نئی سرد جنگ کے اثرات

اس امتحان عشق میں روس اور امریکا خلائی سفر میں تعاون کر رہے ہیں۔

anisbaqar@hotmail.com

انسانی تاریخ نہ صرف تسلسل سے ترقی کی تاریخ ہے بلکہ دنیا بنانے والے نے ہمیشہ ہر قوم میں معاشرے کو ترقی دینے کے لیے، پیغمبر، رہنما، ہادی اوتاروں کو بھیجا۔ ہر نئے نظام کے خلاف پرانے نظام کو ماننے والوں نے شدید مزاحمت کی۔

بقول علامہ اقبال :

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

اس امتحان عشق میں روس اور امریکا خلائی سفر میں تعاون کر رہے ہیں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد روس اور امریکا کے تعاون میں مزید اضافہ ہوا مگر اس خلائی دوڑ کے پیچھے بھی عالمی تسلط کے افکار کارفرما رہے ہیں۔ سوویت لیڈر گورباچوف پیراسٹرائیکا اور گلاسنوٹ کا سہارا لے کر افغانستان سے بھاگ کھڑے ہوئے اور سوویت ریاستوں کے تمام تانے بانے ٹوٹ گئے اور وہ مختلف تان بن گئے ، روس تقریباً 20 برس اپنے چاک گریباں کو رفو کرنے میں مصروف رہا، نہ وہ لاطینی امریکا اور نہ ہی ایشیا، افریقہ کی سیاست میں پیش پیش رہا مگر رفتہ رفتہ اس نے چین اور شمالی کوریا، کیوبا اور لاطینی امریکا اور ایشیا میں قدم جمانے شروع کردیے ماضی کا روس بھارت کا قریب ترین دوست تھا جو اب نہ رہا، بلکہ چین کے ساتھ اس کے تعلقات اہم ترین اور فوجی نوعیت کی شکل اختیار کر رہے ہیں۔


اگر میں تاریخ کے چند ابواب پلٹوں تو معلوم ہوگا کہ سوویت یونین چین کا زبردست اتحادی تھا، چین کی تمام فوجی ٹیکنالوجی روسی ساخت کی ہے اور روس چین کے اختلافات نے 1964 میں زور پکڑ ا جب روسی وزیراعظم نکیتاخروشیف نے اپنے ہی ملک کے سابق سربراہ اور جنگ عظیم دوم کے ہیرو جوزف اسٹالن کی تضحیک شروع کی اور ماسکو میں انقلاب اکتوبر کی پریڈ کے موقع پر ان کی تصویر ہٹادی گئی تھی جب کہ ماوزے تنگ نے جوزف اسٹالین کو اپنا قائد اور ہیرو قرار دیتے ہوئے یہ تصویر مارکس، لینن اور اسٹالن کی آویزاں کی ۔ روس چین کی خلیج اس قدر وسیع نہیں ہے کہ کوئی دوسرا ملک اس خلیج کے درمیان آکر ان کو اپنا سچا دوست سمجھ بیٹھے بلکہ یہ بارڈر ڈپلومیسی کہلاتی ہے جس پر چین نہایت خوبصورتی سے عمل پیرا ہے۔

عالمی سیاست پر دونوں کی سوچ یکساں ہے اس کا ثبوت، مشرق وسطیٰ، شمالی کوریا، لاطینی امریکا کے ممالک کے عالمی منظرنامے ہیں امریکی اسٹیبلشمنٹ کا وہ نمایندہ جو امریکا سے چند ماہ قبل منحرف ہوا جس کا نام ڈیوڈ سنو ڈین ہے وہ پہلے تمام دستاویز لے کر ہانگ کانگ گیا تھا اس کے بعد وہ ماسکو ایئرپورٹ پر تقریباً ڈیڑھ ماہ قیام کے بعد روس میں سیاسی پناہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوا حالانکہ سنوڈین خود وینزویلا جانا چاہتا تھا ان تمام حالات سے اب یہ ابہام بھی جاتا رہا کہ دنیا صرف ایک طاقت کے رحم و کرم پر ہے مجھے اس وقت جماعت اسلامی کے پرمغز رہنما قاضی حسین احمد صاحب کا یہ جملہ یاد آرہا ہے کہ سوویت یونین کا خاتمہ اور دنیا کے یونی پولر ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کو نقصان ہوا ہے۔ ظاہر ہے طاقت کا مظہر جب ایک ہی طاقت ہوگی تو دنیا کو اسی کے گردوپیش گھومنا پڑے گا۔

اب چین اور روس نظریاتی بنیادوں پر گوکہ اتنے قریب نہیں جتنا کہ پہلے تھے مگر عالمی مسائل پر خاصے قریب تر آچکے ہیں ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ کیا چین اور روس مغلوب، مظلوم اور خستہ حال لوگوں کی عالمی پیمانے پر حمایت جاری رکھیں گے یا نہیں ، مگر یہ بات واضح ہے کہ دونوں ممالک عالمی امور پر یکساں موقف کوئی نہ کوئی لائحہ عمل ضرور اختیار کریں گے بدلتے وقت کی رفتار، تقاضے، معاشی اور معاشرتی تقاضے 18 ویں یا 19 ویں صدی کے فارمولے کے تحت ہرگز چسپاں نہ کیے جاسکیں گے ممکن ہے کہ پسماندہ ممالک کا جابرانہ جمہوری نظام ایک اور قدم آگے بڑھائے اور عوامی جمہوری نظام میں ردوبدل کرکے عوام کو نئی منزل سے آشکارا کرے بھارت کی مثال لیجیے وہاں سوا ارب سے زیادہ انسان آباد ہیں وہاں ترقی کی رفتار گزشتہ 2 دہائیوں سے 6 تا 9 فیصد ہے اور آبادی بڑھنے کی رفتار تقریباً نصف ہے مگر 80 کروڑ افراد بھوک و افلاس میں مبتلا ہیں وہ اپنی آزادی افکار سے بمشکل ایک وقت کھانا کھاتے ہیں جمہوریت اور ووٹ ہی ان کا مستقبل ہے۔

دوسری جانب 30 کروڑ افراد انسانوں جیسی زندگی گزار رہے ہیں اور چند ہزار فیملیاں اور ایک دو کروڑ لوگ اعلیٰ اشرافیہ کے زیور سے آراستہ ہیں اس لیے بھارت کے بعض علاقوں میں بھارتی حکومت سے آزادی کی جنگ اور پورے بھارت پر اپنا کنٹرول حاصل کرنے کی ملائیشیا تیار ہوچکی ہے جھاڑکھنڈ، چھتیس گڑھ اور اب حیدرآباد دکن کے بعض علاقے خصوصاً تلنگانہ بھی اسی رخ پر چلنے کو ہے۔ یوپی کے دور افتادہ دیہات جہاں کبھی کمیونسٹ نیتاؤں کا اثرورسوخ تھا وہ بھی خاک میں ملتا جارہا ہے اور گاڑیوں پر ہتھوڑا اور درانتی والے جھنڈے عام نظر آرہے ہیں روس تو اس جھنڈے سے محروم ہوگیا ہے مگر بھارت میں یہ تحریک زور پکڑ رہی ہے، فرقہ واریت ہندومسلم فساد کرنا بس بعض بڑے صنعتی شہروں تک محدود رہ گیا ہے مودی اور ان کے ہمنوا انتہا پسند مسلم دشمن لیڈروں کا اثر گجرات کے گاؤں دیہات سے ٹوٹتا جارہا ہے ۔ آنے والے چند برسوں میں ایسا لگتا ہے کہ ان تمام ترقی کو بروئے کار لانے کے باوجود اپنا جمہوری ڈھانچہ برقرار رکھنے میں ناکام ہوجائے، اڑیسہ، بہار میں گو کہ نکسلی اور بھارتی فوج پولیس کے درمیان جھڑپیں شروع نہیں ہوئی ہیں مگر نظریاتی طور پر لوگ تیزی سے مائل ہورہے ہیں۔

ان جنگجوؤں میں مسلمان، ہندو ایک ساتھ مصروف جنگ ہیں اور اپنی علاقائی حکومت قائم کرنی شروع کردی ہے اس جنگ میں نوجوان لڑکیاں، 40 تا 60 سال کی عمر کی عورتیں بھی ان کے شانہ بشانہ موجود ہیں بھارتی حکومت اس نکسلی دباؤ کو برداشت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور فوجی آپریشن کی حکمت عملی کے بجائے وہ دوسرا پہلو اختیار کر رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں سونیا گاندھی نے خصوصی راشن کارڈ اسکیم کو متعارف کرانے کا پروگرام پیش کیا ہے جس کو کم آمدنی والے گھروں میں تقسیم کیا جائے گا آٹا 3 روپے کلو، چاول اور دال 5 روپے کلو۔ اس پروگرام پر تقریباً 25 تا 30 ارب ڈالر کے اخراجات آئیں گے مگر خریداری کی حد مقرر کردی گئی ہے کہ ایک گھر کو اتنا اناج دیا جائے گا ورنہ یہ اناج پھر بازار میں بکنے لگے گا۔ یہ پروگرام تو اچھا ہے مگر اس میں کرپشن بہ درجہ کمال ہوسکتی ہے۔ بہرصورت یہ پروگرام عوام کو کچھ عرصے کے لیے کنفیوژ تو کرسکتا ہے دیکھنا یہ ہے کہ بھارت میں اگر یہ تحریک زور پکڑتی ہے تو اور سرد جنگ کے اس ابتدائی دور میں اگر کوئی چنگاری بھڑکتی ہے تو نیٹو ممالک ایک طرف اور روس چین کا رویہ کیا ہوگا اور کون بھارتی جمہوری نظام کا سرپرست بنتا ہے لہٰذا ایسی جمہوریت ہمیشہ بے امان رہے گی جہاں بے زمین بے زمین اور بے مکان بے مکان کرایہ دار ساری عمر کرایہ دار رہے گا۔
Load Next Story