مستقبل خطرے میں ہے…
ایک بڑی مشہور اور مستند کہاوت ہے کہ کچے لوہے سے کچھ اچھا اور بہترین بنانے کے لیے اسے آگ میں دہکانا پڑتا ہے۔
یادش بخیر ! ماہ صیام رحمتوں، برکتوں اورعبادتوں کے ساتھ رخصت ہوا اور تحفے میں روزہ داروں سمیت تمام مسلمانوں کو عید سعید کی خوشیاں بھی دیتا گیا۔ دنیا بھر میں لوگ اپنے اپنے ممالک میں اپنے روایتی طریقوں سے عید مناتے رہے اور ایک دوسرے کو عید کی خوشیوں کی مبارکبادیں بھی پیش کرتے رہے۔ کوئی ایسا شخص نہیں کہ جس کو اپنا بچپن اور بچپن میں گزاری جانے والی عید کی یاد نہیں۔ لہذا ہمیں بھی عید کے موقعے پر اپنے بچپن کی عید یاد آئی کہ جب عید کی نماز پڑھ کر گھر میں داخل ہوتے تھے تو گھر میں سویاں، شیر خورما، نت نئی مٹھائیاں، نمکو اور طرح طرح کی نعمتیں ناشتے کی صورت میں دسترخوان پر ہمارا انتظار کررہی ہوتی تھیں جب کہ دوپہر کے کھانے کے طور پر ہر گھر میں بریانی تو لازمی جُز تصور کی جاتی تھی جو تقریباً آج بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔
خیر بات کہیں کی کہیں نکل گئی! تو میں یہ بتا رہا تھا سویوں ،شیر خورمے، مٹھائیوںاور نمکو سے فارغ ہوتے تھے گھر کے بڑوں سے عیدی لیتے تھے اور فرّاٹے بھرتے ہوئے باہر چلے جاتے تھے کہ جہاں کہیں آئسکریم کھاتے، کہیں مختلف جھولوں سے لطف اندوز ہوتے، دوستوں کے ساتھ اپنے کپڑوں، چشموں اور گھڑیوں کا موازنہ کرتے اور بار بار گھر میں ہر تھوڑی دیر بعد عیدی کی لالچ میںچکر لگاتے کہ شاید کوئی نیا مہمان آیا ہو تو لگے ہاتھوں اس سے بھی عیدی پکڑ لیں۔ کیا پر رونق دن تھے وہ، کیسی خوشیاں اور محبتیں تھیں اور کیسے دلفریب کھیل تھے کھیلنے کو لیکن مجھے سمجھ ہی نہیں آیا کہ آج 2013 کی یہ عید کیسی تھی؟
ایک طرف جہاں پاکستان دہشت گردی، خوف، اور اندرونی و بیرونی خطرات کا شکار ہے اور دوسری جانب ہم یہ بھی سنتے ہیں کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے قومی سطح پرحکومت کی جانب سے ایک پالیسی مرتب کی جارہی ہے تودل یہ ماننے کو تیار ہیں نہیں ہورہا ہے کہ آیا آپ مریض کا علاج کرنا چاہ رہے ہیںیا مرض کا کیونکہ آپکے غلط علاج کے باعث دہشت گردی کا یہ مہلک مرض تو بڑھتا ہی چلا جارہا ہے ۔
ایک بڑی مشہور اور مستند کہاوت ہے کہ کچے لوہے سے کچھ اچھا اور بہترین بنانے کے لیے اسے آگ میں دہکانا پڑتا ہے تو یہ عید پر جو میری آنکھوں نے دیکھا تو مجھے میرا تو کیا خاکم بدہن پاکستان کا مستقبل خطرے میں نظر آیا، کیا دیکھتا ہوں کہ چھوٹے چھوٹے بچوں کے ہاتھوں میں طرح طرح کی چھوٹی بڑی کھلونا پستولیں اور بندوقیں موجود ہیں اور اب بچے چشموں، جوتوں اورکپڑوں کے بجائے اپنے اپنے کھلونا اسلحہ کا موازنہ کررہے ہیں ، کچھ تو بچے میں نے ایسے بھی دیکھے کہ جو اپنے والدین سے بضد تھے کہ انھیں اعلٰیٰ قسم کی کھلونا بندوق دلوائیں ورنہ وہ عید نہیں منائیں گے اور بیچارے والدین ان کے سامنے بے بس دکھائی دیے کہ اب عید کے اس پرمسرت موقعے پر وہ بچوں کی پٹائی تو لگانے سے رہے اور ویسے بھی عید تو بچوں کی ہی ہوتی ہے لہذا ہر جگہ ہی بچے اپنے مطالبات منظور کراتے نظر آتے رہے۔
حالیہ انتخابات میں بڑے بڑے بلند و بانگ دعوے سننے اور دیکھنے کو ملے کہ ہم آئیں گے تو لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کردیں گے، ہم آئیں گے تو دہشتگردی کا خاتمہ کردیں گے، ہم آئیں گے تو روپیہ ڈالر کے برابر لاکھڑا کریں گے وغیرہ وغیرہ... لیکن پھر دیکھتے ہیں کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں جیل بھی ٹوٹی اور 234 خطرناک قیدیوں کو باآسانی آزاد کرواکر لے جایا گیا اور بعد میں ان کی آزادی کے جشن کی وڈیو بھی منظر عام پر لائی گئی، پھر انتہائی محفوظ سمجھی جانے والی کوئٹہ پولیس لائن میں دہشت گردی کا نشانہ بننے والے ایس ایچ او کی نمازِ جنازہ کی ادائیگی میں ہونے والے خودکش حملے میں ڈی آئی جی سمیت کئی پولیس افسران اور دیگر لوگوں کی شہادت کا واقعہ پیش آیا اور اب پوری قوم نے ساڑھے پانچ گھنٹے ایک شخص کے ہاتھوں پورے اسلام آباد کو ہائی جیک ہوتے دیکھا۔ افسوس صد افسوس کہ ایک بار پھر مریض کا علاج کرنے کی کوشش کی گئی مرض وہیںکا وہیں رہا۔
جب یہ ساری صورتحال جاری تھی اور اس تمام صورتحال کی لمحہ بہ لمحہ کوریج دینے کے لیے میڈیا اپنے نیوز بلیٹن تک ختم کرکے محض کیمرہ سکندر پر ہی لگائے بیٹھا رہا تو مجھے کچھ نجی چینلز پر رات کے آخری پہر میں اینکرز کی زبان سے یہ بھی کہتے سنا کہ لال مسجد واقعے میں بھی یہ صورتحال ہوئی تھی تو میڈیا ہی تھا جس نے چلا چلا کر حکومت وقت سے کارروائی کا مطالبہ کیا تھا اور جب کارروائی کی گئی تو اسکے خلاف فوراً ہرزہ سرائی شروع کردی تھی اور اس سکندر والے واقعے میں بھی یہ صورتحال رہی کہ کارروائی کی جائے کارروائی کی جائے لیکن دوسری جانب ایک سرپھرے انسان کو بھرپور موقع دیا کہ وہ اپنا پیغام پوری قوم تک پہنچائے، اپنے مطالبات کو من و عن تسلیم کروائے۔
یعنی اگر ایک شخص محض دو بندوقوں کے ساتھ ساڑھے پانچ گھنٹے تک پوری قوم کو مضطرب کیے رکھ سکتا ہے تو اگر 10 پندرہ سر پھرے ایسی حرکتیں کرنے لگیں تو اس کا مطلب ہے کہ قوم کو کم از کم ایک ہفتے کا راشن اکٹھا کرکے رکھ لینا چاہیے کیونکہ مریض کا علاج ہی کیاجارہا ہے نہ کہ مرض کا۔۔۔مزید دل نہیں کر رہا کہ کچھ اور لکھوں یا کہوں بس ان تمام تلخ حقائق کی روشنی میں ایک مشورہ دینا چاہتا ہوں ان تمام متعلقہ حکام کو جو نسل برباد ہوچکی وہ ہوچکی خدارا آنے والی نسلوں کو برباد ہونے سے بچایا جائے ورنہ آپ مریضوں کو مارتے چلے جائیں مارتے چلے جائیں تو کچھ نہیں ہوگا، معیشت کا ایک آسان سا فارمولا ہے کہ آپ پیداوار میں کمی کردیں تو سپلائی میں خود بخود کمی آجائے گی کیوںکہ جوں جوں آپ انھیں مارتے جارہے ہیں تو ان کی تعداد میں بھی دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
میری میڈیا سے بھی درخواست ہے کہ ماضی کی طرح حب الوطنی پر مبنی ڈرامے، تھیٹرز اور فلموں کا انعقاد و آغاز کرکے آنے والی نسلوں کے دماغوں میں حب الوطنی کا جذبہ نقش کریں کیونکہ کچا لوہا ہے اور آگ ہمارے پاس ہے اب ثابت صرف یہ کرنا ہے کہ ہم کس طرح کے دہکان ہیں۔
خیر بات کہیں کی کہیں نکل گئی! تو میں یہ بتا رہا تھا سویوں ،شیر خورمے، مٹھائیوںاور نمکو سے فارغ ہوتے تھے گھر کے بڑوں سے عیدی لیتے تھے اور فرّاٹے بھرتے ہوئے باہر چلے جاتے تھے کہ جہاں کہیں آئسکریم کھاتے، کہیں مختلف جھولوں سے لطف اندوز ہوتے، دوستوں کے ساتھ اپنے کپڑوں، چشموں اور گھڑیوں کا موازنہ کرتے اور بار بار گھر میں ہر تھوڑی دیر بعد عیدی کی لالچ میںچکر لگاتے کہ شاید کوئی نیا مہمان آیا ہو تو لگے ہاتھوں اس سے بھی عیدی پکڑ لیں۔ کیا پر رونق دن تھے وہ، کیسی خوشیاں اور محبتیں تھیں اور کیسے دلفریب کھیل تھے کھیلنے کو لیکن مجھے سمجھ ہی نہیں آیا کہ آج 2013 کی یہ عید کیسی تھی؟
ایک طرف جہاں پاکستان دہشت گردی، خوف، اور اندرونی و بیرونی خطرات کا شکار ہے اور دوسری جانب ہم یہ بھی سنتے ہیں کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے قومی سطح پرحکومت کی جانب سے ایک پالیسی مرتب کی جارہی ہے تودل یہ ماننے کو تیار ہیں نہیں ہورہا ہے کہ آیا آپ مریض کا علاج کرنا چاہ رہے ہیںیا مرض کا کیونکہ آپکے غلط علاج کے باعث دہشت گردی کا یہ مہلک مرض تو بڑھتا ہی چلا جارہا ہے ۔
ایک بڑی مشہور اور مستند کہاوت ہے کہ کچے لوہے سے کچھ اچھا اور بہترین بنانے کے لیے اسے آگ میں دہکانا پڑتا ہے تو یہ عید پر جو میری آنکھوں نے دیکھا تو مجھے میرا تو کیا خاکم بدہن پاکستان کا مستقبل خطرے میں نظر آیا، کیا دیکھتا ہوں کہ چھوٹے چھوٹے بچوں کے ہاتھوں میں طرح طرح کی چھوٹی بڑی کھلونا پستولیں اور بندوقیں موجود ہیں اور اب بچے چشموں، جوتوں اورکپڑوں کے بجائے اپنے اپنے کھلونا اسلحہ کا موازنہ کررہے ہیں ، کچھ تو بچے میں نے ایسے بھی دیکھے کہ جو اپنے والدین سے بضد تھے کہ انھیں اعلٰیٰ قسم کی کھلونا بندوق دلوائیں ورنہ وہ عید نہیں منائیں گے اور بیچارے والدین ان کے سامنے بے بس دکھائی دیے کہ اب عید کے اس پرمسرت موقعے پر وہ بچوں کی پٹائی تو لگانے سے رہے اور ویسے بھی عید تو بچوں کی ہی ہوتی ہے لہذا ہر جگہ ہی بچے اپنے مطالبات منظور کراتے نظر آتے رہے۔
حالیہ انتخابات میں بڑے بڑے بلند و بانگ دعوے سننے اور دیکھنے کو ملے کہ ہم آئیں گے تو لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کردیں گے، ہم آئیں گے تو دہشتگردی کا خاتمہ کردیں گے، ہم آئیں گے تو روپیہ ڈالر کے برابر لاکھڑا کریں گے وغیرہ وغیرہ... لیکن پھر دیکھتے ہیں کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں جیل بھی ٹوٹی اور 234 خطرناک قیدیوں کو باآسانی آزاد کرواکر لے جایا گیا اور بعد میں ان کی آزادی کے جشن کی وڈیو بھی منظر عام پر لائی گئی، پھر انتہائی محفوظ سمجھی جانے والی کوئٹہ پولیس لائن میں دہشت گردی کا نشانہ بننے والے ایس ایچ او کی نمازِ جنازہ کی ادائیگی میں ہونے والے خودکش حملے میں ڈی آئی جی سمیت کئی پولیس افسران اور دیگر لوگوں کی شہادت کا واقعہ پیش آیا اور اب پوری قوم نے ساڑھے پانچ گھنٹے ایک شخص کے ہاتھوں پورے اسلام آباد کو ہائی جیک ہوتے دیکھا۔ افسوس صد افسوس کہ ایک بار پھر مریض کا علاج کرنے کی کوشش کی گئی مرض وہیںکا وہیں رہا۔
جب یہ ساری صورتحال جاری تھی اور اس تمام صورتحال کی لمحہ بہ لمحہ کوریج دینے کے لیے میڈیا اپنے نیوز بلیٹن تک ختم کرکے محض کیمرہ سکندر پر ہی لگائے بیٹھا رہا تو مجھے کچھ نجی چینلز پر رات کے آخری پہر میں اینکرز کی زبان سے یہ بھی کہتے سنا کہ لال مسجد واقعے میں بھی یہ صورتحال ہوئی تھی تو میڈیا ہی تھا جس نے چلا چلا کر حکومت وقت سے کارروائی کا مطالبہ کیا تھا اور جب کارروائی کی گئی تو اسکے خلاف فوراً ہرزہ سرائی شروع کردی تھی اور اس سکندر والے واقعے میں بھی یہ صورتحال رہی کہ کارروائی کی جائے کارروائی کی جائے لیکن دوسری جانب ایک سرپھرے انسان کو بھرپور موقع دیا کہ وہ اپنا پیغام پوری قوم تک پہنچائے، اپنے مطالبات کو من و عن تسلیم کروائے۔
یعنی اگر ایک شخص محض دو بندوقوں کے ساتھ ساڑھے پانچ گھنٹے تک پوری قوم کو مضطرب کیے رکھ سکتا ہے تو اگر 10 پندرہ سر پھرے ایسی حرکتیں کرنے لگیں تو اس کا مطلب ہے کہ قوم کو کم از کم ایک ہفتے کا راشن اکٹھا کرکے رکھ لینا چاہیے کیونکہ مریض کا علاج ہی کیاجارہا ہے نہ کہ مرض کا۔۔۔مزید دل نہیں کر رہا کہ کچھ اور لکھوں یا کہوں بس ان تمام تلخ حقائق کی روشنی میں ایک مشورہ دینا چاہتا ہوں ان تمام متعلقہ حکام کو جو نسل برباد ہوچکی وہ ہوچکی خدارا آنے والی نسلوں کو برباد ہونے سے بچایا جائے ورنہ آپ مریضوں کو مارتے چلے جائیں مارتے چلے جائیں تو کچھ نہیں ہوگا، معیشت کا ایک آسان سا فارمولا ہے کہ آپ پیداوار میں کمی کردیں تو سپلائی میں خود بخود کمی آجائے گی کیوںکہ جوں جوں آپ انھیں مارتے جارہے ہیں تو ان کی تعداد میں بھی دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
میری میڈیا سے بھی درخواست ہے کہ ماضی کی طرح حب الوطنی پر مبنی ڈرامے، تھیٹرز اور فلموں کا انعقاد و آغاز کرکے آنے والی نسلوں کے دماغوں میں حب الوطنی کا جذبہ نقش کریں کیونکہ کچا لوہا ہے اور آگ ہمارے پاس ہے اب ثابت صرف یہ کرنا ہے کہ ہم کس طرح کے دہکان ہیں۔