علم کا کلچر

مندرجہ بالا واقعہ علم کی اہمیت کو نہایت واضح کر رہا ہے۔

apro_ku@yahoo.com

کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت امام غزالی کسی علاقے میں پہنچے، ابھی قیام کو چند روز ہی گزرے تھے کہ وہاں سے کوچ کرنے کی تیاری کی، آپ کے شاگرد نے حیرانگی سے پوچھا کہ اتنی جلدی واپسی کیوں؟ آپ نے فرمایا کہ اس علاقے میں قیام کیے چند روز ہوگئے لیکن یہاں کوئی طالب علم میرے پاس علم حاصل کرنے نہیں آیا، جس بستی اور شہر میں علم کا شوق نہ ہو وہاں عذاب خداوندی نازل ہوتا ہے، اس لیے اﷲ کی ناراضگی ظاہر ہونے سے قبل یہاں سے نکل جانا ہی بہتر ہے۔

مندرجہ بالا واقعہ علم کی اہمیت کو نہایت واضح کر رہا ہے۔ آج کے دور میں مطالعہ اور لکھنے کا ذوق و شوق پہلے جیسا نہیں رہا ہے حتیٰ کہ اساتذہ کرام میں بھی پہلے والا کلچر نہیں رہا، خواہ اس کی وجہ کچھ بھی ہو، بہرکیف آج بھی ایسے اساتذہ موجود ہیں جو اس میدان میں کارہائے نمایاں انجام دے رہے ہیں۔ ایک ایسے ہی نوجوان استاد ڈاکٹر سہیل شفیق ہیں جو جامعہ کراچی کے شعبہ تاریخ اسلام میں بحیثیت اسسٹنٹ پروفیسر اپنی خدمات انجام دینے کے ساتھ ساتھ علمی اور تحقیقی سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کی تازہ کاوش ''وفیاتِ معارف'' بلاشبہ دستاویزی اہمیت کی حامل ایک ضخیم کتاب ہے جو اساتذہ و محققین، تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے حضرات اورعام قارئین کے لیے بھی یکساں مفید اور دلچسپی کا باعث ہے۔ اس میں گزشتہ ایک صدی کی اہم شخصیات و واقعات کا بخوبی احاطہ کیا گیا ہے۔ تحریروں کا یہ انسائیکلوپیڈیا نہایت خوبصورت انداز میں سفید کاغذ پر طبع ہوا ہے اور بڑے سائز کے 800 صفحات پر مشتمل ہے۔

ڈاکٹر محمد سہیل شفیق اس سے قبل ''ماہنامہ معارف'' اعظم گڑھ کا نوے سالہ اشاریہ بھی ترتیب دے چکے ہیں، جس کی بھرپور پذیرائی نہ صرف پاکستان میں بلکہ ہندوستان میں بھی ہوئی اور پاک و ہند کے اہلِ علم حضرات نے اسے شعبہ اسلامی تاریخ، جامعہ کراچی کا ایک کارنامہ قرار دیا۔

وفیات کے سلسلے میں ڈاکٹر سہیل شفیق نے معارف کے (جولائی 1916 تا دسمبر 2012) کے ایک ایک صفحے اور حتی المقدور ایک ایک سطر کا مطالعہ کیا ہے۔ وفیات کے علاوہ شذرات، اخبارِ علمیہ، حتیٰ کہ اگر خطوط میں بھی کسی کی وفات کی اطلاع دی گئی ہے تو اس کا بھی اندراج کردیا ہے۔ ریکارڈ کی درستگی کے لیے استدراکات و تصیحات کو بھی مذکورہ وفیات کے آخر میں درج کردیا ہے۔ ابتدا میں فہرست مضامین میں شخصیات کا اندراج معارف کی زمانی ترتیب کے مطابق کیا ہے جب کہ آخر میں (اشاریہ میں) شخصیات کے ناموں کو الفبائی ترتیب سے درج کیا ہے تاکہ مطلوبہ شخصیت کو تلاش کرنے میں آسانی رہے۔

مجموعی طور پر ماہنامہ معارف (اعظم گڑھ) میںگزشتہ چھیانوے سال (1916 تا 2012) میں سات سو پچاسی شخصیات کی وفیات قلمبند کی گئی ہیں۔ یہ تذکرہ رفتگاں اعزہ و احباب، علماء و فضلاء، ادباء و شعراء، ارباب سیاست اور اصحاب کمال سب کو محیط ہے۔ ان شخصیات میں ہندو بھی ہیں، عیسائی بھی ہیں، یہودی بھی ہیں، ہندوستانی بھی ہیں، انگریز بھی، مصری بھی ہیں اور ترکی بھی، امریکی بھی ہیں اور جرمن بھی، اسی طرح ان میں جج بھی ہیں بیرسٹر بھی، ملاّ بھی ہیں اور مسٹر بھی، سائنسدان بھی ہیں، ماہر نفسیات بھی، ماہر جنسیات بھی ہیں، صوفی باصفا بھی، پیر بھی ہیں فقیر بھی، شاعر بھی ہیں خطیب بھی، سیاستداں بھی ہیں، گوشہ نشیں و گمنام بھی ہیں اور نامور مشاہیر بھی، غرض یہ کہ کون ہے جس کا تذکرہ نہیں ہے۔ بجا طور پر معارف کے یہ صفحات گزشتہ صدی کی ملی و قومی، علمی و ادبی اور سیاسی و سماجی تاریخ کا ایک ماخذ ہیں اور وفیات کے انسائیکلوپیڈیا کا درجہ رکھتے ہیں۔


ماہنامہ ''معارف'' دارالمصنفین اعظم گڑھ کا بین الاقوامی شہرت یافتہ علمی و تحقیقی جریدہ ہے جس کا اجراء سید سلیمان ندوی کی ادارت میں 1916 میں ہوا۔ معارف کے متعدد امتیازات میں سے ایک امتیاز یہ ہے کہ ارباب علم و فضل، علماء، ادباء، شعراء، اور مختلف سیاسی و سماجی شخصیات کے انتقال پر معارف نے انھیں خراج تحسین پیش کیا ہے۔ بالخصوص مدیرانِ معارف سید سلیمان ندوی، شاہ معین الدین ندوی، عبدالسلام قدوائی ندوی، سید صباح الدین عبدالرحمن، مولانا ضیاء الدین اصلاحی اور مولانا عمیر الصدیق دریا بادی ندوی نے سیکڑوں ارباب ذکر و فکر کے احوال زندگی، معاشرتی و سماجی خدمات، علمی و ادبی فتوحات اور ذاتی اوصاف و کمالات کو قلمبند کیا۔

تاریخ کا ایک ماخذ تذکرہ رفتگاں یا وفیات نگاری بھی ہے۔ وفیات کے موضوع پر لکھی جانے والی کتب میں سب سے زیادہ شہرت جس کتاب کو حاصل ہوئی وہ ابن خلکان (681ھ / 1282ء) کی وفیات الاعیان و انباء الزمان ہے۔ ابن خلکان نے اس کتاب میں مختلف طبقات یعنی علماء، شعراء اور وزراء کے حالات جمع کیے۔ اس کے علاوہ وفیات پر دیگر معروف کتابوں میں ذہبی (758ھ / 1357ء) کی تاریخ الاسلام و وفیات المشاہیر والاعلام اور علامہ ابن کثیر کی البدایہ والنہایہ معروف ہیں۔ البدایہ و النہایہ اگرچہ تاریخ عالم کے واقعات پر سنین وار لکھی گئی ہے لیکن سال بہ سال وفات پانے والے مشاہیر کا ذکر بھی ہے۔

مذکورہ وفیات پر بعض تعزیتی تحریریں تو تحقیقی مقالات کی حیثیت رکھتی ہیں۔ وفیات معارف میں سرخیوں کی رعایتِ لفظی پراثر، پردرد اور فصاحت و بلاغت کا شاہکار ہے، جیسے غمِ اکبر (اکبر الٰہ آبادی)، ہماری جماعت کا لعلِ شب چراغ گم ہوگیا (عبدالرحمن گرامی ندوی)، خادمہ ملت و مخدومہ امت کا ماتم (والیۂ بھوپال سلطان جہاں بیگم)، الصلوٰۃ علی ترجمان القرآن (مولانا حمیدالدین فراہی)، ماتم یہ زمانہ میں بپا ''تیرے'' لیے ہے (مولانا محمد علی جوہر)، ماتمِ اقبال (علامہ محمد اقبال)۔

''وفیاتِ معارف'' قیمت کے لحاظ سے سولہ سو روپے ہونے کے ناطے ایک مہنگی کتاب تو ضرور ہے مگر یہ ایک ایسا نادر تحفہ قرار دیا جاسکتا ہے جو درحقیقت کسی ایسے انسائیکلوپیڈیا سے کم نہیں جو کسی طالب علم خصوصاً تحقیق کرنے اور لکھنے والوں کی مستقل ضرورت ہو اور وقتاً فوقتاً اس کی ضرورت بھی پیش آتی ہو۔

درحقیقت آج ہمارے گھروں میں ایک ایسے پڑھے لکھے کلچر اور ماحول کی بھی ضرورت ہے کہ جہاں ایک گوشہ یا الماری بھی ہو جو معیاری کتابوں سے سجی ہو نہ کہ صرف ٹی وی اور میوزک سیٹ کی اشیاء سے ہمارے ڈرائنگ روم سجے ہوں۔ آج نئی نسل کی صحیح سمت میں تربیت کے لیے گھر میں ایک پڑھنے والے ماحول کی بھی سخت ضرورت ہے۔ اس طرف توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے اسی لیے راقم نے اپنے کالم کے آغاز میں معروف علمی شخصیت حضرت امام غزالی کے حوالے سے چھوٹا سا واقعہ بیان کیا ہے۔
Load Next Story