انتظامی مشینری کو اپنا آپ منوانا چاہیے
آئی اے ایس ریاست کی تمام چمک دمک سمیٹے ہوئے ہے۔
انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس (آئی اے ایس) ملک کی انتظامیہ چلانے کی ذمے دار ہے۔ اس نے انڈین سول سروس (آئی سی ایس) کی جگہ لی ہے جو برطانیہ نے برصغیر پر حکمرانی کرنے کے ہتھیار کے طور پر تیار کی تھی۔ آزادی کے بعد اس سوال پر بہت سنجیدگی سے سوچ بچار ہوئی کہ کیا آل انڈیا سروس کے لیے کوئی متبادل ہونا بھی چاہیے یا اس کی ضرورت نہیں۔ ریاستیں چاہتی تھیں کہ ان کا انتظام ان کے اپنے آدمیوں کے ہاتھ میں ہو۔
لیکن اس وقت کے وزیر داخلہ سردار پٹیل بطور خاص آل انڈیا سروس کے حق میں تھے جو ملک میں یکجہتی کے احساسات کو فروغ دے اور ملک کی رنگا رنگی کو بھی قائم رکھے۔ پٹیل نے اس بات پر بھی زور دیا کہ مختلف ریاستوں کی باہمی کشمکش میں بھارتی آئین کو سپریم یعنی سب سے بالاتر ہونا چاہیے۔ اس مقصد کی خاطر دو آل انڈیا سروسز تیار کی گئیں: انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس (آئی اے ایس) اور انڈین پولیس سروس (آئی پی ایس)۔ ریاستوں میں ان دونوں سروسز کا مرتبہ سب سے بلند تھا۔ ستر کے عشرے کے اولین سالوں میں اس نظام نے بہتر کارکردگی دکھائی تا آنکہ وفاق نے طاقت کا ارتکاز اپنی طرف موڑنے کے لیے بعض احمقانہ اقدامات کیے اور ریاستوں نے بھی سول سروس کے ملازمین کے ذریعے اپنی اپنی سیاست چمکانا شروع کر دی۔
اس صورت حال نے بہتر انتظام و انصرام کی نفی کر دی ہے۔ آئی اے ایس ریاست کی تمام چمک دمک سمیٹے ہوئے ہے۔ اور حکمران اپنی من مانی کے لیے آزاد ہیں۔ در حقیقت ایمرجنسی یا ہنگامی صورت حال کے نفاذ کا بنیادی مقصد وہی ہوتا ہے جو پانی کی تیز دھار کے استعمال کا ہوتا ہے۔ اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے آئین کو معطل کرتے ہوئے آئی اے ایس کو غیر قانونی کام کرنے اور مخالفین کو کچلنے کے لیے استعمال کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب صحیح اور غلط' اخلاقی اور غیر اخلاقی معاملات میں حائل نامعلوم سی حد فاصل کو بھی مٹا دیا گیا۔ بس دو چار افسران ہی اس آمریت کے خلاف آواز بلند کرنے کی جرأت کر سکے۔
نافرمانی کی صورت میں سزا کے خوف نے آئی اے ایس کو بے حیثیت کر دیا۔ کسی وقت اس کی حیثیت لوہے کے فریم کی طرح مضبوط تھی جب کہ اب یہ ربڑ کی ایک مہر (Seal frame) تک محدود ہو گئی۔ ہنگامی حالات کے دوران شاہ کمیشن نے پتہ لگایا کہ کس طرح بیورو کریسی نے گھات لگا کر سیاست میں اپنی جگہ بنائی حالانکہ اس کی بنیادی ذمے داری ایمرجنسی کے دوران غیر قانونی اقدامات کی نشاندہی کرنا تھا۔ کمیشن کا کہنا تھا کہ اسی دوران عوامی رویوں میں عمومی طور پر اخلاقی اقدار کا احترام کم نظر آیا اور بہت سے سرکاری ادارے خیال و گمان کی حدود کو پار کرتے غیر اخلاقی رویوں کے مرتکب ہوئے۔ بعد میں بہت سے سول سروس کے ارکان نے اعتراف کیا کہ سرکاری احکامات کی تعمیل کے پیچھے ان کے خود حفاظتی کے محرکات کار فرما تھے۔
آئی اے ایس ہنگامی حالات کے دوران جن علتوں اور خرابیوں کا شکار ہوئی ابھی تک ان سے باہر نہیں نکل سکی۔ درحقیقت یہ حکمرانوں کی بے جا طرفداری میں اپنی حدود کو فراموش کر بیٹھتی ہے۔ جواباً من و عن احکامات کی بجا آوری کرنیوالوں کو نوازا گیا ہے۔ اس خرابی کی دو وجوہات ہیں۔ اولاً کہ حکمران قانون کا خود احترام نہیں کرتے اور اپنے ذاتی اور اپنی پارٹیوں کے مفادات کے حصول کے لیے قانون شکنی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ثانیاً آئی اے ایس کے مختلف ریاستوں میں تعینات افسران اس خوف سے سر جھکائے رہتے ہیں کہ کہیں ان کو دور دراز کے علاقوں یا غیر اہم پوزیشن پر نہ بھیج دیا جائے۔ اس طرح یہ ایک خوش کن بات ہے کہ آئی اے ایس کے کچھ افسران مثلاً یو پی سے درگا شکتی ناگپال اور ہریانہ سے اشوک کھیمکا حکمرانوں کے غیر قانونی احکامات کے خلاف کھڑے ہو گئے جن کی بجا آوری کا ان سے تقاضا کیا جا رہا تھا۔
درگا شکتی کو اس لیے معطل کر دیا گیا ہے کہ اس نے ریت کھودنے والے سینڈ مافیا (Sand Mafia) کو غیر قانونی کان کنی سے روکا تھا۔ سماج وادی پارٹی نے جس کی یو پی میں حکومت ہے اور مسلمان ووٹروں کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے یہ کہتے ہوئے درگا شکتی کی معطلی کی حمایت کی ہے کہ اس نے ایک مسجد کی بیرونی دیوار کو گرانے کا حکم دے کر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ سچ نہیں۔ دوسری بات یہ کہ حکومتی زمین پر کسی ناجائز تعمیر کو روکنے کا حکم دینا اس کے قانونی بنیاد اختیار میں شامل تھا۔ عدالت عظمیٰ نے بھی اپنے ایک فیصلے میں کہا ہے کہ اگر کوئی جائے عبادت حکومت کی زمین پر تجاوزات کی صورت میں تعمیر کی جائے تو اسے فوری طور پر گرا دیا جائے۔ یہ امر قابل افسوس ہے کہ عدالت عظمیٰ نے مفاد عامہ میں کی جانیوالی اپیل کو رد کر دیا ہے جس میں درگا شکتی کی معطلی کو چیلنج کیا گیا تھا۔
کورٹ کا یہ کہنا تکنیکی بنیادوں پر درست ہے کہ وہ حکومت اور اس کے ملازمین کے درمیان معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتی۔ حالانکہ عدالت کے لیے یہ ایک موقع تھا کہ وہ ایک برائی کی بیخ کنی کر سکتی تھی۔ عدالت کو احساس ہونا چاہیے تھا کہ آئی اے ایس کے ان دو افسران کے خلاف کیے گئے اقدامات سے ملک بھر میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی تھی۔ بعض ریاستوں کی آئی اے ایس کی انجمنوں اور مسوری کے زیر تربیت افسران کی درگا کے لیے حمایت نے امید پیدا کی ہے کہ اب شاید سول سروس جس نے سیاستدانوں سے گٹھ جوڑ کر رکھا ہے اپنی اس انفرادی حیثیت کو اجاگر کرے جو ہنگامی حالات کے نفاذ سے پہلے تھی۔ لیکن آئی اے ایس کے افسران کی سہ رکنی کمیٹی نے جس طرح ہریانہ کی حکومت کے اقدام کی توثیق کی ہے اس نے اس سروس کے کردار کو مزید مشکوک کر دیا ہے۔ ابھی تک قوم اس امید میں ہے کہ بیوروکریسی ان خامیوں کو دور کر لے گی جو سیاستدانوں بالخصوص ریاستی یا مرکزی حکومت نے بیورو کریسی کے نظام میں پیدا کر دی ہیں۔
بہت سے غیر ممالک میں افسران کی معطلیوں' تبدیلیوں یا ترقیوں کا جائزہ لینے کے لیے سول سروس کی ایک کمیٹی تشکیل دی جاتی ہے۔ انڈیا میں بھی ایسی ہی ایک کمیٹی قائم کی جا سکتی ہے۔ یہ کام یونین پبلک سروس کمیشن (UPSC) کو بھی سونپا جا سکتا ہے جس کی بنیادی ذمے داری ان افسران کی بھرتیاں کرنا ہے۔
آئی اے ایس کو مجموعی طور پر چاہیے کہ وہ اپنے طور پر اپنا مشاہدہ اور محاسبہ کرے۔ اگر انفرادی طور پر افسران اپنی ذاتی ترقی کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہی کام کریں۔ آج جب ایک عام آدمی کو اپنا جائز حق نہیں ملتا تو وہ پورے نظام سے ہی بدظن ہو جاتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ سیاستدان اپنے ووٹروں کا خیال رکھتے ہیں۔ لیکن آئی اے ایس سیاستدانوں کے خود غرضانہ عزائم کا شکار ہونے کا رسک نہیں لے سکتی۔ ایک سرکاری ادارہ کو ذمے داری اور چوکسی کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور یہ کہ اس کے اہل کار کسی بھی قسم کی قربانی دینے کو تیار ہیں۔
گاندھی خاندان کو جواہر لعل نہرو کے داماد فیروز گاندھی کی مثال کو دیکھنا چاہیے۔ فیروز گاندھی بدعنوانیوں کے کیس سیدھا پارلیمنٹ میں لے جاتا تھا اگرچہ نہرو کو اس صورت حال سے کتنی ہی خجالت کیوں نہ ہو۔ وہ اس قدر اصول پسند تھا کہ اس نے پرائم منسٹرز ہائوس میں قیام پذیر ہونا بھی گوارا نہ کیا بلکہ رکن پارلیمنٹ کی حیثیت سے جس الگ بنگلے پر اس کا استحقاق تھا وہ اسی میں رہے۔ تاہم یہ الگ کہانی ہے کہ فیروز گاندھی کے بیٹے راجیو گاندھی نے فضا کو مسموم کر دیا یعنی کرپشن کے زہر سے ماحول کو آلودہ کر دیا جب وزیراعظم کے طور پر انھوں نے بوفورس توپیں خریدیں۔ اس کے بعد اس حکمران خاندان کی کرپشن میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کے داماد رابرٹ وادرا نے اس تعفن میں اور زیادہ اضافہ کر دیا ہے۔
جہاں تک آئی اے ایس کا تعلق ہے تو اس کی شان اب کیچڑ میں لت پت نظر آتی ہے۔ اب بھی موقع ہے کہ ملک کی یہ اہم ترین انتظامی سروس سنبھل جائے کیونکہ عوام اب بھی اس کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ حکومت کی خواہشات پر ناچنے کے بجائے عوام کی فلاح و بہبود کو مقدم رکھے۔ ایک ملک کے جمہوری ڈھانچے کو اس طرح مستحکم کیا جا سکتا ہے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)
لیکن اس وقت کے وزیر داخلہ سردار پٹیل بطور خاص آل انڈیا سروس کے حق میں تھے جو ملک میں یکجہتی کے احساسات کو فروغ دے اور ملک کی رنگا رنگی کو بھی قائم رکھے۔ پٹیل نے اس بات پر بھی زور دیا کہ مختلف ریاستوں کی باہمی کشمکش میں بھارتی آئین کو سپریم یعنی سب سے بالاتر ہونا چاہیے۔ اس مقصد کی خاطر دو آل انڈیا سروسز تیار کی گئیں: انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس (آئی اے ایس) اور انڈین پولیس سروس (آئی پی ایس)۔ ریاستوں میں ان دونوں سروسز کا مرتبہ سب سے بلند تھا۔ ستر کے عشرے کے اولین سالوں میں اس نظام نے بہتر کارکردگی دکھائی تا آنکہ وفاق نے طاقت کا ارتکاز اپنی طرف موڑنے کے لیے بعض احمقانہ اقدامات کیے اور ریاستوں نے بھی سول سروس کے ملازمین کے ذریعے اپنی اپنی سیاست چمکانا شروع کر دی۔
اس صورت حال نے بہتر انتظام و انصرام کی نفی کر دی ہے۔ آئی اے ایس ریاست کی تمام چمک دمک سمیٹے ہوئے ہے۔ اور حکمران اپنی من مانی کے لیے آزاد ہیں۔ در حقیقت ایمرجنسی یا ہنگامی صورت حال کے نفاذ کا بنیادی مقصد وہی ہوتا ہے جو پانی کی تیز دھار کے استعمال کا ہوتا ہے۔ اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے آئین کو معطل کرتے ہوئے آئی اے ایس کو غیر قانونی کام کرنے اور مخالفین کو کچلنے کے لیے استعمال کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب صحیح اور غلط' اخلاقی اور غیر اخلاقی معاملات میں حائل نامعلوم سی حد فاصل کو بھی مٹا دیا گیا۔ بس دو چار افسران ہی اس آمریت کے خلاف آواز بلند کرنے کی جرأت کر سکے۔
نافرمانی کی صورت میں سزا کے خوف نے آئی اے ایس کو بے حیثیت کر دیا۔ کسی وقت اس کی حیثیت لوہے کے فریم کی طرح مضبوط تھی جب کہ اب یہ ربڑ کی ایک مہر (Seal frame) تک محدود ہو گئی۔ ہنگامی حالات کے دوران شاہ کمیشن نے پتہ لگایا کہ کس طرح بیورو کریسی نے گھات لگا کر سیاست میں اپنی جگہ بنائی حالانکہ اس کی بنیادی ذمے داری ایمرجنسی کے دوران غیر قانونی اقدامات کی نشاندہی کرنا تھا۔ کمیشن کا کہنا تھا کہ اسی دوران عوامی رویوں میں عمومی طور پر اخلاقی اقدار کا احترام کم نظر آیا اور بہت سے سرکاری ادارے خیال و گمان کی حدود کو پار کرتے غیر اخلاقی رویوں کے مرتکب ہوئے۔ بعد میں بہت سے سول سروس کے ارکان نے اعتراف کیا کہ سرکاری احکامات کی تعمیل کے پیچھے ان کے خود حفاظتی کے محرکات کار فرما تھے۔
آئی اے ایس ہنگامی حالات کے دوران جن علتوں اور خرابیوں کا شکار ہوئی ابھی تک ان سے باہر نہیں نکل سکی۔ درحقیقت یہ حکمرانوں کی بے جا طرفداری میں اپنی حدود کو فراموش کر بیٹھتی ہے۔ جواباً من و عن احکامات کی بجا آوری کرنیوالوں کو نوازا گیا ہے۔ اس خرابی کی دو وجوہات ہیں۔ اولاً کہ حکمران قانون کا خود احترام نہیں کرتے اور اپنے ذاتی اور اپنی پارٹیوں کے مفادات کے حصول کے لیے قانون شکنی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ثانیاً آئی اے ایس کے مختلف ریاستوں میں تعینات افسران اس خوف سے سر جھکائے رہتے ہیں کہ کہیں ان کو دور دراز کے علاقوں یا غیر اہم پوزیشن پر نہ بھیج دیا جائے۔ اس طرح یہ ایک خوش کن بات ہے کہ آئی اے ایس کے کچھ افسران مثلاً یو پی سے درگا شکتی ناگپال اور ہریانہ سے اشوک کھیمکا حکمرانوں کے غیر قانونی احکامات کے خلاف کھڑے ہو گئے جن کی بجا آوری کا ان سے تقاضا کیا جا رہا تھا۔
درگا شکتی کو اس لیے معطل کر دیا گیا ہے کہ اس نے ریت کھودنے والے سینڈ مافیا (Sand Mafia) کو غیر قانونی کان کنی سے روکا تھا۔ سماج وادی پارٹی نے جس کی یو پی میں حکومت ہے اور مسلمان ووٹروں کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے یہ کہتے ہوئے درگا شکتی کی معطلی کی حمایت کی ہے کہ اس نے ایک مسجد کی بیرونی دیوار کو گرانے کا حکم دے کر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ سچ نہیں۔ دوسری بات یہ کہ حکومتی زمین پر کسی ناجائز تعمیر کو روکنے کا حکم دینا اس کے قانونی بنیاد اختیار میں شامل تھا۔ عدالت عظمیٰ نے بھی اپنے ایک فیصلے میں کہا ہے کہ اگر کوئی جائے عبادت حکومت کی زمین پر تجاوزات کی صورت میں تعمیر کی جائے تو اسے فوری طور پر گرا دیا جائے۔ یہ امر قابل افسوس ہے کہ عدالت عظمیٰ نے مفاد عامہ میں کی جانیوالی اپیل کو رد کر دیا ہے جس میں درگا شکتی کی معطلی کو چیلنج کیا گیا تھا۔
کورٹ کا یہ کہنا تکنیکی بنیادوں پر درست ہے کہ وہ حکومت اور اس کے ملازمین کے درمیان معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتی۔ حالانکہ عدالت کے لیے یہ ایک موقع تھا کہ وہ ایک برائی کی بیخ کنی کر سکتی تھی۔ عدالت کو احساس ہونا چاہیے تھا کہ آئی اے ایس کے ان دو افسران کے خلاف کیے گئے اقدامات سے ملک بھر میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی تھی۔ بعض ریاستوں کی آئی اے ایس کی انجمنوں اور مسوری کے زیر تربیت افسران کی درگا کے لیے حمایت نے امید پیدا کی ہے کہ اب شاید سول سروس جس نے سیاستدانوں سے گٹھ جوڑ کر رکھا ہے اپنی اس انفرادی حیثیت کو اجاگر کرے جو ہنگامی حالات کے نفاذ سے پہلے تھی۔ لیکن آئی اے ایس کے افسران کی سہ رکنی کمیٹی نے جس طرح ہریانہ کی حکومت کے اقدام کی توثیق کی ہے اس نے اس سروس کے کردار کو مزید مشکوک کر دیا ہے۔ ابھی تک قوم اس امید میں ہے کہ بیوروکریسی ان خامیوں کو دور کر لے گی جو سیاستدانوں بالخصوص ریاستی یا مرکزی حکومت نے بیورو کریسی کے نظام میں پیدا کر دی ہیں۔
بہت سے غیر ممالک میں افسران کی معطلیوں' تبدیلیوں یا ترقیوں کا جائزہ لینے کے لیے سول سروس کی ایک کمیٹی تشکیل دی جاتی ہے۔ انڈیا میں بھی ایسی ہی ایک کمیٹی قائم کی جا سکتی ہے۔ یہ کام یونین پبلک سروس کمیشن (UPSC) کو بھی سونپا جا سکتا ہے جس کی بنیادی ذمے داری ان افسران کی بھرتیاں کرنا ہے۔
آئی اے ایس کو مجموعی طور پر چاہیے کہ وہ اپنے طور پر اپنا مشاہدہ اور محاسبہ کرے۔ اگر انفرادی طور پر افسران اپنی ذاتی ترقی کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہی کام کریں۔ آج جب ایک عام آدمی کو اپنا جائز حق نہیں ملتا تو وہ پورے نظام سے ہی بدظن ہو جاتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ سیاستدان اپنے ووٹروں کا خیال رکھتے ہیں۔ لیکن آئی اے ایس سیاستدانوں کے خود غرضانہ عزائم کا شکار ہونے کا رسک نہیں لے سکتی۔ ایک سرکاری ادارہ کو ذمے داری اور چوکسی کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور یہ کہ اس کے اہل کار کسی بھی قسم کی قربانی دینے کو تیار ہیں۔
گاندھی خاندان کو جواہر لعل نہرو کے داماد فیروز گاندھی کی مثال کو دیکھنا چاہیے۔ فیروز گاندھی بدعنوانیوں کے کیس سیدھا پارلیمنٹ میں لے جاتا تھا اگرچہ نہرو کو اس صورت حال سے کتنی ہی خجالت کیوں نہ ہو۔ وہ اس قدر اصول پسند تھا کہ اس نے پرائم منسٹرز ہائوس میں قیام پذیر ہونا بھی گوارا نہ کیا بلکہ رکن پارلیمنٹ کی حیثیت سے جس الگ بنگلے پر اس کا استحقاق تھا وہ اسی میں رہے۔ تاہم یہ الگ کہانی ہے کہ فیروز گاندھی کے بیٹے راجیو گاندھی نے فضا کو مسموم کر دیا یعنی کرپشن کے زہر سے ماحول کو آلودہ کر دیا جب وزیراعظم کے طور پر انھوں نے بوفورس توپیں خریدیں۔ اس کے بعد اس حکمران خاندان کی کرپشن میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کے داماد رابرٹ وادرا نے اس تعفن میں اور زیادہ اضافہ کر دیا ہے۔
جہاں تک آئی اے ایس کا تعلق ہے تو اس کی شان اب کیچڑ میں لت پت نظر آتی ہے۔ اب بھی موقع ہے کہ ملک کی یہ اہم ترین انتظامی سروس سنبھل جائے کیونکہ عوام اب بھی اس کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ حکومت کی خواہشات پر ناچنے کے بجائے عوام کی فلاح و بہبود کو مقدم رکھے۔ ایک ملک کے جمہوری ڈھانچے کو اس طرح مستحکم کیا جا سکتا ہے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)