گزرے پندرہ دن
میرا شہر کراچی عرصہ دراز سے دہشت گردوں کے نرغے میں ہے۔
کبھی کبھی یہ کیفیت طاری ہوتی ہے کہ کچھ بھی لکھنے کو دل نہیں چاہتا ایسی ہی کیفیت میںپندرہ دن گزر گئے اور میں کچھ بھی نہ لکھ سکا۔ میں جب بھی اس کیفیت سے گزرتا ہوںتو دل میں رہ رہ کر یہی خیال آتا ہے کہ ہتھیار اٹھالوں اور کسی بھی محاذ پر دہشت گردوں کے خلاف لڑوں اور یہ کوئی انوکھا خیال میرے دل میں نہیں آتا۔ ماضی میں ایسا عملاً ہوچکا ہے کہ جب اہل قلم نے (خصوصاً ترقی پسند اہل قلم نے) قلم رکھ کر بندوقیں اٹھائیں اور سامراج کے خلاف محاذ جنگ پر نبرد آزما ہوئے۔ مگر میں خود سے ہی جنگ کرکے تھک ہار کر پھر قلم اٹھالیتا ہوں۔ سو گئے پندرہ دن اسی کشمکش میں گزر گئے۔ آج میرا قلم انھی پندرہ دنوں کا ماتم کر رہا ہے۔
میرا شہر کراچی عرصہ دراز سے دہشت گردوں کے نرغے میں ہے۔ آج 16 لاشیں گرائی گئیں، ان کا جرم کیا تھا ،کوئی بتانے کو تیار نہیں، پہلے عقوبت خانوں کا عذاب تھا، بوری بند لاشیں ملتی تھیں اور اب ٹارگٹ کلنگ، خودکش بمبار، بھتہ گینگ کلر نے قیامت برپا کی ہوئی تھی۔ یہی حالات تباہی و بربادی کے لیے کیا کم تھے کہ 3 اگست کو شہرکراچی میں بارش ہوگئی اور اس شہر کے خراب انتظامات کی وجہ سے سڑکیں، ندی نالے بن گئیں، 21 افراد ابر رحمت کی نذر ہوگئے۔ اسی فضا میں ہمارے بہت پیارے دانشور درجنوں کتابوں کے مصنف ڈاکٹر فرمان فتح پوری بھی دنیا چھوڑ گئے۔ دو روز پہلے ہر دل عزیز صحافی اور کرکٹ کمنٹیٹرمنیر حسین بھی اللہ کو پیارے ہوگئے تھے۔
منیر حسین کرکٹ کی اردو کمنٹری کے بانی کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ 5 اگست کو شہر کراچی میں بارش اور خصوصاً سیلابی ریلے سے مزید 18 افراد جاں بحق ہوگئے۔ گڈاپ ٹاؤن سے آنے والے سیلابی ریلے نے کئی بستیاں اجاڑ کے رکھ دیں۔ 6 اگست کی خبر ہے کہ کراچی میں سیلابی ریلے کی وجوہات کا حکومت پتہ نہ چلاسکی۔ سیلابی ریلے سے متاثرہ عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ ایسا لگا جیسے سونامی آگیا۔ سمندری طغیانی جیسی آواز تھی۔ ایک معمر خاتون کی یادگار نایاب تصاویر سیلاب میں بہہ گئیں، خاتون دن بھر علاقے میں زاروقطار روتے ہوئے تصاویر ڈھونڈتی رہیں اور حکومت نے سب سے بڑے شہر کراچی کو حسب روایت حالات کے سپرد کیے رکھا۔ ملک کے دیگر صوبوں میں بھی سالانہ سیلاب نے تباہی و بربادی کا اپنا ریکارڈ برقرار رکھا، خیبر پختونخوا، اپر پنجاب، وسطی پنجاب اور آج کل لوئر پنجاب اور سندھ میں سیلابی عفریت داخل ہوچکا ہے۔
''جل رہا ہے مرا بلوچستان'' یہ شاعر صابر ظفر کا نوحہ ہے اور جالب نے کہا تھا ''بلوچستان جلتا ہے تو پاکستان جلتا ہے۔'' 7 اگست کو عید منانے کے لیے بلوچستان سے مزدور اپنے آبائی شہروں کو روانہ ہوئے۔ مسلح دہشت گردوں نے تین مسافر کوچوں کو مچھ شہر میں روکا، شناختی کارڈ چیک کیے اور پہاڑوں پر لے جاکر گولیاں مار کے ہلاک کردیا تمام 14 مقتولین کا تعلق پنجاب سے تھا۔ بلوچستان آزاد آرمی نے ذمے داری قبول کرلی۔ بارڈر پر پاک بھارت فوجوں کی ایک دوسرے پر بلااشتعال فائرنگ کا الزام۔ مظفر ٹپی صاحب کے مقرر کردہ نئے بلدیہ ایڈمنسٹریٹر ثاقب سومرو نے تباہ حال کراچی سے لاتعلقی کا اظہار کیا اور 8 منٹ اجلاس کرکے گھر چلے گئے۔ 8 اگست لیاری میں بزنجو چوک پر دھماکا 11معصوم فٹ بالر اور تماشائی ہلاک 25 زخمی، صوبائی وزیر جاوید ناگوری بال بال بچ گئے۔ اصل ہدف نور محمد عرف بابا لاڈلا تھا وہ بچ گیا۔ دھماکہ فٹ بال میچ کے اختتام پر ہوا۔ دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن پر حکمراں جماعت کا دھاوا، پاکستانی پرچم جلادیا۔ مستونگ میں شاپنگ سینٹر میں بم دھماکہ، عید کی خریداری کے لیے آنے والی بچی ہلاک، 8 افراد زخمی۔
ملک بھر میں شوال کا چاند نظر آیا، 9 اگست کو ملک بھر میں عید الفطر منائی گئی ۔ میرے بلوچستان میں بھی عید کا چاند نظر آیا۔ جہاں فائرنگ میں جاں بحق ہونے والے ایس ایچ او کی نماز جنازہ کے دوران ایک دہشت گرد بمبار نے خود کو اڑادیا۔ ڈی آئی جی آپریشن فیاض احمد سنبل، ایس ایس پی انور خلجی، ڈی ایس پی شمس سمیت 34 افسران اور اہلکار شہید ہوئے۔ 60 سے زائد افراد زخمی ہوئے جن میں اکثر کی حالت تشویشناک بتائی گئی۔ اس بار ہمارے ملک میں عید یوں آئی۔ عید والے دن بھی بلوچستان کو نہ چھوڑا گیا اور نماز عید کے دوران قاتلوں نے فائرنگ کرکے 10 افراد مار دیے۔ کہا جارہا ہے کہ یہ ذاتی دشمنی کا واقعہ تھا۔ ہمارے وزیر داخلہ چوہدری نثار کوئٹہ پہنچے اور دونوں سنگین واقعات پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے نئی حکمت عملی ترتیب دینے کا اعلان کیا۔ اس موقعے پر وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک، گورنر، میر حاصل بزنجو، وزیر اطلاعات پرویز رشیداور اچکزئی صاحب بھی موجود تھے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں کے خلاف ازخود نوٹس لے لیا۔ چیف جسٹس آج کل کوئٹہ میں مسلسل مقدمات سن رہے ہیں۔ 12 اگست ۔ اسلام آباد کے علاقے بارہ کہو کی علی مسجد پر خودکش حملہ ناکام، حملہ آور جوابی حملے میں مارا گیا۔ تعلق لشکر جھنگوی سے تھا۔ 13 اگست۔ پاکستان کا سرحدی خلاف ورزیوں پر بھارت سے احتجاج اور کراچی میں فائرنگ سے یومیہ معمول کے مطابق 7 اور لیاری گینگ وار میں 3 افراد ہلاک۔ سیلابی ریلے ملک بھر میں تباہی مچا رہے ہیں اور متاثرین کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ غریب، عورت، مرد، بوڑھے، جوان، بچے، سوکھے سڑے مرجھائے چہرے لیے سیلاب سے بھوکے پیاسے لڑ رہے ہیں۔
14 اگست۔ یوم آزادی کا اخبار کہہ رہا ہے ''کراچی میں اسماعیلی جماعت خانے اور رہائشی پروجیکٹ پر دستی بموں سے حملہ اندرون سندھ بھی دھماکے، فائرنگ 12 افراد ہلاک 45 زخمی''۔ ''نئی سیکیورٹی پالیسی کا اعلان، مشترکہ انٹیلی جنس سیکریٹریٹ قائم کرنے کا اعلان'' وزیر اعظم نواز شریف کا وزارت داخلہ میں خطاب۔ 15 اگست۔ مصری فوج نے مرسی کے حامیوں کو ٹینکوں تلے روند ڈالا۔ 278 ہلاک سیکڑوں زخمی۔ بھارت نے دریائے چناب میں پانی چھوڑ دیا۔ ملک بھر میں سیلابی ریلوں سے تباہی، کئی افراد ہلاک و لاپتہ۔ ہر سال کی طرح تباہی و بربادی جاری۔ کراچی میں حسب معمول فائرنگ 6 افراد ہلاک، لیاری میں بموں سے حملے، کوئٹہ میں وزیر اعلیٰ ڈاکٹر مالک کی مسلح بلوچ تنظیموں کو مذاکرات کی دعوت۔ جشن آزادی پر کراچی میں نوجوانوں کی ہلڑ بازی۔ شہریوں کو حراساں کیا گیا۔
فیملیز پریشان اور پولیس غائب۔ 16 اگست۔ ''مسلح شخص سکندر ملک نے اسلام آباد کو 5 گھنٹے تک یرغمال بنائے رکھا۔ پولیس ناکام، زمردخان نے جان پر کھیل کر گرفتار کرادیا''۔ ''کراچی میں سفاری پارک میں مقابلہ ڈی ایس پی، اے ایس آئی جاں بحق، 3 ڈاکو ہلاک۔ کل سے کراچی میں 13 گھنٹے تک لوڈشیڈنگ کا اعلان''۔ 18 اگست۔ ''مجھے گرفتار کرلیا جائے تو ساتھی گھبرائیں نہیں' الطاف حسین'' ۔ 19 اگست۔ ''بھارت نے دریائے ستلج میں بھی ایک لاکھ کیوسک پانی چھوڑ دیا'' اور مزید تباہی اور بربادی کا سامان کردیا۔ ہم تو پہلے ہی مرے ہوئے ہیں تم اور مار رہے ہو، اچھے پڑوسی ہو! 20 اگست۔ سندھ میں بلدیاتی نظام کا بل کثرت رائے سے منظور۔ ایم کیو ایم کا ایک بار پھر احتجاج۔ اور آخر میں جالب کے اشعار۔
جدھر جائیں، وہی قاتل مقابل
یہ صورت کب نہ تھی اے دل مقابل
فسوں ٹوٹا نہ بڑھتے فاصلوں کا
وہی ہے دوریٔ منزل مقابل
بچا کر ذہن و دل نکلیں کدھر سے
کہ ہے ہر گام پر جاہل مقابل
زمیں کو آسماں کہنا نہ آیا
ہمیشہ یہ رہی مشکل مقابل