شہر بارشوں کے اثرات سے نہیں نکل سکا
جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر اور جوہڑ، وبائی امراض پھوٹنے لگے
کراچی میں ہونے والی حالیہ بارشوں نے جہاں حکومتی دعوؤں کو کھوکھلا ثابت کیا ہے وہاں شہر تاحال بارشوں کے اثرات سے نہیں نکل سکا ہے۔
شہر کے کئی علاقوں میں نکاسی آب کا کام تو کافی حد تک مکمل ہو چکا ہے لیکن شاہ راہوں، گلیوں اور برساتی نالوں میں کچرے کے ڈھیر تاحال صاف نہیں کیے جا سکے ہیں۔ غالب امکان یہی ہے کہ آئندہ چند روز میں اگر بارشوں کا کوئی نیا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو شہری کسی بھی قسم کی بہتری کی امید نہ رکھیں۔
تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ بارش کے باعث جگہ جگہ گندگی اور کچرے کے ڈھیر جمع ہیں۔ اولڈ سٹی ایریا کی حالت تو بالکل ناقابل بیان ہے۔ ایمپریس مارکیٹ، برنس روڈ، رنچھوڑ لائن، کھارادر، فریئر روڈ، پاکستان چوک، کینٹ اسٹیشن، بولٹن مارکیٹ، ریلوے کالونی، سلطان آباد اور دیگر مقامات پر صحت و صفائی کی صورت حال انتہائی ابتر ہو گئی ہے۔ صدر ٹاؤن کی 260 کچرا کنڈیوں میں سے بیش تر کچرا کنڈیاں بھری ہوئی ہیں۔ ان کچرا کنڈیوں کی صفائی کا کام باقاعدگی سے نہیں کیا جا رہا ہے۔ ایس ایم لا کالج، رنچھوڑ لائن، پاکستان چوک، برنس روڈ، سندھ سیکریٹریٹ، فریئر روڈ، اردو بازار و دیگر مقامات پر کچرا کنڈیاں کچرے سے بھری ہوئی ہیں اور کچرا سڑکوں پر دور دور تک پھیل گیا جس کی وجہ سے ان علاقوں میں سخت تعفن پھیل رہا ہے۔
برنس روڈ کی گوشت مارکیٹ میں بھی صورت حال انتہائی ابتر ہے۔ بارشوں کے بعد گوشت مارکیٹ کا سیوریج سسٹم چوک ہو گیا اور گٹر ابل پڑے ہیں ۔ سیوریج کا گندہ پانی مارکیٹ میں جگہ جگہ کھڑا ہوا ہے اور سخت تعفن پھیلا ہوا ہے جس کی وجہ سے گاہکوں کے ساتھ ساتھ دکان داروں کو بھی شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ رنچھوڑ لائن میں نارائن پورہ اور اس کے اطراف واقع کچرا کنڈیوں کی صفائی کئی ہفتوں سے نہیں ہوئی اور مجبوراً لوگ اپنی مدد آپ کے تحت کچرے کو آگ لگا رہے ہیں۔ دریں اثناء حالیہ بارشوں میں جو دیگر علاقے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں ان میں اسکیم 33، سعدی ٹاؤن، امروہہ سوسائٹی، فیڈرل بی ایریا اور دیگر شامل ہیں۔
شہر میں صفائی ستھرائی کی ناقص صورت حال کے باعث وبائی امراض پھوٹ پڑے ہیں۔ مکھیوں اور مچھروں کی بہتات کی وجہ سے رواں برس ڈینگی وائرس جس خطرناک طریقے سے حملہ آور ہوا ہے اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ روزنامہ ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق تین روز قبل تک شہر کے مختلف ہسپتالوں میں ڈینگی وائرس کا شکار 711 مریض لائے گئے، جن میں سے چھ مریض جاں بحق ہوگئے۔ واضح رہے کہ گزشتہ برس اگست تک یہ تعداد صرف 143 تھی۔ اگرچہ سرکاری سطح پر ڈینگی سے متاثرہ مریضوں کی تعداد 700 سے کچھ زیادہ بتائی جا رہی ہے لیکن غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق یہ تعداد دو ہزار سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔
دوسری جانب سرکاری اسپتالوں میں ڈینگی سے متاثرہ مریضوں کے لیے تاحال نہ تو آئی سولیشن وارڈ قائم کیے جا سکے ہیں اور نہ ہی حکومت کی جانب سے پلیٹ لیٹ اور دیگر تشخیص کی سہولتیں مہیا کی گئی ہیں۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ڈینگی وائر س کی شدت کا موسم شروع ہو چکا ہے، بارشوں کے بعد ڈینگی وائرس کا سبب بننے والے مادہ مچھروں کے انڈوں سے لاروے تیزی سے نکلنا شروع ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی افزائش نسل تیزی سے ہوتی ہے۔ مچھر زندہ رہنے کے لیے اپنی غذا انسان کو کاٹ کر حاصل کر تے ہیں، جس کی وجہ سے وائرس شدت اختیار کرتا ہے۔
بارش کے باعث گندگی اور صفائی کے ناقص انتظامات کے باعث نہ صرف ڈینگی بلکہ کراچی سمیت صوبہ بھر میں ڈائیریا کا مرض بھی ہول ناک صورت اختیار کر چکا ہے۔ ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سندھ کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق 17اگست تک کراچی سمیت صوبہ بھر میں 24 ہزار افراد ڈائیریا کے مرض میں رپورٹ ہو چکے ہیں۔ ان میں بچوں اور خواتین کی تعداد نصف بتائی جاتی ہے۔ ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ اشفاق میمن کے مطابق ڈائیریا کا مرض کراچی کے مقابلے میں اندرون سندھ میں ہول ناک صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ مرض بارشوں کے موسم میں تیزی سے جنم لیتا ہے کیوں کہ اس موسم میں مکھیوں کی بہتات ہو جاتی ہے اور کھانے پینے کے آلودہ پانی سے ڈائیریا، ہیضہ اور گیسٹرو کی بیماریاں تیزی سے جنم لیتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ صرف 17 دن میں 24 ہزار ڈائیریا کے مریض رپورٹ ہونا ہول ناک ترین صورت حال ہے۔
اگرچہ شہر بھر میں وبائی امراض پر قابو پانے بالخصوص مکھیوں اور مچھروں کے خاتمے کے لیے اسپرے مہم اتوار 18 اگست سے شروع ہو چکی ہے اور یہ دو ستمبر تک جاری رہے گی لیکن بلدیہ عظمیٰ کراچی اور پانچوں ضلعی کارپوریشنز کو بدستور فنڈز کی کمی کا سامنا ہے جس کی وجہ سے جراثیم کش اسپرے مہم شدید متاثر ہو رہی ہے۔ فنڈز میں کمی کی بنیادی وجہ سندھ حکومت کی جانب سے بلدیہ عظمیٰ کراچی اور پانچوں ضلعی کارپوریشنز کو آکٹرائے ضلع ٹیکس کی مد میں ملنے والے فنڈز سے کٹوتی ہے جس کی وجہ سے تمام ادارے شدید مالی بحران کی زد میں ہیں۔ دستیاب شدہ فنڈز سے صرف ملازمین کو تن خواہیں ادا کی جا رہی ہیں جب کہ انتہائی محدود پیمانے پر علاقوں سے کچرا اٹھا کر لینڈ فل سائٹ پر پھینکا جا رہا ہے۔ ایسی صورت میں حکومت کی جانب سے جاری مہم کا کام یاب ہونا سوالیہ نشان ہے۔
شہریوں کا مطالبہ ہے کہ موذی امراض کے پیش نظر حکومت فوری طور اسپرے مہم میں تیزی لائے تاکہ جہاں موذی امراض کا تدارک ہوسکے وہیں شہر میں صفائی ستھرائی کو بھی یقینی بنایا جا سکے۔
شہر کے کئی علاقوں میں نکاسی آب کا کام تو کافی حد تک مکمل ہو چکا ہے لیکن شاہ راہوں، گلیوں اور برساتی نالوں میں کچرے کے ڈھیر تاحال صاف نہیں کیے جا سکے ہیں۔ غالب امکان یہی ہے کہ آئندہ چند روز میں اگر بارشوں کا کوئی نیا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو شہری کسی بھی قسم کی بہتری کی امید نہ رکھیں۔
تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ بارش کے باعث جگہ جگہ گندگی اور کچرے کے ڈھیر جمع ہیں۔ اولڈ سٹی ایریا کی حالت تو بالکل ناقابل بیان ہے۔ ایمپریس مارکیٹ، برنس روڈ، رنچھوڑ لائن، کھارادر، فریئر روڈ، پاکستان چوک، کینٹ اسٹیشن، بولٹن مارکیٹ، ریلوے کالونی، سلطان آباد اور دیگر مقامات پر صحت و صفائی کی صورت حال انتہائی ابتر ہو گئی ہے۔ صدر ٹاؤن کی 260 کچرا کنڈیوں میں سے بیش تر کچرا کنڈیاں بھری ہوئی ہیں۔ ان کچرا کنڈیوں کی صفائی کا کام باقاعدگی سے نہیں کیا جا رہا ہے۔ ایس ایم لا کالج، رنچھوڑ لائن، پاکستان چوک، برنس روڈ، سندھ سیکریٹریٹ، فریئر روڈ، اردو بازار و دیگر مقامات پر کچرا کنڈیاں کچرے سے بھری ہوئی ہیں اور کچرا سڑکوں پر دور دور تک پھیل گیا جس کی وجہ سے ان علاقوں میں سخت تعفن پھیل رہا ہے۔
برنس روڈ کی گوشت مارکیٹ میں بھی صورت حال انتہائی ابتر ہے۔ بارشوں کے بعد گوشت مارکیٹ کا سیوریج سسٹم چوک ہو گیا اور گٹر ابل پڑے ہیں ۔ سیوریج کا گندہ پانی مارکیٹ میں جگہ جگہ کھڑا ہوا ہے اور سخت تعفن پھیلا ہوا ہے جس کی وجہ سے گاہکوں کے ساتھ ساتھ دکان داروں کو بھی شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ رنچھوڑ لائن میں نارائن پورہ اور اس کے اطراف واقع کچرا کنڈیوں کی صفائی کئی ہفتوں سے نہیں ہوئی اور مجبوراً لوگ اپنی مدد آپ کے تحت کچرے کو آگ لگا رہے ہیں۔ دریں اثناء حالیہ بارشوں میں جو دیگر علاقے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں ان میں اسکیم 33، سعدی ٹاؤن، امروہہ سوسائٹی، فیڈرل بی ایریا اور دیگر شامل ہیں۔
شہر میں صفائی ستھرائی کی ناقص صورت حال کے باعث وبائی امراض پھوٹ پڑے ہیں۔ مکھیوں اور مچھروں کی بہتات کی وجہ سے رواں برس ڈینگی وائرس جس خطرناک طریقے سے حملہ آور ہوا ہے اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ روزنامہ ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق تین روز قبل تک شہر کے مختلف ہسپتالوں میں ڈینگی وائرس کا شکار 711 مریض لائے گئے، جن میں سے چھ مریض جاں بحق ہوگئے۔ واضح رہے کہ گزشتہ برس اگست تک یہ تعداد صرف 143 تھی۔ اگرچہ سرکاری سطح پر ڈینگی سے متاثرہ مریضوں کی تعداد 700 سے کچھ زیادہ بتائی جا رہی ہے لیکن غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق یہ تعداد دو ہزار سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔
دوسری جانب سرکاری اسپتالوں میں ڈینگی سے متاثرہ مریضوں کے لیے تاحال نہ تو آئی سولیشن وارڈ قائم کیے جا سکے ہیں اور نہ ہی حکومت کی جانب سے پلیٹ لیٹ اور دیگر تشخیص کی سہولتیں مہیا کی گئی ہیں۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ڈینگی وائر س کی شدت کا موسم شروع ہو چکا ہے، بارشوں کے بعد ڈینگی وائرس کا سبب بننے والے مادہ مچھروں کے انڈوں سے لاروے تیزی سے نکلنا شروع ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی افزائش نسل تیزی سے ہوتی ہے۔ مچھر زندہ رہنے کے لیے اپنی غذا انسان کو کاٹ کر حاصل کر تے ہیں، جس کی وجہ سے وائرس شدت اختیار کرتا ہے۔
بارش کے باعث گندگی اور صفائی کے ناقص انتظامات کے باعث نہ صرف ڈینگی بلکہ کراچی سمیت صوبہ بھر میں ڈائیریا کا مرض بھی ہول ناک صورت اختیار کر چکا ہے۔ ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سندھ کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق 17اگست تک کراچی سمیت صوبہ بھر میں 24 ہزار افراد ڈائیریا کے مرض میں رپورٹ ہو چکے ہیں۔ ان میں بچوں اور خواتین کی تعداد نصف بتائی جاتی ہے۔ ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ اشفاق میمن کے مطابق ڈائیریا کا مرض کراچی کے مقابلے میں اندرون سندھ میں ہول ناک صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ مرض بارشوں کے موسم میں تیزی سے جنم لیتا ہے کیوں کہ اس موسم میں مکھیوں کی بہتات ہو جاتی ہے اور کھانے پینے کے آلودہ پانی سے ڈائیریا، ہیضہ اور گیسٹرو کی بیماریاں تیزی سے جنم لیتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ صرف 17 دن میں 24 ہزار ڈائیریا کے مریض رپورٹ ہونا ہول ناک ترین صورت حال ہے۔
اگرچہ شہر بھر میں وبائی امراض پر قابو پانے بالخصوص مکھیوں اور مچھروں کے خاتمے کے لیے اسپرے مہم اتوار 18 اگست سے شروع ہو چکی ہے اور یہ دو ستمبر تک جاری رہے گی لیکن بلدیہ عظمیٰ کراچی اور پانچوں ضلعی کارپوریشنز کو بدستور فنڈز کی کمی کا سامنا ہے جس کی وجہ سے جراثیم کش اسپرے مہم شدید متاثر ہو رہی ہے۔ فنڈز میں کمی کی بنیادی وجہ سندھ حکومت کی جانب سے بلدیہ عظمیٰ کراچی اور پانچوں ضلعی کارپوریشنز کو آکٹرائے ضلع ٹیکس کی مد میں ملنے والے فنڈز سے کٹوتی ہے جس کی وجہ سے تمام ادارے شدید مالی بحران کی زد میں ہیں۔ دستیاب شدہ فنڈز سے صرف ملازمین کو تن خواہیں ادا کی جا رہی ہیں جب کہ انتہائی محدود پیمانے پر علاقوں سے کچرا اٹھا کر لینڈ فل سائٹ پر پھینکا جا رہا ہے۔ ایسی صورت میں حکومت کی جانب سے جاری مہم کا کام یاب ہونا سوالیہ نشان ہے۔
شہریوں کا مطالبہ ہے کہ موذی امراض کے پیش نظر حکومت فوری طور اسپرے مہم میں تیزی لائے تاکہ جہاں موذی امراض کا تدارک ہوسکے وہیں شہر میں صفائی ستھرائی کو بھی یقینی بنایا جا سکے۔