سیاسی شطرنج پر نئی چالیں

سیاسی بساط کی موجودہ حرکت کو غیرمحسوس حد تک کم اور مہروں کی چال کو بہت فطری انداز میں رکھا گیا ہے۔


مبین مرزا May 05, 2019
سیاسی بساط کی موجودہ حرکت کو غیرمحسوس حد تک کم اور مہروں کی چال کو بہت فطری انداز میں رکھا گیا ہے۔ فوٹو: فائل

سیاسی بساط پھر توجہ طلب ہے۔

یہ کہنا تو ابھی ذرا قبل از وقت ہوگا کہ ہماری سیاسی بساط پر جو حرکت نظر آرہی ہے اب ایک بار پھر کسی بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوگی تاہم اتنی بات تو سیاسی ماہرین اور تجزیہ کار ہی نہیں، بلکہ آپ ہم سبھی محسوس کررہے ہیں کہ یہ حرکت بے وجہ نہیں ہے، بلکہ اس کا کوئی مقصد ہے اور کچھ ایسا نتیجہ ضرور سامنے آئے گا جو سیاسی منظر کی تبدیلی کا سبب بنے گا۔

اگرچہ سیاسی بساط کی موجودہ حرکت کو غیرمحسوس حد تک کم اور مہروں کی چال کو بہت فطری انداز میں رکھا گیا ہے، لیکن اس کے باوجود حرکت ایسی ہے کہ اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ چناںچہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ آنے والے دنوں میں اس بساط پر کچھ مہرے پٹتے ہوئے دکھائی دیں گے اور کچھ پیادے کسی بڑے گھر تک پہنچ کر بڑا قد کاٹھ بھی حاصل کرلیں گے۔ بات یہ ہے کہ کھیل چاہے شطرنج کا ہو یا سیاسی بساط کا، بازی پلٹنے یا پھر مات ہونے کا دارومدار تو مہروں کی چال پر ہی ہوتا ہے۔ یہ بھی کہ اچھے کھلاڑی نہ صرف پوری بساط کو نظر میں رکھتے ہیں، بلکہ ضرورت کے مطابق مہروں کو بڑھا بھی خوب لیتے ہیں۔ ہماری سیاسی بساط کی حالیہ نقل و حرکت اس حقیقت کا ثبوت بخوبی فراہم کررہی ہے۔

غور کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ گذشتہ چند ماہ کے دوران میں مختلف سیاسی مہرے اس بساط کے الگ الگ مقامات پر حرکت کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ حرکت مختلف، بلکہ متضاد سمتوں میں ہوئی ہے۔ شطرنج کے کھیل کو سمجھنے والے جانتے ہیں کہ بساط کا توازن اسی صورت میں قائم رہ سکتا ہے، جب ایک پیش رفت کا جواب دوسری طرف سے مل جائے۔

اگر ایسا نہ ہو تو بساط الٹنے میں دیر نہیں لگتی۔ اب اگر آپ سیاسی منظرنامے کے گزرے ہوئے چند مہینے سامنے رکھیں تو آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس عرصے میں حکومت اور حزبِ اختلاف دونوں ہی طرف جو کچھ ہوا ہے، اس نے بساط کو بڑی حد تک متوازن رکھا ہے۔ ظاہر ہے، اس طرح نہ صرف کھیل جاری رہتا ہے، بلکہ اس میں فریقین اور شائقین کا انہماک بھی برقرار رہتا ہے۔ اس سے اتنی بات تو بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ کھیلنے والے سمجھ دار اور تجربہ کار لوگ ہیں اور کھیل میں اپنے حصے اور حیثیت سے بھی خبردار۔

چلیے، اب ذرا دھیان میں لائیے کہ سیاسی بساط پر کیا کیا ہوتا رہا ہے اس عرصے میں۔ قائدِ حزبِ اختلاف میاں شہباز شریف ضمانت پر نہ صرف رہا ہوگئے، بلکہ ان کا نام ای سی ایل سی بھی نکال دیا گیا اور اب وہ برطانیہ میں ہیں۔ حنیف عباسی (المعروف ڈیفیڈرین کیس) بھی ضمانت پر رہا ہوگئے۔ ایک زمانے میں میڈیا کی آنکھ کا تارا بننے والے شیخ رشید کچھ نہ کرسکے، بس تلملا کر رہ گئے۔ اب کوئی یہ پوچھے کہ شیخ رشید اب پہلے کی طرح میڈیا کی توجہ کیوں حاصل نہیں کرپاتے تو ظاہر ہے کہ سوال کرنے والے کی سادگی پر مسکرایا ہی جاسکتا ہے۔ علاوہ ازیں نواز شریف بھی ضمانت پر جیل سے باہر آگئے۔ اگرچہ یہ کہا گیا کہ ایسا صرف انسانی بنیادوں پر کیا جارہا ہے، تاکہ وہ بہتر علاج کراسکیں۔ وجہ کچھ بھی ہو، قابلِ غور بات یہ ہے کہ انھیں رعایت کے قابل گردانا گیا۔ اب وہ ملک سے باہر جاکر علاج کرانے کی اجازت حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

خیر، اب اور آگے دیکھیے۔ ایک زمانے سے وزیرِاعظم کے نہایت بااعتماد ساتھی علیم خان گرفتار کرلیے جاتے ہیں، حالاںکہ انھیں تو حکومت کے بنیادی آدمی کی حیثیت سے خاصا اہم کردار ادا کرنا تھا۔ جہانگیر ترین نااہل قرار پاجاتے ہیں، یعنی تحریکِ انصاف کی حکومت سازی میں کلیدی کردار ادا کرنے والی شخصیت کو اقتدار سے بارہ پتھر دور کردیا گیا۔ اعظم سواتی پہلے مضارعوں کے ساتھ زیادتی اور سرکاری زمین پر قبضے کی خبروں کا موضوع بنے اور انھوں نے استعفیٰ دے دیا، اور اب چند ماہ بعد وہ پھر حکومت کا حصہ ہیں۔

ادھر پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض چوہان جو اپنے تند و تیز بیانات کی شہرت رکھتے تھے، اپنے ہی ایک بیان کی لپیٹ میں آگئے اور ٹھکانے لگا دیے گئے۔ ویسے یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ اُن کے بیانات کا انداز و آہنگ شروع ہی سے ایسا تھا، اور صاف بتا رہا تھا کہ انھیں آگے چل کر اپنی زبان کے نشتر سے ہی کسی مرتبے پر فائز ہونا ہے۔ ایک فیاض چوہان پر ہی کیا موقوف، تحریکِ انصاف کے بیشتر وزیروں اور مشیروں کا انداز و آہنگ ایسا ہی ہے۔ آپ شہریار آفریدی اور فیصل ووڈا کے بیانات اور نشریات کو اٹھا کر دیکھ لیجیے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ آدمی بڑبولے پن کے کسی مقابلے میں شریک ہے اور ہر قیمت پر بازی جیت لینا چاہتا ہے۔

ہماری سیاسی شطرنج پر کھیل اگر یہیں تک رہتا تو بھی کم لوگوں کو اندازہ ہوپاتا کہ کون سے مہروں پر کیا چالیں چلی گئیں ہیں۔ کم سے کم عوام تو ضرور بڑی حد تک پورے معاملے سے بے خبر رہتے، لیکن اب اس کا کیا کیا جائے کہ کھیل اچھا ہو یا برا، ایک بار شروع ہوجائے تو پھر رکتا نہیں۔ اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھتا رہتا ہے۔

سیاسی بساط پر بھی یہی ہوا ہے۔ چناںچہ ایک شام ملک کے طول و عرض میں وزیر خزانہ اسد عمر کے استعفے کی خبر قدرے استعجاب کے ساتھ سنی گئی۔ یہ استعجاب بے سبب نہیں تھا۔ پہلی بات، اسد عمر، مالیات کے شعبے کے حوالے سے ایک کرشماتی شخصیت کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔ خود وزیراعظم اور ان کی پارٹی کے کم و بیش سارے ہی نمائندہ افراد نے ان کے بارے میں عوامی سطح پر اس تأثر کے قائم ہونے میں کردار ادا کیا ہے۔ اسد عمر نے اگرچہ خود ایسا کوئی دعویٰ تو نہیں کیا، لیکن اس سے پہلے اپنی تقاریر اور الیکٹرونک کے پروگرامز میں جو گفتگو وہ کرتے رہے ہیں، وہ بھی واضح طور پر یہی تأثر دیتی رہی ہے کہ ملک کے مالیاتی مسائل تو چٹکی بجانے میں حل کیے جاسکتے ہیں۔

اہم بات یہ ہے کہ انھوں نے جب بھی کسی پروگرام میں ملک کے معاشی مسائل کے حوالے سے گفتگو کی تو سننے والوں نے واضح طور پر یہی نتیجہ اخذ کیا کہ وہ اپنے کام کے حوالے سے ایک بڑا وژن رکھتے ہیں۔ یہی نہیں، بلکہ عالمی صورتِ حال اور ملک کے معاشی مسائل اور وسائل بھی پوری طرح ان کی نظر میں ہیں۔ وہ اگر ایک بار ملک کی وزارتِ خزانہ سنبھال لیں تو یہ ممکن ہی نہیں کہ حالات درست نہ ہوں اور عوام کی تقدیر بدل نہ جائے۔ تحریکِ انصاف کے حکومت سنبھالنے کے بعد ابتدائی چندہ ماہ اس تأثر کو مزید گہرا کرنے کا سبب بنے۔



حالاںکہ حکومتی فیصلوں نے جلد ہی عوام کو مہنگائی کے تحفے پیش کرنے شروع کردیے تھے۔ اس کے باوجود اسد عمر کی کرشماتی شخصیت کا تأثر اسی طرح قائم تھا۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ پاکستان کے عوام نے تحریک انصاف کی شخصیات میں وزیراعظم عمران خان کے بعد جس نام سے سب سے زیادہ توقعات وا بستہ کیں، وہ اسد عمر ہی تھے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ حکومت کا منی بجٹ آیا، پیٹرول، گیس اور بجلی کے نرخ میں اضافہ ہوا، روپے کی قدر ستر برس کی ملکی تاریخ میں پہلی بار اس درجہ گری کہ سنبھالے نہ سنبھلی۔ دیکھتے ہی دیکھتے مہنگائی بوتل کے جن کی طرح قابو سے باہر ہوگئی۔ اسد عمر اور وزیر اعظم ایسے ہر موقعے پر یہ کہہ کر عوام کا دل بڑھاتے رہے کہ کچھ سخت فیصلے کرنے پڑیں گے، کڑوے گھونٹ پینے پڑیں گے۔ اس کے باوجود اسد عمر کا امیج متأثر نہ ہوا۔ عوام کے خلاف کئی سخت فیصلے کیے گئے اور پھر ایک سخت فیصلہ خود وزیرِخزانہ کے بارے میں ہوگیا۔ اس فیصلے نے عوام کو حیران ہی نہیں کیا، اضطراب سے دوچار بھی کیا۔

اضطراب بجا ہے۔ اس لیے کہ حالات کی سنگینی سے آنکھیں نہیں چرائی جاسکتیں۔ کوئی کتنا ہی حوصلہ مند اور امید پرور ہو، مگر اس حقیقت کو کیسے فراموش کرسکتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے دست راست اور مالیات کی کرشماتی شخصیت اسد عمر کے آٹھ ماہ کے اقتداری دورانیے میں مختلف انداز سے ہی سہی مگر چار بجٹ پیش کیے گئے، 3489 ارب کا نیا قرضہ لیا گیا، ملک کو لگ بھگ 2500 ارب کا خسارہ ہوا، ملک کی اسٹاک ایکسچینج 52000 سے گر کر 36000 پوائنٹس پر آگئی۔ شرح نمو یا ترقی کی رفتار 6 سے گھٹ کر 3 پر آگئی۔

اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہ وزیرخزانہ جاتے ہوئے آئی ایم ایف سے آٹھ ارب ڈالر کے نئے قرضے کا معاہدہ آخری مراحل تک لے آئے تھے۔ عوام مالیات کی دقیق اصطلاحات کو نہیں جانتے اور نہ ہی معاشیات کے فارمولے سمجھتے ہیں۔ البتہ اتنی بات وہ بہ آسانی اور بخوبی سمجھتے ہیں کہ ملک اور ان کی تقدیر پر چھائے ہوئے بادل کم نہیں ہوئے، بلکہ اور گہرے ہوگئے ہیں- اور ایسا اس دور میں ہوا ہے جب ملک ایک مسیحا نفس کے ہاتھوں میں تھا اور خزانہ اس کے سب سے بااعتماد ساتھی کے۔

فواد چودھری ملک کے وزیر اطلاعات تھے اور ملک کے کونے کونے میں ہی نہیں، چار دانگ عالم میں اپنے بیانات سے پہچانے گئے۔ وہ بھی اپنی بڑبولی اور منہ زور وزارت سے یوں الگ کردیے گئے جیسے دودھ سے مکھی نکالی جاتی ہے۔ شاہ سے بڑھ کر شاہ کی مصاحبی، بڑھ چڑھ کر بیان بازی، مخالفین کی روز و شب کردار کشی، غرض کچھ بھی تو کام نہ آیا۔ عوام ان سے مرعوب یا خوش تو خیر کیا ہوتے، لیکن انھیں حکومت کا ایسا ذمے دار نقارچی ضرور باور کرتے تھے جو اپنا کام مستعدی اور ضرورت سے کہیں زیادہ مستعدی سے انجام دیتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے جانے پر بھی لوگوں کو تعجب ہوا کہ اچھا یہ وکٹ بھی گرگئی اور وہ ابھی ایسی کارکردگی دکھانے کے باوجود اور صرف آٹھ ماہ کی قلیل مدت میں۔ عوام کے اس تعجب کا سبب فواد چودھری سے ہم دردی نہیں، بلکہ یہ خیال ہے کہ آنے والوں دنوں میں یہ شعبہ اس سے بڑے کسی جغادری کو سونپا جائے گا اور وہ جانے کیا کہے گا اور کیسی زبان استعمال کرے گا۔

بات یہاں بھی ختم نہیں ہوتی۔ اس سے آگے بھی کھیل کی اور چالیں سامنے آتی رہتی ہیں۔ مثال کے طور پر اس وقت الیکٹرونک میڈیا کے نامی گرامی صحافی کھلے بندوں یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ نواز شریف اور زرداری کے گرد گھیرا بہت تنگ کیا جاچکا ہے اور ان دونوں کے بچ نکلنے کے امکانات ختم ہوچکے ہیں۔ سندھ اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج درانی کے جوڈیشل ریمانڈ میں بھی اضافہ کردیا گیا ہے۔ دوسری طرف آپ انھیں اسمبلی کا اجلاس سنبھالتے ہوئے بھی آئے دن دیکھ سکتے ہیں۔ اِدھر اس عرصے میں مولانا فضل الرحمن ایک بار پھر فعال نظر آئے۔

ان کی ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت سے ملاقاتیں ہوئیں۔ جو اس بات کا اعلامیہ ہیں کہ اپوزیشن میں متحد حرکت اور ردِعمل کا ماحول بن رہا ہے۔ دوسری طرف آپ یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ ایان علی، شرجیل میمن، ڈاکٹر عاصم حسین، انوار مجید وغیرہم کے مقدمات پس منظر میں چلے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ یہ بھی پیشِ نظر رہے کہ خیبر پختونخواہ پرویز خٹک اور ان کے دورِ اقتدار کے معاملات بھی سامنے آرہے ہیں جو تحریکِ انصاف کی صوبائی حکومت کا وہی چہرہ دکھا رہے ہیں جو ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو مطعون کرنے کا جواز رہا ہے۔ اس کے علاوہ وزیراعظم کی ہمشیرہ علیمہ صاحبہ کا کیس اور اداروں کا اس کے بارے میں رویہ بھی کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے۔ کیا یہ سارا منظرنامہ فطری اور وقت کے اپنے داخلی عمل کا پیدا کردہ ہے؟ سوال بے شک سادہ سا ہے، لیکن اس کا جواب کئی ایک اگر مگر اور چوںکہ چناںچہ کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

ان سب کے بعد حالیہ دنوں میں ایک واقعہ اور ہوا ہے جو ہمیں حالات اور حقائق پر ایک بار پھر نئے سرے سے غور کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ ملک کی مرکزی سیاست میں کراچی کا ایک کردار ہمیشہ رہا ہے۔ ایوب خان نے دارالحکومت کراچی سے اٹھاکر اسلام آباد ضرور منتقل کیا، لیکن کراچی کے کردار کو مرکزی سیاست میں وہ اور ان کے بعد کوئی اور بھی ختم نہیں کرسکا۔ حالاںکہ کوشش اس کی بہرحال کی گئی۔ یوں تو قیامِ پاکستان کے بعد سے ہی ملک کی سیاسی صورتِ حال میں کراچی کی ایک حیثیت ہے، لیکن گزشتہ صدی کی نویں دہائی سے اب تک، یعنی لگ بھگ گزشتہ چار عشروں میں ملک کی مرکزی سیاست میں کراچی کو عمل انگیز کی حیثیت سے واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔

ضیاء الحق ہوں یا پرویز مشرف اور پیپلزپارٹی ہو یا ن لیگ، ضرورت پڑنے پر سب ہی کراچی سے کمک حاصل کرتے رہے ہیں۔ کراچی صحیح معنوں میں ایک کوسمو پولیٹن شہر ہے، صرف ثقافتی ہی نہیں، بلکہ سیاسی لحاظ سے بھی۔ یہاں مختلف سیاسی اکائیاں اپنا اپنا ایک ووٹ بینک رکھتی ہیں جو مختلف ادوار میں مختلف انداز سے مرکزی دھارے کی سیاست میں اپنے وجود کا احساس دلاتا رہا ہے۔ اردو بولنے والوں کی نمائندہ جماعت ایم کیو ایم اس شہر کی ایک نمایاں سیاسی حقیقت ہے۔

گذشتہ دو برسوں میں اس جماعت کی سیاست اور اس کے سیاسی وجود پر جو گزری ہے، وہ ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ علاوہ ازیں مردم شماری میں کراچی کے جو اعداد و شمار سامنے آئے، وہ نہ صرف متنازع قرار پائے، بلکہ انھوں نے اس شہر کی سماجی زندگی پر سوالات اٹھائے اور سیاسی حالات پر اثرات بھی مرتب کیے۔ تاہم اس کے باوجود ایم کیو ایم سکرٹی سمٹتی چلی گئی۔ 2018ء کے انتخابی نتائج نے تو اس جماعت کو پہاڑ سے رائی بناکر رکھ دیا۔ تاہم اب پھر یک بہ یک منظر بدلتا ہوا نظر آتا ہے۔ وہی ایم کیو ایم بیدار ہوئی اور پچھلے دنوں اس نے اپنے ماضی کی یاد کو تازہ کرتے ہوئے ایک بڑا سیاسی جلسہ کر دکھایا۔ اس جلسے کا بنیادی موضوع صوبے کی سیاست تھا۔ پیپلزپارٹی اور اس کے سیاسی اقدامات اور اہداف کو ایم کیو ایم کے سیاسی رہنماؤں نے کھل کر موضوع بنایا اور کچھ اسی انداز کی گفتگو کی جیسی وہ اپنی طاقت کے زمانے میں کیا کرتے تھے۔ ایم کیو ایم کے رہنماؤں کا اعتماد اور لہجے کی گمبھیرتا بتا رہی ہے کہ طاقت کے اوتاروں نے ٹھیک سے اس کی کمر تھپتھپائی ہے۔

اس ساری صورتِ حال کو سامنے رکھتے ہوئے ایک غیر سیاسی ذہن بھی اتنی بات تو آسانی سے سوچ اور سمجھ سکتا ہے کہ پاکستانی سیاست ایک بار پھر مہم جوئی کے مرحلے کی طرف بڑھ رہی ہے۔ یہ بھی کہ اختیار، طاقت اور فیصلوں کا کھیل سیاست کی شطرنج پر سیاسی مہروں سے زیادہ کچھ اور ہاتھ کھیلتے ہیں۔ حالت کی اسکرین پر جو کچھ دکھائی دیتا ہے، یہ سب چاہے جتنا بھی فطری اور بے ساختہ نظر آئے، لیکن کہیں اور کسی ڈور کے ہلنے کا نتیجہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ عام آدمی کی آواز اوّل تو ہمارے یہاں سنائی ہی نہیں دیتی، اگر سنائی بھی دے تو دور تک نہیں جاتی۔ ممکن ہے، ایسا ہی ہو، لیکن یہ پورے معاشرے کا سچ نہیں ہے۔ ہمارے یہاں آدمی اب خواب سے بہرحال بیدار ہوچکا ہے، اور وہ اپنی آئندہ نسلوں کو گروی رکھنے پر تیار بھی نہیں ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں