اخلاقیات کے دائرے میں رکھیں۔