بھوتوں کی نجات
بھوت بولا ہم بھوتوں میں بھی اچھے اور برے دونوں طرح کے بھوت ہیں۔
چینی کہتے ہیں اگر تم انھیں مانتے ہو تو ان کا وجود ہوگا لیکن اگر تم نہیں مانوگے تو ان کا وجود نہیں ہے ۔ آئیے ! اس کہاوت کے پیچھے موجود کہانی سنیے ۔ تقریباً ایک ہزار بر س قبل سونگ عہد سلطنت میں ژوکسی نامی ایک مشہور عالم ہوگزرا ہے، اس کاعقیدہ تھاکہ جنوں بھوتوں کا وجود نہیں ہے، چنانچہ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ ایک مضمون لکھے گا جس کا عنوان ہوگا ''بھوتوں کا وجود نہیں ہے'' وہ اتنا بڑا عالم و دانا تھا کہ خود بھوت بھی اس سے ڈرتے تھے۔ اگر وہ کہہ دیتا کہ بھوت نہیں ہیں تو بھوتوں کا وجود برقرار نہیں رہ سکتا تھا۔
جب بھوتوں کو پتہ چلا کہ وہ ایک ایسا مضمون لکھ رہا ہے تو انھوں نے ایک ہنگامی اجلاس منعقد کیا اور اس مسئلے پر غور کیا۔ انھوں نے فیصلہ کیاکہ سب سے چالاک بھوت کو اس کے پاس بھیجا جائے تاکہ وہ اسے مضمون لکھنے سے باز رکھنے کی التجا کرے۔ چنانچہ ایک رات اسمارٹ ترین بھوت ژوکسی کے ڈیسک پر آگیا اوراس کے پیر پکڑنے لگا، ژوکسی حیران ہوا اور پوچھا '' بھوت ، تمہیں اس وقت مجھے ڈسٹرب کرنے کی جرأت کیسے ہوئی چلے جاؤ یہاں سے اور تم میرے مطالعے کے کمرے میں آئے کیوں ہو ۔'' بھوت نے جواب دیا ۔ میں یہاں آپ کے پاس ایک درخواست لے کر آیا ہوں ۔ انسان ''یانگ'' کی دنیا میں رہتے ہیں اور بھوت پریت ''ین'' کی دنیا میں۔ ہم الگ الگ دنیاؤں میں ہیں لہذا میں کسی بھی طرح سے تمہاری مدد نہیں کر سکتا۔ ژوکسی نے کہا جناب اعلیٰ میں ایک خاص التجا کرنے آیا ہوں۔
اچھا کہو تب بھوت نے ژوکسی کو اپنے آنے کی وجہ بتائی اور بھوتوں کی نجات کی خاطر اس سے مضمون نہ لکھنے کی درخواست کی۔ ژوکسی ہنسا اور کہنے لگا ہم انسان تم بھوتوں کی بڑی مدت سے پوجا کرتے آئے ہیں اب و قت آ گیا ہے کہ تم بالکل ہی ختم ہو جاؤ ۔ بھوت بولا ہم بھوتوں میں بھی اچھے اور برے دونوں طرح کے بھوت ہیں۔ ژوکسی بولا سنا ہے تم ہر کام کر سکتے ہو کیا تم مجھے کمرے سے باہر لے جا سکتے ہو۔ بھوت نے کہا یقینا جناب عالیٰ ژوکسی کو خبر بھی نہ ہوئی کہ اگلے ہی لمحے وہ باہر تھا۔ وہ بھوت کی قابلیت سے حیران ہوگیا مگر ایسا ماننے پرتیار نہ تھا۔ اس نے دوبارہ پوچھا اچھا تم میرا جسم تو لے جاسکتے ہو لیکن تم میرے دل کو حرکت دے سکتے ہو۔ بھوت نے کہا یہ ناممکن ہے جنا ب والا ، ہم صرف چیزوں کو یاکسی شخص کے جسم کو حرکت دے سکتے ہیں اور یہ ہمارے موجود ہونے کا ثبوت ہے۔ ہم فریب نظر میں وجود رکھتے ہیں۔ اگر آپ عقیدہ رکھیںتو ہم وجود رکھیں گے لیکن اگر آپ عقید ہ نہ رکھیں گے تو ہم بھی وجو د نہیں رکھیں گے۔ آپ براہ کرم اپنے مضمون میں اس طرح کی کوئی بات لکھیں ۔
ژوکسی نے محسو س کیاکہ ان الفاظ میں کوئی ضرر نہیں ہے چنا نچہ اس نے بھوت سے وعدہ کر لیا کہ وہ ایسا ہی لکھے گا۔ بھوت خو شی خوشی چلاگیا چنانچہ ژوکسی نے بھوت پریت وجود نہیں رکھتے کے عنوان تلے اپنے مضمو ن میں لکھا اگر تم عقیدہ رکھوگے تو جنوں بھوتوں کا وجود ہوگا لیکن اگر تم ان پر عقید ہ نہ رکھو گے تو جنوں بھو توں کا کوئی وجود نہیں ہے۔ بالکل جوں کی توں صورتحال خوف کے ساتھ ہے اگر تم خو ف کھاؤ گے تو اس کا وجود ہوگا اور اگر نہیں کھاؤ گے تو پھر خوف کا وجود نہیں ہوگا، آج سارا ملک خوف میں مبتلا ہے ۔
مختلف خوف بائیس کروڑ انسانوں میں زندہ ہیں۔ دہشتگردی کا خوف، موت کا خو ف ، بیروزگاری کا خوف ، مہنگائی کا خوف ، چوری اور ڈاکے کا خوف، انتہاپسندی کا خوف غرض دنیا بھرکے خوفوں نے ہمارے ملک میں اپنے ڈیرے ڈال رکھے ہیں، اتنا خوف ہے کہ خود خوف بھی خوف سے کانپ رہا ہے ۔ اسی خوف نے جیتے جاگتے انسان کو ردی اور ناکارہ انسانوں میں تبدیل کرکے رکھ دیا ہے ، اگر کسی قوم کو تباہ کرنا مقصود ہو تو پھر آپ اس کو خو فزدہ کردیں وہ قوم خود بخود تباہ ہوجائے گی۔ یہ معاملہ ہمارے ساتھ انتہائی باریکی کے ساتھ کیا جا رہا ہے ۔ خوف ایک ذہنی بیماری ہے خوف اپنے آپ کو خواہ مخواہ ادنی، کمزور، لاغر سمجھنے کا نتیجہ ہے ۔
اپنے آپ کو مظلوم اور مصیبت زدہ سمجھنے کی عادت خائف رہنے سے پیدا ہوتی ہے خوف ہمارے ذہن کو منتشر کردیتا ہے، صلاحیتوں کو تباہ کر دیتاہے اس کی وجہ سے ساری ناانصافیوں ، سارے ظلم و ستم ، معاشی قتل عام ، عدم مساوات ، کے خلا ف آپ چپ سادھے رہتے ہیں ۔ آپ اپنے تمام تر حقوق سے چپ چاپ دستبردار ہو جاتے ہیں آواز اٹھانا تو دور کی بات ہے آپ قاتلوں ، ڈاکوؤ ں ،لیٹروں کے خلاف بات سنتے بھی ڈرتے ہیں۔ برنارڈ شا نے کہا ہے ہمیں مایوس اور خوفزدہ ہر گز نہیں ہوناچاہیے کیونکہ مایوسی اور خوف گنا ہ کی بد ترین شکل ہے جب کہ بقراط نے کہا ہے خوف اور مایوسی انسان کے سب سے بڑے دشمن اور خدا کے عذاب ہیں ۔ خدارا اس کھیل کو سمجھنے کی کوشش کریں جو آپ کے خلاف کھیلا گیا ہے۔
یاد رکھیں کھیل کھیلنے والے کامیاب ہوگئے ہیں ، یہ بھی ذہن نشین ر کھیں کہ اگرکسی شخص کو اپنے آپ پر اعتماد نہ ہواور اس کی قوت ارادی کمزور ہو اور وہ خو فزدہ ہو تو وہ واقعات کے ہاتھوں ایک کھلونا بن جاتا ہے۔ حالات اسے کٹھ پتلی بنا کر نچانے لگتے ہیں اور ہوا کا ہر جھونکا اسے اڑاتے پھرتا ہے ۔ اپنے اوپر یقین رکھنا جہاد کا درجہ رکھتا ہے ڈر ، مایوسی اور وہم زندگی کا زہر ہیں حوصلہ ، قوت اور خود اعتمادی زندگی کاامرت ہیں ، انگریزی کہاوت ہے جب ارادہ بن جائے تو راستہ مل جاتا ہے ۔ کوئی رکاوٹ کسی مصمم ارادے کا راستہ نہیں روک سکتی۔
آئیں ہم اپنے لیے اپنے پیاروں کی خاطر سب سے پہلے اپنے تمام خو ف کو شکست دے دیں اور ان غاصبوں ، لیٹروں ، چوروں ، انتہاپسندوں ، دہشتگردوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں جنہوں نے ہماری زندگی دوزخ بنا رکھی ہے تو پھر آپ خود ہی دیکھ لیں گے کہ یہ سب کے سب کس طرح بھاگتے ہیں اس لیے کہ عوام سے بڑی طاقت کوئی اور نہیں ہے اوریہ سب کے سب انتہائی بزدل ، ڈرپوک ہیں جو بظاہر طاقتور نظر آتے ہیں لیکن اصل میں ان کا حال بالکل دیمک ذرہ لکڑی کی طرح کا ہے ۔ انتہائی کھوکھلے اور بوسیدہ ۔
کامیابی اتفاقیہ طور پر نہیں ملاکرتی یہ ہمارے رویوں کا نتیجہ ہوتی ہے اور ہمارے رویے ہمارا اپنا انتخاب ہوتے ہیں چنانچہ کامیابی انتخاب ہوتی ہے اتفاق نہیں اورکامیابی جدوجہد کے بغیر حاصل نہیں ہوتی ۔ بیالوجی کے استاد نے طلبا ء کو بتایا کہ تتلی کس طرح خول کو توڑکر باہر نکلتی ہے پھر اس نے خول ان کے سامنے رکھ دیا اور بتایا کہ دو گھنٹے بعد اس میں سے تتلی نکلے گی اس نے انھیں منع کیا کہ کوئی تتلی کی مدد نہ کرے اس کے بعد وہ کلاس روم سے باہر چلاگیا۔
ٹھیک دو گھنٹے بعد خول ٹوٹنے لگا اور تتلی باہر آنے کی جدو جہد کرنے لگی اس کی حالت دیکھ کر ایک طالب علم سے رہا نہ گیا اور اس نے استاد کی ہدایت کو نظر اندازکرتے تتلی کی مدد کے خیال سے خول کو توڑ دیا، تتلی آزاد ہوگئی لیکن تھوڑی ہی دیر میں مرگئی جب استاد کو پتہ چلا تو اس نے طلبا ء کو سمجھایا کہ خول کو توڑنے کی جدوجہد تتلی کو وہ قوت عطا کرتی ہے جس سے وہ زندہ رہتی ہے چونکہ طالب علم نے اس کو جدو جہد نہیں کرنے دی تھی اس لیے وہ مرگئی ۔ زندگی میں آزادی ، ترقی ، خوشحالی،اختیار ، مساوات کا جدوجہد اور خواہش کے بغیر حصول ناممکن ہے۔
جب بھوتوں کو پتہ چلا کہ وہ ایک ایسا مضمون لکھ رہا ہے تو انھوں نے ایک ہنگامی اجلاس منعقد کیا اور اس مسئلے پر غور کیا۔ انھوں نے فیصلہ کیاکہ سب سے چالاک بھوت کو اس کے پاس بھیجا جائے تاکہ وہ اسے مضمون لکھنے سے باز رکھنے کی التجا کرے۔ چنانچہ ایک رات اسمارٹ ترین بھوت ژوکسی کے ڈیسک پر آگیا اوراس کے پیر پکڑنے لگا، ژوکسی حیران ہوا اور پوچھا '' بھوت ، تمہیں اس وقت مجھے ڈسٹرب کرنے کی جرأت کیسے ہوئی چلے جاؤ یہاں سے اور تم میرے مطالعے کے کمرے میں آئے کیوں ہو ۔'' بھوت نے جواب دیا ۔ میں یہاں آپ کے پاس ایک درخواست لے کر آیا ہوں ۔ انسان ''یانگ'' کی دنیا میں رہتے ہیں اور بھوت پریت ''ین'' کی دنیا میں۔ ہم الگ الگ دنیاؤں میں ہیں لہذا میں کسی بھی طرح سے تمہاری مدد نہیں کر سکتا۔ ژوکسی نے کہا جناب اعلیٰ میں ایک خاص التجا کرنے آیا ہوں۔
اچھا کہو تب بھوت نے ژوکسی کو اپنے آنے کی وجہ بتائی اور بھوتوں کی نجات کی خاطر اس سے مضمون نہ لکھنے کی درخواست کی۔ ژوکسی ہنسا اور کہنے لگا ہم انسان تم بھوتوں کی بڑی مدت سے پوجا کرتے آئے ہیں اب و قت آ گیا ہے کہ تم بالکل ہی ختم ہو جاؤ ۔ بھوت بولا ہم بھوتوں میں بھی اچھے اور برے دونوں طرح کے بھوت ہیں۔ ژوکسی بولا سنا ہے تم ہر کام کر سکتے ہو کیا تم مجھے کمرے سے باہر لے جا سکتے ہو۔ بھوت نے کہا یقینا جناب عالیٰ ژوکسی کو خبر بھی نہ ہوئی کہ اگلے ہی لمحے وہ باہر تھا۔ وہ بھوت کی قابلیت سے حیران ہوگیا مگر ایسا ماننے پرتیار نہ تھا۔ اس نے دوبارہ پوچھا اچھا تم میرا جسم تو لے جاسکتے ہو لیکن تم میرے دل کو حرکت دے سکتے ہو۔ بھوت نے کہا یہ ناممکن ہے جنا ب والا ، ہم صرف چیزوں کو یاکسی شخص کے جسم کو حرکت دے سکتے ہیں اور یہ ہمارے موجود ہونے کا ثبوت ہے۔ ہم فریب نظر میں وجود رکھتے ہیں۔ اگر آپ عقیدہ رکھیںتو ہم وجود رکھیں گے لیکن اگر آپ عقید ہ نہ رکھیں گے تو ہم بھی وجو د نہیں رکھیں گے۔ آپ براہ کرم اپنے مضمون میں اس طرح کی کوئی بات لکھیں ۔
ژوکسی نے محسو س کیاکہ ان الفاظ میں کوئی ضرر نہیں ہے چنا نچہ اس نے بھوت سے وعدہ کر لیا کہ وہ ایسا ہی لکھے گا۔ بھوت خو شی خوشی چلاگیا چنانچہ ژوکسی نے بھوت پریت وجود نہیں رکھتے کے عنوان تلے اپنے مضمو ن میں لکھا اگر تم عقیدہ رکھوگے تو جنوں بھوتوں کا وجود ہوگا لیکن اگر تم ان پر عقید ہ نہ رکھو گے تو جنوں بھو توں کا کوئی وجود نہیں ہے۔ بالکل جوں کی توں صورتحال خوف کے ساتھ ہے اگر تم خو ف کھاؤ گے تو اس کا وجود ہوگا اور اگر نہیں کھاؤ گے تو پھر خوف کا وجود نہیں ہوگا، آج سارا ملک خوف میں مبتلا ہے ۔
مختلف خوف بائیس کروڑ انسانوں میں زندہ ہیں۔ دہشتگردی کا خوف، موت کا خو ف ، بیروزگاری کا خوف ، مہنگائی کا خوف ، چوری اور ڈاکے کا خوف، انتہاپسندی کا خوف غرض دنیا بھرکے خوفوں نے ہمارے ملک میں اپنے ڈیرے ڈال رکھے ہیں، اتنا خوف ہے کہ خود خوف بھی خوف سے کانپ رہا ہے ۔ اسی خوف نے جیتے جاگتے انسان کو ردی اور ناکارہ انسانوں میں تبدیل کرکے رکھ دیا ہے ، اگر کسی قوم کو تباہ کرنا مقصود ہو تو پھر آپ اس کو خو فزدہ کردیں وہ قوم خود بخود تباہ ہوجائے گی۔ یہ معاملہ ہمارے ساتھ انتہائی باریکی کے ساتھ کیا جا رہا ہے ۔ خوف ایک ذہنی بیماری ہے خوف اپنے آپ کو خواہ مخواہ ادنی، کمزور، لاغر سمجھنے کا نتیجہ ہے ۔
اپنے آپ کو مظلوم اور مصیبت زدہ سمجھنے کی عادت خائف رہنے سے پیدا ہوتی ہے خوف ہمارے ذہن کو منتشر کردیتا ہے، صلاحیتوں کو تباہ کر دیتاہے اس کی وجہ سے ساری ناانصافیوں ، سارے ظلم و ستم ، معاشی قتل عام ، عدم مساوات ، کے خلا ف آپ چپ سادھے رہتے ہیں ۔ آپ اپنے تمام تر حقوق سے چپ چاپ دستبردار ہو جاتے ہیں آواز اٹھانا تو دور کی بات ہے آپ قاتلوں ، ڈاکوؤ ں ،لیٹروں کے خلاف بات سنتے بھی ڈرتے ہیں۔ برنارڈ شا نے کہا ہے ہمیں مایوس اور خوفزدہ ہر گز نہیں ہوناچاہیے کیونکہ مایوسی اور خوف گنا ہ کی بد ترین شکل ہے جب کہ بقراط نے کہا ہے خوف اور مایوسی انسان کے سب سے بڑے دشمن اور خدا کے عذاب ہیں ۔ خدارا اس کھیل کو سمجھنے کی کوشش کریں جو آپ کے خلاف کھیلا گیا ہے۔
یاد رکھیں کھیل کھیلنے والے کامیاب ہوگئے ہیں ، یہ بھی ذہن نشین ر کھیں کہ اگرکسی شخص کو اپنے آپ پر اعتماد نہ ہواور اس کی قوت ارادی کمزور ہو اور وہ خو فزدہ ہو تو وہ واقعات کے ہاتھوں ایک کھلونا بن جاتا ہے۔ حالات اسے کٹھ پتلی بنا کر نچانے لگتے ہیں اور ہوا کا ہر جھونکا اسے اڑاتے پھرتا ہے ۔ اپنے اوپر یقین رکھنا جہاد کا درجہ رکھتا ہے ڈر ، مایوسی اور وہم زندگی کا زہر ہیں حوصلہ ، قوت اور خود اعتمادی زندگی کاامرت ہیں ، انگریزی کہاوت ہے جب ارادہ بن جائے تو راستہ مل جاتا ہے ۔ کوئی رکاوٹ کسی مصمم ارادے کا راستہ نہیں روک سکتی۔
آئیں ہم اپنے لیے اپنے پیاروں کی خاطر سب سے پہلے اپنے تمام خو ف کو شکست دے دیں اور ان غاصبوں ، لیٹروں ، چوروں ، انتہاپسندوں ، دہشتگردوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں جنہوں نے ہماری زندگی دوزخ بنا رکھی ہے تو پھر آپ خود ہی دیکھ لیں گے کہ یہ سب کے سب کس طرح بھاگتے ہیں اس لیے کہ عوام سے بڑی طاقت کوئی اور نہیں ہے اوریہ سب کے سب انتہائی بزدل ، ڈرپوک ہیں جو بظاہر طاقتور نظر آتے ہیں لیکن اصل میں ان کا حال بالکل دیمک ذرہ لکڑی کی طرح کا ہے ۔ انتہائی کھوکھلے اور بوسیدہ ۔
کامیابی اتفاقیہ طور پر نہیں ملاکرتی یہ ہمارے رویوں کا نتیجہ ہوتی ہے اور ہمارے رویے ہمارا اپنا انتخاب ہوتے ہیں چنانچہ کامیابی انتخاب ہوتی ہے اتفاق نہیں اورکامیابی جدوجہد کے بغیر حاصل نہیں ہوتی ۔ بیالوجی کے استاد نے طلبا ء کو بتایا کہ تتلی کس طرح خول کو توڑکر باہر نکلتی ہے پھر اس نے خول ان کے سامنے رکھ دیا اور بتایا کہ دو گھنٹے بعد اس میں سے تتلی نکلے گی اس نے انھیں منع کیا کہ کوئی تتلی کی مدد نہ کرے اس کے بعد وہ کلاس روم سے باہر چلاگیا۔
ٹھیک دو گھنٹے بعد خول ٹوٹنے لگا اور تتلی باہر آنے کی جدو جہد کرنے لگی اس کی حالت دیکھ کر ایک طالب علم سے رہا نہ گیا اور اس نے استاد کی ہدایت کو نظر اندازکرتے تتلی کی مدد کے خیال سے خول کو توڑ دیا، تتلی آزاد ہوگئی لیکن تھوڑی ہی دیر میں مرگئی جب استاد کو پتہ چلا تو اس نے طلبا ء کو سمجھایا کہ خول کو توڑنے کی جدوجہد تتلی کو وہ قوت عطا کرتی ہے جس سے وہ زندہ رہتی ہے چونکہ طالب علم نے اس کو جدو جہد نہیں کرنے دی تھی اس لیے وہ مرگئی ۔ زندگی میں آزادی ، ترقی ، خوشحالی،اختیار ، مساوات کا جدوجہد اور خواہش کے بغیر حصول ناممکن ہے۔