صدارتی نظام کیوں نہیں
اس میں شک نہیں ہے کہ ہمارے ملک کو پارلیمانی نظام کے تحت ہی چلنا تھا اس لیے کہ خود قائد اعظم نے اس کی بنیاد رکھی تھی۔
صدارتی نظام کی مخالفت کرنے والوں کے پاس کیا اس بات کا جواب ہے کہ ملک میں جمہوریت کئی مرتبہ کیوں پٹری سے اتری اور پارلیمانی نظام ناکام ہوا؟ قیام پاکستان سے لے کر اب تک ملک میں چار بار فوجی حکومتیں قائم ہوچکی ہیں ظاہر ہے کہ ان کا قیام پارلیمانی نظام کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ پارلیمانی نظام ہماری قوم کو راس نہیں آسکا یا ہم اس کے معیار پر پورے نہیں اتر سکے۔ اس لیے ناچار یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ قوم کا مستقبل شاید صدارتی نظام میں ہی مضمر ہے۔ کیا اس حقیقت سے کوئی انکارکرسکتا ہے کہ جب جب ملک میں صدارتی نظام نافذ ہوا گوکہ وہ فوجی تھا مگر ملک امن و امان کی دولت سے مالا مال ہوا اور ترقی وخوشحالی کے فیوض و برکات سے مستفید ہوا۔ گوکہ وہ مطلق العنانی کا دور تھا مگر عام لوگوں کے مسائل کے حل میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں تھی ۔اِس وقت اگر ملک کے طول و عرض پر نظر دوڑائیں تو ہر طرف بے چینی بے قراری اور بد حواسی کا احوال ہر چہرے سے عیاں ہے اور یہ صورتحال صرف اس وقت ہی کارفرما نہیں ہے بلکہ جب بھی ملک میں جمہوریت یا پارلیمانی نظام بحال ہوا عوام اضطراب کی صورتحال سے گزرنے لگتے ہیں۔
اس میں شک نہیں ہے کہ ہمارے ملک کو پارلیمانی نظام کے تحت ہی چلنا تھا اس لیے کہ خود قائد اعظم نے اس کی بنیاد رکھی تھی۔ وہ تحریک پاکستان کے زمانے میں جہاں پاکستان میں اسلامی نظام نافذ کرنے کا اعلان کرتے رہے وہاں پارلیمانی نظام حکومت کو پاکستان میں رائج کرنے کی وکالت کرتے رہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ صدارتی نظام کو پسند کرتے تھے تو یہ سرا سر ان پر بہتان ہے۔ ایسا نہیں ہے وہ ایک جمہوری رجحان کے شخص تھے اور پارلیمانی نظام کے قیام کے ساتھ جمہوریت کو پاکستان میں مستحکم کرنا چاہتے تھے۔
ان کے قول و فعل میں کبھی کوئی فرق نہیں پایا گیا۔ خود ان کے دشمن ان کے وعدہ نبھانے کی عادت کی تعریف کیا کرتے تھے۔ چنانچہ وعدے کے مطابق انھوں نے قیام پاکستان کے بعد ملک میں پارلیمانی نظام ہی رائج کیا اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ فوراً ہی شہید ملت لیاقت علی خان کو ملک کا پہلا وزیر اعظم مقرر کر دیا گیا۔ یہ پارلیمانی نظام جسے خود قائد اعظم نے شروع کیا تھا لیاقت علی خان سے لے کر فیروز خان نون تک چلتا رہا۔ گو کہ لیاقت علی خان کے دور تک یہ نہایت شان و شوکت سے چلا اور اس سے عوام و خواص سب ہی مطمئن تھے۔
یہ اس لیے کامیاب تھا کہ یہ جمہوریت کی تمام شرائط کو پورا کرتا تھا مگر لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ملک میں طوائف الملوکی کا دور شروع ہو گیا۔ یہ انارکی اتنے خوفناک انداز سے آگے بڑھی کہ ملک تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا۔ 14 اگست 1947ء سے لے کر 27 اکتوبر 1958ء تک ملک میں کئی حکومتیں آئیں اور گئیں۔ حکومتوں کا بدلنا ایک کھیل بن چکا تھا۔ اسی زمانے میں بھارتی وزیر اعظم پنڈت نہروکا کہا گیا یہ جملہ بہت مشہور ہوا تھا کہ وہ ایک دن میں جتنی دھوتیاں نہیں بدلتے اتنی ایک دن میں پاکستان میں حکومتیں بدل جاتی ہیں۔
یہ سراسر ہمارے پارلیمانی نظام پر ان کا ایک طنز تھا جو ہم پاکستانیوں کو بہت برا لگا تھا مگر جو انھوں نے کہا تھا غلط نہ تھا کیونکہ ہمارے ملک میں حکومتوں کا بدلنا ایک کھیل تماشا بن گیا تھا۔ اس سے ملک کمزور ہوا اور معیشت کا پہیہ رُک گیا۔ ملکی نظام کو چلانا مشکل ہو گیا اس کا اثر ملک کے دفاع پر بھی پڑا اور ہماری دفاعی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر بھارت روز ہی پاکستان کو جنگ کا الٹی میٹم دینے لگا۔ وہ تو بھلا ہو امریکا کا اس نے بھارت کو پاکستان کے خلاف کوئی اقدام نہیں اٹھانے دیا۔ اس کے لیے ہمیں لیاقت علی خان کو ہی دعائیں دینا چاہئیں کہ انھوں نے امریکا سے ایسے مضبوط تعلقات کی بنیاد رکھ دی تھی کہ وہ پاکستان کا سینہ سپر رہا اور پاکستان کو دشمنوں کی نظر سے محفوظ بناتا رہا۔ دراصل یہ ایک امتحانی دور تھا ملک بری طرح سیاسی گرداب میں پھنس چکا تھا اور کسی بھی سیاستدان کے پاس اس کا کوئی علاج نہیں تھا۔ اس افراتفری نے ثابت کردیا تھا کہ پارلیمانی نظام ہمارے بس کا نہیں رہا تھا اور قائد اعظم نے ملک میں جس جمہوری پودے کو لگایا تھا ہم نے اسے تباہ کردیا تھا۔
ایسے میں پھر وہ ہوا جو ایک جمہوری ملک میں نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اس وقت کے صدر جمہوریہ اسکندر مرزا نے ملک میں مارشل لا نافذ کردیا۔ ایک نئی کابینہ تشکیل دی گئی جس میں جنرل ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو کے علاوہ کئی وزرا شامل تھے۔ ملک میں پارلیمانی نظام اختتام کو پہنچا اور فوجی حکومت قائم ہوگئی۔ اسکندر مرزا نے خود فوج کے سپریم کمانڈر کی حیثیت سے ملک کا چارج سنبھال لیا۔ یہ بات فوج کے اس وقت کے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان کو نہ بھائی اور انھوں نے اپنے فوجی احباب کے ساتھ مل کر راتوں رات اسکندر مرزا کو صدارت سے استعفیٰ دینے پر مجبور کردیا اور خود مارشل لا چیف ایڈمنسٹریٹر بن گئے۔
ملک میں یہ غیر جمہوری تبدیلی محض اس لیے آئی تھی کہ اس وقت کے سیاستدانوں نے ملک میں جمہوری یا پارلیمانی نظام کو خود ناکام بنادیا تھا۔ ایسے میں ملک کو بچانے کے لیے فوج کو ہی آگے آنا تھا اور اس اقدام کو خود بعض سیاستدانوں کی جانب سے پذیرائی حاصل ہونا شروع ہوگئی تھی۔ پھر جو نئی کابینہ بنی اس میں فوجی جرنیلوں کے ساتھ کئی سیاستدان بھی اس کا حصہ بن گئے تھے۔ جنرل ایوب خان بعد میں ایک ریفرنڈم کے ذریعے ملک کے صدر بن گئے۔
یوں ملک میں پہلے صدارتی نظام کی ابتدا ہوگئی۔ یہ نظام پورے گیارہ سال تک چلتا رہا چونکہ اس دور میں ملک میں مکمل استحکام رہا اس لیے ملک نے ہر شعبے میں ترقی کی۔ زرعی شعبہ سیم تھور زدہ ہونے کے باوجود خودکفیل ہوگیا۔ صنعتی ترقی کا یہ حال تھا کہ ملک میں مختلف صنعتوں کے کئی کارخانے لگے۔ ٹیکسٹائل کے شعبے نے سب سے زیادہ ترقی کی۔ ملک میں اس دوران تین سو سے زائد ٹیکسٹائل ملز قائم ہوئیں۔ اس وقت پاکستانی کپڑے کی بہت مانگ تھی اس لیے کہ وہ بہت اعلیٰ کوالٹی کا تھا۔ خاص طور پر اسے بھارت میں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا تھا۔
پھر دفاعی طور پر ملک اتنا مضبوط ہوگیا کہ 1965ء کی جنگ میں بھارت جیسے بڑے ملک کو ناکوں چنے چبوا دیے گئے۔ اسی زمانے میں وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے کشمیر کے سوئے ہوئے مسئلے کو پھر سے بیدار کردیا اور پوری دنیا میں کشمیریوں کے حق خود اختیاری کو پذیرائی دلوائی۔ اس کے بعد یحییٰ خان کا مارشل لا نافذ ہوا مگر اس شخص کی عیاشی کی عادت کی وجہ سے ملک دولخت ہوگیا۔ تاہم اس کے قصور وار ہمارے کچھ سیاستدان بھی تھے۔ اب تک ملک میں چار مارشل لا لگ چکے ہیں جن کے دوران ملک میں صدارتی نظام نافذ رہا جو یقینا غیر جمہوری تھا مگر ملک کو استحکام نصیب ہوا اور ملک پارلیمانی نظام کی اکھاڑ پچھاڑ سے محفوظ رہا۔
اب ملک میں خوش قسمتی سے 2008ء سے پھر جمہوریت قائم ہوگئی ہے جس کے نتیجے میں پارلیمانی نظام بھی بحال ہوگیا ہے مگر ملک سیاسی بھونچال کا شکار ہوچکا ہے۔ سیاستدان ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے میں لگے ہوئے ہیں۔ کرپشن کے نام پر ملک میں ہنگامہ آرائی جاری ہے۔ جمہوریت میں کرپشن کا نہ ہونا ایک ان ہونی سی بات ہے اور کسی بھی سیاستدان کا اس سے دامن پاک ہونا مشکل ہی ہوتا ہے۔ موجودہ حکومت سے سیاستدانوں کو شکایت ہے کہ کرپشن کے نام پر انھیں بدنام کرنے کے علاوہ ان کا ناجائز احتساب کیا جا رہا ہے۔ اس طرح ملک کا نظام چوپٹ ہوتا نظر آرہا ہے۔ اس وقت حالات تو سراسر خلائی مخلوق کے لیے سازگار بنا دیے گئے ہیں مگر اب لگتا ہے سیاستدانوں کو اپنا گند خود صاف کرنا ہوگا۔
اب ایسے میں اگر کچھ لوگ ملک میں جمہوری صدارتی نظام لانے کی بات کر رہے ہیں تو کیا غلط کہہ رہے ہیں اس لیے کہ اس وقت ملک کو استحکام کی سخت ضرورت ہے۔ اب وقت کا تقاضا ہے کہ ملک کی بقا اور عوام کی خوشحالی کے لیے حکومت کو خود اپنے رویے میں تبدیلی لانا ہوگی اپوزیشن سے تمام گلے شکوے درکنار کرکے ان کے ساتھ بیٹھ کر صدارتی نظام کے لیے آئین میں ضروری تبدیلیاں لانے کے لیے بات کی جائے ، صدارتی نظام کو ملک میں تجرباتی بنیاد پر پہلے صرف دس سال کے لیے نافذ کرنے کی راہ ہموار کی جائے۔ البتہ صدر کو مطلق العنانی سے روکنے کے لیے اسے پارلیمنٹ میں جواب دہ بنایا جائے۔ آخر دنیا میں کئی ممالک میں صدارتی نظام کامیابی سے چل رہا ہے ہمیں بھی اپنے عوام کو اس کے فیوض و برکات سے بہرہ مند ہونے کا موقع فراہم کرنا چاہیے۔