بھارت کی کنٹرول لائن پر بڑھتی ہوئی جارحیت

بھارتی میڈیا بھی عوام میں مزید اشتعال پھیلانے میں کسی سے پیچھے نہیں رہتا۔

حیرت انگیز امر ہے کہ بھارتی حکومت سرحدی خلاف ورزی کا الزام ہر بار الٹا پاکستان پر عائد کرکے خود کو بے گناہ ثابت کرنے کا ڈرامہ رچاتی ہے۔ فوٹو: رائٹرز/ فائل

کنٹرول لائن اور ورکنگ بائونڈری پر بھارتی فوج کی جانب سے بلا اشتعال فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان کے عسکری حکام کے مطابق بدھ کو بھارتی فوج نے سکردو کے قریب شکما سیکٹر میں کنٹرول لائن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بلا اشتعال فائرنگ اور گولہ باری شروع کر دی جس سے پاک فوج کے کیپٹن سرفراز شہید اور سپاہی یاسین شدید زخمی ہو گئے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق بھارت کی جانب سے بھاری توپخانے کا استعمال کیا گیا۔ پاک فوج نے بھرپور جوابی کارروائی کرتے ہوئے بھارتی توپوں کو خاموش کرادیا۔ بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کو دفتر خارجہ طلب کر کے اس واقعے پر شدید احتجاج کیا گیا۔جمعرات کو بھی بھارتی فوج کی کنٹرول لائن پر راولا کوٹ کے قریب رکھ چکری سیکٹر میں ایک بار پھر بلا اشتعال فائرنگ سے سپاہی حبیب شہید ہو گئے۔

بھارتی فوج کی جانب سے گزشتہ کئی دنوں سے کنٹرول لائن کی مسلسل خلاف ورزی کے باعث اب تک پاکستانی فوجی جوانوں سمیت متعدد شہری شہید اور زخمی ہو چکے ہیں۔ حیرت انگیز امر ہے کہ بھارتی حکومت سرحدی خلاف ورزی کا الزام ہر بار الٹا پاکستان پر عائد کرکے خود کو بے گناہ ثابت کرنے کا ڈرامہ رچاتی ہے۔ بھارتی حکومت کے عہدیدار سرحدی خلاف ورزیوں پر غیر ذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اشتعال انگیز بیانات دینا شروع کر دیتے ہیں جس سے حالات میں مزید تنائو اور کشیدگی پیدا ہو جاتی ہے۔ بھارتی حکومت کی غیر ذمے داری کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ دنوں بھارتی وزیر دفاع نے یہ کہہ کر کہ بھارتی افواج حالات کے مطابق مناسب جواب دینے میں آزاد ہیں' تنائو کو مزید بڑھا دیا۔ بھارتی حکومتی ارکان کی انھیں اشتعال انگیزیوں کا نتیجہ تھا کہ بارہ اگست کو انتہا پسند ہندوئوں نے دہلی سے لاہور آنے والی دوستی بس کو امرتسر میں اور لاہور سے دہلی جانے والی دوستی بس کو دہلی میں روک لیا پاکستانی مسافروں کو دھمکیاں دیں اور پاکستان کے خلاف نعرے بازی کی۔

اس موقع پر بھارتی میڈیا بھی عوام میں مزید اشتعال پھیلانے میں کسی سے پیچھے نہیں رہتا۔ اس کے برعکس پاکستانی حکومت اور میڈیا نے انتہائی ذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے حالات کو مزید بگڑنے سے روکنے کی کوشش کی ہے۔ 14 اور 15 اگست کو دونوں ممالک کے یوم آزادی کے موقع پر پاک بھارت وزرائے اعظم کی طرف سے مبارکبادی خطوط کے تبادلے اور تعاون پر مبنی تعلقات قائم کرنے کی خواہش سے یہ امید پیدا ہو گئی تھی کہ اب سرحدوں پر فائرنگ کا سلسلہ رک جائے گا اور دونوں ممالک ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر ایک دوسرے کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھائیں گے۔ مگر بھارتی فوج کی جانب سے مسلسل سرحدی خلاف ورزی اور پاک فوج کے کیپٹن اور سپاہی کی شہادت کے بعد حالات میں مزید تنائو آگیا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے برسراقتدار آنے کے بعد بھارت سے تنازعات کے حل کے لیے مذاکرات کا عندیہ تھا۔


انھوں نے حالیہ سرحدی کشیدگی کے باوجود بھارت کے خلاف کسی قسم کی اشتعال انگیزی کے بجائے معاملات کو تحمل' بردباری اور معاملہ فہمی سے حل کرنے پر زور دیا ہے۔ گزشتہ دنوں بھارتی وزیر خارجہ نے ایک بیان میں یہ کہا تھا کہ کچھ لوگ ہمسایوں کے تعلقات خراب کرنا چاہتے ہیں۔ تمام تر کشیدگی کے باوجود انھوں نے بھی اس زمینی حقیقت کو تسلیم کیا کہ تمام تنازعات کا حل مذاکرات میں ہے۔ کنٹرول لائن پر بلااشتعال فائرنگ پر 13 اگست کو بھی بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کو دفتر خارجہ طلب کرکے احتجاج کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ بھارت کی جانب سے کنٹرول لائن کی مسلسل خلاف ورزیوں پر پاک بھارت امن عمل متاثر ہو رہا ہے' بھارت جنگ بندی کے 2003ء کے معاہدے پر عملدرآمد یقینی بنائے۔ پاکستان بھارت سے دوستانہ اور تجارتی تعلقات بڑھانے کا خواہاں ہے تاکہ خطے میں امن قائم ہو مگر بھارتی حکومت جواب میں سرحد پر مسلسل گولیاں برسا رہی ہے۔

بھارتی فائرنگ اور گولہ باری سے پاکستانی فوجی اور شہری شہید اور زخمی ہو رہے ہیں جب کہ پاکستانی افواج کی جانب سے صرف ردعمل کے طور پر فائرنگ کی جا رہی ہے جس سے کوئی بھارتی فوجی یا شہری زخمی تک نہیں ہوا اس سے عیاں ہوتا ہے کہ سرحدی خلاف ورزی بھارت کی جانب سے کی جا رہی ہے نہ کہ پاکستان اس کشیدگی کو ہوا دے رہا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ امن کی بات کی ہے اور آج بھی اپنے اس موقف پر سختی سے کاربند ہے۔ بدھ کو کیپٹن سرفراز کی شہادت پر بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر سے احتجاج کرتے ہوئے وزارت خارجہ کے ڈائریکٹر جنرل جنوبی ایشیاء و سارک نے انھیں پاکستان کی گہری تشویش سے آگاہ کیا اور اپنے اس عزم کا ایک بار پھر اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ تعمیری' دیرپا اور نتیجہ خیز مذاکرات چاہتا ہے اور بھارت سے مطالبہ کیا کہ وہ سرحد پر مزید خلاف ورزیوں کو روکنے اور کشیدگی میں کمی کے لیے سنجیدہ اور ٹھوس اقدامات کرے۔

بھارت پاکستانی حکومت کے امن کے پیغام کا جواب اگر اسی طرح گولی سے دیتا رہا تو خطے میں امن قائم کرنے کی تمام کوششیں رائیگاں جائیں گی۔ بھارتی فوج کی جانب سے سرحدی خلاف ورزیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے بھارتی وزارت خارجہ چور مچائے شور کے مصداق الٹا پاکستان پر الزامات عائد کر کے اسے عالمی برادری میں بدنام کرنا شروع کر دیتی ہے۔ بعض سیاسی ماہرین حکومت پاکستان پر زور دے رہے ہیں کہ وہ بھارتی حکومت کے جارحانہ رویے کے خلاف معذرت خواہانہ رویہ ترک کر کے عالمی برادری کو اصل حقائق سے آگاہ کرے کیونکہ بھارت کی مکارانہ پراپیگنڈہ مہم سے عالمی برادری میں پاکستان کا امیج تباہ ہو رہا ہے۔ جب تک عالمی برادری کو بھارت کی جانب سے خطے کے امن کو تہہ و بالا کرنے کی مذموم سازشوں سے آگاہ نہیں کیا جائے گا وہ اپنے اوچھے ہتھکنڈوں سے باز نہیں آئے گا۔ بھارت کی ان مکارانہ حرکتوں کے باعث خطے کا امن دائو پر لگ چکا ہے اور سرحدی کشیدگی پیدا ہونے سے جنگ کا خوف چھانے لگتا ہے۔

پاکستان کی قومی اسمبلی نے سرحدی خلاف ورزیوں پر مذمتی قرار داد منظور کر کے دنیا کو بھارتی جارحیت سے آگاہ تو کیا ہے مگر بھارتی جارحیت روکنے کے لیے پاکستان کو اقوام متحدہ سمیت دیگر عالمی پلیٹ فارمز پر بھرپور احتجاج کرنا ہو گا۔ خطے میں امن کے قیام کو پاکستان کی پالیسی میں ترجیحی حیثیت حاصل ہے۔ پاکستان تمام تر اختلافات کے باوجود افغانستان اور بھارت سے مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان کی پالیسی گولی کے جواب میں گولی نہیں پر امن مذاکرات کا پیغام ہے۔ خطے میں امن کے قیام کے لیے بھارت کو جارحانہ رویہ ترک کرکے پاکستان کے دوستانہ پیغام کا جواب دوستانہ انداز میں دینا ہو گا' بغل میں چھری منہ میں رام رام کی منافقانہ پالیسی سے بھارت عالمی دنیا کی آنکھوں میں زیادہ دیر تک دھول جھونکنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔
Load Next Story