سچ کی راہ پر چلنا سیکھو …
اسی طرح جھوٹ سے ڈرایا اور بارہا دور رہنے کی تاکید کی اور بتادیا کہ جھوٹ فریب ہے
بچپن سے کتابوں میں پڑھتے اور بزرگوں سے سنتے آرہے ہیں کہ جھوٹ منافق کی نشانی ہے۔ مذاق میں بھی جھوٹ، جھوٹ ہی ہوتا ہے۔ اس ضمن میں ایک واقعہ جو اکثر بیان کیا جاتا ہے وہ یوں ہے کہ، ایک خاتون دروازے پرکھڑی اپنے بچے کو بلارہی تھیں کہ ادھر آؤتمہیں کوئی چیزدوں گی تو نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ، کیا تمہارے پاس کچھ ہے، تو اس خاتون نے مٹھی کھول کر دکھائی جس میں کھجوریں تھیں، یہ دیکھ کر پیارے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر تم اپنے بچے کو صرف بہلانے کے لیے یہ کہتی تو یہ تمہارا جھوٹ شمار ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں صدق جیسی عظیم صفت پیدا کی، سچائی سے کام لینے اور کرنے کی ترغیب دی اور بتادیا کہ سچ سے اعتماد بحال ہوتا اور انسان مضبوط ہوتا ہے۔
اسی طرح جھوٹ سے ڈرایا اور بارہا دور رہنے کی تاکید کی اور بتادیا کہ جھوٹ فریب ہے، دھوکہ ہے اس سے آپس کے اعتماد کا خاتمہ ہوتا، رشتے کمزور پڑتے ہیں اور انسان دوسروں کی نظر میں گرجاتا ہے۔ جھوٹ اور سچ دونوںایک دوسرے کی ضد ہیں۔ ہر انسان کے اندر یہ پائی جاتی ہیں، کسی میں سچ بولنے کی صفت غالب رہتی ہے تو کسی میں جھوٹ کی۔ جھوٹ انسان اس وقت بولتا ہے، جب اسے اپنا کوئی معاملہ پھنستا نظر آتا ہے اور عموماََ اس کے پیچھے کوئی ڈر اور خوف کار فرما ہوتا ہے، اور یہ ڈر اور خوف اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ انسان سے جانے انجانے میں کوئی ایسا عمل سرزد ہوجاتا ہے، جس کا اظہار معیوب ہو یا اس کی وجہ سے کسی پریشانی یا دوسروں کی نظر میں گر جانے کا اندیشہ ہو، اس لیے انسان اپنے ایسے عمل کو چھپانے کے لیے ابتداء میں کوئی خوبصورت بہانہ تراشتا ہے، جو جھوٹ کی جانب پہلا قدم ہوتا ہے، یہ پہلا قدم اتنا حسین اور آسان لگتا ہے کہ پھر فرد اس راہ پر چل نکلتا ہے اور سچ سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔
اس کی بہ نسبت سچ بولنا جاں گسل اور کٹھن کام ہے اسی لیے کہا جاتا ہے کہ سچ کڑوا ہوتا ہے، اس کی طرف دل مشکل سے مائل ہوتا اور ہزار وسوسے پیدا ہوتے ہیں اور پہلا قدم ہی اتنا دشوار لگتا ہے کہ انسان اس راہ کے انتخاب میں ہی دیر کردیتا ہے۔ سچ کڑوا ضرور ہوتا ہے، لیکن اس کی تاثیر بہت میٹھی ہوتی ہے۔ پھر یہ بھی تو ہے کہ سچ یاد رکھنا نہیں پڑتا، کہتے ہیں اور تجربہ بھی یہی بتاتا ہے کہ ایک جھوٹ کے لیے سو جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔ مسلم معاشرے کا تشخص سچائی و دیانت داری ہے لیکن جہاں ہماری دیگر بنیادی اخلاقیات تباہ ہوئی ہیں وہیں ہمارے اندر سے سچائی، ایمان داری و دیانت داری جیسے اعلیٰ اوصاف بھی ناپید ہوگئے ہیں۔ زندگی کے چھوٹے چھوٹے معاملات میں ہم جھوٹ و بے ایمانی سے کام لینے لگے ہیں۔ اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو معلوم ہوگا کہ جھوٹ اور سچ آپس میں گڈ مڈ ہوگئے ہیں کہ اسے جدا کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ جھوٹ کو ہم نے مصلحت و حکمت کا خوب صورت نام دے دیا ہے، جب کہ جھوٹ جھوٹ ہی ہے خواہ اسے کوئی بھی نام دیا جائے۔
جھوٹ اگر مصلحتاََ جائز ہوتا تو یقینا ہمیں انبیاء اکرام ؑاور صحابہ کرام ؓکی زندگیوں سے کچھ مثالیں ضرور ملتیں۔ لیکن چونکہ جھوٹ کبیرہ گناہوں میں سے ایک ہے اس لیے اسے کسی بھی صورت میں جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ہماری بدقسمتی اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگی کہ ہمارے سارے اعلیٰ اخلاقی اوصاف جو ہمارا ورثہ تھے غیر مسلم معاشرے میں تو ملیں گے، لیکن جنھیں ہمارے معاشرے کی زینت بننا تھا وہ یہیں نایاب وکمیاب ہوگئے۔ ہم اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ دنیا میں وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جو سچائی و دیانت داری کے ساتھ اپنے پیشے اور کاموں سے انصاف کریں۔ دنیا کی ہر تہذیب میں سچائی کو اچھا اور جھوٹ کو برا گردانا گیا ہے۔ جاپان ترقی یافتہ ممالک کی صف میں بتدریج آگے بڑھنے والے ممالک میں سے ایک ہے۔ جاپان میں جھوٹ کو اتنا بڑا ''گناہ'' سمجھا جاتا ہے کہ اگر کوئی کسی فرد کو کہہ دے کہ آپ جھوٹ بول رہے ہیں، یا شک کا بھی اظہار کردے تو یا تو وہ خودکشی کرلے گا یا کہنے والے کو قتل کر دے گا۔
اسی طرح آپ باہر کے دیگر مما لک میں دیکھیں کوئی بھی اپنا مال بیچنے کے لیے، اپنی تجارت کے فروغ کے لیے جھوٹ و بد دیانتی سے کام نہیں لے گا۔ اگر سامان میں کوئی نقص ہے تو بتا کر اور مناسب داموں میں فروخت کرے گا۔ جب کہ ہمارے ہاں صورت حال یہ ہے کہ نقص زدہ مال کو مہنگے داموں میں بیچنے کی مکمل کوشش کی جاتی ہے، چاہے اس کے لیے کتنی ہی چکنی چپڑی باتیں کیوں نہ کرنی پڑیں اور جھوٹ سے کام کیوں نہ لینا پڑے۔ اُس وقت ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ سودے میں برکت سچائی و ایمان داری کی وجہ سے پیداہوتی ہے۔
کسی بھی ملک کے ریسٹورنٹ چلے جائیں اگر کوئی مسلمان ہے اور غلطی سے کوئی ایسا کھانا منگوالے جو اس کے لیے حلال نہ ہو تو ویٹر یا مینجر آکر خود اسے آگاہ کرے گا جب کہ اس کا اس میں نقصان ہی ہے فائدہ نہیں۔ یہ ہے وہاں دیانت داری و سچائی کا حال۔ ہمارے ہاں بڑے بڑے ریسٹورنٹس نے بھی خراب کھانے فروخت کرنا اور زیادہ سے زیادہ نفع کمانا چاہے بے ایمانی و جھوٹ سے ہو، اپنا کاروباری وصف بنا لیا ہے۔ بڑے کاروباری اداروں سے لے کر ایک چھوٹے سے ٹھیلے والا بھی جھوٹ جیسی قبیح علت کا شکار ہے۔ اسی طرح دیگر معاشرتی معاملات میں بھی ہمارا حال مختلف نہیں ہے، اپنے نفس کی چھوٹی چھوٹی خواہشات کو پورا کرنے، اور ان کی تسکین کے لیے ہم جھوٹ بولتے ہیں۔ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے اور اپنی برتری ثابت کرنے کے لیے بھی جھوٹ سے کام لینے سے گریز نہیں کرتے۔
گھر ہو یا دفتر، اسکول ہوں یا کالجز، کاروباری مراکز ہوں یا ہمارے مذھبی ادارے، ہر جگہ مسابقت کی دوڑ لگی ہوئی ہے کاموں کا کریڈٹ لینے، اپنی تعریف کرانے کے لیے کسی بھی قسم کے جھوٹ و دروغ گوئی سے کام لینے کو عار نہیں سمجھا جاتا۔ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنا اچھا وصف ہے، لیکن اس کے لیے جھوٹ، دھوکا دہی ا ور مکروفریب سے کام لینا گناہ اور بد ترین خصلت ہے۔ کوئی مشورہ چاہے، سوال کرے چاہے وہ کسی بھی عمومی یا خصوصی نوعیت کا ہو، دیکھا یہ گیا ہے کہ کوئی بھی مکمل سچائی کے ساتھ جواب نہیں دیتا نہ ہی مشورہ دیتے وقت یہ خیال رکھتا ہے کہ ہم سچ میں جھوٹ کی آمیزش کر رہے اور مبالغے سے کام لے رہے ہیں۔ بلکہ ہم جھوٹ بول کے دوسرے کو بیوقوف بنانے کو خوبی سمجھتے اوراسے اپنی کامیابی تصور کرتے ہیں۔ ہمارا ضمیر ہمیں ملامت نہیں کرتا بلکہ اس سے ہمیں self satisfaction حاصل ہوتی ہے، کہ ہم نے بآسانی سامنے والے کو بے وقوف بنالیا۔
اسٹالن کا کہنا تھا کہ ''ہر سچ کا ایک وقت ہوتا ہے اگر سچ وقت پر نہ بولا جائے تو وہ سچ نہیں رہتا بلکہ جھوٹ بن جاتا ہے۔'' سچائی دنیا میں انسان کو عز ت و توقیر عطا کرتی اور منفرد مقام دلاتی ہے۔ سچ میں دشواریوں کا آنا لازمی ہے، لیکن ہر پریشانی عارضی ہے، جلد یا بدیر اس کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ ابتداء ہی سے صدق و کذب کی جنگ چلی آرہی ہے۔ صادقین کو جب صدق کی پاداش میں تختہ دار پر چڑھایا گیا تو دنیا نے ان کو ہی سلام پیش کیا اور کاذبین ملامت زدہ ٹھہرے۔ انسانی معاشروں کا تجربہ ہے کہ انسان کے دلوں میں دوسروں کی قدر و وقعت سچ ہی سے پیدا ہوتی اور بڑھتی ہے۔ اگر کوئی جھوٹا ہے اور چاہے اس کے جھوٹ کو دنیا کا کوئی بھی قانون ثابت نہ کر سکے، لیکن وہ سخص لوگوں کے دلوں اور نظروں سے گر جاتا ہے۔ چھوٹے ہمیشہ اپنے بڑوں سے سیکھتے ہیں۔ ہمارے سیاسی اور معذرت کے ساتھ مذہبی رہنما بھی جھوٹ جیسی بد ترین لعنت کا شکار ہیں جس کا مظاہرہ ہم آئے دن مختلف چینلز پر دیکھتے رہتے ہیں، ہمیں اگر آسودہ، مطمئن رہنا اور ترقی کرنی ہے تو سچ کواپنانا ہوگا۔ ابتدا میں یہ مشکل لگے گا لیکن ہم بتدریج سچ کو اپنانا شروع کر دیں گے اور سچ کی برکات بھی دیکھیں گے۔